Skip to content

خدا شخصی خدا ہے

Posted in خُدا کی تلاش

آج دُنیا ایک گلوبل وِیلج یعنی عالمی گائوں بن چکی ہے، کسی کے بارے میں جاننا اِتنا آسان ہو گیا ہے کہ بس کِلِک کیجئے اور سب کچھ آپ کے سامنے۔ لیکن کسی کے بارے محض جاننا اور کسی کو شخصی یا ذاتی طور پر جاننے میں بہت فرق ہے۔ آپ کسی کھلاڑی، ٰفلم ایکٹر، ایکٹریس یا مُلک کے حکمران و بادشاہ کے بارے میں شائد اِتنا کچھ جانتے ہوں کہ وہ خود یا اُس کے خاندان کے لوگ بھی نہ جانتے ہوں مگر آپ شخصی یا ذاتی طور پر اُس سے کبھی نہیں مِلے اور نہ کبھی اُس سے مِلنے کا تصور کر سکتے ہیں۔ خدا کے بارے میں بھی کچھ ایسا ہی ہے کہ بہت سے لوگ خالقِ کائنات کے بارے میں جانتے تو ہیں کہ دُور کہیں آسمان پر اپنے جاہ و جلال اور شان و شوکت والے تخت پر بیٹھا، اپنی مخلوق کے ہر اچھے بُرے کام پر نظر رکھے ہوئے ہے کہ اگر کسی نے نیک کام کِیا تو اِنعام و ثواب کھاتے میں ڈال دے اور بُرا کام کِیا تو سزا کے لئے لائن میں لگا دے۔ ہاں، یہ سچ ہے کہ خدا کی آنکھیں اپنی ساری مخلوق پر لگی رہتی ہیں خواہ کوئی نیک ہو یا بد۔ ’’خداوند کی آنکھیں ہر جگہ ہیں اور نیکوں اور بدوں کی نگران ہیں۔‘‘ (امثال۱۵ :۳) پاک اِلہامی کلام میں لکھا ہے، ’’خداوند اپنی مُقدس ہیکل میں ہے، خداوند کا تخت آسمان پر ہے۔ اُس کی آنکھیں بنی آدم کو دیکھتی اور اُس کی پلکیں اُن کو جانچتی ہیں۔ ‘‘ (زبور ۱۱:۴) خدا ہم سے شخصی طور پر تعلق و رشتہ جوڑنا چاہتا ہے تاکہ ہمارے ساتھ رفاقت رکھے۔ خدا نے اِنسان کو تخلیق ہی اِس غرض سے کِیا تھا کہ وہ اُس کے ساتھ گناہ سے پاک، مُقدس ماحول میں رہے اور باتیں کرے۔

دُنیا کی تخلیق کے وقت باغِ عدن میں خدا، آدم اور حوا سے باتیں کرتا تھا مگر جب اُنہوں نے خدا کی نافرمانی کی تو اپنے گناہ آلودہ وجود کو پاک و راستباز خدا سے چھپایا۔ ’’تب خداوند خدا نے آدم کو پُکارا اور اُس نے کہا کہ تُو کہاں ہے؟‘‘ (پیدایش ۳:۹) پاک خدا کی لازوال محبت دیکھئے کہ وہ جانتا تھا کہ آدم شیطان کے بہکاوے میں آکر گناہ کا مُرتکب ہو چُکا ہے مگر اُس نے پھر بھی پُکارا، ’’تُو کہاں ہے؟‘‘ خدا اپنی محبت سے مجبور ہو کر آج بھی ہم سے شخصی رفاقت رکھنے کے لئے پُکار رہا ہے کہ اَے میرے بندے! مَیں جانتا ہوں کہ تُو نے میرے احکامات و قوانین کی نافرمانی کی ہے، اِسی لئے مجھ سے چھپتا پھرتا ہے۔ ہاں، تُو گناہ میں گِر چُکا ہے اور ہلاکت کی سزا کا حقدار ہے مگر مَیں نے تجھے پیدا کِیا ہے، مَیں تجھ سے محبت رکھتا ہوں، تجھے چُھپنے اور مجھ سے بھاگنے کی ضرورت نہیں۔ اپنے گناہوں سے توبہ کر، معافی و نجات پا اور پاک و راستباز بن کر میرے ساتھ شخصی رفاقت رکھ۔

