Skip to content

خدا خوشامد پسند نہیں کرتا

Posted in خُدا کی تلاش

خوشامد یا چاپلُوسی کو ہمارے ہاں کوئی عیب نہیں سمجھا جاتا بلکہ اُلٹا جب کوئی ہماری خوشامد یا چاپلُوسی کرتا ہے تو ہم خوشی سے پُھولے نہیں سماتے، تو سوال یہ ہے کہ کیا کسی کی تعریف کرنا یا کسی کو سراہنا بُری بات ہے؟ ہرگز نہیں۔مگر پھر بھی ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ خوشامد و چاپلُوسی اور تعریف و سراہنا میں بُنیادی فرق کیا ہے۔ اگر ہم اُٹھتے بیٹھتے کسی کی بے جا و بے مقصد تعریفوں کے پُل باندھنا شروع کر دیں تو یہ صریحاً خوشامد و چاپلُوسی ہے، اِس کے پیچھے ہمارا کا کوئی نہ کوئی مقصد، غرض یا مُفاد ضرور چھپا ہوتا ہے، مگر دوسری طرف اگر ہم کسی کی تعریف دِل کی اَتھاہ گہرائیوں سے کرتے ہیں جس کا مقصد سراہنا اور حوصلہ دینا ہو تو یہ بُری بات نہیں۔ یوں کہہ لیں کہ بامقصد تعریف سے سُننے والے کا اور بے مقصد خوشامد سے خوشامدی کا فائدہ ہوتا ہے۔اِسی لئے کچھ لوگ بس خوشامد سے ہی اپنا کام چلاتے ہیں کیونکہ اُن کے نزدیک ذاتی فائدہ اُٹھانے کا اِس سے بہتر کوئی اَور راستہ نہیں ہو سکتا۔

یہ تو ہو گئی دُنیاداری کی بات، آئیے اَب دیکھتے ہیں کہ خداوند خدا خوشامد کو کِس نظر سے دیکھتا ہے۔ کیا خدا بھی خوشامد پسند کرتا ہے؟ بالکل نہیں، خدا خوشامد پسند نہیں کرتا بلکہ خوشامد خدا کے نزدیک شرارت اور گناہ ہے، ’’کیونکہ اُن کے منہ میں ذرا سچائی نہیں، اُن کا باطِن محض شرارت ہے۔ اُن کا گلا کھلی قبر ہے، وہ اپنی زبان سے خوشامد کرتے ہیںـ۔‘‘ (زبور ۵:۹) خدا کی نظر میں خوشامدی زبان مَکر و جھوٹ سے بھری ہوتی ہے، جیسا کہ زندہ اِلہامی کلام میں لکھا ہے، ’’لیکن اُنہوں نے اپنے منہ سے اُس کی خوشامد کی اور اپنی زبان سے اُس سے جھوٹ بولا۔‘‘ (زبور ۷۸:۳۶) خوشامد ایک ایسا جال ہے جس کی دبُوچ میں کوئی بھی آ سکتا ہے، خواہ کوئی رشتہ و تعلق ہو یا ہمسایہ لہذا ہمیں چاہیے کہ خدا کے اِس فرمان کو ہمیشہ یاد رکھیں، ’’جو اپنے ہمسایہ کی خوشامد کرتا ہے، اُس کے پائوں کے لئے جال بچھاتا ہے۔‘‘ (امثال ۲۹:۵)

