Skip to content

خدا کامِل خدا ہے

Posted in خُدا کی تلاش

آج دُنیا میں بہت سے لوگ نیک، پارسا و کامِل ہونے کا دعویٰ تو کرتے ہیں مگر درحقیقت نیکی، پارسائی و کاملیت اُن کے قریب سے بھی نہیں گزری ہوتی۔ ہاں، دُنیا کے سامنے اُنہوں نے اپنی پارسائی کا لبادہ ضرور اُوڑھا ہوتا ہے مگر اندر وہی جسمانی خواہشات سے بھرا ہُوا دِل ہوتا ہے جو اُن کی مُنافقت و ریاکاری کو کسی نہ کسی رنگ میں ظاہر کر ہی دیتا ہے۔ ہم اِنسان اِتنے بدبخت ہیں کہ اپنی راہوں کو سنوارنے کی بجائے لوگوں میں نیکیاں، اچھائیاں، راستبازیاں اور پارسائیاں ڈھونڈتے ہیں اور خود ہی ایک معیار بنا کر اُن کے پیچھے چل پڑتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں نہ تو پیروں، فقیروں، درویشوں، کامِلوں کی کمی ہوتی ہے اور نہ ہی ہم کمی ہونے دیتے ہیں کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ نیک و کامِل پہنچے ہوئے بزرگ چِلے کاٹ کاٹ کر کاملیت کو چُھو چکے ہیں لہذا جب ہم اِن سے کوئی بھی دُعا، منت یا مُراد مانگیں گے تو وہ فوراً سُنی جائے گی مگر جب ایک دِن اخبار، ٹیلی ویثرن یا سوشل میڈیا پر اُن کے شیطانی کرتُوت سامنے آتے ہیں تو پھر پچھتاتے ہیں کہ اُو ہو، ہم جِسے نیک و کامِل سمجھ رہے تھے وہ تو سَر سے پائوں تک جعلی اور ہَوس کا پُجاری ہے۔ یہ ہے ہم اِنسانوں کا نیکی، پارسائی، پاکیزگی اور کاملیت کو جانچنے پرکھنے کا معیار، ظاہر ہے جب ہمارا اپنا اخلاقی معیار کمزور و پست ہو گا تو ہم اپنے لئے ایسے ہی جعلی کامِل ڈھونڈیں گے جو ہماری اخلاقی سوچ کو مزید تباہ و برباد کر دیں۔

اور اَب سوال یہ ہے کہ کیا ہم کامِل کا مطلب سمجھتے ہیں کہ کامِل ہے کیا؟ کامِل کا مطلب ہے وہ جو بے داغ، بے گناہ، ہر طرح کی کمزوری سے پاک اور اپنے ہر فعل و عمل میں کاملیت رکھتا ہو خواہ اُس کی راستبازی و پاکیزگی ہو، خواہ اُس کی محبت و قربانی ہو، خواہ اُس کا عزم و اِرادہ ہو، خواہ اُس کا عدل و اِنصاف ہو، خواہ اُس کی وفاداری و تابعداری ہو۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ بائبل مُقدس کامِل کے بارے میں کیا کہتی ہے، ’’وہ وہی چٹان ہے، اُس کی صنعت کامِل ہے کیونکہ اُس کی سب راہیں اِنصاف کی ہیں۔ وہ وفادار خدا اور بدی سے مُبرا ہے۔ وہ مُنصف اور برحق ہے۔‘‘ (اِستثنا ۳۲:۴)

