آپ نے اکثر دیکھا ہو گا کہ جب کوئی کسی مُلک کا صدر یا پریذیڈنٹ بنتا ہے تو اپنی مرضی اور سوچ کے مطابق ایسے لوگوں کا اِنتخاب کرتا ہے جن کا کسی خاص شعبہ میں وسیع تجربہ ہو اور اُس کے منصوبہ و اِرادہ کے تحت حکومتی نظام چلانے کی اہلیت و قابلیت بھی رکھتے ہوں۔ دُنیاوی بادشاہی کے لحاظ سے تو یہ طریقہٴکار بالکل ٹھیک ہے مگر آسمان کی بادشاہی کو چلانے اور پھیلانے کے لئے خدا کا اپنے بندوں کو چُننے کا معیار بالکل مختلف ہے۔ زمین کا سربراہ تو قابلیت، اہلیت اور تجربہ کو دیکھ کر اپنی ٹیم چُنتا ہے مگر آسمان و زمین کا خالق و مالک اور سربراہِ اعلیٰ العظیم ذہنی لیاقت، حکمت، دینی ڈگریوں اور وسیع تجربہ کو نہیں بلکہ اِنکساری و عاجزی، شکستگی و حلیمی، نیت و وفاداری، عزم و اِرادہ اور اِیثار و قربانی کو دیکھتا ہے۔ دُنیاوی عہدے و اِنتخاب کے پیچھے کوئی نہ کوئی غرض، مقصد اور لالچ چُھپا ہوتا ہے مگر رُوحانی چُنائو خود غرضی و خود پسندی، حسد و ہَوس، اولیت و اہمیت اور فخر و غرور سے بالکل خالی ہوتا ہے۔ خدا ایسے لوگوں کو چُنتا ہے جو دُنیا کی نظر میں گناہگار، کمزور، حقیر اور جاہل ہوتے ہیں کیونکہ اِنسان کی کمزوری میں خدا کی طاقت ہے۔ اگر وہ صرف حکمت و قابلیت اور طاقت و اثر و رُسوخ والے لوگوں کو ہی چُنے تو لوگ جلد ہی بھول جائیں گے کہ حقیقی طاقت و راہنمائی کا سَرچشمہ کون ہے، اور اِنسان، خدا کی بجائے اِنسانوں کی پیروی شروع کر دیں گے۔ ایک اَور اہم بات یہ کہ ہم خواہ کِتنے ہی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور دُنیا بھر کی ڈگریوں کے مالِک کیوں نہ ہوں، خدا کی قدرت و طاقت کے سامنے ہماری حکمت و سمجھ اور تجربہ و مہارت محدُود و بے معنی ہے۔ اور ویسے بھی خدا کو اپنی حمد و تمجید اور نجات کی خوشخبری پھیلانے کے لئے اِس دُنیا کے حکیموں اور عقلمندوں کی ضرورت نہیں، ’’کیونکہ لکھا ہے کہ مَیں حکیموں کی حکمت کو نیست اور عقلمندوں کی عقل کو رَد کروں گا۔ کہاں کا حکیم؟ کہاں کا فقیہ؟ کہاں کا اِس جہاں کا بحث کرنے والا؟ کیا خدا نے دُنیا کی حکمت کو بیوقوفی نہیں ٹھہرایا؟‘‘ (۱-کرنتھیوں ۱:۱۹-۲۰) ایک اَور مقام پر پولس رسول خدا کے چُنے اور بلائے ہوئے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے، ’’اَے بھائیو! اپنے بُلائے جانے پر تو نگاہ کرو کہ جسم کے لحاظ سے بہت سے حکیم، بہت سے اِختیار والے، بہت سے اشراف نہیں بُلائے گئے بلکہ خدا نے دُنیا کے بیوقُوفوں کو چُن لیا کہ حکیموں کو شرمندہ کرے، اور خدا نے دُنیا کے کمزوروں کو چُن لیا کہ زورآوروں کو شرمندہ کرے، اور خدا نے دُنیا کے کمینوں اور حقیروں کو بلکہ بیوجُودوں کو چُن لیا کہ مجودُوں کو نیست کرے تاکہ کوئی بشر خدا کے سامنے فخر نہ کرے۔ لیکن تم اُس کی طرف سے مسیح یسوع میں ہو جو ہمارے لئے خدا کی طرف سے حکمت ٹھہرا یعنی راستبازی اور پاکیزگی اور مخلصی تاکہ جیسا لکھا ہے ویسا ہی ہو کہ جو فخر کرے وہ خداوند پر فخر کرے۔‘‘ (۱-کرنتھیوں ۱:۲۶-۳۱)
