Skip to content

خدا صادِقوں کو شادمان کرتا ہے

Posted in خُدا کی تلاش

صادِق ایک ایسا لفظ ہے جو ہمارے ہاں عام اِستعمال ہوتا ہے ہم جِسے چاہتے ہیں صادِق بنا دیتے ہیں خواہ وہ صادِق کہلانے کا اہل ہو یا نہ ہو۔ صادِق کا مطلب ہے سچا، راستباز۔ صادِق اُلاعتقاد یعنی سچے عقیدے والا، صادِق اُلقول یعنی وعدے کا سچا۔ اَب ذرا خود ہی اندازہ لگا لیجئے کہ ہم جِسے صادِق سمجھ رہے ہیں کیا وہ واقعی صادِق ہے بھی یا نہیں؟ ہم اِنسان تو صادِقوں کو تلاش کرنے میں غلطی کر سکتے ہیں کیونکہ کہیں نہ کہیں ہماری اپنی کوئی غرض چُپھی ہوتی ہے مگر خدا جو اپنی حمد و ستائش کے لئے صادِقوں کو چُنتا اور اُنہیں شادمان کرتا ہے ہرگز غلطی نہیں کر سکتا۔ خدا کا چُننے، پرکھنے، جانچنے کا پیمانہ، ہمارے پیمانے سے بالکل مختلف ہے۔

بائبل مُقدس میں خدا اپنے صادِق و راستباز بندوں کے بارے میں کہتا ہے، ’’وہ اُس درخت کی مانند ہو گا جو پانی کی ندیوں کے پاس لگایا گیا ہے، جو اپنے وقت پر پھلتا ہے اور جس کا پتا بھی نہیں مُرجھاتا سو جو کچھ وہ کرے باروَر ہو گا۔ شریر ایسے نہیں بلکہ وہ بُھوسے کی مانند ہیں جِسے ہَوا اُڑا لے جاتی ہے۔ اِس لئے شریر عدالت میں قائم نہ رہیں گے، نہ خطاکار صادِقوں کی جماعت میں کیونکہ خداوند صادِقوں کی راہ جانتا ہے…‘‘ (زبور ۱:۳-۶) خدا کے زندہ اِلہامی کلام میں ایک اَور مقام پر لکھا ہے، ’’صادِق زمین کے وارث ہوں گے اور اُس میں ہمیشہ بسے رہیں گے۔ …شریروں کا انجام ہلاکت ہے لیکن صادِقوں کی نجات خداوند کی طرف سے ہے، مُصیبت کے وقت وہ اُن کا مُحکم قلعہ ہے اور خداوند اُن کی مدد کرتا اور اُن کو بچاتا ہے۔…‘‘ (زبور ۳۷:۲۹، ۳۸-۴۰) اور خداوند خدا صادِقوں کو خوشخبری سُناتے ہوئے کہتا ہے، ’’صادِقوں کے خیموں میں شادمانی اور نجات کی راگنی ہے۔…‘‘ (زبور ۱۱۸:۱۵) اور پھر لکھا ہے، ’’شریر پچھاڑ کھاتے اور نیست ہوتے ہیں لیکن صادِقوں کا گھر قائم رہے گا۔‘‘ (امثال ۱۲:۷)

اَب سوال یہ ہے کہ اگر خدا شریروں، ظالموں اور خطاکاروں کو نیست و نابود اور صادِقوں کو شادمان و شاداب کرے گا تو شریر، خطاکار اور ظالم اِتنے مالدار و خوشحال اور صادِق و راستباز دُنیاوی مال و دولت سے محرُوم کیوں ہیں؟ کیا یہ ظلم و بے اِنصافی نہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو اکثر ہمارے ذہن میں گونجتا ہے اور آج سے صدیوں پہلے خدا کے صادِق و راستباز بندے حبقوق نبی نے بھی خدا سے شکایت کرتے ہوئے پوچھا، ’’اَے خداوند! مَیں کب تک نالہ کروں گا اور تُو نہ سُنے گا؟ مَیں تیرے حضور کب تک چِلائوں گا، ظلم! ظلم! اور تُو نہ بچائے گا؟ تُو کیوں مجھے بدکرداری اور کج رفتاری دِکھاتا ہے؟ کیونکہ ظلم اور ستم میرے سامنے ہیں۔ فتنہ و فساد برپا ہوتے رہتے ہیں۔ اِس لئے شریعت کمزور ہو گئی اور اِنصاف مُطلق جاری نہیں ہوتا کیونکہ شریر صادِقوں کو گھیر لیتے ہیں۔ پس اِنصاف کا خون ہو رہا ہے۔‘‘ (حبقوق ۱:۱-۴)

