Skip to content

خدا رحیم و غفور ہے

Posted in خُدا کی تلاش

جب جیب میں روپیہ پیسہ ہو، گھر میں کھانے پینے کی کمی نہ ہو، نوکری اور بزنس عروج پر ہو۔ دوست احباب اور رشتے داروں کا جم گھٹا ہو اور ڈاکٹر نے بھی سب اچھا کی رپورٹ دے دی ہو تو ظاہر ہے ہم ہوائوں میں اُڑ رہے ہوتے ہیں۔ مگر جب جیب خالی ہو، گھر میں کھانے کو کچھ نہ ہو، بِل نہ ادا کرنے پر بجلی اور گیس بند ہو چکی ہو، قرض لینے والوں کا تانتا بندھا ہوا ہو، بچوں کو سردی سے بچانے کے لئے گرم کپڑے نہ ہوں، کبھی ایک بیمار اور کبھی دوسرا بیمار، دوست احباب اور رشتے دار بھی جان چھڑا کر بھاگ چکے ہوں، اور دُعائیں بھی آسمان کی بجائے دَر و دیوار سے ٹکرا رہی ہوں تو پھر بندہ سوچتا ہے کہ اَے خدا! تُو کہاں ہے؟ تیرا رحم، تیرا کرم کہاں ہے؟ کیا تُو واقعی رحیم و غفور ہے؟

آج نہ جانے کتنے ہی لوگوں کی زبان پر یہی سوال ہوں گے۔ یہ آج کی بات نہیں بلکہ ہم اِنسان تو تخلیق کے دِن سے آزمایشوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ پاک اِلہامی کلام میں خدا کا پیارا بندہ ایوب نبی کہتا ہے، ’’اِنسان جو عورت سے پیدا ہوتا ہے، تھوڑے دِنوں کا ہے اور دُکھ سے بھرا ہے۔‘‘ (ایوب ۱۴:۱) ایوب نبی نے خدا کے پاک رُوح کی تحریک سے معمُور ہو کر بالکل دُرست کہا۔ اِسی طرح بائبل مُقدس میں دائود نبی خدا کے حضور پُکار پُکار کر رحم و کرم کی اِلتجا کرتا ہے۔ ’’سُن لے اَے خداوند! اور مجھ پر رحم کر۔ اَے خداوند! تُو میرا مددگار ہو۔‘‘ (زبور ۳۰:۱۰) ایک اَور مقام پر وہ بارگاہِ خداوندی میں اپنی بے بسی و بے کسی کا رونا روتے ہوئے دوہائی دیتا ہے، ’’مَیں چلاتے چلاتے تھک گیا۔ میر۱ گلا سُوکھ گیا۔ میری آنکھیں اپنے خدا کے اِنتظار میں پتھرا گِئیں۔‘‘ (زبور ۶۹:۳) زبور نویس بائبل مُقدس میں خدا کے حضور اِلتجا کرتا ہے، ’’اَے لشکروں کے خدا! ہم کو بحال کر اور اپنا چہرہ چمکا تو ہم بچ جائیں گے۔‘‘ (زبور ۸۰:۷) اور پھر اپنی مُصیبت سے افسردہ دِل ہو کر تڑپتے ہوئے یوں فریاد کرتا ہے، ’’میری مُصیبت کے دِن مجھ سے رُوپوش نہ ہو۔ اپنا کان میری طرف جُھکا۔ جس دِن مَیں فریاد کروں مجھے جلد جواب دے۔ کیونکہ میرے دِن دُھوئیں کی طرح اُڑے جاتے ہیں اور میری ہڈیاں ایندھن کی طرح جل گِئیں۔ میرا دِل گھاس کی طرح جھلس کر سُوکھ گیا۔ کیونکہ مَیں اپنی روٹی کھانا بھول جاتا ہوں۔ کراہتے کراہتے میری ہڈیاں میرے گوشت سے جا لگیں۔‘‘ (زبور ۱۰۲:۲-۵)