اگر آپ بائبل مُقدس کا بغور مطالعہ کریں تو واضح ہو گا کہ خدا اپنی خدمت کے لئے خادِم چُنتا ہے مالِک نہیں۔ ایک ایسا وفادار و سچا خادِم جو دِل و جان سے اپنے آقا و مالِک کو پیار کرتا ہو اور اُس کے لئے اپنا سب کچھ چھوڑنے کو ہر وقت تیار ہو، نہ کہ مال و دولت، عہدہ و رُتبہ یا اِختیار و لیڈری اُس کی ترجیح ہو۔ آج بہت سے لوگ خدا کے چُنے ہوئے نہیں ہوتے بلکہ زبردستی اپنی دُنیاوی خواہشوں کی تسکین و تکمیل اور اپنے نام کی شہرت و بلندی کے لئے چُنے ہوئوں میں شامل ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، ’’مجھے تو خدا نے چُنا ہے، مجھے تو خدا کی طرف سے خواب میں بُلاہٹ ہوئی ہے۔‘‘ مگر اُن کی حرکتیں خدا کے چُنے ہوئے لوگوں سے بالکل مختلف ہوتی ہیں۔
خدا کا اپنے بندوں کو چُننے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ دُنیا میں رہیں اور لوگوں کی خدمت کریں ورنہ اپنے نیک و راستباز بندوں کو چُنتے ہی آسمان پر اُٹھا لیتا کہ آئو میری حمد و تمجید کرو۔ خدا اُنہیں اِس گناہ آلودہ دُنیا میں ہی کیوں رہنے دیتا ہے؟ وہ چاہتا ہے کہ وہ دُنیا میں رہتے ہوئے اُس کے ازلی اِرادے اور منصوبہ کو پایہٴ تکمیل تک پہنچائیں۔
چلیئے آئیے دیکھتے ہیں کہ جب خدا نے اپنے عظیم بندے دائود نبی کو اپنی خدمت کے لئے چُنا تو کیا ہُوا۔ خدا نے سموئیل نبی سے کہا، مَیں نے بیت لحم کے یسی کے بیٹوں میں سے ایک کو اپنے لئے چُننا ہے لہذا تُو جا۔ یسی نے باری باری اپنے سب بیٹوں کو بُلایا تاکہ کسی ایک کو خداوند کی خدمت کے لئے چُن لے۔ یسی نے پہلے اپنے قدآور بیٹے الیاب کو سامنے کِیا تو سموئیل نے سوچا یہی ہو گا، ’’پر خداوند نے سموئیل سے کہا کہ تُو اُس کے چہرہ اور اُس کے قد کی بلندی کو نہ دیکھ، اِس لئے کہ مَیں نے اُسے ناپسند کِیا ہے کیونکہ خداوند اِنسان کی مانند نظر نہیں کرتا اِس لئے کہ اِنسان ظاہری صُورت کو دیکھتا ہے پر خداوند دِل پر نظر کرتا ہے۔‘‘ (۱-سموئیل ۱۶:۷) جب یسی نے اپنے سات بیٹوں کو سموئیل نبی کے سامنے کِیا تو خداوند نے اُن کو نہیں چُنا۔ ’’پھر سموئیل نے یسی سے پوچھا، کیا تیرے سب لڑکے یہی ہیں؟ اُس نے کہا، سب سے چھوٹا ابھی رہ گیا۔ وہ بھیڑ بکریاں چراتا ہے۔ سموئیل نے یسی سے کہا، اُسے بلا بھیج کیونکہ جب تک وہ یہاں نہ آ جائے ہم نہیں بیٹھیں گے۔ سو وہ اُسے بُلوا کر اندر لایا۔ وہ سُرخ رنگ اور خوبصورت اور حسین تھا اور خداوند نے فرمایا، اُٹھ اور اُسے مَسح کر کیونکہ وہ یہی ہے۔ تب سموئیل نے تیل کا سینگ لیا اور اُسے اُس کے بھائیوں کے درمیان مَسح کِیا اور خداوند کی رُوح اُس دِن سے آگے کو دائود پر زور سے نازل ہوتی رہی۔…‘‘ (۱-سموئیل ۱۶:۱۱-۱۳)
