Skip to content

خدا ہمیں پاک دِل بخشتا ہے

Posted in خُدا کی تلاش

یہ دِل بھی کتنا حِیلہ باز اور لاعلاج ہے کہ ہم اِنسانوں سے کیسے کیسے کام کرواتا ہے، اور دِل میں دِل میں سوچتے ہیں کہ ہم نے دِل کی بات کیوں مانی۔ یہ دِل ہی ہے جو ہمیں ناپاکی اور گناہ کی طرف دھکیلتا ہے اور ہم آنکھیں بند کر کے لڑھکتے چلے جاتے ہیں۔ ہماری نظر سے روزانہ ایسی خبریں گزرتی ہیں جن کو سُن، پڑھ اور دیکھ کر ہم دِل پکڑ کر رہ جاتے ہیں، ایسے ایسے جرائم، ایسے ایسے مکروہ اور گھنائونے کام کہ رُوح کانپ اُٹھتی ہے۔ کہیں چھوٹے چھوٹے معصُوم بچوں کے ساتھ بدفعلی اور قتل، کہیں عورتوں کے ساتھ ظلم و بربریت، کبھی یہاں طلاق اور کبھی وہاں طلاق، کبھی یہاں جھگڑا اور کبھی وہاں جھگڑا، کبھی یہاں رنگ رلیاں اور کبھی وہاں رقص و سرُور کی محفلیں، کبھی اِدھر پولیس کے چھاپے اور کبھی اُدھر چھاپے، دِن دیہاڑے ڈاکے، چوریاں، اغوا، مِلاوٹ، فراڈ دُھوکا؛ دیرینہ دُشمنی کا ایسا بدلہ کہ ایک ہی خاندان کے چھ سات افراد گولیوں سے چھلنی، شہر کی مصرُوف ترین سڑک کے کنارے اُلٹے سیدھے پڑے نشے میں مدہُوش اِنسان، ہوٹلوں کے باہر شراب پینے اور بیچنے والوں کا ہجوم، کوئی کسی کی جیب کاٹ کر وہ بھاگا اور کوئی موٹر سائیکل سوار کسی کا ہینڈ بیگ، موبائل فون، کانوں کی بالیاں اور گلے کا ہار چھینتا کھینچتا ہُوا فرار۔ کہیں کسی عبادت گاہ پر ہلا بولتا ہُوا ڈنڈا بردار ہجوم اور کہیں کسی معصُوم پر بے حُرمتی کا بہتان لگا کر سزائے موت کا مطالبہ۔

یہ سب کیا ہے؟ یہ ہیں حِیلہ باز اور لاعلاج دِل کے مکروہ کام جن کو دیکھ کر خدا ملُول و غم زدہ ہوتا ہے اور ہمیں اپنے حضُور سے خارج کر دیتا ہے۔ خدا کے پیارے اور چُنے ہوئے نیک بندے دائود نبی کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہُوا، اُس کے دِل میں بُرے خیال پیدا ہوئے اور اُس نے وہ کام کِیا جو خدا کی نظر میں مکروہ تھا، مگر جب اُسے اپنے گناہ کا احساس ہُوا تو اُس نے خدائے رحیم و غفور کی بارگاہ میں یوں اِلتجا کی، ’’میرے گناہوں کی طرف سے اپنا مُنہ پھیر لے اور میری سب بدکاری مِٹا ڈال۔ اَے خدا! میرے اندر پاک دِل پیدا کر، اور میرے باطِن میں از سَرِ نَو مُستقیم رُوح ڈال۔‘‘ (زبور ۵۱:۹-۱۰) دائود نبی ایک اَور مقام پر کہتا ہے، ’’خداوند کے پہاڑ پر کون چڑھے گا اور اُس کے مُقدس مقام پر کون کھڑا ہو گا؟ وہی جس کے ہاتھ صاف اور جس کا دِل پاک ہے، جس نے بطالت پر دِل نہیں لگایا اور مَکر سے قَسم نہیں کھائی، وہ خداوند کی طرف سے برکت پائے گا۔ ہاں، اپنے نجات دینے والے خدا کی طرف سے صداقت۔‘‘ (زبور ۲۴:۳-۵) اور پھر لکھا ہے، ’’اپنے دِل کی خوب حفاظت کر کیونکہ زندگی کا سَرچشمہ وہی ہے۔ (امثال۴:۲۳)

