Skip to content

سامن مچھلی

Posted in وجُودِ اِلٰہی

ہزاروں کھلاڑی اور پیشہ ور مچھیرے جو شمالی بحرالکاہل سے سامن مچھلی پکڑتے ہیں، بہت کم اُن وجوہات پر توجہ دیتے ہیں جو سامن کی پیداوار کو ممکن بناتی ہیں۔ وہ زیادہ تر اُسے پکڑنے اور کھانے میں دلچسپی لیتے ہیں بجائے اِس خوبصورت مچھلی کے سلسلۂ زندگی کو سمجھنے اور جاننے کی کوشش کریں۔ ہر ایک بالغ سامن جب انڈے دینے کیلئے اپنی جائے پیدائش کی طرف واپسی کا سفر کر رہی ہوتی ہے تو اُن کا ہزاروں میل کے فاصلے سے واپس اپنے اصلی مقام پر جانا ایک ایسا پُراسرار بھید ہے جس کو ہم صرف معجزہ ہی کہہ سکتے ہیں۔
ذرا سوچیئے! کہ مچھلی جب چھوٹی ہوتی ہے تو سینکڑوں میل تک کسی دریا سے سمندر تک تیر سکتی ہے اور جب یہ بالغ ہو جاتی ہے تو وہ کھلے سمندر میں ہزاروں میل کا سفر کرتی ہے۔ سامن اپنی اقسام کی جبلت کے لحاظ سے کم سے کم ایک سال اور زیادہ سے زیادہ ۴ سال اپنی جائے پیدائش سے دُور رہتی ہے۔ گلابی رنگ کی سامن ۱۲ سے ۱۴ ماہ تک سمندر میں ۳ سے ۴ ہزار میل کا فاصلہ طے کرتے ہوئے اُس مقام تک پہنچتی ہے جہاں اُس نے انڈے دینے ہوتے ہیں۔
ایک اَور قِسم کی سامن جو Chinook کہلاتی ہے، ممکن ہے تقریباً چار سال سمندر میں رہنے کے بعد اپنی جائے پیدائش کا رُخ کرے۔ وہ سمندر میں کتنی ہی دُور کیوں نہ نکل جائے یا کتنی ہی مدت سمندر میں کیوں نہ رہے، جونہی اُسے یہ پُراسرار حیاتیاتی پیغام ملتا ہے کہ ـ ’’افزائشِ نسل کا وقت کا آ پہنچا ہے،‘‘ تو وہ وقت کی عین پابندی کرتے ہوئے اپنی جائے پیدائش کا رُخ کرتی ہے۔ خواہ وہ سو مختلف اطراف سے یا سینکڑوں میل دُور سے سفر شروع کرے وہ تین ہفتے کے اندر اندر اپنی جائے پیدائش پر پہنچ جاتی ہے۔
دَس سال کی طویل مدت کے دوران امریکہ کی ریاست Alaska کے Bristol Bay کے مقام پر ہر سال تین ہفتے کے میں اوسطاً پانچ کروڑ Sockeye سامن اپنی جائے پیدائش پر جمع ہوتی ہیں۔
سامن سے متعلق بھیدوں میں سے ایک بھید یہ ہے کہ اُس کو کیسے معلوم ہوا کہ یہ ایسا وقت ہے جب اُنہیں واپس جانا ہے؟ اور اِس سے بھی بڑھ کر ایک بھید یہ کہ وہ واپسی کا سفر اختیار کرتے ہوئے کِس طرح کسی نشان کے بغیر سمندر میں اپنی جائے پیدائش کا راستہ تلاش کر لیتی ہے؟ شائد اِس سے بھی گہرا راز یہ ہے کہ سامن اپنے انڈے دینے کے لئے کِس طرح اپنی جائے پیدائش پہنچتی ہے۔ اِس سفر کے لئے لازم ہے کہ وہ بے نشان سمندر پار کرے اور خلیج سے ہو کر اُس دریا کے دھانے پر پہنچ جائے۔ پھر دریا کے رستے اُس چھوٹی سی ندی تک پہنچے جہاں اُس کی پیدائش واقع ہوئی۔ آخر وہ کِس طرح یہ سب کچھ کرتی ہے؟ لگتا ہے کہ وہ اپنی سونگھنے کی قوت سے اپنی جائے پیدائش کا رستہ تلاش کر لیتی ہے۔ لیکن یہ بات یقین سے باہر ہے کیونکہ اُن کی جائے پیدائش کے چاروں طرف پھیلی ہوئی بُو، پانی کی اِس قدر مِقدار کے آپس میں ملنے کے باوجود اور ندی سے چھوٹے دریا، چھوٹے دریا سے بڑے دریا اور بڑے دریا سے سمندر میں تبدیل ہونے کے باوجود جوں کی توں برقرار رہتی ہے۔ اگر سامن سونگھنے کی بُو حِس سے محروم ہو تو وہ اِس قابل نہیں کہ اپنی منزلِ مقصود پر پہنچ سکے۔ تحقیق کرنے والوں نے اِس بات کو یوں آزمایا کہ اُنہوں نے کچھ سامن مچھلیوں کے سونگھنے کے اعضا نکال کر پانی میں چھوڑ دیا، اَب وہ اِس قابل نہیں تھیں کہ سونگھ کر اپنی راہ کا پتہ چلا سکیں۔
پیدا ہونے کے تقریباً ایک ہفتے کے اندر سامن کے ذہن میں اُس پانی کی انوکھی بُو ایسی رچ بس جاتی ہے کہ وہ اُسے بھُول نہیں سکتی۔ یہ بُو گلی سڑی جڑوں اور نباتاتی زندگی، پانی میں زندہ اور مُردہ کیڑے مکوڑوں، معدنی مرکبات اور پتھروں کی نچلی تنہ سے حاصل ہوتی ہے۔ یہ خصوصی آمیزش ہر جگہ انوکھی اور بے مثال ہوتی ہے اور جبکہ ہم شائد اِس میں کوئی فرق محسوس نہ کریں لیکن سامن شاذو و نادر ہی دھوکا کھاتی ہے۔ سامن سے متعلق ایک اَور بھید یہ ہے کہ وہ خواہش جس کے سبب سے یہ شاندار مچھلی پانی کے تیز بہائو کے خلاف اپنی جائے پیدائش تک پہنچنے کی کوشش کرتی ہے، وہ پانی کے تیز بہائو کے خلاف جانفشانی اور لگن سے تیرتی ہے۔ کبھی کبھی اُسے آبشار سے اُوپر جانے کے لئے ۸ سے ۹ فٹ اُونچی چھلانگ بھی لگانی پڑتی ہے۔ اکثر اوقات وہ اِس کٹھن سفر کے دوران نہ صرف تھک کر چُور ہو جاتی ہے بلکہ پانی کی دیگر رکاوٹوں کے سبب سے اپنے آپ کو زخمی بھی کر لیتی ہے اور اپنی جائے پیدائش پر پہنچنے اور انڈے دینے اور اُن کی تخم ریزی کرنے کے بعد نر و مادہ دونوں مَر جاتے ہیں۔
بحرالکاہل کی سامن دوسری مچھلیوں سے قدرے مختلف ہے کیونکہ وہ افزائشِ نسل کے مرحلے سے گزرنے کے جلد ہی بعد مَر جاتی ہے۔ سامن سے متعلق یہ تمام خصوصیات مدِنظر رکھتے ہوئے ہمارے ذہن میں بہت سے سوال اُبھرتے ہیں۔ مثلاً سامن وسیع و عریض سمندر میں کیسے اپنی جائے پیدائش کا رستہ معلوم کر لیتی ہے؟ اُس کو کیسے پتہ چلتا ہے کہ جائے پیدائش کی طرف رُخ کرنے کا وقت آ پہنچا ہے؟ اور کیوں مجبور ہوتی ہے کہ انڈے دینے کے لئے صرف اپنی جائے پیدائش کا ہی انتخاب کرے، جبکہ اُس کے نزدیک ہی جائے پیدائش سے ملتے جلتے کئی مقامات ہوتے ہیں؟ سائنِسدان اِن سوالات کا جواب صرف قیاس آرائی سے ہی دے سکتے ہیں۔ خیال کِیا جاتا ہے کہ اپنی جائے پیدائش سے متعلق یاداشت سامن کے جسم کے ذرے ذرے پر نقش ہو جاتی ہے، یہ بُو سمندر میں پھیلی ہوئی طرح طرح کی بُو کے باوجود اور سمندر کے پانی میں مِلنے کے باوجود قائم رہتی ہے۔ سامن کو سمندر میں افزائشِ نسل کے وقت کا پیغام جسم میں عضویات کے ذریعہ ملتا ہے، اُن کی جائے پیدائش پر پہنچنے کی جبلی خواہش جو صرف قرب و جوار کے پانی ہی سے پوری ہو سکتی ہے، کسی حد کی اُن کی زندہ رہنے کی خصلت سے پیوستہ ہے۔
ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ یہ جوابات یقین سے باہر ہیں۔ لیکن اِن کے مطابق یہ تمام خصوصیات وجود میں لانے کے لئے نہ صرف ایک معجزہ بلکہ معجزات کا ایک سلسلہ درکار ہے۔ بجائے اِس کے یہ زیادہ معقول ہے کہ ہم یقین کریں کہ یہ سب کچھ صرف ایک معجزے سے وجود میں آیا یعنی تخلیقِ الٰہی سے۔ خدا ہر چیز کو وجود میں لا سکتا ہے، یہاں تک وہ سامن کو وسیع سمندر میں اپنی جائے پیدائش کا رستہ بھی دِکھا سکتا ہے اور وہی ہے جو اُس کی زندگی کے مقصدِ حیات کو پورا کرنے کی خواہش بھی پیدا کر سکتا ہے۔ لیکن اِس سے کہیں زیادہ خدا اِنسان کو بھی اُس کے حقیقی گھر یعنی آسمان کی بادشاہی کا رستہ دِکھا سکتا ہے۔ جیسا کہ بائبل مقدس میں لکھا ہے، ’’تُو مجھے زندگی کی راہ دِکھائے گا۔ تیرے حضور میں کامِل شادمانی ہے۔ تیرے دہنے ہاتھ میں دائمی خوشی ہے۔ــ‘‘ (زبور ۱۶:۱۱)
آسمانی گھر یعنی زندگی کی اِس راہ میں اِنسان کے لئے تابندگی و شادمانی سے بھر پور مقصد ہے۔ بائبل مقدس میں زندہ خدا کا زندہ کلام کہتا ہے، ’’…ہم اُسی کی کاریگری ہیں اور مسیح یسوع میں اُن نیک اعمال کے واسطے مخلوق ہوئے جن کو خدا نے پہلے سے ہمارے کرنے کے لئے تیار کِیا تھا۔‘‘ (افسیوں ۲:۱۰) لہذا جو خدا نے سامن کے لئے کِیا ہے، وہ ہمارے لئے بھی ایسا ہی کرنا چاہتا ہے۔ لیکن اگر ہم خدا کی راہنمائی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ پہلے ہم اُس جبلی پیغام کی پیروی کریں جس سے ہم سب آراستہ ہیں اور نہ جانے کب سے جس کی آواز ہمارے چاروں طرف گونج رہی ہے کہ، ’’آسمانی گھر جانے کا وقت آ پہنچا ہے۔‘‘
آئیے، کائنات کے ذرے ذرے سے جو قدم قدم پر وجودِ الٰہی کا زندہ ثبوت پیش کر رہے ہیں، کچھ سیکھنے اور جاننے کی کوشش کریں تاکہ خوشی و کامرانی سے اپنے تخلیق کار کی حمد و ستائش گا سکیں۔