جب ہم مُصیبتوں، تکلیفوں، بیماریوں اور دُکھوں کی تاریک وادیوں میں سے گزر رہے ہوتے ہیں تو اکثر ہمارے اندر سے خدائے رحیم و غفور کی حضوری میں ایسی ہی چیخ و پکار آنسوئوں کے ساتھ خود بخود نکلتی ہے۔ مگر مُصیبت و تکلیف کی حالت میں بہت سے لوگ دِل ہی دِل میں خدا کی اچھائی بارے نہیں بلکہ خدا کے رحم بارے ہلکا سا شک بھی رکھتے ہیں۔ ہاں، خدا اچھا تو ہے مگر کیا وہ مجھے اِس مُصیبت سے نکال لے گا یا کیا مَیں اِس قابل ہوں کہ خدا مجھ پر اپنا رحم کرے؟ کیا مَیں اُس کے رحم و کرم کا حقدار ہوں؟ مَیں نے تو خدا کو بہت دُکھ دیا اور ستایا ہے تو وہ کیونکر میری سُنے گا۔ بہنو اور بھائیو! جس طرح ہمارا دُنیاوی باپ ہماری نافرمانی کی صورت میں ہماری ہی بھلائی اور اچھائی کے لئے ہمیں تنبیہ کرتا اور نظم و ضبط سِکھاتا ہے، یقیناً یہ تجربہ بچے کے لئے کچھ زیادہ خوشگوار نہیں ہوتا مگر باپ کا مقصد بچے کو تکلیف دینا نہیں ہوتا بلکہ اُس تکلیف سے اُس کے لئے اچھائی اور بھلائی پیدا کرنا ہوتا ہے تاکہ اُس کے کردار اور چال چلن کو ایسے سانچے میں ڈھالے کہ زندگی میں کامیابی اُس کے قدم چُومے۔ یاد رہے کہ خدا ہمارا رُوحانی باپ ہے اور ہم اُس کے بچے ہیں۔ خدا کو نہ صرف ہمارے جسم کی بلکہ رُوح کی بھی فکر ہوتی ہے۔ جب ہم پر کوئی مُصیبت، تکلیف، دُکھ بیماری آتی ہے تو وہ ہماری پہلی ہی فریاد پر ہاتھ بڑھا کر ہمیں بچا نہیں لیتا بلکہ اپنے پاک کلام کے ذریعہ تنبیہ اور تربیت کرتا ہے کہ صبر و برداشت کرنا سیکھیں اور پہلے اُس کی راستبازی کو تلاش کریں۔ جیسا کہ پاک کلام میں خداوند خدا فرماتا ہے، ’’…اَے میرے بیٹے! خداوند کی تنبیہ کو ناچیز نہ جان اور جب وہ تجھے ملامت کرے تو بیدل نہ ہو کیونکہ جس سے خداوند محبت رکھتا ہے اُسے تنبیہ بھی کرتا ہے اور جس کو بیٹا بنا لیتا ہے اُس کے کوڑے بھی لگاتا ہے۔ تم جو کچھ دُکھ سہتے ہو وہ تمہاری تربیت کے لئے ہے۔ خدا فرزند جان کر تمہارے ساتھ سلوک کرتا ہے۔ وہ کون سا بیٹا ہے جِسے باپ تنبیہ نہیں کرتا؟ (عبرانیوں ۱۲:۵-۷)

یہ بھی ذہن میں رہے کہ خدا کسی کی آزمائش نہیں کرتا اور نہ اپنے بندوں کو دُکھ تکلیف دے کر خوش ہوتا ہے بلکہ مُصیبت کی حالت میں بھی ہمارے لئے بھلائی کی کوئی راہ نکالتا ہے۔ جیسا کہ پاک کلام میں لکھا ہے، ’’…سب چیزیں مِل کر خدا سے محبت رکھنے والوں کے لئے بھلائی پیدا کرتی ہیں یعنی اُن کے لئے جو خدا کے ارادہ کے موافق بُلائے گئے۔‘‘ (رومیوں ۸:۲۸)