خدا کے نیک و اِیماندار بندے ابرہام نبی کو خدا کا دوست کہا جاتا ہے کیونکہ وہ راستباز تھا، خدا کے زندہ کلام میں لکھا ہے، ’’اور یہ نوشتہ پورا ہُوا کہ ابرہام خدا پر اِیمان لایا اور یہ اُس کے لئے راستبازی گِنا گیا اور خدا کا دوست کہلایا۔‘‘ (یعقوب ۲:۲۳) خداوند خدا اپنے زندہ کلام میں کہتا ہے، ’’پر تُو اَے اِسرائیل میرے بندے! اَے یعقوب جس کو مَیں نے پسند کِیا جو میرے دوست ابرہام کی نسل سے ہے۔‘‘ (یسعیاہ ۴۱:۸)

خدا کا ایک اَور نیک بندہ موسیٰ نبی اپنے خالق و مالِک سے باتیں کرتا اور اُسے نام سے پہچانتا تھا۔ ’’خداوند نے موسیٰ سے کہا، مَیں یہ کام بھی جس کا تُو نے ذِکر کِیا ہے کروں گا کیونکہ تجھ پر میرے کرم کی نظر ہے اور مَیں تجھ کو بنام پہچانتا ہوں۔‘‘ (خروج ۳۳:۱۷)

اِسی طرح دانی ایل نبی کے ساتھ بھی خدا باتیں کرتا تھا اور اُسے بہت عزیز رکھتا تھا۔ دانی ایل اپنی خدا کے ساتھ شخصی قُربت و رفاقت بارے کہتا ہے، ’’اور اُس نے (یعنی خدا کی طرف سے جبرائیل فرشتہ نے) مجھے سمجھایا اور مجھ سے باتیں کِیں اور کہا، اَے دانی ایل مَیں اَب اِس لئے آیا ہوں کہ تجھے دانش و فہم بخشوں۔ تیری مُناجات کے شروع ہی میں حکم صادِر ہُوا اور میں آیا ہوں کہ تجھے بتائوں کیونکہ تُو بہت عزیز ہے۔ پس تُو غور کر اور رُویا کو سمجھ لے۔‘‘ (دانی ایل۹ ـ:۲۲-۲۳)

اِن کے علاوہ بھی بائبل مُقدس میں خدا کے ایسے بہت سے نیک و وفادار بندوں کا ذِکر ہے جن سے خدا شخصی طور پر باتیں کرتا تھا اور وہ خدا کے دوست تھے جیسے کہ ایوب نبی۔