اَب سوال یہ ہے کہ ہم اپنے دِل کی حفاظت کیسے کریں؟ ہم اِنسان تو وہ ہیں جو باغِ عدن میں بھی خدا کے احکام و کلام کو بُھول گئے اور دِل کے ہاتھوں مجبور ہو کر نافرمانی سے باز نہ آئے، ہمارا دِل خوشنما پھل دیکھ کر قابو میں نہ رہا اور زندگی کو کھو کر موت کو گلے لگا بیٹھا۔ اور اِنسان گناہ میں اِس قدر گر گیا کہ اپنی تخلیق کو جِسے خدا نے اپنی شبیہ پر بنایا تھا، رنجیدہ ہُوا کیونکہ خدا اپنی مخلوق سے دُوری نہیں چاہتا تھا۔ آئیے بائبل مُقدس کی پہلی اِلہامی کتاب پیدایش میں دیکھتے ہیں کہ خدا نے اِنسان کو گناہ کی پستیوں میں گرتا ہُوا دیکھ کر کیا محسوس کِیا، ’’اور خداوند نے دیکھا کہ زمین پر اِنسان کی بدی بہت بڑھ گئی اور اُس کے دِل کے تصور اور خیال سدا بُرے ہی ہوتے ہیں۔ تب خداوند زمین پر اِنسان کو پیدا کرنے سے ملول ہُوا اور دِل میں غم کِیا۔‘‘ (پیدایش ۶:۵-۶) ذرا غور فرمائیے کہ اِنسان ’’کے دِل کے تصور اور خیال سدا بُرے ہی ہوتے ہیں۔‘‘ خداوند خدا نے ہمارے دِل کے بارے میں جو فرمایا وہ بالکل سچ ہے۔ دُور کیا جانا، آئیے اپنے دِل میں جھانک کر دیکھیں تو احساس ہو گا کہ ہمارے دِل میں فَتنوں، فسادوں، ناچاقیوں، جھوٹوں، نافرمانیوں، دُشمنیوں، خونریزیوں، اِنتقاموں، حِرصوں، بغضوں، مَکاریوں، چوریوں، شہوتوں، ہَوسوں، گھمنڈوں، بدکاریوں، غرض بُری خواہشوں کا ایک طوفان چھپا ہے۔ اِسی لئے خداوند خدا فرماتا ہے، ’’دِل سب چیزوں سے زیادہ حیلہ باز اور لاعلاج ہے، اُس کو کون دریافت کر سکتا ہے؟‘‘ (یرمیاہ ۱۷:۹)

خدا ہمارے دِل کو ناپاک اور لاعلاج نہیں دیکھنا چاہتا بلکہ چاہتا ہے ہم اُس کے آئین، احکام و کلام کو اپنے دل میں جگہ دیں اور اُس نافرمانی کو نہ دہرائیں جس کے سبب سے ہم اُس کے حضُور سے خارج کر دئے گئے۔ خدا ہم سب کا تخلیق کار، ہمارا آسمانی باپ ہے، خواہ کوئی مَرد ہے یاعورت، خواہ ہم دُنیا کے کسی بھی حِصے میں کیوں نہ رہتے ہوں، خواہ مسیحی ہوں یا غیر مسیحی، آئیے اپنے دِل کو ہر طرح کے شک، تعصب و کدُورت سے دُور رکھ کر خدا کی محبت و غم اور درد و مَلال سے بھرپور آواز سُنیں، اَے میرے بیٹے اور بیٹی! ’’…اپنا دِل مجھ کو دے اور میری راہوں سے تیری آنکھیں خوش ہوں۔‘‘ (امثال ۲۳:۲۶)