کیا ہم خدا کے ارادے کے موافق بُلائے گئے ہیں؟ خدا کا رحم و کرم پانے کے لئے لازم ہے کہ پہلے یہ جاننے کی کوشش کریں کہ ہماری زندگی میں اُس کا اِرادہ ہے کیا۔ خدا چاہتا ہے کہ ہم پاک ہوں جیسا کہ وہ پاک ہے۔ ہم پاک ہو کر ہی اُس کے اِرادے کو پورا کر سکتے ہیں۔ بائبل مُقدس میں لکھا ہے، ’’کیونکہ مَیں خداوند تمہارا خدا ہوں۔ اِس لئے اپنے آپ کو مُقدس کرنا اور پاک ہونا کیونکہ مَیں قدُوس ہوں۔‘‘ (احبار ۱۱:۴۴) ایک مقام پر خداوند خدا نے اپنے بندے موسیٰ کو حکم دیتے ہوئے کہا، ’’بنی اِسرائیل کی ساری جماعت سے کہہ کہ تم پاک رہو کیونکہ مَیں جو خداوند تمہارا خدا ہوں پاک ہوں۔‘‘ (احبار ۱۹:۲) اِسی طرح پطرس رسول اپنے اِلہامی خط میں خدا کے بارے میں کہتا ہے، ’’بلکہ جس طرح تمہارا بُلانے والا پاک ہے اُسی طرح تم بھی اپنے سارے چال چلن میں پاک بنو۔ کیونکہ لکھا ہے کہ پاک ہو، اِس لئے کہ مَیں پاک ہوں۔‘‘ (۱-پطرس ۱:۱۵-۱۶) لہذا خدا سے رحم اور شفقت پانے کے لئے لازم ہے کہ پہلے ہم پاک و راستباز ہوں۔ اور ایسا صرف مسیح یسوع پر اِیمان لا کر ہی ممکن ہو سکتا ہے، اگرچہ وہ خدا تھا مگر اِنسانی شکل میں پیدا ہو کر ہماری طرح آزمایا گیا اور دُکھوں تکلیفوں سے گزرا۔ اِسی لئے وہ جانتا ہے کہ دُکھ تکلیف مُصیبت اور آزمایش کیا ہوتی ہے۔ پاک کلام میں لکھا ہے، ’’کیونکہ جس صورت میں اُس نے خود ہی آزمایش کی حالت میں دُکھ اُٹھایا تو وہ اُن کی بھی مدد کر سکتا ہے جن کی آزمایش ہوتی ہے۔‘‘ (عبرانیوں ۲:۱۸) ایک اَور مقام پر لکھا ہے، ’’پس جب ہمارا ایک ایسا بڑا سردار کاہن ہے جو آسمانوں سے گذر گیا یعنی خدا کا بیٹا یسوع تو آئو ہم اپنے اِقرار پر قائم رہیں۔ کیونکہ ہمارا ایسا سردار کاہن نہیں جو ہماری کمزوریوں میں ہمارا ہمدرد نہ ہو سکے بلکہ وہ سب باتوں میں ہماری طرح آزمایا گیا تو بھی بے گناہ رہا۔‘‘ (عبرانیوں ۴:۱۴-۱۵) معزز سامعین! دُنیا میں آج تک مسیح کے علاوہ کوئی نبی پیغمبر نہیں گزرا جو بے گناہ یعنی مکمل طور پاک و راستباز ہے۔ بے گناہ و پاک صرف اور صرف خدا کی ذات ہی ہے، اِسی لئے ہم اُسے خدائے قدُوس کہتے ہیں۔ خدا کے اِرادے کے مُوافق ہم اُسی صورت میں بُلائے جا سکتے ہیں جب بے گناہ و پاک مسیح یسوع کے وسیلہ اپنے گناہوں سے دُھل کر اور پُرانی اِنسانیت سے نکل کر نیا مخلوق بن جائیں۔ تو پھر یقیناً وہ ہمارے لئے اپنے وعدے اور قول کے مطابق بھلائی بھی پیدا کرے گا اور ہم پر اپنا رحم و فضل بھی کرے گا۔ مگر یہ غلط فہمی بھی نہ رہے کہ مسیح کا پیروکار بننے کے بعد ہم پر تکلیف اور مُصیبت نہیں آئے گی۔ بہت سے مسیحی جب مُصیبتوں اور آزمایشوں میں پھنستے ہیں تو پریشان ہو جاتے ہیں کہ مَیں تو مسیح کا ہوں مجھ پر مُصیبت کیوں آ گئ۔ کچھ مُصیبتوں میں ثابت قدم رہتے ہیں اور کچھ بوکھلاہٹ میں خدا ہی سے دُور ہو جاتے ہیں، حالانکہ پاک کلام میں یہ بھی لکھا ہے، ’’مُبارک وہ شخص ہے جو آزمایش کی برداشت کرتا ہے کیونکہ جب مقبول ٹھہرا تو زندگی کا وہ تاج حاصل کرے گا جس کا خداوند نے اپنے محبت کرنے والوں سے وعدہ کِیا ہے۔‘‘ (یعقوب ۱:۱۲)