’’عُوض کی سَر زمین میں ایُوب نام ایک شخص تھا۔ وہ شخص کامِل اور راستباز تھا اور خدا سے ڈرتا اور بدی سے دُور رہتا تھا۔‘‘ (ایُوب ۱:۱) آپ نے دیکھا کہ خدا کے ساتھ دوستی و قربت کا معیار کیا ہے۔ وہ کون لوگ ہیں جن کو خدا دوست و عزیز رکھتا ہے۔ یقیناً وہ جو پاک و راستباز ہیں، خدا سے ڈرتے اور بدی سے دُور رہتے ہیں۔ تابعداری و راستبازی کا یہی معیار خدا نے قوموں کے لئے بھی رکھا۔ خدا کا اِسرائیلی قوم کے ساتھ شخصی تعلق و رشتہ تھا اور اُس نے اُنہیں حکم دیتے ہوئے کہا، ’’…میری آواز کے شِنوا ہو اور مَیں تمہارا خدا ہوں گا اور تم میرے لوگ ہو گے اور جس راہ کی مَیں تم کو ہدایت کروں اُس پر چلو تاکہ تمہارا بھلا ہو۔‘‘ (یرمیاہ ۷:۲۳) خدا اپنے وفادار بندوں کا بھلا چاہتا ہے اور حفاظت و نگہبانی کرتا ہے۔ ’’کیونکہ خداوند کی آنکھیں ساری زمین پر پھرتی ہیں تاکہ وہ اُن کی اِمداد میں جن کا دِل اُس کی طرف کامِل ہے اپنے تئیں قوی دِکھائے۔‘‘ (۲ـ-تواریخ ۱۶:۹) خداوند خدا ایک اَور مقام پر اپنے پیارے بندے سے اپنی شخصی محبت و قربت کا یوں اِظہار کرتا ہے، ’’مَیں تجھے تعلیم دوں گا اور جس راہ پر تجھے چلنا ہو گا تجھے بتائوں گا۔ مَیں تجھے صلاح دُوں گا، میری نظر تجھ پر ہو گی۔‘‘ (زبور ۳۲:۸) اور جب ہمیں یہ احساس ہو جاتا ہے کہ خدا ہمارے ساتھ، ہمارا دوست و محافظ ہے تو پھر ہم بھی دائود نبی کی طرح پورے اِیمان سے خدا پر مکمل بھروسہ و اعتقاد رکھ سکتے ہیں، ’’مَیں نے خداوند کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھا ہے چونکہ وہ میرے دہنے ہاتھ ہے اِس لئے مجھے جُنبش نہ ہو گی۔‘‘ (زبور ۱۶:۸) خداوند خدا نے دائود نبی کو چُنا ہُوا بندہ کہا جو اُس کے دِل کے قریب تھا اور جس کی بابت خدا نے گواہی دیتے ہوئے کہا، ’’…مجھے ایک شخص یسی کا بیٹا دائود میر ے دِل کے مُوافق مِل گیا۔ وہی میری تمام مرضی کو پورا کرے گا۔ اِسی کی نسل میں سے خدا نے اپنے وعدہ کے مُوافق اِسرائیل کے پاس ایک منجی یعنی یسوع کو بھیج دیا۔‘‘ (اعمال ۱۳:۲۲-۲۳)

آپ نے دیکھا کہ خدا نے بنی نوع انسان کے ساتھ شخصی تعلق و رشتہ قائم کرنے کے لئے اپنے بندے دائود نبی کو چُنا اور وعدے اور پیشین گوئیوں کے مطابق اپنے بیٹے یسوع مسیح میں مجسم ہو کر دائود کی نسل سے کنواری مریم کے ہاں رُوح اُلقدس کی قدرت سے پیدا ہُوا اور ہمارے درمیان رہا تاکہ ہمارے گناہوں کے سبب سے کھڑی دیوار کو ہمیشہ کے لئے گِرا کر اپنے ساتھ پھر سے میل مِلاپ کر لے۔ شخصی رفاقت بحال کرنے کے لئے خدا نے مسیح یسوع کے وسیلہ صلیب پر اپنا بے گناہ خون بہا کر ہمارے گناہوں اور سزائوں کا قرض چُکا دیا ہے۔ آج بنی نوع اِنسان کے لئے خدا کی طرف صُلح و دوستی اور شخصی قربت و رفاقت رکھنے کا ایک بیش قیمت موقع ہے۔ شائد آپ کے ذہن میں سوال ہو کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ خدا خود ہمارے ساتھ شخصی رشتہ جوڑنے کے لئے دُنیا میں آئے؟ کچھ لوگ تو اِس کا تصور بھی نہیں کر سکتے کہ خدا آسمانی حشمت و عظمت اور جاہ و جلال چھوڑ کر ہم گناہگاروں کے پاس زمین پر آئے۔

