Skip to content

آسٹریلوی مُرغیMallee Fowl

Posted in وجُودِ اِلٰہی

وہ کون سا پرندہ ہے جو مُرغ یعنی Turkeyکی طرح لگتا ہے مگر کام گھوڑے کی مانند کرتا ہے؟ ہاں، صحیح اندازہ لگایا آپ نے کہ اِن دونوں میں قطعی کوئی مطابقت نہیں ہے۔ لیکن آسٹریلیا کی مُرغی Mallee Fowl اِس سے کافی حد تک ملتی جلتی ہے۔ نَر Mallee کی یہ قِسم بڑی جانفشانی اور محنت سے کام کرتی ہے، مگر اُس کی مادہ بھی محنت مشقت میں پیچھے نہیں۔ وہ بھی اپنے انداز سے اپنی ذمہ داریوں کو خوب نبھاتی ہے۔
Mallee مُرغ سال میں تقریباً 11 مہینے تک سخت محنت کرتا ہے تاکہ مُرغی کے پیدا کردہ انوکھے مسئلہ کو حل کر سکے۔ مسئلہ دراصل مُرغی کے انڈوں کے غیرمعمولی سائز کا ہے۔ اگرچہ اُس کی اپنی قد و قامت ایک عام مُرغی جتنی اور وزن تقریباً تین پونڈ ہوتا ہے مگر اُس کے انڈے سائز میں مُرغی کے انڈوں سے تین گنا بڑے ہوتے ہیں۔ ہر انڈے کا وزن تقریباً آدھ پونڈ کے برابر ہوتا ہے جبکہ اُن کے گھونسلے میں انڈے دینے کے موسم میں، ایک وقت میں 8 سے 10 انڈوں کی گنجائش ہوتی ہے۔
Mallee مُرغ کو درحقیقت ایک بہت مسئلہ درپیش ہوتا ہے کیونکہ ناممکن ہے کہ مُرغی سارے انڈوں کو پوری طرح حرارت پہنچانے کے لئے مکمل طور پر ڈھانپ سکے۔ مگر مُرغ کے پاس اِس مسئلے کا حل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اِسے ’’مصنوعی حرارت سے بچے نکالنے والاـ‘‘ پرندہ بھی کہتے ہیں۔ جبکہ مُرغی انڈوں پر نہیں بیٹھ سکتی تو اِس حالت میں وہ انڈوں کو مصنوعی طریقہ سے حرارت پہنچانے کا اِنتظام کرتا ہے۔ ریت اور گیلی نباتات اُس کا خام مال ہیں۔ لیکن برِاعظم آسٹریلیا کے اندرونی صحرا میں یہ سب کچھ بھی ایک مسئلہ بن جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اُس کا کام کئی مہینے تک جاری رہتا ہے۔
وہ اپنے کام کا آغاز سردیوں میں چھ فٹ چوڑے اور تین فٹ گہرے دائرہ نُما گڑھے کی کھدائی سے کرتا ہے۔ اِس گڑھے میں وہ اُس ساری نباتات کو اِکٹھا کرتا ہے جو اُس نے اِرد گِرد سے یعنی پچاس گز کے فاصلے کے اندر اندر جمع کی ہوتی ہے۔ بعد میں جب موسمِ سرما کی بارش پتوں اور جھاڑیوں کو بھِگو دیتی ہے تو وہ اُس ڈھیر کو ریت کی تہہ جما کر ڈھانپ دیتے ہیں۔
ڈھیر میں رکھے ہوئے گیلے پتے اور جھاڑیاں جب گلنا سڑنا شروع ہو جاتے ہیں ایک ہیجان سا برپا ہو جاتا ہے جو کافی مِقدار میں حرارت پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔ اگلے چار مہینے Mallee مُرغ اپنے اِس بڑی دیگچی نُما ڈھیر کو ایک مقررہ مدت تک کھلا رکھنے، اِدھر اُدھر موڑنے، ہلانے جلانے اور زائد حرارت اور نمی باہر نکالنے میں گزارتا ہے۔ اور جب موسمِ بہار میں انڈے دینے کا وقت قریب آتا ہے تو اُس کا مصنوعی حرارت پہنچانے کا اِنتظام بھی مکمل ہو جاتا ہے۔ اگر اُس نے موسمِ بہار کے آنے تک اِنتظار کِیا ہوتا کہ اپنی تیاری شروع کرے تو یہ سب کچھ بالکل فضول ثابت ہوتا۔ موسمِ بہار میں عموماً بارش نہیں ہوتی جس کی وجہ سے ڈھیر میں رکھے پتے وغیرہ نہ گلے سڑیں گے اور نہ ہی حرارت پیدا ہو گی۔
