Skip to content

خدا تنبیہ و تربیت کرتا ہے

Posted in خُدا کی تلاش

کہتے ہیں کہ اِنسان اپنی تنبیہ و تربیت سے پہچانا جاتا ہے کہ اچھا ہے یا بُرا۔ ایک اچھا اِنسان اپنے ماں باپ کی تنبیہ و تربیت کو ہمیشہ یاد رکھتا ہے اور دیکھنے والے بھی اُس کے اچھے چال چلن اور طرزِ زندگی کی تعریف کرتے اور اُس کے ماں باپ کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں جِنہوں نے اپنے بچے کی اِتنی اچھی پرورش کی۔ دوسری طرف بُرا اِنسان نہ صرف اپنے لئے لعن طعن اور ذِلت و رسوائی کا سبب بنتا ہے بلکہ لوگ اُس کے ماں باپ کو بھی اپنی طنز کا نشانہ بناتے ہیں کہ وہ اِس کی اچھی تنبیہ و تربیت نہ کر سکے۔ ’’چھڑی اور تنبیہ حِکمت بخشتی ہیں لیکن جو لڑکا بے تربیت چھوڑ دیا جاتا ہے اپنی ماں کو رُسوا کرے گا۔‘‘ (امثال ۲۹:۱۵) بائبل مُقدس میں ایک اَور مقام پر لکھا ہے، ’’اپنے بیٹے کی تربیت کر اور وہ تجھے آرام دے گا اور تیری جان کو شادمان کرے گا۔‘‘ (امثال ۲۹:۱۷) اور پھر لکھا ہے، ’’لڑکے کی اُس راہ میں تربیت کر جس پر اُسے جانا ہے، وہ بوڑھا ہو کر بھی اُس سے نہیں مڑے گا۔‘‘ (امثال ۲۲:۶) اور بچوں کی حلیمی و تابعداری بارے خدا کا زندہ کلام کہتا ہے، ’’دانشمند بیٹا اپنے باپ کی تعلیم کو سُنتا ہے لیکن ٹھٹھا باز سَرزنش پر کان نہیں لگاتا۔‘‘ (امثال ۱۳:۱) پاک اِلہامی کلام میں ایک باپ کی خوشی و شادمانی کو یوں بیان کِیا گیا ہے، ’’تربیت پر دِل لگا اور علم کی باتیں سُن۔ …اَے میرے بیٹے! اگر تُو دانا دِل ہے تو میرا دِل، ہاں میرا دِل خوش ہو گا اور جب تیرے لبوں سے سچی باتیں نکلیں گی تو میرا دِل شادمان ہو گا۔‘‘ (امثال ۲۳:۱۲-۱۶)

ظاہر ہے کون سی ماں یا کون سا باپ ہے جو نہیں چاہتا کہ اُس کی اولاد نیک، دانا اور سچ بولنے والی ہو تاکہ ماں باپ کا دِل شادمان و خوش ہو۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ جب باغبان باغیچہ میں چھوٹا سا پودا لگاتا ہے اور وقت پر پانی دیتا، نگہبانی و کاٹ چھانٹ کرتا ہے تو پودا تر و تازگی سے پھلتا پھولتا اور ڈھیر سارا پھل پیدا کرتا ہے۔ مگر وہ پودا جس کو لاپرواہی سے اپنے حال پر چھوڑ دیا جائے، نہ تو وقت پر پانی دیا جائے، نہ کاٹ چھانٹ کی جائے اور نہ تپتی ہوئی تیز دُھوپ سے بچایا جائے تو یقیناً وہ سُوکھ کر مُرجھا جاتا اور باغ کے دوسرے پودُوں کے لئے بھی بدنُمائی و بدصُورتی کا سبب بنتا ہے۔ اِسی طرح خدا بھی ہمارا اچھا باغبان ہے اور ہم اُس کی تخلیق اُس کے باغ کے خوشنما پھول ہیں جِنہیں اُس نے اپنے ہاتھ سے اپنی شبِیہ پر بنایا اور چاہتا ہے کہ اُس کے لوگ اُسی کی طرح پاک و راستباز ہوں اور بہت سا پھل لائیں۔ اِسی لئے وہ اپنے پاک اِلہامی زندہ کلام سے اپنی مخلوق کی آبیاری کرتا، تنبیہ و تربیت اور ملامت کرتا ہے تاکہ ایک سرسبز و شاداب پھلدار درخت بن کر دوسروں کے لئے تر و تازگی اور افزائش و خوراک کا سبب بنیں۔ پولس رسول خدا کے رُوح کی تحریک سے سَر شار ہو کر کہتا ہے، ’’…اَے میرے بیٹے! خداوند کی تنبیہ کو ناچیز نہ جان اور جب وہ تجھے ملامت کرے تو بے دِل نہ ہو کیونکہ جس سے خداوند محبت رکھتا ہے اُسے تنبیہ بھی کرتا ہے اور جس کو بیٹا بنا لیتا ہے اُس کے کوڑے بھی لگاتا ہے۔ …علاوہ اِس کے جب ہمارے جسمانی باپ ہمیں تنبیہ کرتے تھے اور ہم اُن کی تعظیم کرتے رہے تو کیا رُوحوں کے باپ (یعنی خدا) کی اِس سے زیادہ تابعداری نہ کریں جس سے ہم زندہ رہیں؟ …بالفعل ہر قِسم کی تنبیہ خوشی کا نہیں بلکہ غم کا باعث معلوم ہوتی ہےہ مگر جو اُس کو سہتے سہتے پختہ ہو گئے ہیں اُن کو بعد میں چین کے ساتھ راستبازی کا پھل بخشتی ہے۔‘‘ (عبرانیوں۱۲:۵، ۹-۱۱)

