Skip to content

لیمِنگ Lemmings

Posted in وجُودِ اِلٰہی

ناروے میں ایک خاص قِسم کا کُترنے والا چوہا Lemming پایا جاتا ہے جو اپنی عجیب و غریب خصوصیات کی وجہ سے کافی مشہور ہے۔ یہ اِس کی غیر معمولی نقل و حرکت ہی ہے جو آج ہمیں اِس کے بارے میں لکھنے پر مجبور کر دیا ہے تاکہ ہم سمجھ سکیں کہ ایک معمولی سا چوہا کیوں، کب اور کیسے اپنی زندگی کا سفر مکمل کرتا ہے؟ جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کِیا کہ ناروے کا یہ چوہا جِسے Lemmings کہتے ہیں، ایک نہائت معمولی سی مخلوق ہے، لیکن یہ اُس وقت معمولی نہیں ہوتا اِس کی نسل ذہنی طور پر کہیں اَور مُنتقل ہونے کے لئے تیار ہو جاتی ہے یعنی اُس وقت وہ غیر معمولی ہو جاتا ہے۔
ناروے میں پائے جانے والے Lemmings چھوٹے سے، شرمیلے مگر کُترنے والے ہوتے ہیں جو شمالی سکینڈے نِیویا کی ویران اُجاڑ جگہوں میں رہتے ہیں۔ وہ پودوں کی جڑیں، کونپلیں، نرم نرم ٹہنیاں یا گھاس، اور اِس کے علاوہ ہر طرح کی نباتات جو زمین پر ہوتی ہے کھانا پسند کرتے ہیں۔ وہ موسمِ گرما میں اپنے خاندان کو پالتے ہیں، اور دوسرے چھوٹے چھوٹے جانوروں کی طرح اپنے آپ کو جنگلی درندوں سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔
جب تک یہ سلسلہ اِسی طرح چلتا رہتا ہے زندگی اپنے معمول پر گامزن رہتی ہے اور موت کا خوف بھی سرسبز پہاڑیوں میں گھِری ہوئی اُن کی آبادیوں پر منڈلاتا رہتا ہے۔ لیکن تقریباً ہر چوتھے سال غیر معمولی واقعات رُونما ہونے لگتے ہیں جو ہزاروں Lemmings کی تباہی کا باعث بنتے ہیں۔
ہر چوتھا سال Lemmings کا سال کہلاتا ہے۔ اِس سال کے آغاز میں اُن کے بچے جننے کے طریقہ کار میں تبدیلی واقع ہوتی ہے۔ مادہ Lemming دو جھول کی بجائے ۶ سے ۸ جھول تک بچے دیتی ہے۔ یاد رہے کہ ایک جھول میں تقریباً ۵ بچے ہوتے ہیں۔ اِس ایک سال کے اندر Lemmings کی کل تعداد تقریباً تین گنا زیادہ ہو جاتی ہے لیکن دوسری طرف اُن کی خوراک میں کوئی اِضافہ نہیں ہوتا یعنی اُن کی تعداد کے مقابلے میں اُن کی خوراک نہائت کم ہوتی ہے۔
موسمِ خزاں کی آمد پر یہ جانور عرصہ تک شرم و جھجھک سے کام نہیں لیتے بلکہ جُوں جُوں اُنہیں بھوک ستاتی ہے وہ خوراک حاصل کرنے کے لئے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ آخرِ کار اُنہیں کوئی ایسا پیغام ملتا ہے کہ اَب اِس جگہ سے کہیں اَور مُنتقل ہونے کا وقت آ پہنچا ہے۔
سکینڈے نِیویا میں Lemmings کی نقل و حرکت پانچ خِطوں میں سے ہمیشہ ایک خطے سے شروع ہوتی ہے۔ یہ ہجرت اُنہی پُرانے رستوں سے اُنہی پُرانے مقاصد کو پورا کرتی ہے۔ مثال کے طور پر ناروے کے Lemmings جو دُور شمال میں رہتے ہیں، اُن کی ہمیشہ سے دو منزلِ مقصوو ہو سکتی ہیں۔ یا تو جزیرہ Loften جو شمال مغرب میں ہے یا خلیج Bothnia جو جنوب مشرق میں ہے۔ اِس کے باوجود کہ نقل و حرکت کا یہ عجیب سلسلہ جو خوراک کی کمی کے سبب سے شروع ہوا مگر جب Lemmings کے اِس بڑے گروہ کو نیچے وادی میں کافی خوراک حاصل ہو جاتی ہے تو وہ افراتفری یا بُوکھلاہٹ میں نہ تو اِدھر اُدھر بھٹکتے ہیں، نہ ہی پیٹ بھرنے کے چکر میں پڑ کر اپنی رفتار میں کمی واقع ہونے دیتے ہیں، اور نہ ہی وہ رستے کی مختلف رکاوٹوں کو یہ موقع دیتے ہیں کہ وہ اُنہیں اُن کے مقصد سے پیچھے چھوڑ دیں۔ اگرچہ وہ کوئی اچھے تیراک نہیں ہوتے مگر پھر بھی آگے راہنمائی کرنے والے Lemmings پیچھے آنے والے دوسرے اَن گنت ساتھیوں کے بھاری دبائو کے باوجود دریا میں غوطہ لگا دیتے ہیں۔ ہزاروں دریا عبور کرنے کے اِس عمل کے دوران اکثر مر جاتے ہیں لیکن جو بچ جاتے ہیں بے فکری سے آگے ہی بڑھے چلے جاتے ہیں۔
