Skip to content

ایک نئی تعلیم

Posted in مرقس

کچھ لوگ شیخی مارتے ہوئے دعویٰ کرتے ہیں کہ اگر وہ کسی بڑے اِختیار والے عہدے پر بیٹھ جائیں تو یہ کر دیں گے وہ کر دیں گے۔ اگر مَیں اِس محکمہ کا افسر ہوتا تو سارے مسائل ٹھیک کر دیتا، ساری بد دیانتی اور بے اِنصافی ختم کر دیتا، یا مَیں ریل گاڑی کے اَوقات کار کی پابندی کرواتا اور مسافروں کو کبھی کوئی دِقت نہ ہوتی۔ مگر یہی لوگ جب کسی عہدے یا اِختیار والی جگہ پر بیٹھ جاتے ہیں تو اپنے دعوے بھول کر ویسے ہی نااہل اور بددیانت بن جاتے ہیں۔ جہاں اُن پر کوئی ذاتی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی وہاں دوسروں پر حکم چلائیں گے کہ کیا کریں اور کیسے کریں مگر اپنی شخصی زندگی میں شکی طبیعت کے باعث بالکل مفلوج، بے کار اور نکمے ہوتے ہیں۔

رُوحانی باتوں میں بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ وہ لوگ جن کو اپنی ذمہ داری اور نتائج کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی وہی کلیسیائی جماعت یعنی چرچ میں زیادہ شور مچاتے ہیں کہ یہ ٹھیک نہیں وہ ٹھیک نہیں، ایسا ہونا چاہیے، ویسا ہونا چاہیے۔ وہ جو چرچ میں کسی بھی طرح سے خدمت اور کسی کام میں حِصہ نہیں لیتے وہی اُن کو اپنی تنقید کی نشانہ بناتے ہیں جو اِیمانداری اور مسیحی جذبے کے تحت خدمت گزاری کر رہے ہوتے ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو چرچ میں بحیثیت رہنما کے عزت یا اپنی پہچان تو کروانا چاہتے ہیں مگر اُن ذمہ داریوں سے دُور بھاگتے ہیں جو ایک رہنما کے فرض میں شامل ہیں۔ پولس رسول ہمیں یاد دِلاتے ہوئے کہتا ہے، ’’…خدا کی بادشاہی باتوں پر نہیں بلکہ قدرت پر موقوف ہے۔‘‘ (۱-کرنتھیوں ۴:۲۰)

ایک خاص بات جو لوگوں نے مسیح اور دوسرے نبیوں اور اِلٰہی تعلیم دینے والوں میں محسوس کی کہ وہ بالکل مختلف انداز اور اِختیار سے تعلیم دیتے تھے۔ نہ صرف مسیح نے اِلٰہی اِختیار و قدرت سے کلام کِیا بلکہ عملی طور پر دِکھایا کہ یہ سب کچھ کہنے اور کرنے کا مجھے پورا پورا حق ہے۔

اپنی اِلہامی اِنجیل کے پہلے باب کی ۲۱ سے ۳۴ آیت میں مرقس، مسیح کے تبلیغی کام کے بارے لکھتا ہے، ’’پھر وہ کفرنحُوم میں داخل ہوئے اور وہ فی الفُور سبت کے دِن عبادتخانہ میں جا کر تعلیم دینے لگا۔ اور لوگ اُس کی تعلیم سے حیران ہوئے کیونکہ وہ اُن کو فقِیہوں کی طرح نہیں بلکہ صاحبِ اِختیار کی طرح تعلیم دیتا تھا۔ اور فی الفُور اُن کے عبادتخانہ میں ایک شخص مِلا جس میں ناپاک رُوح تھی۔ وہ یوں کہہ کر چِلایا کہ اَے یسوع ناصری! ہمیں تجھ سے کیا کام؟ کیا تُو ہم کو ہلاک کرنے آیا ہے؟ مَیں تجھے جانتا ہوں کہ تُو کون ہے۔ خدا کا قدُوس ہے۔ یسوع نے اُسے جھڑک کر کہا، چُپ رہ اور اِس میں سے نکل جا۔ پس وہ ناپاک رُوح اُسے مروڑ کر اور بڑی آواز سے چِلا کر اُس میں سے نکل گئی۔ اور سب لوگ حیران ہوئے اور آپس میں یہ کہہ کر بحث کرنے لگے کہ یہ کیا ہے؟ یہ تو نئی تعلیم ہے! وہ ناپاک رُوحوں کو بھی اِختیار کے ساتھ حُکم دیتا ہے اور وہ اُس کا حُکم مانتی ہیں۔ اور فی الفُور اُس کی شہرت گلیل کی اُس تمام نواحی میں ہر جگہ پھیل گئ۔ اور وہ فی الفُور عبادتخانہ سے نکل کر یعقوب اور یُوحنا کے ساتھ شمعون اور اِندریاس کے گھر آئے۔ شمعون کی ساس تپ میں پڑی تھی اور اُنہوں نے فی الفُور اُس کی خبر اُسے دی۔ اُس نے پاس جا کر اور اُس کا ہاتھ پکڑ کر اُسے اُٹھایا اور تپ اُس پر سے اُتر گئی اور وہ اُن کی خدمت کرنے لگی۔ شام کو جب سُورج ڈوب گیا تو لوگ سب بیماروں کو اور اُن کو جن میں بد رُوحیں تھیں اُس کے پاس لائے، اور سارا شہر دروازہ پر جمع ہو گیا، اور اُس نے بہتوں کو جو طرح طرح کی بیماریوں میں گرفتار تھے اچھا کِیا اور بہت سی بد رُوحوں کو نکالا اور بد رُوحوں کو بولنے نہ دیا کیونکہ وہ اُسے پہچانتی تھیں۔‘‘ (مرقس ۱:۲۱-۳۴)