تو بہنو اور بھائیو! خدا خوب جانتا ہے کہ اپنی کوشش سے گناہ آلودہ محدُود اِنسان مجھ تک نہیں پہنچ سکتا، خواہ کچھ بھی کر لے خود سے پاک و راستباز ٹھہر نہیں سکتا۔ لازم تھا کہ گناہوں کے عوض بے داغ و بے گناہ خون کی قربانی دی جائے جس کے وسیلہ سے توبہ، معافی اور نجات پا کر آسمان کی بادشاہی میں داخل ہو۔ پولس رسول پاک اِلہامی کلام میں کہتا ہے، ’’کیونکہ جب ایک شخص (یعنی آدم) کے گناہ کے سبب سے موت نے اُس ایک ذریعہ سے بادشاہی کی تو جو لوگ فضل اور راستبازی کی بخشِش اِفراط سے حاصل کرتے ہیں وہ ایک شخص یعنی یسوع مسیح کے وسیلہ سے ہمیشہ کی زندگی میں ضرور ہی بادشاہی کریں گے۔ غرض جیسا ایک گناہ کے سبب سے وہ فیصلہ ہُوا جس کا نتیجہ سب آدمیوں کی سزا کا حکم تھا ویسا ہی راستبازی کے ایک کام کے وسیلہ سے سب آدمیوں کو وہ نعمت مِلی جس سے راستباز ٹھہر کر زندگی پائیں کیونکہ جس طرح ایک ہی شخص (یعنی آدم) کی نافرمانی سے بہت سے لوگ گنہگار ٹھہرے اُسی طرح ایک کی فرمانبرداری سے بہت سے لوگ راستباز ٹھہریں گے اور بِیچ میں شریعت آ موجود ہوئی تاکہ گناہ زیادہ ہو جائے مگر جہاں گناہ زیادہ ہُوا وہاں فضل اُس سے بھی نہایت زیادہ ہُوا تاکہ جس طرح گناہ نے موت کے سبب سے بادشاہی کی اُسی طرح فضل بھی ہمارے خداوند یسوع مسیح کے وسیلہ سے ہمیشہ کی زندگی کے لئے راستبازی کے ذریعہ سے بادشاہی کرے۔‘‘ (رُومیوں ۵:۱۷-۲۱)

ہمیں اپنے خداوند خدا کی حمد و تمجید اور شکر کرنا چاہیے کہ اُس نے ہم اِنسانوں کے لئے اپنے ساتھ صُلح و رفاقت کا راستہ نکالا ورنہ ہم سب اپنی بد کرداری کے سبب بھیڑوں کی مانند بھٹک کر نیست و نابُود ہو چُکے ہوتے۔ یسعیاہ نبی نے صدیوں پہلے پیشین گوئی کرتے ہوئے نجات و صُلح کی یہ خوشخبری یوں سُنائی، ’’ہم سب بھیڑوں کی مانند بھٹک گئے۔ ہم میں سے ہر ایک اپنی راہ کو پِھرا پر خداوند نے ہم سب کی بد کرداری اُس پر لادی۔‘‘ (یسعیاہ ۵۳:۶) اور مسیح یسوع ہماری بد کرداری کندھوں پر لئے صلیب پر قربان ہو گئے، دفن ہوئے اور تیسرے دِن مُردوں میں سے جی اُٹھے اور زندہ آسمان پر اُٹھا لئے گئے۔ اور پھر اُن کے چُنے ہوئے شاگردوں نے زندہ اِیمان سے سَر شار ہو کر بڑی جُراٴت و وفاداری اور اِیمان و سچائی کے ساتھ نجات کی خوشخبری کو گھر گھر پہنچایا اور دیکھتے ہی دیکھتے مسیحی اِیمان کی روشنی ساری دُنیا میں پھیل گئی حالانکہ شاگردوں کا شُمار اثر و رسوخ والے مالدار لوگوں میں نہیں تھا اور نہ ہی وہ دینی علوم کے مذہبی اِسکالر تھے بلکہ وہ تو پیشہ کے لحاظ سے مچھیرے، عام سے اِنسان تھے۔ اِس کا مطلب یہ ہُوا کہ خدا جب اپنے کام کے لئے کسی کو چُنتا ہے تو وہ اُس کی عالمانہ صلاحیتوں پر نہیں بلکہ وفاداری و تابعداری، حلیمی و فروتنی، اِیمان و سچائی، عزم و اِرادہ، خدمت و بھلائی اور اِیثار و قربانی کو دیکھتا ہے۔ لالچ و ہَوس، خود پسندی و خود غرضی، حسد و کینہ اور فخر و غرور خدا کو قطعی پسند نہیں۔ آئیے، اپنے اندر جھانکیں اور پرکھیں کہ کیا خدا مجھے چُن سکتا ہے؟ کیا خدا واقعی ایک محدُود، کمزور اِنسان کو اپنی خدمت کے لئے چُنتا ہے؟ 

جی ہاں، خدا چُنتا ہے، خدا کی یہی وہ خصوُصیت ہے جس کا ہم اپنے اگلے پروگرام میں ذِکر کریں گے، سُننا مت بھولئیے گا۔