اور اَب آئیے دیکھتے ہیں کہ خدا خوشامد کا گناہ کرنے والوں کو کیسی سنگین سزا دے گا۔ ’’خداوند سب خوشامدی لبوں کو اور بڑے بول بولنے والی زبان کو کاٹ ڈالے گا۔‘‘ (زبور ۱۲:۳) اَب سوال یہ ہے کہ خدا خوشامدی لبوں سے اِتنی نفرت کیوں کرتا ہے؟ خوشامد کرنے والی زبان شیطان کا ایسا زہر ہے جس میں بڑی مکاری و عیاری سے خوشبو و مِٹھاس بھری ہوتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ خوشامدی کا دِل و دماغ شیطان کے مکمل قبضہ میں ہوتا ہے اِسی لئے خدا کو اُس سے اِتنی شدید نفرت ہے۔ خدا کے لوگ جو پاک رُوح سے بھرے ہوتے ہیں خوشامد کے مَکر و فریب میں نہیں آتے بلکہ اُس سے دُور بھاگتے ہیں۔ اِسی لئے پولس رسول خدا کے پاک رُوح میں یہ اِقرار و دعویٰ کرتا ہے کہ ’’کیونکہ تم کو معلوم ہی ہے کہ نہ کبھی ہمارے کلام میں خوشامد پائی گئی نہ لالچ کا پردہ بنا۔ خدا اِس کا گواہ ہے۔‘‘ (۱-تھسلنیکیوں۲:۵) آج بہت سے مسیحی بھی ایسے ہیں جو خوشامد و چاپلُوسی سے بہت خوش ہوتے ہیں۔ جب کوئی اُن کی بے جا تعریف کرتا اور خوشامدی لہجہ اپناتا ہے تو وہ بُرا نہیں مناتے بلکہ فخر محسوس کرتے ہیں، اور یوں وہ گھمنڈ و تکبر کے گناہ میں پھنس جاتے ہیں۔ یہ کمزوری مذہبی راہنمائوں میں کچھ زیادہ ہی ہوتی ہے۔ اُنہوں نے اپنے اِرد گرد ایسا خوشامدی ٹولہ رکھا ہوتا ہے جو اُٹھتے بیٹھتے اُن کی تعریفوں کے پُل باندھتا رہتا ہے تاکہ لوگوں کے سامنے اُن کی قابلیت و اہلیت اور عزت و دبدبہ بڑھتا رہے، مگر وہ نہیں جانتے کہ اُن کے اِس فخر و غرور سے خدا کا پاک رُوح رنجیدہ ہوتا ہے اور اِلٰہی خدمت کا کام کمزور پڑ جاتا ہے۔

کلیسیائوں اور خدمتی اِداروں میں کچھ خوشامدی ایسے ہوتے ہیں جو اپنے پاسبان و راہنما کی اِس کمزوری کو خوب اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ یہ خوشامد و چاپلُوسی پسند کرتا ہے لہذا وہ تعریف و حوصلہ کی آڑ میں فخر و تکبر کا بیج بُوتے رہتے ہیں تاکہ اپنے دُنیاوی مقاصد کو پورا کریں۔ اور جب دینی راہنما کے اندر فخر و تکبر کی آگ بھڑک اُٹھتی ہے تو وہ اِلٰہی خدمت کے قابل نہیں رہتا بلکہ اپنی نیکنامی چاہتا اور فخر محسوس کرتا ہے۔ پولس رسول اِلہامی کلام میں کہتا ہے، ’’غرض جو فخر کرے وہ خداوند پر فخر کرے کیونکہ جو اپنی نیکنامی جتاتا ہے وہ مقبول نہیں بلکہ جس کو خداوند نیکنام ٹھہراتا ہے وہی مقبول ہے۔‘‘ (۲-کرنتھیوں۱۰:۱۷-۱۸) پولس ایک اَور مقام پر اِسی بارے میں کہتا ہے، ’’لیکن خدا نہ کرے کہ مَیں کسی چیز پر فخر کروں سِوا اپنے خداوند یسوع مسیح کی صلیب کے جس سے دُنیا میرے اِعتبار سے مصلُوب ہوئی اور مَیں دُنیا کے اِعتبار سے۔‘‘ (گلتیوں ۶:۱۴)

