بھلا گائے اور cockroach میں کون سی چیز مُشترک ہو سکتی ہے؟ گائے ایک بڑا جانور ہے جو اِنسان کے لئے دودھ، گوشت اور چمڑے کی ذریعہ بنتا ہے جبکہ cockroach ایک ایسا غلیظ قابلِ نفرت کیڑا ہے جو ہمارے لئے کسی بھی قِسم کے فائدے کا باعث نہیں ہوتا بلکہ کراہیت اور غلاظت پھیلاتا ہے۔
اگرچہ گائے اور cockroach میں نمایاں فرق تو ہے لیکن پھر بھی اِن دونوں میں ایک مُشترکہ خصوصیت پائی جاتی ہے اور وہ یہ کہ دونوں زندگی میں کامیابی کے لئے بہت زیادہ حد تک اپنے اُس دوست bacteria یعنی جراثیم کے احسان مند ہیں جو اِن کے جسم میں زندگی بسر کرتا ہے۔ اپنے اِس اَن دیکھے جراثیم ساتھی کے وسیلے سے cockroach ہمارے باورچی خانے میں رکھی ہوئی ہر چیز کھانے کے قابل ہیں اور اِسی کے ذریعہ گائے گھاس کھا سکتی ہے۔
گائے کے اندر جراثیم چار معدوں میں سے پہلے دو میں رہتا ہے۔ یہ جراثیم اپنا کام گھاس کی مضبوط خلیہ دار دیواروں کو توڑ کے انجام دیتا ہے۔ دراصل گائے کے ہضم کرنے والے رَس اِس مرکب کو جو cellulose کہلاتا ہے حل نہیں کر سکتے لیکن یہ جراثیم اُنہی پر پلتا بڑھتا ہے۔ وہ پہلے اِسے شکر میں تبدیل کرتے ہیں جس میں سے کچھ حصہ وہ خود کھا لیتے ہیں اور جو بچ رہتا ہے وہ مختلف غذائی کیمیائی ترکیبی اجزا میں بدل جاتا ہے جو گائے کے لئے طاقت حاصل کرنے سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
جب کبھی گائے کو جُگالی کرتے ہوئے دیکھیں تو سمجھ لیں کہ وہ پہلے معدے میں ہضم نہ ہونے والی گھاس کو اچھی طرح چبا رہی ہے تاکہ جراثیم کی مدد کر سکے۔ جب اِس جراثیم کی کالونیاں اچھی خاصی غذا گائے کے اگلے معدے میں اپنی کوشِش و محنت سے حاصل کر لیتی ہیں تو اُن کی تعداد میں فوراً اضافہ ہو جاتا ہے۔ لیکن اِس سے گائے کو کچھ فرق نہیں پڑتا کیونکہ اُن کی زائد تعداد آخری معدے میں دھکیل دی جاتی ہے جہاں وہ ہضم کرنے والے رَس کے باعث ہلاک ہو جاتے ہیں۔ درحقیقت اُن کے جسم وٹامن یعنی حیاتین، چربی یعنی fat اور پروٹین یعنی لحمیات کا ذریعہ بن جاتے ہیں جس کی گائے کو اشد ضرورت ہوتی ہے۔
سائنس ابھی cockroach اور اُن کے جراثیم ساتھیوں کے آپس کے باہمی فائدے و تعلق کے بارے میں زیادہ نہیں جان سکی، لیکن پھر بھی اِتنا معلوم ہو چُکا ہے کہ اِن میں سے ہر ایک مکمل طور پر دوسرے پر اِنحصار کرتا ہے۔ جراثیم کی کوئی بھی قِسم اپنے میزبانوں سے جُدا رہ کر زندہ نہیں رہ سکتی، اور دوسری طرف cockroach بھی اپنے دوست جراثیم کی عدم موجودگی میں کمزور پڑ جاتے ہیں اور نشوونما نہیں پا سکتے۔
اَب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ cockroach جراثیم کی بڑھتی ہوئی تعداد پر کِس طرح قابو پاتے ہیں؟ اور جراثیم اُن کے ہٖضم کرنے کے مسئلہ میں کِس طرح مدد کرتے ہیں؟ یہ سب ابھی تک ایک معمہ ہے، لیکن پھر بھی یہ ثابت ہو چُکا ہے کہ جراثیم اپنے میزبان cockroach کے لئے غذا کو قوت میں بدلنے کے لئے غیرمعمولی طور پر مدد کرتے ہیں۔ یہ جراثیم عام طور پر صرف اُن مخصوص خلیوں میں رہتا ہے جو چربی دار اعضا کہلاتا ہے۔ یہ اِن کیڑوں کے لئے زیادہ تر بحیثیت چربی جمع کرنے والے تہہ خانے کے طور پر کام کرتا ہے، مگر جب مادہ cockroach سنِ بلوغت کو پہنچتا ہے تو جراثیم کی تعداد میں اِضافہ ہو جاتا ہے اور بہت سے اُس کے بیضہ دانوں میں داخل ہو جاتے ہیں۔ یہاں وہ انڈوں میں اُن کے باہر نکلنے سے تھوڑی دیر پہلے ہی اپنا اثر مُنتقل کر دیتے ہیں، لہذا اِس طرح ہر ایک نیا cockroach زندگی کا بہتر طور پر آغاز کرتا ہے۔
