Skip to content

درَخت

Posted in وجُودِ اِلٰہی

ابھی آپ نے جس درخت کی خوبصورتی کی تعریف کی، اُس کو ذرا ذہن میں لائیے، ایک اُونچا بلند و بالا درخت، شائد جنگل کا شہنشاہ، آسمان کی بلندیوں کو چھوتے ہوئے کِس شان سے کھڑا ہے۔ اَب یہ بھی تصور کریں کہ آپ اپنی پشت پر 60 پونڈ بھاری بوجھ اُٹھائے اُس درخت کی چوٹی پر چڑھ رہے ہیں۔ جوں ہی آپ چوٹی پر پہنچیں گے تو اُس بوجھ سے چھٹکارا پا کے نیچے کا رُخ کریں گے تاکہ نئے سِرے سے تازہ دم ہو کر مزید بوجھ اُٹھا سکیں۔ اور ہاں! یہ بھی ضروری ہے کہ آپ دِن میں 12 مرتبہ اُس درخت پر چڑھیں اور اُتریں، اور یہ بھی لازم ہے کہ آپ مستقبل میں ہر روز اِتنی ہی مرتبہ بوجھ اُٹھائے درخت کی چوٹی تک جائیں۔ یقینا یہ ذمہ داری ایک مضبوط ترین آدمی کو بھی بہت جلد تھکا کر چُور کر دے گی۔ مگر خوش قسمتی سے ہمیں کبھی کسی نے اِس قِسم کی ذمہ داری نبھانے کا حکم نہیں دیا کہ دِن میں 12 مرتبہ بھاری بوجھ اُٹھا کر ایک اُونچے درخت پر چڑھیں اور اُتریں۔ لیکن ہماری یہ تصوراتی ذمہ داری درخت کی اُس حقیقی ذمہ داری کے مقابلے میں کچھ زیادہ نہیں جو ہر روز زندہ رہنے اور نشوونما پانے کے لئے کرتا ہے۔ پانی وہ بوجھ ہے جو ہر درخت کو لازمی اُٹھانا ہی پڑتا ہے اور اِس کی مِقدار اچھی خاصی ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر سفیدے کی ایک قِسم کے درخت Birch کو نشوونما پانے کے موسم میں روزانہ 90 گیلن پانی درکار ہوتا ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ اِسے روازنہ 720 پونڈ وزن، 100 فٹ یا اِس سے بھی زیادہ بلندی پر اُٹھانا پڑتا ہے۔ اور کچھ درخت جو اِنتہائی اُونچے ہوتے ہیں، اُنہیں 300 یا اِس سے کہیں زیادہ بلندی تک یہ بھاری بوجھ کھینچنا پڑتا ہے۔
فرض کریں کہ اگر ہمیں یہ بوجھ اُٹھانا پڑے تو یقینا ہم بُڑبڑاتے ہوئے ناگواری کا اَظہار کریں گے، اور چیخ و پکار کریں گے۔ لیکن درخت اِس ذمہ داری کو بڑی مہارت اور خاموشی سے انجام دیتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ سب کچھ کیسے کر لیتے ہیں؟ سائنسدان کئی سالوں کا اِس سوال کا جواب تلاش کرنے میں مصروف رہے مگر وہ اِس میں کامیاب نہ ہو سکے۔ مگر پھر بھی اِس مسئلے کے جو چار ممکن حل زیرِ تفتیش رہے اُن کا ذکر کرنا لازم ہے۔ پہلا یہ کہ پانی یا تو جڑ کے دبائو کے باعث یا درخت کی باریک باریک نالیوں کی کشِش کے سبب نیچے سے اُوپر جا سکتا ہے۔ لیکن نہ تو جڑ کے دبائو اور نہ ہی درخت کی باریک نالیوں کی کشِش میں اِس قدر طاقت ہے کہ پانی ایک بلند و بالا درخت کی چوٹی پر پہنچ کر اُس کے ہر حِصے کو تَر کر سکے۔
دوسرا زیرِ تفتیش حل یہ کہ شائد درخت کی چوٹی پر پھیلے ہوئے پتے پانی کو درخت کی جڑوں سے چُوس کر کھینچ لیتے ہوں۔ لیکن چُوس کر کھینچنے کی طاقت ہَوا کے دبائو کی نسبت محدود ہے۔ لہذا صرف 33 فٹ تک پانی اُوپر کھینچا جا سکتا ہے۔
تیسرا زیرِ تفتیش حل یہ ہے کہ درخت درجہ بہ درجہ اُن خلیوں کی مدد سے جو اِنتہائی چھوٹے پمپ کی مانند کام کرتے ہیں، پانی کو اُوپر کھینچنے کا باعث بنتے ہوں گے۔ لیکن یہ حل اُس وقت بالکل بے کار ثابت ہوا جب کسی سائنسدان نے ایک زرد رنگ کا تیزابی مادہ یعنی Picric Acid درخت کی پانی پہنچانے والی نالیوں میں داخل کِیا تو اِس زہریلے مادے نے اُوپر جاتے ہوئے اُن خلیوں کو جو پانی کو اُوپر کھینچتے ہیں، ہلاک کر دیا اور یوں اُن کی پانی اُوپر کھینچنے والی قوت ختم ہو کر رہ گئی۔ مگر اِس سے اُس زہریلے پانی کے مُسلسل اُوپر چڑھنے میں قطعی فرق نہ پڑا۔ لہذا معلوم ہوا کہ چھوٹے پمپ کا تصور بالکل بے کار و بے سود ہے۔