پہلی بات تو یہ کہ بائبل مُقدس خدا کے بارے میں سب بھیدوں سے پردہ نہیں اُٹھاتی، خدا کی سوچ و خیال اور وُسعت تک ہم اِنسان رسائی حاصل نہیں کر سکتے مگر ہاں، ایک دِن جب ہم اُس کی پاک حضوری میں حاضر ہوں گے تو سارے آسمانی بھید ہم پر کھل جائیں گے، مگر خدا کا زندہ اِلہامی کلام ہمارے سامنے تین سچائیاں یا حقائق پیش کرتا ہے جن کی روشنی میں کسی حد تک ہماری شکایت و گلے شکوے دُور ہو سکتے ہیں۔ پہلی سچائی یہ کہ ضروری نہیں کہ دُنیاوی مال و دولت خدا کی طرف سے برکت ہی کا نشان ہو۔ دُنیا میں ایسے بے شمار لوگ ہیں جن کے پاس روپئے پیسے اور مال اسباب کی کمی نہیں مگر اُن کی زندگی میں سکون و اِطمینان نام کی کوئی چیز نہیں بلکہ وہ حقیقی خوشی و شادمانی کے لئے ترستے رہتے ہیں اور سکون و اِطمینان پانے کے لئے پانی کی طرح پیسہ بہا دیتے ہیں اور آرام و آسُودگی پھر بھی نصیب نہیں ہوتی۔

دوسری سچائی اور برکتِ عظیم یہ کہ ہم خدا کے بیٹے یسوع مسیح کو جانیں جس کو اُس نے ہمارے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کے لئے دُنیا میں بھیجا تاکہ ہم اُس پر اِیمان لا کر ہمیشہ کی زندگی پائیں۔ ممکن ہے کہ کوئی صادِق و راستباز ہے مگر دُنیاوی مال و دولت نہ ہونے کے سبب دُنیا کی نظر میں حقیر و غریب ہے لیکن یاد رکھئے کہ وہ خدا کے ہاں آسمانی برکات سے مالا مال اور آسُودہ ہے۔ اِسی لئے مسیح یسوع نے فرمایا، ’’مُبارک ہیں وہ جو راستبازی کے بُھوکے اور پیاسے ہیں کیونکہ وہ آسُودہ ہوں گے۔‘‘ (متی ۵:۶)

بائبل مُقدس میں تیسری سچائی یہ ہے کہ ایک دِن ہم سب خدا کے جلالی تخت کے سامنے حاضر ہوں گے اور وہاں ہماری دُنیاوی دولت و مال اسباب کے بارے میں نہیں بلکہ صرف ایک ہی سوال پوچھا جائے گا کہ کیا ہم نے صادِقوں اور راستبازوں میں شامل ہونے کے لئے مسیح یسوع پر اِیمان لا کر اپنے گناہوں سے توبہ، مُعافی و نجات پائی ہے؟ لہذا لازم ہے کہ ہم دُنیا کے مالداروں پر حسد کرنے کی بجائے اپنے حال پر غور کریں اور مسیح یسوع میں خدا کی راستبازی کو تلاش کریں اور جسمانی فانی چیزوں کے پیچھے مت بھاگیں کیونکہ خداوند خدا ہمارے مانگنے سے پہلے جانتا ہے کہ ہم کِن چیزوں کے مُحتاج ہیں۔