مگر صلیب ہے کیا؟ صلیب حلیمی و فروتنی، صبر و محبت، اِیثار و قربانی، فدیہ و کفارہ اور نجات و بحالی کا نشان ہے کیونکہ خداوند خدا خود اپنے بیٹے یسوع مسیح میں اِنسان بن کر دُنیا میں آیا اور صلیب پر قربان ہو گیا تاکہ ہم گناہگاروں کو ابدی ہلاکت سے بچا کر اِبدی زندگی میں لائے۔ پطرس رسول خدا کے پاک اِلہامی کلام میں کہتا ہے، ’’وہ (یعنی مسیح) آپ ہمارے گناہوں کو اپنے بدن پر لئے ہوئے صلیب پر چڑھ گیا تاکہ ہم گناہوں کے اِعتبار سے مر کر راستبازی کے اِعتبار سے جئیں اور اُسی کے مار کھانے سے تم نے شفا پائی کیونکہ پہلے تم بھیڑوں کی طرح بھٹکتے پِھرتے تھے مگر اَب اپنی رُوحوں کے گلہ بان اور نگہبان کے پاس پِھر آ گئے ہو۔‘‘ (۱-پطرس ۲:۲۴) ایک اَور مقام پر لکھا ہے، ’’اِس لئے کہ مسیح نے بھی یعنی راستباز نے ناراستوں کے لئے گناہوں کے باعث ایک بار دُکھ اُٹھایا تاکہ ہم کو خدا کے پاس پہنچائے۔ وہ جسم کے اِعتبار سے تو مارا گیا لیکن رُوح کے اِعتبار سے زندہ کِیا گیا۔‘‘ (۱-پطرس ۳:۱۸) لہذا اگر ہمیں فخر کرنا ہی ہے تو مسیح خداوند کی اُس قربانی پر فخر کریں جو اُس نے صلیب پر ہمارے گناہوں کی خاطر دی اور جس کے وسیلہ سے آج ہم ہمیشہ کی زندگی کے وارث ہیں۔

اور اَب سوال یہ ہے کہ کیا مسیح یسوع نے بھی خوشامد و چاپلُوسی کرنے والوں کا سامنا کِیا؟ جی بالکل، مسیح خداوند کو بھی خوشامدیوں اور مکاروں نے چالبازی سے جال میں پھنسانے کی کوشش کی۔ مسیح کے زمانہ میں یہودی دینی عالم ریاکار و مُنافق تھے جو محض دِکھاوے کے نیک و راستباز تھے مگر اُن کے دِل میں مسیح یسوع کے خلاف بغض بھرا ہُوا تھا لہذا وہ اِسی کوشش میں رہتے تھے کہ کسی طرح اُسے اپنے جال میں پھنسائیں۔ ’’پھر اُنہوں نے بعض فریسیوں اور ہیرودیوں کو اُس کے پاس بھیجا تاکہ باتوں میں اُس کو پھنسائیں۔ اور اُنہوں نے آ کر اُس سے کہا، اَے اُستاد ہم جانتے ہیں کہ تُو سچا ہے اور کسی کی پروا نہیں کرتا کیونکہ تُو کسی آدمی کا طرفدار نہیں بلکہ سچائی سے خدا کی راہ کی تعلیم دیتا ہے۔ پس قیصر کو جِزیہ دینا روا ہے یا نہیں؟ ہم دیں یا نہ دیں؟ اُس نے اُن کی ریاکاری معلوم کر کے اُن سے کہا، تم مجھے کیوں آزماتے ہو؟ میرے پاس ایک دِینار لائو کہ مَیں دیکھوں۔ وہ لے آئے۔ اُس نے اُن سے کہا، یہ صُورت اَور نام کِس کا ہے؟ اُنہوں نے اُس سے کہا، قیصر کا۔ یسوع نے اُن سے کہا جو قیصر کا ہے قیصر کو اور جو خدا کا ہے خدا کو ادا کرو۔ وہ اُس پر بڑا تعجب کرنے لگے۔‘‘ (مرقس ۱۲:۱۳-۱۷)

قیصر ایک رُومی حکمران تھا جس کی آڑ میں دینی راہنما مسیح یسوع کو پھنسانے کی کوشش کر رہے تھے۔ ذرا اِن کی ریاکاری و مکاری کا اندازہ لگائیے کہ وہ کِس طرح خوشامدی الفاظ اِستعمال کر کے مسیح کے گرد اپنا جال بُن رہے تھے۔ اگر وہ اِتنے ہی سچے ہوتے اور دِل سے تسلیم کرتے کہ مسیح یسوع ہی ہے جس کا خدا نے صحائفِ انبیا میں دُنیا میں آنے کا وعدہ کِیا تھا تو وہ اُس کے قدموں میں بیٹھ کر تابعداری و وفاداری سے اُس کی تعلیم و کلام کو سُنتے، اور خوشامد و چاپلُوسی نہ کرتے، لیکن مسیح خداوند اُن کی چال کو خوب سمجھتے تھے، اِسی لئے اُنہوں کو ایسا جواب دیا کہ وہ شرمندگی سے ایک دوسرے کا مُنہ دیکھتے رہ گئے۔