وہ سائنِسدان جو اِس مسئلے کی تحقیق کر رہے ہیں صرف ایک اَور نظام کے بارے میں جان سکے ہیں اور یہ وہ قوت ہے جس کے ذریعہ پانی کے ذرات ایک دوسرے کے ساتھ چپکے رہتے ہیں۔ یہ قوت جِسے Cohesion یعنی مِلاپ یا اِتصال کہتے ہیں جب اِس کا جائزہ لیا گیا تو ثابت ہوا کہ یہ ایک اُونچے ترین درخت کی چوٹی پر پانی کھینچنے کیلئے کافی صلاحیت رکھتی ہے۔ اِس نظریئے کے مطابق جب پانی پتوں سے خارج ہو کر اِرد گرد کی ہَوا میں داخل ہوتا ہے تو پوری طاقت سے اِتصال پذیر کھچائو کے ساتھ شاخ اور ٹہنی کے ذریعہ نیچے تنے اور پھر جڑ کی طرف سے اُوپر کھینچتا ہے۔ یہ سارے زیرِ تفتیش حل مدِنظر رکھتے ہوئے ہمارے سوال کا یہ ایک بہترین جواب ہے جو سائنِسدان ابھی تک تلاش کر سکے ہیں۔ لیکن اِس حل کے ساتھ کچھ ضروری قابلِ غور مسائل بھی درپیش ہیں۔ پہلا یہ کہ اگر اُس پانی میں جو جڑ سے پتے جاتی ہوئی نالیوں میں ہوتا ہے، خلا واقع ہو جائے تو اُس کی ساری طاقت بے کار و بے سود ہے۔ مگر تجربات اِس بات کی قطعی تصدیق نہیں کرتے کہ واقعی ایسا ہی ہے کیونکہ اکثر و بیشتر اُس پانی میں جو نالیوں میں ہے خلا ہوتے ہیں۔ ایک اَور بڑا اعتراض اُس وقت سامنے آیا، جب یہ معلوم ہوا کہ اگر درخت کے تنے کا آدھے سے زیادہ حصہ آرے سے کاٹ دیا جائے اور کٹنے کے نشان کے ایک فٹ اُوپر یا نیچے مخالف سمت سے دوبارہ آرے سے کاٹا جائے تو پانی بدستور سیدھی راہ سے درخت کی چوٹی پر پہنچتا رہے گا۔ اگرچہ بظاہر درخت میں اپنی کی تمام نالیاں کٹ چکی ہیں لیکن اِس کے باوجود درخت نہیں مُرجھایا مگر پھر بھی ضروری ہے کہ اِسے مضبوطی سے باندھا جائے کیونکہ کافی حد تک اُس کا سہارا پہلے ہی الگ ہو چُکا ہے۔
اِن سب باتوں کا نچوڑ یہ ہے کہ ذہین ترین سائنِسدانوں کی صدیوں کی تحقیق یہ دریافت نہیں کر سکی کہ درخت اپنے پتوں کو کِس طرح پانی پہنچاتا ہے؟ بِلاشبہ درختوں نے کچھ اُصول مُرتب کر رکھے ہیں جو اِنسانی عقل سے باہر ہیں حالانکہ اُن کے پاس بالکل کوئی ذہن نہیں ہوتا جس سے وہ اپنے ترکیبی اجزا اکٹھے کر سکیں۔
ذرا سوچیئے، کہ کیا کوئی بے عقل اور بے سمجھ شخصیت درختوں کی طرح عجیب و غریب اور انوکھی چیز تخلیق کر سکتی ہے؟ درختوں نے اپنے آپ کو خود بخود تخلیق نہیں کِیا بلکہ وہ اعلیٰ ترین حکمت و فہم سے بنائے گئے ہیں اور اعلیٰ ذہانت و قابلیت کے اُس سر چشمہ کو ہم خدا کہتے ہیں۔
خدا کی بے شمار خوبیوں میں سے ایک بڑی خوبی اُس کی حکمت ہے، جیسے کہ بائبل مقدس میں لکھا ہے، ’’خداوند نے حکمت سے زمین کی بُنیاد ڈالی اور فہم سے آسمان کو قائم کِیا۔‘‘ (امثال ۳:۱۹)
لیکن خدا حکمت و فہم سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہے، یعنی ’’خدا نور ہے۔‘‘ خدا کی پاکیزگی و عظمت کے بارے میں بائبل مقدس میں لکھا ہے، ’’…خدا بھسم کرنے والی آگ ہے۔‘‘ (عبرانیوں ۱۲:۲۹)
لیکن سب سے زیادہ یہ بات یاد رکھنے کی اشد ضرورت ہے کہ ’’خدا محبت ہے،‘‘ اور خدا کی محبت میں اِنصاف، رحم پر مبنی ہے اور یہی وجہ ہے کہ دُنیا کیلئے نجات اُس کے بیٹے مسیح یسوع کے وسیلہ سے ہے۔ یہ سچ ہے کہ صرف خدا ہی درخت کو تخلیق کر سکتا ہے، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ صرف خدا ہی ہمیں معاف کر کے زندہ اُمید، ابدی آرام اور ابدی زندگی کا وارث بنا سکتا ہے۔ تو پھر آئیے! کائنات کے ذرے ذرے سے جو وجودِ الٰہی کا زندہ ثبوت پیش کر رہے ہیں، کچھ جاننے، سمجھنے اور سیکھنے کی کوشش کریں تاکہ اپنے خالق کی مکمل تابعداری کر کے اُس کا جلال ظاہر کر سکیں۔