Skip to content

خدا دُعائوں کا جواب دیتا ہے

Posted in خُدا کی تلاش

لفظ دُعا کے مطلب و مفہوم سے کون واقف نہیں، خواہ کوئی کسی بھی عقیدے و مذہب سے کیوں نہ ہو جانتا ہے کہ دُعا کیا ہے۔ لیکن ہم میں سے اکثر دُعا کو کچھ مانگنے تک ہی محدُود رکھتے ہیں حالانکہ دُعا کی اہمیت مانگنے سے کہِیں زیادہ ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ دُعا مانگنے کی بُنیاد و مرکز کون ہے، زمین و آسمان کا خالق و مالک یعنی خدائے واحد یا کوئی اَور مُعتبر و بزرگ ہستی۔ دونوں میں بُنیادی فرق یہ ہے کہ خدائے قدُوس کے پاس آپ پاکیزگی و راستبازی کی حالت میں ہی آ سکتے ہیں کیونکہ وہ خود پاک و راستباز ہے مگر کسی مُعتبر و بزرگ ہستی کے پاس آپ جس حالت میں چاہیں حاضر ہو سکتے ہیں پاک و راستباز ہونا ضروری نہیں اور نہ ہی وہ آپ کی پاکیزگی و راستبازی بارے کوئی سوال کرے گا۔ مطلب یہ کہ ہم گناہگار اِنسان گناہ کی حالت میں گناہ سے پاک خدا کا سامنا نہیں کر سکتے ہاں، توبہ و معافی پانے کی صورت میں دلیری سے اُس کا سامنا کر سکتے ہیں، اور اُس کے خاندان کے فرد بن کر جب چاہیں دُعا بھی مانگ سکتے ہیں اور دُعا کا جواب بھی پا سکتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ دُعا ہے کیا؟ دُعا مخلوق کا اپنے تخلیق کار یعنی اِنسان کی رُوح کا خدا کی رُوح کے ساتھ ایک رُوحانی رابطہ ہے، یہ ایسا دو طرفہ تعلق و رشتہ ہے جس کے وسیلہ ہم خدا سے باتیں کرتے ہیں۔ خدا کے لوگ اپنے جذبات و خواہشات کا اِظہار خدا سے کرتے ہیں اور اُس کے ساتھ رفاقت رکھتے ہیں۔ خدا سے دُعا مانگنا بالکل ایسے ہی ہے جیسے ایک بچہ اپنے باپ سے باتیں کرتا ہے، یہ ایک قدرتی بات ہے کہ بچہ اپنے باپ سے اپنی ضرورت کی چیزیں مانگتا ہے اور باپ کی مرضی پر چلتا ہے۔ اِسی طرح خدا بھی ہمیں بچوں کی طرح پیار کرتا ہے اور اپنے پاس آنے اور دُعا مانگنے کی ہمت و حوصلہ بخشتا ہے۔ ’’وہ مجھے پُکارے گا اور مَیں اُسے جواب دُوں گا۔ مَیں مُصیبت میں اُس کے ساتھ رہوں گا۔ مَیں اُسے چھڑائوں گا اور عزت بخشوں گا۔‘‘ (زبور۹۱:۱۵) اور خداوند خدا یسعیاہ نبی کی معرفت کہتا ہے، ’’اور یوں ہو گا کہ مَیں اُن کے پُکارنے سے پہلے جواب دُوں گا اور وہ ہنوز کہہ نہ چُکیں گے کہ مَیں سُن لوں گا۔‘‘ (یسعیاہ ۶۵:۲۴) لیکن خدا تب ہماری پکار کا جواب دے گا جب ہم سچے دِل سے اُس کے حضور اپنی منت و فریاد پیش کریں گے۔ خدا کا نیک بندہ دائود نبی کہتا ہے، ’’خداوند اُن سب کے قریب ہے جو اُس سے دُعا کرتے ہیں یعنی اُن سب کے جو سچائی سے دُعا کرتے ہیں۔ جو اُس سے ڈرتے ہیں وہ اُن کی مُراد پوری کرے گا، وہ اُن کی فریاد سُنے گا اور اُن کو بچا لے گا۔‘‘ (زبور۱۴۵:۱۸-۱۹) دُعا کے لئے کوئی خاص وقت، سمت، دِن یا لباس نہیں، آپ جب چاہیں، جہاں چاہیں، جس وقت چاہیں بلکہ جس حالت میں بھی ہوں خدا کے پاس حاضر ہو سکتے ہیں۔ دُعا دوسرے سُن بھی سکتے ہیں اور خاموشی و تنہائی میں بھی کی جا سکتی ہے اور اجتماعی طور پر بھی مانگی جا سکتی ہے، مگر دُعا جب بھی مانگی جائے اِیمان، یقین و اعتقاد سے مانگی جائے۔ پاک کلام میں لکھا ہے، ’’مگر اِیمان سے مانگے اور کچھ شک نہ کرے کیونکہ شک کرنے والا سمندر کی لہر کی مانند ہوتا ہے جو ہَوا سے بہتی اور اُچھلتی ہے۔‘‘ (یعقوب ۱:۶)