ہم اِنسان خوشامدی الفاظ سُن کر خوش ہوتے ہیں کیونکہ ہمارے اندر کا تکبر، فخر و غرور ہمیں خوشامدانہ جال میں پھنسنے پر مجبور کرتا ہے اور ویسے بھی ہم اپنے آپ کو غیرمحفوظ سمجھتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں لوگ ہماری واہ واہ کریں، ہم تو یہ بھی نہیں جانتے ہوتے کہ وہ ہمیں پسند کرتے ہیں یا نہیں۔ لیکن مسیح یسوع کے اندر حلیمی و فروتنی تھی وہ اپنے آپ کو کسی طرح سے بھی غیرمحفوظ نہیں سمجھتے تھے اور نہ ہی لوگوں کی طرفداری، پسند ناپسند اُن کے لئے کوئی اہمیت رکھتی تھی۔ وہ جانتے تھے کہ اگر وہ یہ کہیں کہ ہاں رُومی حکومت کو ٹیکس دینا چاہیے تو یقیناً لوگ اُن کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں گے کیونکہ وہ رُومیوں کو ٹیکس نہیں دینا چاہتے تھے، اگر مسیح یسوع دینی راہنمائوں کے جال میں پھنس جاتے کہ ہاں رُومی حکومت کو ٹیکس مت دیں تو حکمران خلاف ہو جاتے، لہذا مسیح یسوع دینی راہنمائوں کے سوال کے جواب میں دونوں صُورتوں میں پھنس جاتے۔ رُومی سِکہ رُومی حکومت نے جاری کر رکھا تھا، جس کے عوض لوگ حکومت کو ٹیکس ادا کرتے تھے۔ اِس کے علاوہ مسیح یسوع یہ بھی جانتے تھے ٹیکس اور سیاست کے معاملات کی خدا کی بادشاہی میں قطعی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اِسی لئے اُنہوں نے ریاکار مذہبی لیڈروں کو جواب دیا کہ ’’جو قیصر کا ہے قیصر کو اور جو خدا کا ہے خدا کو ادا کرو۔‘‘ خدا کو ادا کرنے سے مسیح کا مطلب یہ تھا کہ ہم اِنسان خدا کی شبیہ پر پیدا کِئے گئے ہیں لہذا ہمیں اپنے آپ کو خدا کے تابع کرنا چاہیے۔

جس طرح مسیح خداوند نے یہودی دینی راہنمائوں کو جواب دیا اُسی طرح ہمیں بھی چاہیے کہ پوری سچائی و حکمت سے خوشامدیوں کو پہچان کر ایسا جواب دیں کہ وہ شرمندہ ہو جائیں۔ بِلا شک و شبہ خوشامد و چاپلُوسی بظاہر تعریف و حوصلہ لگتی ہے مگر اِس کے اندر مَکر و جھوٹ چھپا ہوتا ہے۔ سچی محبت کبھی خوشامد سے کام نہیں لیتی اور حکمت خوشامدی کو اُسی سچائی سے جواب دیتی ہے جیسا مسیح یسوع نے دینی راہنمائوں کو دیا۔ یہ بھی یاد رہے کہ گناہ نہ تو محبت ہے اور نہ ہی حکمت۔ اِسی لئے ہم جو گناہ میں زندگی بسر کرتے ہیں خوشامد و چاپلُوسی کے جال میں جلدی پھنس جاتے ہیں، لہذا ہمیں چاہیے اِس سنگین گناہ سے بچیں، اور نہ خوشامد سُنیں، نہ کریں۔ اِسی سے ملتا جلتا گناہ غیبت بھی ہے جِسے ہم کوئی خاص اہمیت نہیں دیتے بلکہ جب موقع مِلتا ہے دوسروں کی غیبت، عیب جوئی اور بدگوئی کرتے ہیں حالانکہ خدا غیبت و عیب جوئی پسند نہیں کرتا۔

جی ہاں، خدا غیبت و عیب جوئی پسند نہیں کرتا، اور خدا کی یہی وہ خصوُصیت ہے جس کا ہم اپنے اگلے پروگرام میں ذِکر کریں گے ضرور سُنئیے گا۔