Skip to content

خدا عادل خدا ہے

Posted in خُدا کی تلاش

ایک بہترین لیڈر کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ دوسروں کا نہ صرف حوصلہ بڑھاتا ہے بلکہ اپنی سیرت و کردار اور فعل و عمل سے وہ کر کے بھی دِکھاتا ہے جس کی دوسروں سے توقع رکھتا ہے۔ ایک دُور اندیش لیڈر اپنے ساتھیوں کے سامنے ہر لحاظ سے ایک مثالی اِنسان بن کر مشترکہ مقصد کو حاصل کرتا ہے۔ یقیناً یہ ایک ایسا فن یا اِلٰہی نعمت ہے جو ہر کسی کے پاس نہیں ہوتی۔ ہاں، وہ عدل و اِنصاف کا دامن چھوڑ کر ایک اچھا لیڈر ہونے کا جھوٹا دعویٰ تو کرتا ہے مگر بہت جلد اُس کی تنگ نظری، بے اِیمانی، ہٹ دھرمی اور گھمنڈ کا لوگوں کے سامنے پول کھل جاتا ہے، اور وہ اپنی عزت و وقار کھو دیتا ہے۔

ایک اچھے لیڈر، ایک اچھے حکمران، ایک اچھے مُنصف اور ایک اچھے جج کی پہچان اُس کی اِیمانداری، غیر جانب داری اور عدل و اِنصاف ہوتا ہے۔ اپنی اِنہی خوبیوں کی بِنا پر وہ ایک اچھا اِنسان بھی سمجھا جاتا ہے اور دُنیا کی نظر میں اُس کو عزت و شہرت بھی ملتی ہے۔ یہ تو تھیں دُنیادی لیڈر، مُنصف اور جج کی خوبیاں اور خصوصات مگر وہ جو کُل کائنات کا لیڈر، مُنصف اور جج ہے وہ کیسا ہے؟ دُنیا میں قحط و بیماری، تباہی و بربادی، جنگ و جدل، قتل و خون، غربت و محتاجی اور بھوک و تنگ دستی کو دیکھ کر بہت سے لوگ خدا کے عدل و اِنصاف پر شک کرتے اور کہتے ہیں، کیا یہ ہے خدا کا عدل و اِنصاف۔ چلئیے آئیے ہم آپ کو بائبل مُقدس کی روشنی میں خدا کے عدل و اِنصاف کی ایک جھلک دِکھاتے ہیں اور حقائق و دلائل سے ثابت کرتے ہیں کہ خدا عادل ہے۔ یہی بُنیادی وجہ ہے کہ وہ دُنیا کے ظلم و ستم سے ستائے ہوئے اور دُکھوں غموں کے بُوجھ تلے دبے لوگوں کے ساتھ بے اِنصافی برداشت نہیں کرتا کیونکہ وہ بھی اُس کی تخلیق ہیں۔ خدا کے عدل و اِنصاف کا تقاضا ہے کہ وہ غلط صحیح اور سچ جھوٹ کا اپنے اِلٰہی معیار کے عین مطابق فیصلہ کرے۔ جیسا کہ بائبل مُقدس میں خدا کا پیارا بندہ دائود نبی فرماتا ہے، ’’خداوند نیک اور راست ہے۔ اِس لئے وہ گناہگاروں کو راہِ حق کی تعلیم دے گا۔ وہ حلیموں کو اِنصاف کی ہدایت کرے گا۔ ہاں، وہ حلیموں کو اپنی راہ بتائے گا۔ جو خداوند کے عہد اور اُس کی شہادتوں کو مانتے ہیں، اُن کے لئے اُس کی سب راہیں شفقت اور سچائی ہیں۔‘‘ (زبور ۲۵:۸-۱۰) پاک اِلہامی کلام میں لکھا ہے، ’’دیکھ! خدا قادِر ہے اور کسی کو حقیر نہیں جانتا۔ وہ فہم کی قوت میں غالِب ہے۔ وہ شریروں کی زندگی کو برقرار نہیں رکھتا بلکہ مُصیبت زدوں کو اُن کا حق عطا کرتا ہے۔‘‘ (ایوب ۳۶:۵-۶) ہمارا خدا عادِل خدا ہے۔ وہ ہمیشہ وہی کرتا ہے جو ہمارے لئے اچھا ہوتا ہے۔ ہاں، یہ سچ ہے کہ ہم جو محدُود عقل کے مالک ہیں، خدا کی لامحدُود قدرت و طاقت اور عظمت و جلال کو پورے طور پر نہیں سمجھ سکتے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ خدائے بزرگ و برتر کی پاک اِلہامی کلام میں کیسے تصویر کشی کی گئ ہے، ’’اَے خداوند عظمت اور قدرت اور جلال اور غلبہ اور حشمت تیرے ہی لئے ہیں کیونکہ سب کچھ جو آسمان اور زمین میں ہے تیرا ہے۔ اَے خداوند، بادشاہی تیری ہے اور تُو ہی بحیثیت سردار سبھوں سے مُمتاز ہے اور دولت اور عزت تیری طرف سے آتی ہیں اور تُو سبھوں پر حکومت کرتا ہے اور تیرے ہاتھ میں قدرت اور توانائی ہیں اور سرفراز کرنا اور سبھوں کو زور بخشنا تیرے ہاتھ میں ہے۔ اور اَب اَے ہمارے خدا ہم تیرا شکر اور تیرے جلالی نام کی تعریف کرتے ہیں۔‘‘ (۱-تواریخ ۲۹:۱۱-۱۳)