مسیح یسوع کا پیروکار جو اپنے گناہوں سے معافی پا کر خدا کے خاندان میں شامل ہو چُکا ہے اُسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ خدا کے سامنے دلیری کے ساتھ حاضر ہو کیونکہ خداوند خدا اُس کا رُوحانی باپ ہے، اور باپ کے پاس آپ جب چاہے آ سکتے ہیں اور مانگ سکتے ہیں۔ خدائے قدُوس پاک الہامی کلام میں اِس کی یوں تصدیق کرتا ہے۔ ’’اور ہمیں جو اُس کے سامنے دلیری ہے اُس کا سبب یہ ہے کہ اگر اُس کی مرضی کے مُوافق کچھ مانگتے ہیں تو وہ ہماری سُنتا ہے۔ اور جب ہم جانتے ہیں کہ جو کچھ ہم مانگتے ہیں وہ ہماری سُنتا ہے تو یہ بھی جانتے ہیں کہ جو کچھ ہم نے اُس سے مانگا ہے وہ پایا ہے۔‘‘ (۱-یوحنا ۵:۱۴-۱۵)

خداوند یسوع مسیح کا پیروکار اِس لئے بھی اعتماد، اعتقاد، یقین، بھروسہ اور دلیری کے ساتھ دُعا مانگتا ہے کہ وہ جانتا ہے کہ جو کچھ مَیں مسیح کے نام پر خدا سے مانگوں گا وہ مجھے مسیح کے نام پر دے گا کیونکہ مسیح یسوع نے اپنے کلام میں یہ وعدہ کِیا ہے۔ ’’اگر تم مجھ میں قائم رہو اور میری باتیں تم میں قائم رہیں تو جو چاہو مانگو، وہ تمہارے لئے ہو جائے گا۔‘‘ (یوحنا ۱۵:۷)

اَب شائد کوئی سوال کرے کہ مَیں تو مسیح کا پیروکار ہوں اور روزانہ خدا سے دُعا مانگتا ہوں مگر مجھے ابھی تک دُعا کا جواب نہیں مِلا، بلکہ مَیں تو مایوس ہو چُکا ہوں کہ پتہ نہیں خدا دُعا سُنتا بھی ہے یا نہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ اگر آپ دُعا مانگتے اور آمین کہتے ہی پھر سے مایوسی و شک کی لہروں میں ہچکولے کھانے لگتے ہیں تو اِس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ نے خدا پر اعتماد و بھروسہ نہیں کِیا اور نہ ہی اُسے اپنا کام کرنے کا موقع دیا ہے، اور یہ بھی ممکن ہے کہ جو آپ مانگ رہے ہیں وہ آپ کے لئے آگے چل کر نقصان دہ ہو۔ ممکن ہے کہ خدا چاہتا ہے کہ آپ صبر سے کام لیں اور اُس کی مرضی و وقت کا اِنتظار کریں، اور یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ آپ کو دُعا کا جواب مِل گیا ہو مگر آپ اُس کے لئے تیار ہی نہیں۔ شائد آپ کی زندگی میں کوئی ایسا گناہ ہے جو دُعا کے جواب میں رکاوٹ ہے، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کیا آپ مسیح یسوع میں اور اُس کے کلام کی باتیں آپ میں قائم ہیں؟ کیا آپ خدا کی مرضی کے مُوافق کچھ مانگتے ہیں یا ایک ہی ضِد ہوتی ہے کہ ابھی اِسی وقت دے خواہ تیری مرضی ہے یا نہیں۔ مطلب یہ ہوا کہ آپ خدا کی مرضی نہیں اپنی مرضی کو اولیت و اہمیت دے رہے ہیں، تو خود ہی سُوچئیے کہ خدا کیوں آپ کی سُنے گا؟ پاک اِلہامی کلام میں لکھا ہے، ’’تم مانگتے ہو اور پاتے نہیں اِس لئے کہ بُری نیت سے مانگتے ہو تاکہ اپنی عیش و عشرت میں خرچ کرو۔‘‘ (یعقوب۴:۳)

اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم خاندان کے کسی فرد یا خود اپنی صحت یابی کے لئے خدا کے حضور دُعا کرتے ہیں اور اگر جواب شفا میں نہیں ملتا تو خدا سے ناراض ہو جاتے ہیں کہ تُو نے میری سُنی نہیں حالانکہ خدا آپ کی سُن چُکا ہے مگر چاہتا ہے کہ بیماری یا تکلیف میں ثابت قدم رہیں اور صبر و تحمل سے اُس کا جلال ظاہر کریں۔ اگرچہ بیماری، تنگی، محتاجی اور لاچاری میں صبر سے خدا کے جلال کا مظاہرہ کرنا نہایت مشکل کام ہے مگر اکثر خدا کی یہی مرضی ہوتی ہے کہ ہم بھرپور اِیمان کے ساتھ اُس پر یقین و بھروسہ کرنا سیکھیں۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ہماری دُعائوں کا مرکز و محور یا تو ہماری اپنی ذات ہوتی ہے یا ہمارے خاندان کے لوگ، لیکن مسیح یسوع نے محبت و پیار اور دُعا کا ایک ایسا نمونہ پیش کر دیا ہے جس کی روشنی میں ہمیں اُن لوگوں کے لئے بھی دُعا کرنی چاہیے جِنہیں ہم پسند نہیں کرتے یا اپنا دُشمن سمجھتے ہیں۔ مسیح خداوند کو رُومیوں اور یہودی مذہبی راہنمائوں نے حسد میں آ کر کوڑے مارے، کانٹوں کا تاج پہنایا اور پھر ہاتھوں، پائوں میں کِیل ٹھونک کر صلیب پر لٹکا دیا، یہ ایک اذیت ناک موت تھی جو اُنہوں نے بے گناہ و پاک ہونے کے باوجود ہم گناہگاروں کے لئے برداشت کی تاکہ ہم گناہوں کی معافی و نجات پا کر ابدی ہلاکت سے بچ جائیں مگر اِس تکلیف و کرب کی حالت میں بھی اُنہوں نے اپنے دُشمنوں کے لئے یوں دُعا کی، ’’…اَے باپ (یعنی اَے خدا) اِن کو مُعاف کر کیونکہ یہ جانتے نہیں کہ کیا کرتے ہیں۔‘‘ (لوقا ۲۳:۳۴) کیا ہم نے کبھی اپنے دُشمنوں کے لئے دُعا کی ہےـ یا صرف وہی لوگ ہماری دُعائوں میں شامل ہیں جو ہم سے محبت کرتے اور ہمارے قریب ہیں؟ یہ ایک ایسا رُوحانی پیمانہ ہے جس سے ہم اپنی مسیحی زندگی کی جانچ پرکھ کر سکتے ہیں۔ معزز سامعین! ہمارے خداوند یسوع مسیح کی زمینی زندگی میں دُعا ایک اہم اور مرکزی حیثیت رکھتی تھی۔ وہ شاگردوں کے ساتھ بھی باقاعدہ دُعا کرتے تھے اور اکیلے کسی ویرانے میں جا کر بھی اپنے باپ یعنی خدا سے باتیں کرتے تھے۔ اِسی لئے اُنہوں نے اپنے شاگردوں کے سامنے دُعا کا ایک نمونہ، ایک ماڈل پیش کِیا جِسے دُعائے ربانی بھی کہتے ہیں۔