مرقس لکھتا ہے کہ لوگ مسیح کی تعلیم سے حیران ہو گئے۔ شریعت کے دوسرے اُستادوں کے مقابلے میں وہ پورے اِختیار سے کلام کرتے تھے۔ شریعت کے یہ اُستاد یعنی فقیہہ اور فریسی کون تھے؟ اپنے پیارے نبی موسیٰ کے ذریعہ خدا نے بنی اسرائیل کے ساتھ عہد باندھا۔ اِس عہد کے وسیلہ سے لوگوں کو برکات اور سہولتیں مِلیں، مگر اِس کے ساتھ ساتھ اُن کو پابند کِیا کہ وہ کچھ خاص قانون و ضابطوں اور رسم و رواج کی پیروی کریں۔ یہ برکات و سہولتیں، قانون و ضابطے اور رسم و رواج موسیٰ کی شریعت میں قلمبند ہیں۔ شریعت کی تعلیم دینے والے فقیہوں، فریسیوں اور اُستادوں نے موسوی شریعت کو ترجمہ کے ساتھ لوگوں تک پہنچایا کہ کِس طرح اِلٰہی قانون و قاعدہ کے تحت زندگی بسر کرنا ہے۔ اُنہوں نے اپنی تعلیم کو جو لوگوں تک پہنچائی مُستند ثابت کرنے کے لئے دوسرے دینی عالموں پر اِنحصار کِیا کہ فلاں فلاں ربی نے ایسے کہا تھا۔ مگر ہم پاک صحائف سے پڑھتے ہیں کہ مسیح نے اپنی تعلیم و پیغام کو ثابت کرنے کے لئے کسی دوسرے عالمِ دین پر اِنحصار نہیں کیا کہ فلاں نے اِس بارے میں ایسا کہا تھا، بلکہ اُنہوں نے ہمیشہ اِس طرح کلام کِیا، ’’تم سُن چکے ہو کہ اگلوں سے کہا گیا تھا… مگر مَیں تم سے کہتا ہوں۔‘‘ (متی ۵ باب)

اِس میں کوئی شک نہیں کہ لوگ نہ صرف مسیح کے سِکھانے کے انداز بلکہ عجیب اور انوکھی تعلیم سے بھی بہت حیران ہوئے۔ آیت ۲۷ میں مرقس لکھتا ہے کہ لوگوں نے پہچان لیا کہ مسیح کی تعلیم نئی اور انوکھی ہے۔ اُنہیں اِس سے پہلے اِس تعلیم و تربیت کا تجربہ نہ ہُوا۔ مگر سوال یہ ہے کہ مسیح کی تعلیم میں ایسی کیا انوکھی بات تھی؟ شریعت صرف ظاہری حالت اور رویہ پر دھیان دیتی ہے۔ مثال کے طور پر قتل اور زنا سے منع کرتی ہے مگر مسیح نے سِکھایا کہ خدا کو خوش کرنے کے لئے صرف قتل و زنا سے باز رہنا ہی کافی نہیں، ہم پر لازم ہے کہ اندرونی خیالات و سوچ میں بھی تبدیلی لائیں جن کی وجہ سے اِنسان قتل و زنا کا مُرتکب ہوتا ہے یعنی نفرت و ہَوس سے بھرپور سوچ و خیال قتل اور زنا پر ہی اُکسائیں گے۔

مسیح کی تعلیم اور سِکھانے کے انداز کی ایک اَور انوکھی اور عجیب بات یہ تھی کہ اُس نے مکمل اِختیار کے ساتھ کلام کِیا۔ اُس نے یہ نہیں کہا کہ وہ ہے راہ بلکہ اُس نے بڑے اِختیار، یقین و بھروسہ سے دعویٰ کِیا کہ راہ مَیں ہوں۔