خدا صرف ہمارا دِل ہی نہیںبلکہ ہماری سوچ و خیال بلکہ ہمارے وجود کا ایک ایک حصہ مانگ رہا ہے تاکہ ہمیں سَر سے پائوں اور جسم سے رُوح تک پاک و مُقدس کرے۔ خداوند خدا اپنے زندہ اِلہامی کلام میں فرماتا ہے، ’’اور مَیں تم کو نیا دِل بخشوں گا اور نئی رُوح تمہارے باطن میں ڈالوں گا اور تمہارے جسم میں سے سنگین دِل کو نکال ڈالوں گا اور گوشتین دِل تم کو عنایت کروں گا، اور مَیں اپنی رُوح تمہارے باطن میں ڈالوں گا اور تم سے اپنے آئین کی پیروی کرائوں گا اور تم میرے احکام پر عمل کرو گے اور اُن کو بجا لائو گے۔‘‘ (حزقی ایل ۳۶:۲۶-۲۷) بے شک خدا کا ہر وفادار بندہ اپنے دِل کی گناہ آلودہ حالت دیکھ کر حلیمی و تابعداری سے خدا کی آواز سُنتا اور کہتا ہے، ’’مَیں نے تیرے کلام کو اپنے دِل میں رکھ لیا ہے تاکہ مَیں تیرے خلاف گناہ نہ کروں۔ اَے خداوند! تُو مُبارک ہے، مجھے اپنے آئین سِکھا۔‘‘ (زبور۱۱۹:۱۱-۱۲)

اَب ذرا خدا کی اپنی تخلیق سے محبت دیکھئے کہ وہ اپنے آئین، احکام و کلام سِکھانے اپنے بیٹے یسوع مسیح میں مجسم ہو کر خود دُنیا میں آیا تاکہ ہم اُس کے حضور سے خارج نہ ہوں بلکہ پاس آئیں۔ یہ وہی نجات دہندہ اور سلامتی کا شہزادہ ہے جس کے بارے میں نبیوں نے صدیوں پہلے پیشین گوئی کرتے ہوئے کہا، ’’لیکن خداوند آپ تم کو ایک نشان بخشے گا، دیکھو ایک کُنواری حاملہ ہو گی اور بیٹا پیدا ہو گا اور وہ اُس کا نام عِمانوایل رکھے گی۔‘‘ (یسعیاہ ۷:۱۴) اَور یسعیاہ نبی ہی کے صحیفہ میں ایک بار پھر مسیح یسوع کے بارے میں یوں پیشین گوئی کی گئی ہے، ’’اِس لئے ہمارے لئے ایک لڑکا تُولد ہُوا اور ہم کو ایک بیٹا بخشا گیا اور سلطنت اُس کے کندھے پر ہو گی اور اُس کا نام عجیب مُشیر خدایِٴ قادِر اَبدیت کا باپ، سلامتی کا شاہزادہ ہو گا۔ اُس کی سلطنت کے اِقبال اور سلامتی کی کچھ اِنتہا نہ ہو گی۔ وہ دائود کے تخت اور اُس کی مملکت پر آج سے اَبد تک حکمران رہے گا اور عدالت اور صداقت سے اُسے قیام بخشے گا۔ رَب اُلافواج کی غیوری یہ کرے گی۔‘‘ (یسعیاہ ۹:۶-۷)