شائد، ہم یہ سوچتے ہوں کہ جونہی انڈے دینے کا مرحلہ شروع ہوتا ہے تو Mallee مُرغ مکمل آرام کرتا ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہوتا بلکہ اُس کی مصروفیات میں مزید اِضافہ ہو جاتا ہے کیونکہ اَب اُسے ڈھیر نُما گھونسلے کو مسلسل 91 ڈگری تک رکھنا ہو گا۔ موسمِ بہار میں صبح و شام درجہ حرارت کم ہوتا ہے جبکہ دوپہر عام طور پر گرم ہوتی ہے۔ لہذا وہ لگاتار یا تو ریت کی تہہ بڑھانے میں مصروف ہوتا ہے تاکہ گھونسلا گرمی کی تِپش میں بھی قائم رہے یا حرارت باہر نکالنے میں محو ہوتا ہے تاکہ گھونسلے کو زائد حرارت سے بچا جا سکے۔
Mallee مُرغ کو اُس کے بھرپور اِرادے میں مدد دینے کے لئے کہ کِس وقت، کِس چیز کی ضرورت ہے، ایک اعلیٰ ترین اور بالکل صحیح تھرمامیٹر اُس کے مُنہ میں بنا ہوتا ہے۔ اگر ہم کام کرتے ہوئے اُس کا بغور مشاہدہ کریں تو ہم دیکھیں گے کہ وہ بار بار رُک کر اپنی چونچ اُس ڈھیر میں ڈال کر اپنا مُنہ ریت سے بھرتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ اُس ریت کو اپنی چونچ کی اطراف سے چھانتا ہے اور یوں وہ ڈھیر کا درجہ حرارت معلوم کرتا ہے۔
اور جب موسمِ بہار کے بعد موسمِ گرما آتا ہے تو پتوں کے ڈھیر سے اُٹھتی ہوئی حرارت کا جُوش کم ہونے لگتا ہے۔ یہ خوش قسمتی ہے کیونکہ سورج کی گرمی نہ صرف ڈھیر کے اندر کی ہر چیز کی جگہ لے لیتی ہے بلکہ ساتھ ساتھ ننی مشکلات بھی لائے گی۔ اَب اگر اِن انڈوں کی بھر پور حفاظت نہ کی جائے تو دوپہر کو آگ برساتا ہوا سورج انڈوں کو تھوڑی ہی دیر میں پکا ڈالے گا۔ اِس لئے Mallee مُرغ انڈوں کی حفاظت کے لئے اُس وقت تک مزید ریت ڈالتا رہتا ہے جب تک وہ پوری طرح اپنی اثر نہیں دِکھاتی۔ لیکن جب ریت کی تہہ کی موٹائی تین فٹ تک پہنچ جاتی ہے تو اُس کی حد مکمل ہو جاتی ہے۔ اُس وقت تک وہ اپنے پائوں سے تقریباً ۲۰ مکعب گز ریت اور مٹی ایک جگہ سے دوسری جگہ مُنتقل کر چُکا ہوتا ہے۔ لازم ہے کہ وہ ریت کے اِس انبار کو حسبِ ضرورت دِن میں دو بار اپنی جگہ سے ہٹائے اور تبدیل کرتا رہے۔ جب اُس کے قیمتی انڈوں کو صبح کی ٹھنڈک میں زیادہ حرارت کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ ریت کی اِس تہہ کو باریک کر دیتا ہے اور جب سورج اپنی پوری آب و تاب سے چمک رہا ہوتا ہے تو وہ اِس کو موٹا کر دیتا ہے تاکہ سورج کی گرمی انڈوں کو نقصان نہ پہنچا سکے۔