خدا کے جاہ و جلال اور عظمت و حشمت اور عدل و اِنصاف کو سمجھنے کے لئے لازم ہے کہ ہم اپنے دِلوں کے اندر چھپے تعصب اور بغض کو دُور کریں اور حلیمی و فروتنی سے اُس کے حضور اِلتجا کریں کہ وہ ہمارے ذہن کو کھولے تاکہ ہم اُس کے عجائب کو پوری آب و تاب سے دیکھ سکیں۔

ہمیں خدا کی حمد و تمجید کرنی چاہیے کہ شان و شوکت والا بزرگ خدا عدل کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑتا، اِس کے باوجود کہ وہ جو چاہے کر سکتا ہے یعنی اپنے ہر فیصلہ میں خود مُختار ہے۔ کہتے ہیں سزا اور جزا خدا کے ہاتھ میں ہے یعنی نافرمانی کی سزا بھی دیتا ہے اور نیکیوں کا ثواب بھی دیتا ہے، اور اگر چاہے تو ہماری نافرمانیوں کو درگزر کر کے ہمارا دامن نعمتوں سے بھر دے۔ کیا اِس میں آپ کو کہیں خدا کا عدل و اِنصاف نظر آتا ہے؟ وہ کیسا مُنصف ہے جو نافرمانی یعنی گناہ کو دَرگزر کر دے اور پھر نعمتوں سے مالا مال بھی کر دے۔ اگر دُنیاوی مُنصف ایسی بے اِنصافی نہیں کر سکتا تو ہم کُل جہان کے مُنصف سے ایسی توقع کیوں رکھتے ہیں؟ کیونکہ ہم رشوت دینے کے عادی ہیں اِس لئے سمجھتے ہیں کہ خدا کے ہاں بھی کچھ دے دِلا کے کام چل جائے گا حالانکہ یہ ناممکن ہے۔ خدا نے ہمیں اپنے قوانین اور احکامات دیئے ہیں کہ ہم اُن پر عمل کریں، اور اگر ہم اُنہیں توڑیں گے تو سزا پائیں گے اور اگر وہ ہماری نافرمانی اور حکم عدُولی کو دَرگزر کر کے سزا نہیں دیتا تو وہ اپنی ہی شریعت، قوانین اور احکامات کا پابند نہیں رہا۔ معزز سامعین! اگر ہم رُوحانی نیت کے ساتھ خدا سے محبت رکھتے ہیں تو اُس کے حکموں پر بھی عمل کریں گے، اور اگر ہم جسمانی نیت میں بس رہے ہیں تو نافرمانی کر کے شیطان کے چیلوں میں شامل ہو جائیں گے۔ خدا کے زندہ کلام میں لکھا ہے، ’’اِس لئے کہ جسمانی نیت خدا کی دُشمنی ہے کیونکہ نہ تو خدا کی شریعت کے تابع ہے نہ ہو سکتی ہے، اور جو جسمانی ہیں وہ خدا کو خوش نہیں کر سکتے۔‘‘ (رُومیوں ۸:۷-۸)