اَب سوال یہ ہے کہ خدا کو اپنے بیٹے کی صورت زمین پر آنے کی ضرورت محسوس کیوں ہوئی؟ اِس لئے کہ خدا کے علاوہ کوئی ایسا پاک اور مُقدس نہیں تھا جو بنی نوع اِنسان کے گناہوں کا کفارہ ادا کرتا۔ گناہگار کے گناہوں کا فدیہ وہی دے سکتا ہے جو خود بے گناہ ہو یعنی جس نے کبھی گناہ کِیا ہی نہ ہو۔ خدائے قادرِ مُطلق کی نظر میں کوئی بھی نہیں تھا جو گناہگار اِنسان کے ناپاک دِل کو اپنے پاک خون سے دُھو کر ہمیشہ کے لئے مُقدس کرتا تاکہ پھر خدا کے خلاف گناہ نہ کرے۔ اِسی لئے خدا خود ہمارے گناہوں کا بُوجھ اپنے کندھے پر لئے صلیب پر قربان ہو گیا، دفن ہُوا اور پھر اپنے کہنے کے مطابق تیسرے دِن مُردوں میں سے جی اُٹھا۔ آج بہت سے لوگ مسیح یسوع کی اِس لاثانی، عظیم و افضل قربانی کا اِنکار کر کے خدا کی حضُوری و قُربت میں رہنے کے لئے رات دِن ہاتھ پیر مارتے ہیں مگر نہیں جانتے کہ جب تک ہمارا دِل خدا کی صلیبی قربانی کے خون سے دُھل کر گناہوں سے پاک نہیں ہو گا ہم مُقدس خدا کی حضُوری و قُربت میں رہنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔

آئیے دیکھتے ہیں کہ خداوند یسوع مسیح نے اِس بارے میں کیا فرمایا، ’’مُبارک ہیں وہ جو پاک دِل ہیں کیونکہ وہ خدا کو دیکھیں گے۔‘‘ (متی ۵:۸) اِس کا مطلب یہ ہُوا کہ جب تک ہمارا دِل ناپاک ہے ہم پاک خدا کو نہیں دیکھ سکتے یعنی اُس کی حضُوری و قُربت نہیں پا سکتے۔ ہمیں چاہیے کہ دائود نبی کی طرح اپنے گناہوں سے توبہ کریں، مُعافی مانگیں اور آنسو بہا بہا کر خدا کے حضُور اِلتجا کریں کہ ’’اَے خدا! اپنی شفقت کے مطابق مجھ پر رحم کر، اپنی رحمت کی کثرت کے مطابق میری خطائیں مِٹا دے۔ …میرے گناہوں کی طرف سے اپنا منہ پھیر لے اور میری سب بدکاری مِٹا ڈال۔ اَے خدا! میرے اندر پاک دِل پیدا کر اور میرے باطن میں اَز سَرِ نَو مُستقیم رُوح ڈال۔ مجھے اپنے حضور سے خارج نہ کر اور اپنی پاک رُوح کو مجھ سے جُدا نہ کر۔ اپنی نجات کی شادمانی مجھے پھر عنایت کر اور مُستعد رُوح سے مجھے سنبھال۔‘‘ (زبور ۵۱:۱، ۹-۱۲) اور جب خدا ہمارے گناہ مُعاف کر کے ہمیں اپنی نجات کی شادمانی بخشتا ہے تو ہم بھی دائود نبی کی طرح اپنے خداوند خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے اپنی خوشی کا یوں اِظہار کرتے ہیں، ’’مُبارک ہے وہ جس کی خطا بخشی گئی اور جس کا گناہ ڈھانکا گیا۔ مُبارک ہے وہ آدمی جس کی بدکاری کو خداوند حساب میں نہیں لاتا اور جس کے دِل میں مَکر نہیں۔‘‘ (زبور ۳۲:۱-۲)

آئیے اپنے گناہوں سے معافی و نجات پا کر خداوند خدا کا شکر ادا کریں کہ اُس نے مسیح یسوع کے وسیلہ ہمارے گناہ بخش دیئے اور ہمیں اپنی حضُوری و قُربت میں رہنے کا بیش قیمت موقع دیا تاکہ ہم پاک خدا کو پاک دِل کے ساتھ دیکھ سکیں۔ آئیے اِس شفقت و مہربانی اور نعمت و برکت کے لئے خداوند خدا کے شکرگزار ہوں کیونکہ خدا شکرگزاری پسند کرتا ہے۔

جی ہاں، خدا شکرگزاری پسند کرتا ہے، اور خدا کی یہی وہ خصوُصیت ہے جس کا ہم اپنے اگلے پروگرام میں ذِکر کریں گے، ضرور سُنئیے گا۔