ظاہر ہے تنیبہ و تربیت اور چھڑی کا اِستعمال خواہ زمینی باپ کرے یا آسمانی بچوں کے لئے خوشی کا باعث نہیں ہوتا۔ ہاں، ہمارا جسمانی باپ ہماری تربیت کرنے میں غلط ہو سکتا ہے، ممکن ہے اُس کا مقصد بے جا مارپیٹ کرنا ہو یا کسی اَور وجہ سے دِل کی بھڑاس نکالنا ہو یا ممکن ہے بچوں کے سامنے باپ کا اپنا کردار معیاری نہ ہو تو ظاہر ہے ایسی حالت میں بچوں پر تنبیہ و تربیت کا خاک اثر ہو گا کیونکہ وہ تو خود ہی اُن کے سامنے ایک اچھا نمونہ نہیں۔ اِسی لئے پولس رسول خدا کے پاک اِلہامی کلام میں اولاد والوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے۔ ’’اَے اولاد والو! اپنے فرزندوں کو دِق نہ کرو تاکہ وہ بیدل نہ ہو جائیں۔‘‘ (کلسیوں۳:۲۱) مگر دوسری طرف کیونکہ ہمارا آسمانی باپ یعنی خدا اپنی ذات و وجود میں خود پاک و راستباز ہے اور اُس کی ہمارے ساتھ محبت بھی کامِل ہے، اِسی لئے جب وہ ہمیں تنبیہ و تربیت کرے گا تو اُس میں ہمیں خدا کی اچھائی اور محبت و کاملیت کی جھلک نظر آئے گی۔ ہمارا جسمانی باپ اپنے بچوں کی تربیت کچھ مدُت کے لئے اپنی غرض و مقصد کے تحت کرتا ہے۔ ’’وہ تو تھوڑے دِنوں کے واسطے اپنی سمجھ کے مُوافق تنبیہ کرتے تھے…‘‘ (عبرانیوں ۱۲:۱۰) ظاہر ہے کہ جب کوئی اِنسان اپنی عقل و سمجھ کے مطابق اپنے بچوں کی تربیت کرے گا تو اپنا فائدہ سوچے گا اور بے شک اُس کا اِرادہ و نیت بالکل ٹھیک ہو مگر پھر بھی غلطی کا اِمکان ہو سکتا ہے، مگر رُوحانی باپ جب ہمیں تنبیہ و تربیت کرتا ہے تو غلط ہو ہی نہیں سکتا، وہ ہمیشہ ہمارا ہی فائدہ سوچتا ہے۔ ’’…مگر یہ (یعنی خدا) ہمارے فائدہ کے لئے کرتا ہے تاکہ ہم بھی اُس کی پاکیزگی میں شامل ہو جائیں۔‘‘ (عبرانیوں۱۲:۱۰)