آئیے سُنتے ہیں کہ یسوع مسیح نے اِس بارے میں کیا فرمایا ہے، ’’پس جب خدا میدان کی گھاس کو جو آج ہے اور کل تنُور میں جُھونکی جائے گی ایسی پوشاک پہناتا ہے تو اَے کم اِعتقادو تم کو کیوں نہ پہنائے گا؟ اِس لئے فکر مند ہو کر یہ نہ کہو کہ ہم کیا کھائیں گے یا کیا پئیں گے یا کیا پہنیں گے؟ کیونکہ اِن سب چیزوں کی تلاش میں غیر قومیں رہتی ہیں اور تمہارا آسمانی باپ (یعنی خدا) جانتا ہے کہ تم اِن سب چیزوں کے مُحتاج ہو بلکہ تم پہلے اُس کی بادشاہی اور اُس کی راستبازی کی تلاش کرو تو یہ سب چیزیں بھی تم کو مِل جائیں گی۔‘‘ (متی ۶:۳۰-۳۳)

خدا کے ہاں، صادِق و راستباز ٹھہرنے کے لئے غریب یا امیر ہونا شرط نہیں۔ ایسا ہرگز نہیں کہ دولتمند خدا کی بادشاہی میں داخل نہیں ہو سکتے، دُنیا کا روپیہ پیسہ بذات خود بُرا نہیں بلکہ اُس کے ساتھ جڑی ہوئی جسمانی خواہشات ہیں جو ہمیں خدا کی بادشاہی و راستبازی سے رُوکے رکھتی ہیں۔ اور اِس کی بُنیادی وجہ یہ ہے کہ دولتمندوں کا دھیان خدا کی طرف نہیں بلکہ اپنے روپئے پیسے پر لگا ہوتا ہے اِسی لئے مسیح یسوع نے فرمایا، ’’کیونکہ جہاں تمہارا خزانہ ہے وہِیں تمہارا دِل بھی لگا رہے گا۔‘‘ (لوقا ۱۲:۳۴) ایک اَور مقام پر اُنہوں نے فرمایا، ’’کوئی آدمی دو مالِکوں کی خدمت نہیں کر سکتا کیونکہ یا تو ایک سے عداوت رکھے گا اور دوسرے سے محبت یا ایک سے مِلا رہے گا اور دوسرے کو ناچیز جانے گا۔ تم خدا اور دولت دونوں کی خدمت نہیں کر سکتے۔‘‘ (متی ۶:۲۴)

لُوقا کی اِلہامی اِنجیل میں ایک مالدار آدمی نے ہمیشہ کی زندگی پانے کے بارے میں مسیح یسوع سے سوال کِیا تو اُنہوں نے اُسے ایسا جواب دیا جو صادِق و راستباز ٹھہرنے سے متعلق ہماری بہت سی غلط فہمیاں دُور کر دے گا۔ ’’پھر کسی سردار نے اُس سے یہ سوال کِیا کہ اَے نیک اُستاد! مَیں کیا کروں تاکہ ہمیشہ کی زندگی کا وارث بنوں؟ یسوع نے اُس سے کہا، تُو مجھے کیوں نیک کہتا ہے؟ کوئی نیک نہیں مگر ایک یعنی خدا۔ تُو حکموں کو تو جانتا ہے، زنا نہ کر، خون نہ کر، چوری نہ کر، جھوٹی گواہی نہ دے، اپنے باپ کی اور ماں کی عزت کر۔ اُس نے کہا، مَیں نے لڑکپن سے اِن سب پر عمل کِیا ہے۔ یسوع نے یہ سُن کر اُس سے کہا، ابھی تک تجھ میں ایک بات کی کمی ہے، اپنا سب کچھ بیچ کر غریبوں کو بانٹ دے، تجھے آسمان پر خزانہ مِلے گا اور آ کر میرے پیچھے ہو لے۔ یہ سُن کر وہ بہت غمگین ہُوا کیونکہ بڑا دولتمند تھا۔ یسوع نے اُس کو دیکھ کر کہا کہ دولتمندوں کا خدا کی بادشاہی میں داخل ہونا کیسا مُشکل ہے! کیونکہ اُونٹ کا سُوئی کے ناکے میں سے نکل جانا اِس سے آسان ہے کہ دولتمند خدا کی بادشاہی میں داخل ہو۔ سُننے والوں نے کہا، تو پھر کون نجات پا سکتا ہے؟ اُس نے کہا، جو اِنسان سے نہیں ہو سکتا وہ خدا سے ہو سکتا ہے۔‘‘ (لوقا ۱۸:۱۸-۲۷)