لہذا ایک مسیحی کے لئے لازمی ہے کہ وہ دُکھوں اور تکلیفوں کی گھڑی میں برداشت کرے اور خدا کے ہاں مقبول ٹھہر کر زندگی کا تاج پہنے۔ خدا کا یہ وعدہ آزمایشوں کے بارے میں ہمارے منفی اور شکی رویے کو بدل کر رکھ دیتا ہے۔ بحیثیت مسیحی کے ہمارے لئے کتنی خوشی اور شادمانی کی بات ہے کہ ہمارا خداوند مسیح دُنیا پر غالب آیا اور دُکھ کی ہر گھڑی میں ہمارے ساتھ ساتھ رہتا ہے۔ لہذا ہمارے لئے لازم ہے کہ دُکھوں تکلیفوں اور آزمایشوں میں خدا کے رحم، اُس کی بخشِش اور اُس کے فضل بارے شک نہ کریں۔ جیسا کہ پاک کلام میں لکھا ہے، ’’اگرچہ اِنجیر کا درخت نہ پھولے اور تاک میں پھل نہ لگے اور زیتون کا حاصل ضائع ہو جائے اور کھیتوں میں کچھ پیداوار نہ ہو اور بھیڑ خانہ سے بھیڑیں جاتی رہیں اور طویلوں میں مویشی نہ ہوں تَو بھی مَیں خداوند سے خوش رہوں گا اور اپنے نجات بخش خدا سے خوشوقت ہوں گا۔‘‘ (حبقوق ۳:۱۷-۱۸)

یہ ہے خدا پر مکمل اعتماد، بھروسہ اور یقین کہ خواہ کچھ بھی ہو خدا کا رحم و کرم ہمارے ساتھ ساتھ ہو گا۔ ہر مشکل گھڑی میں وہ ایک پُرشفیق باپ کی طرح ہماری اُنگلی پکڑ کر تاریک وادیوں میں سے لے گزرتا ہے کہ کہیں ٹھوکر کھا کر گر نہ پڑیں۔ خدا کے عظیم اور پیارے بندے دائود نبی نے اپنے تجربہ سے خدا کی بھلائی اور رحمت کا کتنا سچا اور خوبصورت نقشہ کھینچا ہے، ’’خداوند میرا چوپان ہے، مجھے کمی نہ ہو گی۔ وہ مجھے ہری ہری چراگاہوں میں بٹھاتا ہے۔ وہ مجھے راحت کے چشموں کے پاس لے جاتا ہے۔ وہ میری جان کو بحال کرتا ہے۔ وہ مجھے اپنے نام کی خاطر صداقت کی راہوں پر لے چلتا ہے۔ بلکہ خواہ موت کے سائے کی وادی میں سے میرا گذر ہو مَیں کسی بلا سے نہیں ڈروں گا کیونکہ تُو میرے ساتھ ہے۔ تیرے عَصا اور تیری لاٹھی سے مجھے تسلی ہے۔ تُو میرے دُشمنوں کے رُو برو میرے آگے دستر خوان بچھاتا ہے۔ تُو نے میرے سَر پر تیل ملا ہے۔ میرا پیالہ لبریز ہوتا ہے۔ یقیناً بھلائی اور رحمت عمر بھر میرے ساتھ ساتھ رہیں گی اور مَیں ہمیشہ خداوند کے گھر میں سکونت کروں گا۔‘‘ (زبور ۲۳:۱-۶)

ہم نے حقائق و دلائل کی روشنی میں دیکھا کہ بِلا شک و شبہ خدا رحیم و غفور ہے مگر یہ بھی ذہن میں رہے کہ وہ کسی کی طرفداری بھی نہیں کرتا۔ خدا کی یہی وہ خصوصیت ہے جس کا ذِکر ہم اپنے اگلے پروگرام میں کریں گے کہ خدا طرفداری نہیں کرتا، سُننا مت بھولئیے گا۔