Skip to content

چور کیکڑے

Posted in وجُودِ اِلٰہی

نباتات یعنی پودوں کی دُنیا میں سخت ترین چیز ناریل کا خول ہے۔ تقریباً جس نے بھی اِسے کھولنے کی کوشش کی، اِس حقیقت کی تصدیق کرے گا۔ لیکن ناریل کے اِس ٹھوس اور سخت خول کے اندر غذائیت سے بھر پور گِری ہوتی ہے جِسے اِنسان اور حیوان دونوں بڑی رغبت و شوق سے کھاتے ہیں۔ مگر پھر بھی بہت کم حیوان ایسے ہیں جن کے پاس ناریل کے اندر سے گِری نکالنے کے لئے مناسب قابلیت یا ہتھیار ہوتا ہے۔ لیکن ایک ایسا ہے جو ناریل کی گِری کو بڑے مزے سے کھاتا ہے اور اُس کا نام ہے چور کیکڑا جو بجا طور پر ناریل کیکڑا بھی کہلاتا ہے۔ یہ بحرالکاہل اور بحرِہند کے ساحلی علاقوں میں پایا جاتا ہے۔
جس طریقہ سے چور کیکڑا اپنی خوراک حاصل کرتا ہے، ہم دیکھیں گے کہ وہ اپنی عجیب و غریب اور انوکھی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتا ہے۔ کہتے ہیں کہ جنوبی بحرالکاہل کے جزیروں میں پائے جانے والے چور کیکڑے اُونچے اُونچے درختوں پر چڑھ کے پکے ہوئے مزیدار ناریل توڑ لیتے ہیں۔ ممکن ہے کہ آپ اِسے مبالغہ آرائی تصور کریں مگر حقیقت یہ ہے کہ بڑے کیکڑے درختوں پر چڑھ سکتے ہیں۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ وہ اِتنی بلندی پر چڑھنے کی بجائے نیچے گرے ہوئے ناریل کھا کر بھوک مٹائیں۔ چور کیکڑا ایک بہت ہی انوکھے طریقہ سے ناریل میں سوراخ کرتا ہے۔ پہلے وہ یہ تلاش کرتا ہے کہ ناریل کے تین آنکھ نما نشان کِس طرف ہیں۔ یقینا یہ ناریل آنکھیں نہیں ہیں بلکہ ایسے ہیں جیسے کسی بوتل میں کارک۔ یہ نشان کافی سخت ہوتے ہیں لیکن اِتنے بھی سخت نہیں جِتنا کہ خول۔
چور کیکڑا ناریل کے اُوپر چڑھ کر ریشے دار غلاف جو اُس کی حفاظت کے لئے ہوتا ہے بڑے صبر و تحمل سے پھاڑتا ہے، یہاں تک سخت چِھلکا نظر آنے لگتا ہے۔ پھر وہ ناریل کے اُن تین آنکھ نما بند سوراخوں میں ایک کا انتخاب کرتا ہے اور اپنے اگلے چمٹی نما نکیلے بازو سے بار بار ضربیں لگانا شروع کر دیتا ہے۔ یہ چمٹی نما نکیلے بازو غیر معمولی طور پر بڑے اور وزن میں کافی بھاری ہوتے ہیں، جن سے کافی زور دار ضرب لگا سکتا ہے۔ ایسا دِکھائی دیتا ہے کہ اُس کی ضربیں بے اثر ہیں لیکن کیکڑا ہمت نہیں ہارتا، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ جلد یا بدیر ناریل کا یہ خول ضرور ٹوٹے گا اور رفتہ رفتہ وہ اِس میں کامیاب بھی ہو جاتا ہے۔ اُس کے بار بار ضرب لگانے کی وجہ سے آنکھ نما بند سوراخ کھلنے لگتا ہے۔ اور یوں چور کیکڑا اپنا ایک خاص عضو یعنی پچھلی ٹانگیں اِستعمال میں لاتا ہے، پچھلی ٹانگیں فی الحقیقت باریک چمٹی نما نُکیلے بازو ہیں۔ وہ اِن کو ناریل کے آنکھ نما سوراخ میں ڈالتا ہے اور بڑی ہنرمندی سے غذائیت سے بھرپور سفید گِری نکال کے کھاتا ہے۔