بے شک خداوند خدا کامِل خدا ہے، اِس لئے وہ ہمارے سامنے ایک معیار ہے جس کے گرد ہر چیز ناپی تولی جاتی ہے۔ خدا کے لئے ناکامِل ہونا ممکن ہی نہیں کیونکہ اِس کا مطلب یہ ہو گا کہ کسی اَور معیار نے اُس میں کوئی کمزوری یا کمی پائی ہے جس کے سبب سے وہ ناکامِل ٹھہرا، مگر سوال یہ ہے کہ خدا کے علاوہ کون ہے جس کا معیار اِتنا اچھا و اعلیٰ ہو؟ اور اگر کوئی اَور ایسا اعلیٰ معیار ہے جو خدا کے معیار سے زیادہ افضل ہے تو (خدا معاف کرے) پھر خدا کی بھی عدالت ہو گی اور دوسرا معیار خدا سے بہتر سمجھا جائے گا۔ جیسا کہ ہم نے پہلے کہا کہ ایسا ممکن ہی نہیں خدا کے علاوہ کوئی ایسا معیار نہیں جو خدا سے زیادہ اچھا، اعلیٰ و افضل ہو، وہ اپنی ذات میں کامِل خدا ہے۔ زندہ اِلہامی کلام میں لکھا ہے، ’’خداوند نیک اور راست ہے، اِس لئے وہ گنہگاروں کو راہِ حق کی تعلیم دے گا۔ وہ حلیموں کو اِنصاف کی ہدایت کرے گا۔ ہاں، وہ حلیموں کو اپنی راہ بتائے گا۔ جو خداوند کے عہد اور شہادتوں کو مانتے ہیں اُن کے لئے اُس کی سب راہیں شفقت اور سچائی ہیں۔‘‘ (زبور ۲۵:۸-۱۰) بائبل مُقدس میں زبور نویس اپنے زندہ خدا کی حمد و تمجید کرتے ہوئے اِقرار کرتا ہے کہ ’’…خداوند راست ہے، وہی میری چٹان ہے اور اُس میں ناراستی نہیں۔‘‘ (زبور ۹۲:۱۵) اور پھر لکھا ہے، ’’لیکن خدا کی راہ کامِل ہے، خداوند کا کلام تایا ہُوا ہے۔‘‘ (۲-سموئیل ۲۲:۳۱)

کیونکہ خدا کی سب راہیں کامِل و مُقدس ہیں اِس لئے وہ ہمیں بھی چاہتا ہے کہ اُس کی طرح کامِل، مُقدس و پاک ہوں۔ ’’کیونکہ مَیں خداوند تمہارا خدا ہوں، اِس لئے اپنے آپ کو مُقدس کرنا اور پاک ہونا کیونکہ مَیں قدُوس ہوں…‘‘ (احبار ۱۱:۴۴) لہذا اگر ہم چاہتے ہیں کہ خدا کی طرح پاک و مُقدس ہوں تو ہمیں اُس کے کامِل اِلہامی کلام و شریعت، اُس کی برحق شہادت اور اُس کے راست و بے عیب قوانین پر عمل کرنا ہے تاکہ خداوند کی مانند کامِل بنیں۔ دائود نبی کامِل خدا کی گواہی دیتے ہوئے کہتا ہے۔ ’’خداوند کی شریعت کامِل ہے، وہ جان کو بحال کرتی ہے۔ خداوند کی شہادت برحق ہے، نادان کو دانش بخشتی ہے۔ خداوند کے قوانین راست ہیں، وہ دِل کو فرحت پہنچاتے ہیں۔ خداوند کا حکم بے عیب ہے، وہ آنکھوں کو روشن کرتا ہے۔ خداوند کا خوف پاک ہے، وہ اَبد تک قائم رہتا ہے، خداوند کے احکام برحق اور بالکل راست ہیں۔ وہ سونے سے بلکہ بہت کندن سے زیادہ پسندیدہ ہیں، وہ شہد سے بلکہ چھتے کے ٹپکوں سے بھی شیرین ہیں۔ نِیز اُن سے تیرے بندے کو آگاہی ملتی ہے، اُن کو ماننے کا اَجر بڑا ہے۔‘‘ (زبور ۱۹:۷-۱۱) اگر دائود نبی جیسا خدا کا چُنا ہُوا نیک بندہ اِقرار کرتا ہے کہ خدا کامِل اور اُس کے احکام و قوانین برحق و راست ہیں، اُن کی آگاہی سے بڑا اَجر ملتا ہے تو ہم کون ہیں اُن کا اِنکار اور رَد کرنے والے۔ ہماری کیا مجال کہ خدا کی کاملیت کو پرکھیں یا جانچیں، ہماری تو اپنی راہ بدی و بُرائی سے بھری ہوئی ہے، ہم تو خود ناکامِل ہیں تو کامِل خدا کی کامِل راہ میں خامی و کمزوری کیسے نکال سکتے ہیں۔ دائود نبی کیا خوب کہتا ہے، ’’لیکن خدا کی راہ کامِل ہے۔…‘‘ (زبور ۱۸:۳۰)