آپ نے دیکھا کہ خدا نے ظاہری قد کاٹھ اور چال ڈھال کو کِس طرح رَد کِیا، اور بھیڑ بکریاں چرانے والے ایک چھوٹے سے لڑکے کو اپنی خدمت کے لئے چُنا جس کو اُس کے باپ یسی نے اِس قابل ہی نہ سمجھا تھا کہ وہ گھر میں سموئیل نبی کے سامنے موجود ہو مگر جیسا کہ ہم نے پہلے کہا کہ خدا ایسے لوگوں کو چُنتا ہے جو دُنیا کی نظر میں حقیر و کمزور ہوتے ہیں مگر اُن کا دِل خدا کے دِل کے ساتھ دھڑکتا ہے۔ اور پھر اِسی دائود کے بارے میں خداوند خدا نے کہا، ’’…مجھے ایک شخص یسی کا بیٹا دائود میرے دِل کے مُوافق مِل گیا۔ وہی میری تمام مرضی کو پورا کرے گا۔ اِسی کی نسل میں سے خدا نے اپنے وعدہ کے مُوافق اِسرائیل کے پاس ایک منجی یعنی یسوع کو بھیج دیا۔‘‘ (اعمال ۱۳:۲۲-۲۳)
اِسی طرح خدا نے موسیٰ نبی کو اپنی خدمت کے لئے چُنا۔ حالانکہ وہ فرعون کی بادشاہی میں ایک شہزادے کے رُوپ میں پلا بڑھا تھا، اُسے ضرورت تھی کہ آسمان کی بادشاہی میں ایک خادِم کی حیثیت سے اِلٰہی قوانین و اُصولوں کو سیکھے۔ اِسی لئے خدا نے اُسے چالیس سال تک تپتے ہوئے ریگستان میں اپنی خدمت کے لئے تیار کِیا۔ اور وہی موسیٰ جس نے خدا کے سامنے اپنی کمزوری کا اِظہار کِیا کہ وہ فصیح نہیں یعنی وہ ڈھنگ سے بول نہیں سکتا، ’’تب موسیٰ نے خداوند سے کہا، اَے خداوند! مَیں فصیح نہیں۔ نہ تو پہلے ہی تھا اور نہ جب سے تُو نے اپنے بندے سے کلام کِیا بلکہ رُک رُک کر بولتا ہوں اور میری زبان کُند ہے۔ ‘‘ (خروج ۴:۱۰) جی ہاں، وہی رُک رُک کر بولنے والا، کُند زبان موسیٰ اِلٰہی قدرت و طاقت پا کر کوہِ سینا پر خدا سے باتیں کرتا تھا اور اُسی کو اپنی شریعت دے کر بنی اِسرائیل کے پاس بھیجا۔
اِسی طرح جب خدا خود اپنے بیٹے کی صُورت میں اِنسان بن کر دُنیا میں آیا تو اُس نے اپنے آسمانی مشن کو تکمیل تک پہنچانے کے لئے عبادت گاہوں میں بیٹھے شرع کے عالموں اور مذہبی راہنمائوں کی طرف نہیں بلکہ جھیل میں مچھلیاں پکڑتے مچھیروں کی طرف رُخ کِیا اور اُنہیں آسمان کی بادشاہی کی خوشخبری پھیلانے کے لئے چُنا۔ اور جب مسیح خداوند نے اُنہیں اپنے پیچھے آنے کو کہا تو وہ بھی ابرہام کی طرح جِسے خدا نے اپنے وطن، ناتے داروں اور گھر بار چھوڑ کر انجان مُلک جانے کو کہا تو اُس نے خدا سے یہ نہ پوچھا کہ تُو مجھے کہاں اور کیوں بھیج رہا ہے؟ میرے گھر والوں کا کیا ہو گا؟ اُن کی دیکھ بھال کون کرے گا؟ مگر ابرہام خدا کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اِیمان سے ایک انجان مُلک کی طرف روانہ ہو گیا۔ اِسی طرح مسیح خداوند کے شاگرد بھی اپنا سب کچھ چھوڑ کر اُس کے پیچھے ہو لئے۔ ’’اور اُس نے (یعنی مسیح یسوع نے) گلیل کی جھیل کے کنارے پِھرتے ہوئے دو بھائیوں یعنی شمعون کو جو پطرس کہلاتا ہے اور اُس کے بھائی اندریاس کو جھیل میں جال ڈالتے دیکھا کیونکہ وہ ماہی گیر تھے، اور اُن سے کہا، میرے پیچھے چلے آئو تو مَیں تم کو آدم گیر بنائوں گا۔ وہ فوراً جال چھوڑ کر اُس کے پیچھے ہو لئے۔ اور وہاں سے آگے بڑھ کر اُس نے اَور دو بھائیوں یعنی زبدی کے بیٹے یعقوب اور اُس کےبھائی یوحنا کو دیکھا کہ اپنے باپ زبدی کے ساتھ کشتی پر اپنے جالوں کی مرمت کر رہے ہیں اور اُن کو بُلایا۔ وہ فوراً کشتی اور اپنے باپ کو چھوڑ کر اُس کے پیچھے ہو لئے۔‘‘ (متی ۴:۱۸-۲۲)
آپ نے دیکھا کہ شاگردوں نے یہ نہیں پوچھا کہ ہم کیوں تیرے پیچھے آئیں؟ ہماری کشتیوں اور کاروبار کا کیا ہو گا؟ ہمارا تو پیشہ ہی ماہی گیری ہے جس سے ہم اپنے بال بچوں کا پیٹ پالتے ہیں، ہمیں تیرے پیچھے آنے سے کیا مالی فائدہ ہو گا؟ یہ ہے وہ وفاداری و قربانی اور عزم و اِرادہ جس کو خدا چُننے سے پہلے دیکھتا ہے۔ لیکن اگر خود پسندی، خود غرضی اور دُنیاوی مال و دولت ہی ہماری زندگی کا مرکز و محور ہے تو یقیناً ہم خدا کے چُنے ہوئے لوگوں میں شامل نہیں ہو سکتے۔ اِسی لئے مسیح یسوع نےفرمایا، ’’ ۔۔۔ اگر کوئی میرے پیچھے آنا چاہے تو اپنی خودی کا اِنکار کرے اور اپنی صلیب اُٹھائے اور میرے پیچھے ہو لے۔‘‘ (متی۱۶:۲۴) ایک اَور موقع پر اُنہوں نے فرمایا، ’’کوئی آدمی دو مالِکوں کی خدمت نہیں کر سکتا کیونکہ یا تو ایک سے عداوت رکھے گا اور دوسرے سے محبت، یا ایک سے مِلا رہے گا اور دوسرے کو ناچیز جانے گا۔ تم خدا اور دولت دونوں کی خدمت نہیں کر سکتے۔‘‘ (متی ۶:۲۴)
آئیے اپنے خالق و مالک کی طرف سے چُنے جانے اور خدمت کے لئے ہر وقت تیار رہیں۔ لازم ہے کہ ہمارا چال چلن، سوچ خیال اور دِل دماغ مسیح یسوع کے شاگردوں کی مانند ہو جو اپنا سب کچھ چھوڑ کر بھیڑوں کی مانند اپنے خداوند کے پیچھے چل پڑے، ہمارا بھی فرض ہے کہ جب اچھا چرواہا یعنی خدا ہمیں اپنی خدمت کے لئے چُنے تو ہم بھی پورے یقین و اعتماد اور وفاداری و تابعداری سے اپنے مالِک و راہنما کے پیچھے چل پڑیں، اور یقین رکھیں کہ اچھا چرواہا اپنی بھیڑوں کو ہر طرح کی آفت مُصیبت، دُکھ بیماری اور ڈر خطرے سے بچاتا ہے۔ وہ دِن رات اُن کی رکھوالی کرتا اور زرخیز چراگاہوں میں لے چلتا ہے۔ وہ اپنی چُنی ہوئی بھیڑوں کو نام بنام جانتا اور اُن کے لئے جان تک قربان کرنے سے دریغ نہیں کرتا۔ بے شک خدا ہمارا اچھا چرواہا ہے۔
جی ہاں، خدا ہمارا اچھا چرواہا ہے، اور خدا کی یہی وہ خصوُصیت ہے جس کا ہم اپنے اگلے پروگرام میں ذکر کریں گے، ضرور سُنئیے گا۔