چلئیے آئیے دیکھتے ہیں کہ مسیح یسوع نے دُعا مانگنے کے بارے میں کیا فرمایا، ’’اور دُعا کرتے وقت غیر قوموں کے لوگوں کی طرح بک بک نہ کرو کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے بہت بولنے کے سبب سے ہماری سُنی جائے گی۔ پس اُن کی مانند نہ بنو کیونکہ تمہارا باپ (یعنی خدا) تمہارے مانگنے سے پہلے ہی جانتا ہے کہ تم کِن کِن چیزوں کے مُحتاج ہو۔ پس تم اِس طرح دُعا کِیا کرو کہ اَے ہمارے باپ، تُو جو آسمان پر ہے تیرا نام پاک مانا جائے۔ تیری بادشاہی آئے، تیری مرضی جیسی آسمان پر پوری ہوتی ہے زمین پر بھی ہو۔ ہماری روز کی روٹی آج ہمیں دے۔ اور جس طرح ہم نے اپنے قرضداروں کو مُعاف کِیا ہے تُو بھی ہمارے قرض ہمیں مُعاف کر۔ اور ہمیں آزمایش میں نہ لا بلکہ بُرائی سے بچا کیونکہ بادشاہی اور قدرت اور جلال ہمیشہ تیرے ہی ہیں، آمین۔‘‘ (متی ۶:۷-۱۳)

اِس چھوٹی سی دُعا کا محض رٹنا یا حِفظ کر لینا یا بِنا سوچے سمجھے پڑھنا ہی مقصد نہیں بلکہ اِس کے ایک ایک لفظ پر غور کرنا اہم و ضروری ہے تاکہ جانیں کہ خدائے بزرگ و برتر کی بادشاہی اور قدرت و جلال کے سامنے گھٹنوں کے بل گر کر دُعا کیسے مانگنا ہے۔ ہم میں سے اکثر ایسے بھی ہیں جن کی زندگی دُعا سے بالکل خالی ہوتی ہے یعنی اُن کے ہاتھ صرف اُسی صورت دُعا کے لئے اُٹھتے ہیں جب اُن پر کوئی مُصیبت دُکھ، تکلیف، بیماری آ جاتی ہے، پھر وہ خدا کے سامنے رو رو کر اور گھٹنے ٹیک ٹیک کر اِلتجائیں بھی کریں گے، گناہوں سے معافی بھی مانگیں گے اور آئندہ گناہ نہ کرنے کے وعدے بھی کریں گے مگر جُونہی دُکھ بیماری مُصیبت ٹل گئی تو پھر اپنی پُرانی روِش پر آ جاتے ہیں اور خدا کو یا تو بھول جاتے ہیں یا جب دِل کِیا یاد کر لیتے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ خداوند کے اِلہامی کلام میں پولس رسول کیا کہتا ہے، ’’ہر وقت خوش رہو، بِلاناغہ دُعا کرو۔‘‘ (۱-تھسلنیکیوں ۵:۱۶) پھر کہتا ہے، ’’اور ہر وقت اور ہر طرح سے رُوح میں دُعا اور مِنت کرتے رہو اور اِسی غرض سے جاگتے رہو کہ سب مُقدسوں کے واسطے بِلاناغہ دُعا کِیا کرو۔‘‘ (افسیوں ۶:۱۸) بہنو اور بھائیو! آئو بِلاناغہ رُوح اور سچائی کے ساتھ خدا کے سامنے جُھکیں اور سچے آسمانی خدا سے دُعا مانگیں کیونکہ خدا سچا ہے۔

جی ہاں، خدا سچا ہے، خدا کی یہی وہ خصوُصیت ہے جس کا ہم اپنے اگلے پروگرام میں ذِکر کریں گے، سُننا مت بھولئیے گا۔