خدا کی کاملیت اُس کی سیرت و کردار، اُس کی تعلیم و کلام، اُس کے وعدوں و عہدوں، اُس کی برکتوں و نعمتوں اور اُس کے ہر فعل و عمل میں نظر آتی ہے۔ یہ خدا کی کاملیت ہی ہے کہ وہ اپنے ازلی اِرادے اور منصوبے کو پایہٴ تکمیل تک پہنچانے کے لئے بنی نوع اِنسان کو اُن کے گناہوں سے نجات دینے اپنے بیٹے مسیح یسوع کی صورت اِنسان بن کر خود دُنیا میں آیا تاکہ اپنے ساتھ ہمیں بھی کامِل بنائے۔ اِسی لئے مسیح خداوند نے فرمایا، ’’پس چاہیے کہ تم کامِل ہو جیسا کہ تمہارا آسمانی باپ (یعنی خدا) کامِل ہے۔‘‘ (متی ۵:۴۸) پطرس رسول کہتا ہے، ’’اِس واسطے اپنی عقل کی کمر باندھ کر اور ہوشیار ہو کر اُس فضل کی کامِل اُمید رکھو جو یسوع مسیح کے ظہور کے وقت تم پر ہونے والا ہے، اور فرمانبردار فرزند ہو کر اپنی جہالت کے زمانہ کی پُرانی خواہشوں کے تابع نہ بنو بلکہ جس طرح تمہارا بُلانے والا پاک ہے اُسی طرح تم بھی اپنے سارے چال چلن میں پاک بنو، کیونکہ لکھا ہے کہ پاک ہو اِس لئے کہ مَیں (یعنی خداوند) پاک ہوں۔‘‘ (۱-پطرس ۱:۱۳-۱۶) لہذا ہر اِنسان کا فرض ہے کہ وہ اپنی جسمانی خواہشوں اور پُرانے چال چلن کو چھوڑ کر اپنے خداوند یسوع مسیح کی مانند پاک و کامِل بنے۔ اگرچہ وہ اِنسان بن کر ہمارے درمیان رہا تَو بھی پاک و کامِل رہا۔ یہاں تک کہ اُس کے دُشمن یہودی مذہبی راہنما بھی اُس میں کوئی عیب یا گناہ تلاش نہ کر سکے۔ کاملیت و قدُوسیت کی اِس سے بڑی مثال آپ کو کہِیں نہیں ملے گی کہ مسیح یسوع دُنیا میں رہتے ہوئے بھی دُنیاوی جسمانی خواہشوں کے تابع نہ رہے، اِسی لئے وہ اپنی کاملیت میں اِس قابل تھے کہ صلیب پر ہمارے گناہوں کے عوض اپنی جان کا کفارہ ادا کریں تاکہ اُن کے پاک و کامِل خون سے دُھل کر ہم بھی پاک و کامِل بن جائیں۔ پولس رسول خدا کے زندہ کلام میں کہتا ہے، ’’جو گناہ سے واقف نہ تھا اُسی کو اُس نے (یعنی خدا نے) ہمارے واسطے گناہ ٹھہرایا تاکہ ہم اُس میں (یعنی مسیح یسوع میں) ہو کر خدا کی راستبازی ہو جائیں۔‘‘ (۲-کرنتھیوں ۵:۲۱) خدا کا عظیم خادِم پطرس رسول کہتا ہے، ’’اِس لئے کہ مسیح نے بھی یعنی راستباز نے ناراستوں کے لئے گناہوں کے باعث ایک بار دُکھ اُٹھایا تاکہ ہم کو خدا کے پاس پہنچائے۔ وہ جسم کے اِعتبار سے تو مار اگیا لیکن رُوح کے اِعتبار سے زندہ کِیا گیا۔‘‘ (۱-پطرس ۳:۱۸) پاک اِلہامی کلام میں ایک اَور مقام پر لکھا ہے، ’’کیونکہ اُس نے (یعنی مسیح یسوع نے) ایک ہی قربانی چڑھانے سے اُن کو ہمیشہ کے لئے کامِل کر دیا ہے جو پاک کِئے جاتے ہیں۔‘‘ (عبرانیوں ۱۰:۱۴)