یہ سب کچھ مدِنظر رکھتے ہوئے ہمیں کہنا پڑے گا کہ اُس کی کامیابی نہائت انوکھی ہے۔ اُس میں کم از کم ایسی تین خوبیاں ہیں جن کی مدد سے وہ ناریل سے اپنی غذا نکالتا ہے۔ پہلی یہ کہ وہ ناریل کو بحیثیت اپنی خوراک اِستعمال کرے، یعنی ناریل کو خوراک کے طور پر اِستعمال کرنے کے لئے سب سے پہلے لازم ہے کہ وہ سمجھے کہ اِس بدنما خول کے اندر کِس قدر لذید اور مزیدار خوراک ہے۔ اور اِس سے بھی بڑھ کر یہ کہ وہ اِس حد تک صبر و تحمل سے کام لے کہ اپنے چمٹی دار نکیلے بازو کی مدد سے سوراخ نکلنے کے مرحلے تک اِطمینان رکھے۔ اور یہ لازم ہے کہ وہ سمجھے کہ ناریل کے خول میں سب سے زیادہ کمزور جگہ کون سی ہے، جس میں آسانی سے سوراخ ہو سکتا ہے۔ دوسری خوبی یہ کہ اُس کے چمٹی نما نُکیلے بازو اِسقدر بھاری اور اور طاقت ور ہوں کہ وہ اُن سے سوراخ کرنے کے لئے ضرب لگانے کا کام لے سکے۔ لیکن سوراخ نکالنے کے بعد اگر پچھلی ٹانگیں اِس قابل نہ ہوں کہ وہ اندر سے خوراک نکال سکے تو یقینا اُس کی ساری کوشش بے سود ہو گی۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ چور کیکڑا اپنے ساتھ ہتھوڑی، چُھری اور کانٹا اُٹھائے ہوئے ہوتا ہے۔
چور کیکڑا اپنے ماحول کے عین مطابق آراستہ کِیا گیا ہے اور یہ ہمارا فرض ہے کہ دریافت کریں کہ کِس طرح یہ سب کچھ اِس نے حاصل کِیا؟ کیا اُس نے خود بخود اپنے آپ سے یہ پیدا کر لیا؟ یا کسی حکمت و دانش سے بھرپور ہستی نے یہ اعلیٰ کام کِیا؟ آئیے اُن وجوہات پر دوبارہ توجہ دیں۔ جب تک کیکڑا ناریل کا مزہ چکھ نہ لے، اُس وقت تک اُس کے اندر اُس خوراک سے بارے رغبت پیدا نہیں ہو سکتی۔ اور اگر اُس کی قابلیت اِتنی نہ ہوتی کہ وہ ناریل کے خول میں سوراخ کر سکے تو یقینا وہ کبھی اُس کا ذائقہ نہ چکھ سکتا۔ لیکن اگر اُس کے اُوزار مکمل طور پر کارآمد نہ ہوتے تو وہ اِن دونوں میں سے کچھ بھی نہ کر سکتا۔ مثال کے طور پر ناریل کے سخت خول میں سوراخ کرنے کے لئے اُس کی ہتھوڑی کا بھاری اور طاقت ور ہونا ضروری ہے بلکہ یہ بھی لازم ہے کہ وہ خود اِس قدر مضبوط ہو کہ خود ٹوٹے بغیر خول کو توڑ سکے۔ اور جبکہ ناریل کا آنکھ نما بند سُوراخ کھل بھی چُکا مگر پھر بھی اندر سے کچی گِری نکالنے کے لئے اُس کی ساری محنت پچھلی ٹانگوں کے بغیر جو درحقیقت اُس کے چمٹی نما نکیلے بازو ہیں بے سود ثابت ہو گی، کیونکہ اگلی ٹانگیں بھاری اور سُست رفتار ہونے کے باعث ناریل سے خوراک نکالنے کے عمل کو پورا نہیں کر سکتیں اس لئے یہ اِنتظام دوسرے اِنتظامات کے بغیر کیکڑے کی مدد نہیں کر سکتے، اور نہ ہی یہ اُس وقت تک موثر ثابت ہو سکتے ہیں جب تک نامکمل اور غیرپختہ حالت میں نشوونما پا رہے تھے۔