اپنا تبلیغی کام شروع کرنے سے پہلے شیطان نے مسیح کو بیابان میں لے جا کر مختلف آزمائشوں میں پھنسانے کی کوشش کی۔ اَب ایک آدمی کا جو ناپاک رُوح کے قبضہ میں تھا، عبادت گاہ میں مسیح سے سامنا ہو گیا۔ وہ بُری رُوح نہ صرف اپنی طرف سے بلکہ اپنی جیسی دوسری ناپاک رُوحوں کی طرف سے بول رہی تھی کہ تیرا دُنیا میں آنے کا اِرادہ کیا ہے؟ کیا تُو ہمیں ہلاک کرنے آیا ہے؟ ناپاک رُوح ولا شخص نہ صرف یہ جانتا تھا کہ مسیح خدا کا قدُوس ہے بلکہ یہ بھی کہ اِس کے پاس اُن کو ہلاک کرنے کا اِختیار بھی ہے۔ اِس سے ہم ایک بہت ہی ضروری سبق سیکھتے ہیں۔ مسیح کی تعلیم و کلام میں شیطان کو تباہ و برباد کرنے کی طاقت ہے۔ درحقیقت اُن کی دُنیا میں آمد اور تبلیغی خدمت کا مقصد ہی یہی تھا۔ یُوحنا رُسول اِس بارے میں لکھتا ہے، ’’…خدا کا بیٹا اِسی لئے ظاہر ہُوا تھا کہ ابلیس (یعنی شیطان) کے کاموں کو مِٹائے۔‘‘ (۱-یُوحنا ۳:۸) اگر ہم ناپاک رُوح کے قبضہ میں ہیں، اگر ہم شیطان کے پنجے میں جکڑے ہوئے ہیں، اگر شیطان ہماری زندگی سے کھیل رہا ہے تو اِس کا مطلب یہ ہے کہ ہم مسیح کی تعلیم کی مکمل طور پر تابعداری نہیں کر رہے۔

مسیح نے ناپاک رُوح کو جھڑک کر حکم دیا کہ چُپ رہ، اِس میں سے نکل جا۔ اور دیکھنے والے حیران رہ گئے جب ناپاک رُوح مسیح کے حکم کی تابعداری کرتے ہوئے اُس شخص میں سے نکل گئی۔

مسیح کو نہ صرف ناپاک رُوحوں پر مکمل اِختیار تھا بلکہ بیماروں کو شِفا دینے کی طاقت و قدرت بھی تھی۔ مسیح عبادت خانے سے نکل کر شمعون اور اِندریاس کے گھر گیا۔ وہاں اُس نے شمعون کی بیمار ساس کو شِفا دی۔ شام کو سارا شہر اپنے بیماروں کو مسیح کے پاس لایا کہ وہ اُنہیں تندرست کر دے۔ اُس نے سب لوگوں کو طرح طرح کی بیماریوں سے چھٹکارا دیا بلکہ ناپاک رُوحوں کے قبضے میں جکڑے ہوئوں کو بھی اپنی اِلٰہی قدرت و طاقت سے نجات دی۔

مرقس لکھتا ہے کہ مسیح ناپاک رُوحوں کو بولنے نہیں دیتے تھے کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ وہ کون ہے یعنی خدا کا قدُوس ہے۔ وہ پسند نہیں کرتے تھے کہ شیطان اُن کی الوہیت کی تصدیق کرے یا اُن کی گواہی دے۔ مگر اِس سے ایک سوال ذہن میں اُبھرتا ہے کہ اگر ناپاک اور بُری رُوحوں کو معلوم ہے کہ مسیح، خدا کا قدُوس ہے تو کیا ہمارا فرض نہیں کہ ہم بھی اُس کی اُلوہیت اور قدُوسیت کو تسلیم کریں؟ اور اگر ہم اِس مُسلمہ حقیقت کا اِنکار کرتے ہیں تو کیا ہم ناپاک رُوحوں سے بھی بدتر نہیں؟

مسیح کی شہرت بہت جلد گلیل اور اُس کے گرد و نواح میں پھیل گئ۔ وہ جگہ جگہ سفر کر کے تعلیم دیتے، ناپاک رُوحوں کے قبضے میں جکڑے ہوئوں اور بیماروں کو شفا دیتے تھے، مگر وہ ایسا کیوں کرتے تھے؟ اگر آپ جاننا چاہتے ہیں کہ مسیح معجرات کیوں دِکھاتے تھے تو ہمارا اگلا پروگرام سُننا مت بھولئیے گا۔