بِلا شک و شبہ خدا کی تنبیہ و تربیت کا مقصد ہمیں سزا یا دِق دینا نہیں بلکہ ہمارے پُرانے طرزِ زندگی کو تبدیل کرکے نیا مخلوق بنانا ہوتا ہے تاکہ ہم ایسے کام کریں جو دوسروں کے لئے بھی برکت و خوشی کا باعث ہوں۔ اَب شائد کوئی سوال کرے کہ کیسے پتہ چلے گا کہ جو تکلیف، آفت، مُصیبت، دُکھ بیماری مجھ پر آئی ہے وہ خدا کی طرف سے میری تنبیہ و تربیت کے لئے ہے یا کہیں میرے گناہ، گناہ میں گری ہوئی دُنیا یا شیطان اِس کا سبب تو نہیں؟ تو اِس کا جواب یہ ہے کہ ہر دُکھ تکلیف، اِذیت و بیماری کا ذمہ دار خدا کو ٹھہرانا ٹھیک نہیں۔ خدا کے پیارے بندے ایوب نبی کی مثال ہمارے سامنے ہے اُس نے کوئی گناہ نہیں کِیا تھا حالانکہ اُس کے دوست سمجھتے تھے کہ یہ ساری تکلیفیں اور بیماریاں اُس کے کسی پوشیدہ گناہ کے سبب سے آئی ہیں مگر درحقیقت وہ خدا کا وفادار و راستباز بندہ تھا۔ مگر دوسری طرف اِس حقیقت سے بھی اِنکار نہیں کِیا جا سکتا کہ کچھ آزمائشیں اور مُصیبتیں ہماری ہی کوتاہیوں اور لاپرواہیوں کے سبب سے آن پڑتی ہیں، لیکن اچھا خدا پھر بھی ہماری تنبیہ و تربیت کرنا چاہتا ہے تاکہ ہماری ٹیڑھی تِرچھی زندگی کو کاٹ چھانٹ کر پاک و راستباز بنائے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ جب ہم دُکھ، تکلیف، مُصیبت و بیماری کی تاریک وادی میں سے گزر رہے ہوں تو ہمیں اپنے آپ سے پوچھنا چاہیے کہ اَے خدا! تُو مجھ سے اِس حالت میں کیا چاہتا ہے؟ مجھے بتا کہ مَیں اِس آزمایش کی گھڑی میں بھی کیسے کامِل بنوں اور تیرا جلال ظاہر کروں؟ خدا کے زندہ کلام میں لکھا ہے، ’’اَے میرے بھائیو! جب تم طرح طرح کی آزمایشوں میں پڑو تو اِس کو یہ جان کر کمال خوشی کی بات سمجھنا کہ تمہارے اِیمان کی آزمایش صبر پیدا کرتی ہے، اور صبر کو پورا کام کرنے دو تاکہ تم پورے اور کامِل ہو جائو اور تم میں کسی بات کی کمی نہ رہے۔‘‘ (یعقوب۱:۲-۴) جیسا کہ ہم نے پہلے کہا کہ خدا جب ہمیں تراشتا اور کاٹ چھانٹ کرتا ہے تو اُس کا مقصد سزا دینا نہیں ہوتا کیونکہ ہماری سزا تو پہلے ہی مسیح یسوع نے صلیب پر اپنا پاک خون بہا کر برداشت کر لی ہے۔ وہ ہمیں کسی کرب و تکلیف میں بھی مُبتلا کرنا نہیں چاہتا، نہ ہی غیظ و غضب سے بھر کر کوئی اِنتقامی کاروائی کرتا ہے، وہ ہمارے ساتھ کسی بھی طرح بے اِنصافی سے کام نہیں لیتا اور نہ ہی وہ ہمیں ایسی تکلیف بیماری یا آزمایش میں ڈالتا ہے جو ہماری ہی بھلائی و اچھائی کے لئے نہ ہو۔ اِسی لئے پولس رسول اپنے اِلہامی خط میں کہتا ہے، ’’اور ہم کو معلوم ہے کہ سب چیزیں مِل کر خدا سے محبت رکھنے والوں کے لئے بھلائی پیدا کرتی ہیں یعنی اُن کے لئے جو خدا کے اِرادہ کے مُوافق بُلائے گئے۔‘‘ (رُومیوں ۸:۲۸)