چور کیکڑے کے لئے ضروری ہے کہ اُس کی ساری طاقت مکمل عروج پر ہو تاکہ وہ ناریل جیسی سخت ترین خوراک کو اپنے قابو میں کر سکے۔ صرف اور صرف ایک ہستی ایسی ہے جو کھانے والے کو اور کھانے والی چیز کو ایک دوسرے کیلئے اِتنے مناسب طریقہ سے تیار کر سکتی ہے، اور وہ عظیم اُلشان ہستی خدا ہے۔
یہ قادرِ مطلق خدا ہے جو عظیم ترین تخلیق کار بھی ہے اور ایک اعلیٰ ترین رازِق بھی ہے جس نے یہ سب کچھ اپنی مخلوق کے لئے ممکن بنایا تاکہ اُس کی حشمت و بزرگی کی شہادت رہے۔ آئیے دیکھئے کہ ایوب نبی خدا کے حق میں کیا کہتا ہے، ’’…مَیں تو خدا کا طالب رہوں گا اور اپنا مُعاملہ خدا ہی پر چھوڑوں گا، جو ایسے بڑے بڑے کام جو دریافت نہیں ہو سکتے اور بے شمار عجیب کام کرتا ہے۔‘‘ (ایوب ۵:۹-۸)
ایوب نصیحت کرتے ہوئے پھر کہتا ہے، ’’حیوانوں سے پوچھ اور وہ تجھے سِکھائیں گے اور ہَوا کے پرندوں سے دریافت کر اور وہ تجھے بتائیں گے۔ یا زمین سے بات کر اور وہ تجھے سکھائی گی اور سمندر کی مچھلیاں تجھ سے بیان کریں گی۔ کون نہیں جانتا کہ اِن سب باتوں میں خداوند ہی کا ہاتھ ہے جس نے یہ سب بنایا؟ اُسی کے ہاتھ میں ہر جاندار کی جان اور کل بنی آدم کا دَم ہے۔‘‘ (ایوب ۱۲:۱۰-۷)
ہم نے دیکھا کہ ایوب نبی کا خدا کے حق میں فرمان بالکل سچ اور حقیقت پر مبنی ہے۔ ایوب نبی ہمیں مزید بتاتا ہے کہ قدرت کے حسیں رنگوں میں خدا کی دستکاری کے شواہد ’’اُس کی راہوں کے فقط کنارے ہیں۔‘‘ (ایوب ۲۶:۱۴) یہ بھی بالکل سچ ہے۔
خدا نے کائنات میں بڑے عجیب اور انوکھے کام کِئے ہیں، لیکن اِنسان اُس کا اعلیٰ ترین شاہکار ہے، جیسا بائبل مقدس میں لکھا ہے، ’’اور خدا نے اِنسان کو اپنی صورت پر پیدا کِیا۔‘‘ (پیدائش ۱:۲۷) اور یوں اُس نے مٹی کے بنے ہوئے ہمارے بے جان و تاریک بُت کو الٰہی زندگی کا دَم پھونک کر روشن کر دیا۔ جب ہمارے دِلوں میں خدا کو جاننے کا اِشتیاق پیدا ہوتا ہے تو درحقیقت یہ ورثے میں مِلے ہوئے اُس جائز حق کو پانے کی خواہش ہے جس کیلئے ہم تخلیق کئے گئے ہیں تاکہ ہماری خدا کے ساتھ رفاقت ہو۔ لیکن مدت ہوئی بنی نوع اِنسان اپنے خالق سے جُدا ہو کر گمراہ و برگشتہ ہو گیا۔ مگر ہم چاہیں تو جدائی کی یہ اِس دیوار کو مِسمار کر سکتے ہیں بالکل اُسی طرح جس طرح مسیح یسوع نے فرمایا، ’’…جب تک کوئی آدمی پانی اور رُوح سے پیدا نہ ہو وہ خدا کی بادشاہی میں داخل نہیں ہو سکتا۔‘‘ (یوحنا ۳:۵)
آئیے کائنات کے ذرے ذرے سے جو قدم قدم پر وجودِ الٰہی کا زندہ ثبوت پیش کر رہے ہیں، کچھ سیکھنے اور جاننے کی کوشش کریں تاکہ خوشی و کامرانی سے اپنے تخلیق کار کی حمد و ستائش گا سکیں۔