اَب سوال یہ کہ ہم نافرمانبردار سے فرمانبردار اور جسمانی سے رُوحانی کیسے بن سکتے ہیں تاکہ ابدی سزا سے بچ جائیں؟ کیونکہ خدا کی شریعت و قوانین ہمیں صرف مجرم ٹھہراتے، اور ہمارے گناہوں کی پہچان کرواتے ہیں، ہمیں سزا سے بچا نہیں سکتے، تو پھر قوانین و شریعت کا کیا فائدہ؟ پاک کلام میں لکھا ہے، ’’پس کیا شریعت خدا کے وعدوں کے خلاف ہے؟ ہرگز نہیں! کیونکہ اگر کوئی ایسی شریعت دی جاتی جو زندگی بخش سکتی تو البتہ راستبازی شریعت کے سبب سے ہوتی۔ مگر کتابِ مُقدس نے سب کو گناہ کا ماتحت کر دیا تاکہ وہ وعدہ جو یسوع مسیح پر اِیمان لانے پر موقوف ہے اِیمانداروں کے حق میں پورا کِیا جائے۔‘‘ (گلتیوں ۳:۲۱-۲۲) لہذا اگر ہم شریعت و قوانین پانے کے باوجود راستباز نہیں ٹھہر سکتے بلکہ گناہ کے ماتحت ہیں تو ایسے میں خدا کیا کرے کہ اُس کی پاکیزگی و راستبازی اور بنی نوع اِنسان سے محبت و پیار بھی قائم رہے اور اُس کے عدل کا تقاضا بھی پورا ہو جائے۔ آئیے بائبل مُقدس میں دیکھتے ہیں کہ خدا نے یہ کام رنگ و نسل، ذات پات اور سماجی اُونچ نیچ کی ساری دیواریں توڑ کر کِس برابری اور اِنصاف سے سَر انجام دیا۔ ’’اِیمان کے آنے سے پیشتر شریعت کی ماتحتی میں ہماری نگہبانی ہوتی تھی اور اُس اِیمان کے آنے تک جو ظاہر ہونے والا تھا ہم اُسی کے پابند رہے۔ پس شریعت مسیح تک پہنچانے کو ہمارا اُستاد بنی تاکہ ہم اِیمان کے سبب سے راستباز ٹھہریں۔ مگر جب اِیمان آ چُکا تو ہم اُستاد کے ماتحت نہ رہے۔ کیونکہ تم سب اُس اِیمان کے وسیلہ سے جو مسیح یسوع میں ہے خدا کے فرزند ہو۔ اور تم سب جتنوں نے مسیح میں شامل ہونے کا بپتسمہ لیا مسیح کو پہن لیا۔ نہ کوئی یہودی رہا نہ یونانی، نہ کوئی غلام نہ آزاد، نہ کوئی مرد نہ عورت کیونکہ تم سب مسیح یسوع میں ایک ہو۔ اور اگر تم مسیح کے ہو تو ابرہام کی نسل اور وعدہ کے مطابق وارث ہو۔‘‘ (گلتیوں ۳:۲۳-۲۹)

یہ ہے مُنصفِ عالم کا اپنے نافرمان اورگناہوں کے بوجھ تلے دبے لوگوں کے لئے عدل و اِنصاف۔ اِسی لئے خدا کے بیٹے مسیح یسوع نے اپنے بارے میں خود فرمایا، ’’اَے محنت اُٹھانے والو اور بوجھ سے دبے ہوئے لوگو سب میرے پاس آئو۔ مَیں تم کو آرام دُوں گا۔ میرا جُواٴ اپنے اُوپر اُٹھا لو اور مجھ سے سیکھو۔ کیونکہ مَیں حلیم ہوں اور دِل کا فروتن، تو تمہاری جانیں آرام پائیں گی۔‘‘ (متی ۱۱:۲۸-۲۹) ایک اَور موقع پر اُنہوں نے بھٹکے ہوئے گناہگار اِنسان کو یقین دِلاتے ہوئے کہا، ’’…راہ اور حق اور زندگی مَیں ہوں۔ کوئی میرے وسیلہ کے بغیر باپ (یعنی خدا) کے پاس نہیں آتا۔ اگر تم نے مجھے جانا ہوتا تو میرے باپ کو بھی جانتے…‘‘ (یوحنا ۱۴:۶-۷)