گائے، cockroach اور جراثیم کا بھی کیا میل ہے؟ ہم عام طور پر جراثیم کو نقصان دہ سمجھتے ہیں لیکن جیسا کہ ہم نے ابھی دیکھا کہ ہر وقت ایسا نہیں ہوتا۔ وہ دوسرے گھاس چرنے والے جانوروں مثلاً گھوڑے، بھیڑ بکریوں، خرگوش بلکہ لکڑی کھانے والی دیمک وغیرہ کے ساتھ بھی باہمی اِتفاق و یگانگت سے کام کرتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیسے اِس غیر یکساں جوڑ اور باہمی تعاون کا آغاز ہوا؟ کیا جراثیموں نے مِل کر فیصلہ کِیا کہ وہ گھاس چرنے والے جانوروں کے ساتھ امن و امان سے سکونت کریں تاکہ صِلے میں آرام اور خوراک ملے؟ یا قدیم جانوروں نے پہلے اِس کی بُنیاد رکھی؟ ظاہر ہے اِن میں سے کوئی بھی بات دُرست نہیں۔
گھاس چرنے والے جانور بغیر مدد کے گھاس نہیں چر سکتے لہذا اِس سے پہلے کہ مُشترکہ باہمی تعلقات پورے طور پر کام کریں، کوئی بھی گھاس چرنے والا جانور وجود میں نہیں تھا۔ اِسی طرح گھاس کو ہضم کرنے والا جراثیم بغیر حفاظت و نگہبانی کے نہ تو زندہ رہ سکتا ہے اور نہ پرورش پا سکتا ہے۔ ہر ایک دوسرے کا محتاج ہے اور ایسا ازل سے ہوتا آ رہا ہے۔ یقینا یہ سب کچھ ہماری آنکھوں کے لئے عجیب اور انوکھا ہے کیونکہ اِس سے خدا کے جلالی کاموں کا اِظہار ہوتا ہے۔ صرف وہی ہے جو اِتحاد و یگانگت کا رشتہ جوڑ سکتا ہے۔ صرف وہی ہے جو خوبصورتی اور دِلکشی سے بھرپور زندگی تخلیق کر سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر قِسم کی نباتات اور جانور اپنے ماحول کے مطابق خلق کِئے گئے ہیں، اور یہ وہ زندہ حقیقت ہے جس کا بائبل مقدس میں زبور ۱۰۴ میں واضح طور پر ذکر ہے، ’’وہ چوپایوں کے لئے گھاس اُگاتا ہے اور اِنسان کے کام کے لئے سبزہ تاکہ زمین سے خوراک پیدا کرے۔ (زبور ۱۰۴:۱۴) خدا وند کے درخت شاداب رہتے ہیں یعنی لبنان کے دیودار جو اُس نے لگائے، جہاں پرندے اپنے گھونسلے بناتے ہیں۔ (زبور ۱۰۴:۱۶) اِن سب کو تیرا ہی آسرا ہے تاکہ تُو اُن کو وقت پر خوراک دے۔ جو کچھ تُو دیتا ہے یہ لے لیتے ہیں۔ تُو اپنی مُٹھی کھولتا ہے اور یہ اچھی چیزوں سے سِیر ہوتے ہیں۔ تُو اپنا چہرہ چھپا لیتا ہے اور یہ پریشان ہو جاتے ہیں۔ تُو اِن کا دم روک لیتا ہے اور مر جاتے ہیں اور پِھر مِٹی میں مِل جاتے ہیں۔ تُو اپنی رُوح بھیجتا ہے اور یہ پیدا ہوتے ہیں اور تُو رُوِی زمین کو نیا بنا دیتا ہے۔‘‘ (زبور ۱۰۴:۲۷-۳۰)
جب ہم زندہ کلام کی باتوں پر غور کرتے ہیں تو ہم زبور نویس کے ساتھ مِل کر یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتے کہ ’’میرا دھیان اُسے پسند آئے۔ مَیں خداوند میں شادمان رہوں گا۔‘‘ (زبور ۱۰۴:۳۴)
آئیے، کائنات کے ذرے ذرے سے جو قدم قدم پر وجودِ الٰہی کا زندہ ثبوت پیش کر رہے ہیں، کچھ سیکھنے اور جاننے کی کوشِش کریں تاکہ خوشی و کامرانی سے اپنے تخلیق کار کی حمد و ستائش گا سکیں۔
Cockroachاور گائے
Posted in وجُودِ اِلٰہی