ذہن میں رہے کہ ہم خدا کے بچے، اُس کے فرزند ہیں۔ خدا ہم سے محبت کرتا ہے۔ اُس کی تنبیہ و تربیت میں بھی محبت و پیار چھپا ہوتا ہے لہذا جب خدا ہمیں تنبیہ و تربیت کرتا ہے تو ہمیں ناراض و بے دِل نہیں ہونا چاہیے کیونکہ خواہ کچھ بھی ہو خدا ہر حالت میں اپنے بچوں کے لئے بھلائی پیدا کرے گا۔ کبھی کبھی ڈاکٹر یا حکیم کی دی ہوئی دوائی منہ میں کڑوی لگتی ہے اور ہم بے دِل ہو جاتے ہیں مگر ڈاکٹر یا حکیم کا مقصد بُرا نہیں ہوتا بلکہ وہ ہماری ہی بھلائی کے لئے دوائی دیتا ہے تاکہ جلد صحت یاب ہو جائیں۔ اِسی طرح نظم و ضبط اور تنبیہ و تربیت بھی کبھی کبھی کڑوی لگتی ہے مگر یاد رکھیئے کہ ڈاکٹروں کا ڈاکٹر اور حکیموں کا حکیم ہمارا اچھا خدا ہمارے ساتھ اپنی محبت سے مجبور ہو کر جو کچھ بھی کرتا ہے اُس میں ہماری ہی بھلائی ہوتی ہے۔ مسیح کے پیروکار مسیح میں پھلدار ڈالیوں کی مانند ہیں اور خدا باغبان ہے جو ڈالی تنبیہ و تربیت کے باوجود راستبازی کے پھل پیدا نہیں کرتی وہ اُسے کاٹ ڈالتا ہے۔ اِسی لئے مسیح یسوع نے فرمایا، ’’انگور کا حقیقی درخت مَیں ہوں اور میرا باپ (یعنی خدا) باغبان ہے۔ جو ڈالی مجھ میں ہے اور پھل نہیں لاتی اُسے وہ کاٹ ڈالتا ہے اور جو پھل لاتی ہے اُسے چھانٹتا ہے تاکہ زیادہ پھل لائے۔‘‘ (یوحنا ۱۵:۱-۲) لہذا اگر کوئی مسیح میں ہے تو تنبیہ و تربیت اور کاٹ چھانٹ سے بیزار نہ ہو بلکہ مُقدس و پاک بن کر اَور زیادہ پھل لائے۔ جب ہم مُصیبتوں اور بیماریوں کے طوفان میں گِھر جائیں تو اپنی زندگی کا جائزہ لیں، پرکھیں، جانچیں اور ایک دوسرے سے اپنے قصورُوں اور گناہوں کا اِقرار کریں۔ ’’پس تم آپس میں ایک دوسرے سے اپنے اپنے گناہوں کا اِقرار کرو اور ایک دوسرے کے لئے دُعا کرو تاکہ شِفا پائو۔ راستباز کی دُعا کے اثر سے بہت کچھ ہو سکتا ہے۔‘‘ (یعقوب ۵:۱۶)

بہنو اور بھائیو! کیا آپ دُکھوں، تکلیفوں اور بیماریوں کے بُوجھ تلے دبے مایوس و نااُمید ہیں؟ کیا آپ بے حوصلہ و بے دِل ہیں کہ خدا آپ کو بھول چُکا ہے؟ وہ آپ کے حالات سے بے خبر، کہیں دُور آسمان پر بیٹھا ہے مگر ایسا ہرگز نہیں۔ آپ اپنے گناہوں کی شرمندگی کے باعث پاک خدا سے چھپتے پِھر رہے ہیں حالانکہ وہ تو آپ کو پُکار رہا ہے اور چاہتا ہے کہ آپ سے باتیں کرے اور شخصی رفاقت رکھے کیونکہ خدا شخصی خدا ہے۔

جی ہاں، خدا شخصی خدا ہے، اور خدا کی یہی وہ خصوُصیت ہے جس کا ہم اپنے اگلے پروگرام میں ذِکر کریں گے، ضرور سُنئیے گا۔