موسمِ گرما کے وسط میں انڈوں کی حفاظت کا یہ اِنتظام کارگر ثابت ہوتا ہے لہذا Mallee مُرغ اپنے ڈھیر نُما گھونسلے میں ٹھنڈک پہنچانے کے لئے cooling system لگاتا ہے۔ صبح کے وقت جب ہَوا قدرے ٹھنڈی ہوتی ہے تو وہ ٹھنڈک کے لئے ڈھیر پر بہت زیادہ مِقدار میں ریت پھیلا دیتا ہے اور دوپہر چڑھنے سے پہلے جب سورج آسمان سے آگ برسا رہا ہوتا ہے تو وہ بقایا ڈھیر میں خانے سے کھود کر اُن میں ٹھنڈی ریت بھر دیتا ہے اور پھر اُس کے اُوپر insulation کے لئے مزید تہہ چڑھاتا ہے۔
اِس سے پہلے کہ موسمِ خزاں شروع ہو، بہت سے انڈوں سے بچے نکل آئیں گے۔ لیکن گھونسلے میں اَب بھی کئی انڈے پڑے ہوں گے جو مُرغی نے آخر میں دیئے ہیں۔ اِس صورتِ حال میں مُرغ کو موسمِ گرما کے برعکس مشکل کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ انڈوں کو زیادہ سردی میں خراب ہونے کا خطرہ ہے۔ وہ اِس مسئلہ کا حل موسمِ گرما والی حکمتِ عملی کے بالکل برعکس کرتا ہے یعنی صبح کے وقت اپنے گھونسلے میں ٹھندی ریت بھرنے کی بجائے، دوپہر کے وقت گرم ریت لا کر پھیلاتا ہے۔
Mallee مُرغ کی جفاکشی اور اَنتھک محنت کے اِن لمبے مہینوں میں مُرغی بمشکل اُس کی مدد کرتی ہے۔ لیکن ہمیں ذہن میں رکھنا چاہیے کہ وہ تقریباً ہر ہفتے انڈے دیتی ہے۔ اور ہر دفعہ انڈے دینے میں اُس کی کم و بیش 12 فیصد جسمانی قوت ضائع ہو جاتی ہے۔ ذرا اندازہ لگائیے کہ انڈے دینے کہ موسم میں جب وہ 35 انڈے دے لیتی ہے تو اُن کا وزن اُس کے اپنے وزن سے ساڑھے چار گنا سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنے طور پر بڑے انوکھے اور عجیب و غریب طریقہ سے اِس مشترکہ کام میں شریک ہے۔
بِلاشبہ Mallee مُرغ کا کام اُن انڈوں کی وجہ سے زیادہ ہو جاتا ہے جن سے بچے نہیں نکلتے۔ اور جب بچے نکل آتے ہیں تو وہ اپنا آپ پورے طور پر خود سنبھالتے ہیں اور یوں اُن کی زندگی میں محنت اور جفاکشی کا آغاز ہوتا ہے۔ بچوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ انڈے کے خول سے نکلنے کے بعد مصنوعی حرارت پہنچانے والے ڈھیر سے بھی باہر نکلیں۔ بہت سے اِس قابل نہیں ہوتے کہ اِس کام کو انجام دے سکیں لہذا وہ دَم گھٹ کر ہی مَر جاتے ہیں اور جو باہر نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں وہ اِس تھک جاتے ہیں کہ بمشکل رینگ رینگ کر قریب ہی کسی جھاڑی میں پناہ ڈھونڈ لیتے ہیں۔ لیکن تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد وہ وہاں سے کھِسک جاتے ہیں اور دو دِن میں اُڑنے اور اپنا آپ سنبھالنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔
ہم اِس سارے مسئلہ کی کِس طرح وضاحت کریں؟ یقینا یہ سب کچھ جبلی رحجان کے تحت ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ جبلی رحجان کیسے پیدا ہو گیا۔ ذہن میں رہے کہ مصنوعی حرارت پہنچانے والے ڈھیر کے لئے ضروری ہے کہ وہ سات مہینے تک یکے بعد دیگرے موسمی تبدیلیوں اور ہر روز درجہ حرارت میں اُتار چڑھائو کے باوجود مسلسل ایک ہی جیسے درجہ حرارت میں رہے۔
Mallee مُرغ کی محض ایک غلطی یا بھول انڈوں کو تباہ و برباد کر سکتی ہے، لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ قابلیت اُن میں ہمیشہ سے سخت ترین ضرورت کے تحت نسل در نسل چلی آ رہی ہے ورنہ بعد میں آنے والی نسل کب کی ختم ہو چکی ہوتی۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ اُن کے لئے لازم ہے کہ وہ روزِ اول ہی سے زندہ رہنے کے واسطے اِس خصوصی علم یا قابلیت سے آراستہ ہوں، کیونکہ اُن کے لئے ہنرمندی یا مہارت سیکھنے کے وسطے آزمائش کا قطعی وقت نہیں ہوتا۔ صرف اور صرف ایک ہی راستہ ہے جس کی بدولت یہ مصنوعی حرارت پیدا کرنے والے پرندے وہ ہنر مندی سیکھ سکتے ہیں جس کی اُنہیں اشد ضرورت ہے اور وہ یہ کہ کوئی اُن کے اندر مناسب فطری رحجانات پیدا کرے۔ یقینا سوائے خدا کے کون ہے جو ایسا عظیم کام سَر انجام دے سکتا ہے؟
بائبل مقدس میں لکھا ہے کہ خدا نے ہر قِسم کا جانور اور ہر طرہ کی مخلوق کو اپنی ’’جِنس کے موافق‘‘ بنایا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ خدا نے ہر ایک قِسم کو اُس کی اپنی خصوصیت کے باعث دُنیا میں جگہ دی۔ اُس نے ہر ایک کے لئے جگہ بنائی اور ہر ایک کو جگہ کے لئے بنایا۔
بائبل مقدس میں خدا کا نیک بندہ پولس رسول خدائے بزرگ و برتر کی تخلیق کا بیان یوں کرتا ہے، ’’جس خدا نے دُنیا اور اُس کی سب چیزوں کو پیدا کِیا، وہ آسمان اور زمین کا مالک ہو کر ہاتھ کے بنائے ہوئے مندروں میں نہیں رہتا، نہ کسی چیز کا محتاج ہو کر آدمیوں کے ہاتھوں سے خدمت لیتا ہے کیونکہ وہ تو خُود سب کو زندگی اور سانس اور سب کچھ دیتا ہے اور اُس نے ایک ہی اصل سے آدمیوں کی ہر ایک قوم تمام رویٗ زمین پر رہنے کے لئے پیدا کی اور اُن کی معیادیں اور سکونت کی حدیں مُقرر کیں تاکہ خدا کو ڈھونڈیں، شائد کہ ٹٹول کر اُسے پائیں۔ ہر چند وہ ہم میں سے کسی سے دُور نہیں کیونکہ اُسی میں ہم جیتے اور چلتے پھرتے اور موجود ہیں۔‘‘ (اعمال ۱۷:۲۸-۲۴)
آئیے,کائنات کے ذرے ذرے سے جو قدم قدم پر وجودِ الٰہی کا زندہ ثبوت پیش کر رہے ہیں، کچھ سیکھنے اور جاننے کی کوشش کریں تاکہ خوشی و کامرانی سے اپنے تخلیق کار کی حمد و ستائش گا سکیں۔