اَب شائد کوئی سوال کرے کہ کیا مَیں اِس قابل ہوں کہ پاک و کامِل بن جائوں؟ مَیں تو گناہوں ، عیبوں، کمزوریوں، قصورُوں اور داغ دھبوں بھرا ہُوا ہوں، مَیں تو مسیح یسوع کی کاملیت تک پہنچنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا؟ تو سب سے پہلے تو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ جب خدا نے اِنسان کو تخلیق کِیا اور باغِ عدن میں رکھا تو وہ پاک و کامِل تھا کیونکہ اُسے خدا نے اپنی شبیہ پر بنایا تھا، اِس لئے اُس میں کوئی داغ دھبہ، عیب و گناہ نہیں تھا، وہ گناہ سے واقف ہی نہ تھا مگر جب شیطان کے بہکاوے میں گناہ کا مُرتکب ہُوا تو خدا کی کاملیت و پاکیزگی سے دُور ہو کر رُوحانی طور پر مُردہ ہو گیا۔ خدا چاہتا تو اِنسان کو اِسی حالت میں چھوڑ دیتا مگر نہیں، وہ ہمارا تخلیق کار ہے، ہم سے محبت کرتا ہے اِسی لئے اُس نے صلیب پر اپنا پاک و کامِل خون بہا کر ہمارے گناہوں، عیبوں اور داغوں کو دُھو دیا تاکہ ہمیں اپنے ساتھ ویسا ہی پاک و کامِل بنائے جیسا گناہ میں گرنے سے پہلے تھا۔ اور جب ہم مسیح یسوع کو اپنا نجات دہندہ قبول کر کے اپنے گناہوں سے توبہ کرتے اور پانی میں بپتسمہ لیتے ہیں تو خدا کا پاک رُوح ہم میں سکونت کرتا اور ہمیں پاک و کامِل بناتا ہے۔ ’’…جس نے ہم کو مَسح کِیا وہ خدا ہے۔ جس نے ہم پر مُہر بھی کی اور بیعانہ میں رُوح کو ہمارے دِلوں میں دیا۔‘‘ (۲-کرنتھیوں ۱:۲۲) پولس رسول کہتا ہے، ’’…خداوند کے پیارو، ہر وقت خدا کا شکر کرنا ہم پر فرض ہے کیونکہ خدا نے تمہیں اِبتدا ہی سے اِس لئے چُن لیا تھا کہ رُوح کے ذریعہ سے پاکیزہ بن کر اور حق پر اِیمان لا کر نجات پائو۔‘‘ (۲-تھسنیکیوں ۲:۱۳)

نجات آپ کے دِل، دماغ اور رُوح کو پاک و کامِل کرنے کی طرف پہلا قدم ہے۔ کیا آپ پاک و کامِل بننا چاہتے ہیں؟ کیا آپ چاہتے ہیں خدا آپ کے دِل و دماغ میں چُھپے شک اور خوف کو دُور کر کے خداوند یسوع مسیح میں اپنی نجات دِکھائے؟ آپ کے دِل میں ایسا کیا ہے جو خدا نہیں جانتا، وہ تو آپ کا اُٹھنا بیٹھنا، چلنا پِھرنا، بُولنا سُننا، سوچ خیال سب کچھ جانتا ہے کیونکہ اُس نے ہمیں اپنے ہاتھوں سے بنایا اور تخلیق کِیا ہے، بے شک خدا ہمارے دِلوں کو جانچتا پہچانتا ہے۔

جی ہاں، خدا دِلوں کو جانچتا پہچانتا ہے، اور خدا کی یہی وہ خوبی ہے جس کا ذِکر ہم اپنے اگلے پروگرام میں کریں گے، سُننا مت بُھولئیے گا۔