خدا نے مسیح یسوع میں ہو کر ہمارے لئے عدل و اِنصاف کر دیا ہے۔ اَب یہ ہمارا فرض ہے اُس کے بیٹے مسیح کو جاننے پہچاننے کی کوشش کریں کیونکہ جب تک ہم اُس کی صحیح اور مکمل پہچان حاصل نہیں کریں گے خدا کو جان نہیں سکتے۔ وہ ہم میں سکونت کر کے ہمیں راستبازی کے کام سکھاتا اور اُس کا بھاری فضل ہمیں معاف کر کے راستباز ٹھہراتا ہے۔ پاک کلام میں کیا خوب لکھا ہے، ’’غرض جیسا ایک گناہ کے سبب سے وہ فیصلہ ہُوا جس کا نتیجہ سب آدمیوں کی سزا کا حکم تھا ویسا ہی راستبازی کے ایک کام کے وسیلہ سے سب آدمیوں کو وہ نعمت مِلی جس سے راستباز ٹھہر کر زندگی پائیں۔ کیونکہ جس طرح ایک ہی شخص (یعنی آدم) کی نافرمانی سے بہت سے لوگ گناہگار ٹھہرے اُسی طرح ایک (یعنی مسیح یسوع) کی فرمانبرداری سے بہت سے لوگ راستباز ٹھہریں گے۔ اور بیچ میں شریعت آ موجود ہوئی تاکہ گناہ زیادہ ہو جائے مگر جہاں گناہ زیادہ ہُوا وہاں فضل اُس سے بھی نہایت زیادہ ہُوا، تاکہ جس طرح گناہ نے موت کے سبب سے بادشاہی کی اُسی طرح فضل بھی ہمارے خداوند یسوع مسیح کے وسیلہ سے ہمیشہ کی زندگی کے لئے راستبازی کے ذریعہ سے بادشاہی کرے۔‘‘ (رومیوں ۵:۱۸-۲۱) ایک اَور مقام پر خدا کے اِلہامی کلام میں لکھا ہے، ’’کیونکہ تم کو اِیمان کے وسیلہ سے فضل ہی سے نجات مِلی ہے، اور یہ تمہاری طرف سے نہیں۔ خدا کی بخشش ہے۔ اور نہ اعمال کے سبب سے ہے تاکہ کوئی فخر نہ کرے۔‘‘ (افسیوں ۲:۸-۹)

بہنو اور بھائیو! آپ نے دیکھا کہ اپنی کاملیت و اُلوہیت کو برقرار رکھنے کے لئے پاک اور عادل خدا نہ تو ہماری نافرمانی کو برداشت کر سکتا ہے اور نہ ہماری باغیانہ روِش کے سبب اپنی محبت کو کم کر سکتا ہے۔ اِسی لئے اُس نے بنی نوع اِنسان کو نیست و نابود کرنے سے بہتر یہ سمجھا کہ کوئی ایسا اِنتظام کرے جو گناہگار اِنسان کو ابدی ہلاکت سے بچا لے تاکہ اُس کی راستبازی و کاملیت، عدل و اِنصاف اور خود مُختاری و حاکمیت قائم و دائم رہے۔

یقیناً ہمارا خدا حاکمِ اعلیٰ ہے، اُسے کون پابند کر سکتا ہے کہ ہم گناہگاروں کے لئے خود دُنیا میں آ کر محبت کی اِتنی عظیم و افضل قربانی دے۔ جی ہاں، خدا حاکمِ اعلیٰ ہے۔ خدا کی یہی وہ خصوصیت ہے جس کا ہم اپنے اگلے پروگرام میں ذِکر کریں گے، سُننا مت بھولیئے گا۔