شائد کچھ لوگ کہیں کہ مسیح یسوع نے اُسے یہ کیوں کہا کہ کوئی نیک نہیں مگر ایک یعنی خدا۔ درحقیقت مالدار آدمی پہچان ہی نہ سکا کہ وہ اِنسان کی صورت میں مجسم ہو کر زمین پر آنے والے خدائے واحد سے مخاطب ہے۔ جیسا کہ مسیح یسوع نے کہا، جو اِنسان سے نہیں ہو سکتا وہ خدا سے ہو سکتا ہے یعنی اِنسان اپنی محنت و کوشش سے نجات نہیں پا سکتا۔ اِس کے لئے لازم ہے کہ پہلے ہم مسیح یسوع میں خدا کی نجات و راستبازی کو تلاش کریں۔ جیسے زکائی نامی ایک مالدار شخص نے مسیح خداوند میں نجات کو پہچان لیا لیکن بھیڑ کے سبب اُس کو دیکھ نہ سکتا تھا کیونکہ اُس کا قد چھوٹا تھا۔ اُس کے اندر نجات و راستبازی پانے اور صادِقوں کی راہ پر چلنے کا جذبہ اِتنا زیادہ تھا کہ وہ نجات دہندے کو دیکھنے کے لئے ایک درخت پر چڑھ گیا، مگر جب بھیڑ میں سے مسیح یسوع کی نظر نجات کے متلاشی زکائی پر پڑی تو اُنہوں نے اُس سے کہا، ’’…اَے زکائی جلد اُتر آ کیونکہ آج مجھے تیرے گھر رہنا ضرور ہے۔ وہ جلد اُتر کر اُس کو خوشی سے اپنے گھر لے گیا۔ جب لوگوں نے یہ دیکھا تو سب بُڑبُڑا کر کہنے لگے کہ وہ تو ایک گنہگار شخص کے ہاں جا اُترا۔‘‘ (لوقا ۱۹:۵-۷) دولتمند سردار ہمیشہ کی زندگی پانے کے لئے اپنی دولت کو چھوڑنا نہیں چاہتا تھا اِسی لئے مسیح یسوع کی پیروی کرنے سے غمگین ہُوا لیکن دوسری طرف زکائی بھی دولتمند تھا مگر وہ نجات و ہمیشہ کی زندگی پانے کے ترس رہا تھا، ’’…اَے خداوند، دیکھ مَیں اپنا آدھا مال غریبوں کو دیتا ہوں اور اگر کسی کا کچھ ناحق لے لیا ہے تو اُس کو چَوگنا ادا کرتا ہوں۔ یسوع نے اُس سے کہا، آج اِس گھر میں نجات آئی ہے۔ اِس لئے کہ یہ بھی ابرہام کا بیٹا ہے کیونکہ ابنِ آدم کھوئے ہُوئوں کو ڈھونڈنے اور نجات دینے آیا ہے۔‘‘ (لوقا ۱۹:۸-۱۰)

کیا آپ چاہتے ہیں مسیح یسوع آپ کے دِل میں اُتر کر آپ کو نجات کی خوشخبری سُنائے؟ آج آپ کو زکائی کی طرح خداوند مسیح کو دیکھنے اور نجات پانے کے لئے کسی درخت پر چڑھنے، اور نہ ہی کسی سفارش یا خوشامد کی ضرورت ہے بلکہ وہ تو خود آپ کے پاس، آپ کے گھر میں نجات بن کر آنا چاہتا ہے۔ ــ’’آج اِس گھر میں نجات آئی ہے۔‘‘ شائد آپ اِس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ آپ اپنے رویوں کو تبدیل کِئے بغیر دِن رات کی خوشامد سے نجات پا سکتے ہیں، تو ایسا ہرگز نہیں کیونکہ خدا خوشامد پسند نہیں کرتا۔

جی ہاں، خدا خوشامد پسند نہیں کرتا، اور خدا کی یہی وہ خصوُصیت ہے جس کا ہم اپنے اگلے پروگرام میں ذِکر کریں گے، سُننا مت بُھولئیے گا۔