ہجرت کرنے والے Lemmings خونخوار بھیڑیوں، گوشت خور درندوں اور اُن شکاری پرندوں کے غول کی جو زمینی ضیافت کے لئے ہر وقت تیار رہتے ہیں، پرواہ کِئے بغیر اپنا مشن جاری رکھتے ہیں۔
جب تک Lemmings کا وجود باقی ہے اُن کو آگے قدم اُٹھانے سے کوئی بھی چیز رُوک نہیں سکتی۔ جب تک وہ سمندر تک نہ پہنچ جائیں وہ پیچھے ہٹیں گے، اور جب ایسا ہو جاتا ہے تو باقی ماندہ گروہ تباہ کن پانی میں مسلسل آگے بڑھتا رہتا ہے، شاذ و نادر ہی اُن میں سے کوئی زندہ بچتا ہے۔ پیچھے اُن کے آبائی میدانوں میں اُن تھوڑے سے ساتھیوں کے سبب سے جنہوں نے اِس ہجرت میں حِصہ نہیں لیا ہوتا، اُن کی آبادی میں رفتہ رفتہ اضافہ ہونے لگتا ہے۔ وہ پہلے ایک دو سال تعداد میں یقینا کم ہوتے ہیں، مگر چار سال کے بعد عام طور پر Lemmings کی تعداد میں ایک بار پھر شدید اِضافہ ہوتا ہے اور ہجرت کا وہی عمل پھر سے دہرایا جاتا ہے۔
وہ فعل و حرکت جس کے سبب سے Lemmings اپنے آپ کو تباہ کر لیتے ہیں، کافی حد تک ایک معمہ ہے۔ لیکن یہ محض بچوں کی تعداد کی وجہ سے ظہور پذیر ہوتی ہے۔ اگر اُن کا اپنے آپ کو تباہ کرنا اِرتقائی عمل کا نتیجہ ہوتا تو یقینا یہ خوراک کی کمی کے مسئلہ کا ایک بد ترین حل ہے۔ اِس کے مقابلے میں اگر چوتھے سال کے دوران بچے زیادہ تعداد میں پیدا نہ ہوتے تو یہ مسئلہ کھڑا نہ ہوتا۔ اِرتقاء کے ماننے والے دعویٰ کرتے ہیں کہ ہر جاندار اپنے مسائل کا حل بہترین طریقہ سے خود بخود فطری عمل کے ذریعہ کرتا ہے۔ اِس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ Lemmings کی چار سالہ ہجرت اور تباہی اِرتقائی نظریئے کے خلاف ہے۔
بے شک اِس راز میں ایک اعلیٰ مقصد پوشیدہ ہے جس کو آج تک کسی نے بھی دریافت نہیں کِیا۔ اَب تک کسی کو بھی نہ تو یہ پتہ چل سکا کہ ہر چار سال بعد اِتنی زیادہ تعداد میں بچے کیوں پیدا ہوتے ہیں اور نہ ہی یہ کہ وہ سمندر تک اپنے سفر کے دوران کیوں عجیب و غریب حرکات کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ وہ اِس سفر کے دوران اُن احکامات کے تابع ہوتے ہیں جو اَب تک معلوم نہیں کِئے گئے، کسی حد تک یہ احکامات اِن جانوروں کے لئے نقصان دہ دِکھائی دیتے ہیں، لیکن یہ احکام لامحدود نہیں ہوتے کیونکہ Lemmings مکمل طور پر تباہ و برباد نہیں ہوتے۔ اِس سے پتہ چلتا ہے کہ ایک اعلیٰ ترین نگران ہے جو اِس سارے نظام کو پوری ذہانت و حکمت کے ساتھ چلا رہا ہے۔
ہمیں یہ سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ جس ہستی نے معمول سے Lemming کے لئے ایک عجیب اور انوکھا طرزِ زندگی وضع کِیا ہے، کیا وہ ہماری ہر حاجت مندی کو رفع نہ کرے گا؟ کائنات میں اِس عجیب و غریب راز کے سبب ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ منتظمِ اعلیٰ یعنی خالق و مالک ہم سے کہیں زیادہ حکمت والا ہے۔ جیسا کہ بائبل مقدس میں خداوند فرماتا ہے، ’’…میرے خیال تمہارے خیال نہیں اور نہ تمہاری راہیں میری راہیں ہیں کیونکہ جس قدر آسمان زمین سے بلند ہے اُسی قدر میری راہیں تمہاری راہوں سے اور میرے خیال تمہارے خیالوں سے بلند ہیں۔ـ‘‘ (یسعیاہ ۵۵:۹-۸)
خداوند تعالیٰ نہ صرف خالق و مالک ہے بلکہ وہ ایک اعلیٰ ترین مدد گار بھی ہے۔ جب ہم اپنی سمجھ، طاقت اور قابلیت کو چُھولیتے ہیں تو خدا کی لامحدود قوت ہمیں تسلی و مدد دیتی ہے۔ آئیے، کائنات کے ذرے ذرے سے جو قدم قدم پر وجودِ الٰہی کا زندہ ثبوت پیش کر رہے ہیں کچھ سیکھنے اور جاننے کی کوشش کریں تاکہ خوشی و کامرانی سے اپنے تخلیق کار کی حمد و ستائش گا سکیں۔