Skip to content

پیروی کرو

Posted in مرقس

ہم دعوے سے کہہ تو سکتے ہیں کہ ہمارا اِیمان کسی خاص عقیدے پر ہے مگر ہمارا یہ دعویٰ بالکل بے معنی اور بے مقصد ہے اگر ہمارے اِیمان کی جھلک ہمارے چال چلن اور سِیرت و کردار سے نظر نہیں آتی۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ اگر ہم اپنے اِیمان و دین اور تعلیم و احکامات کے مطابق زندگی بسر نہیں کرتے تو ہمارا مذہب، اِیمان اور عقیدہ محض دِکھاوا اور ظاہری ہے، کچھ بھی نہیں۔

جب مسیح نے دُنیا میں اپنی منسٹری یعنی اپنے اِلٰہی مشن کا آغاز کِیا تو اُس نے اُن لوگوں کو ساتھ نہیں مِلایا جو محض زبانی کلامی اپنی وفاداری و تابعداری کا دَم بھرتے تھے بلکہ اُس نے ایسے لوگوں کو اپنا پیروکار بنایا جن کا اِیمان اِتنا مضبوط تھا کہ اپنی سابقہ زندگی کو خیرباد کہہ کر اُس کے پیچھے چل پڑے۔ مرقس کی اِلہامی اِنجیل کے پہلے باب کی ۱۴ سے ۲۰ آیت میں لکھا ہے، ’’ پھر یوحنا کے پکڑوائے جانے کے بعد یسوع نے گلیل میں آ کر خدا کی خوشخبری کی مُنادی کی، اور کہا کہ وقت پورا ہو گیا ہے اور خدا کی بادشاہی نزدیک آ گئی ہے، توبہ کرو اور خوشخبری پر اِیمان لائو۔ اور گلیل کی جھیل کے کنارے کنارے جاتے ہوئے اُس نے شمعون اور شمعون کے بھائی اِندریاس کو جھیل میں جال ڈالتے دیکھا کیونکہ وہ ماہی گیر تھے، اور یسوع نے اُن سے کہا میرے پیچھے چلے آئو تو مَیں تم کو آدم گیر بنائوں گا، وہ

فی الفُور جال چھوڑ کر اُس کے پیچھے ہو لِئے، اور تھوڑی دُور بڑھ کر اُس نے زبدی کے بیٹے یعقوب اور اُس کے بھائی یُوحنا کو کشتی پر جالوں کو مرمت کرتے دیکھا، اُس نے فی الفُور اُن کو بُلایا اور وہ اپنے باپ زبدی کو کشتی پر مزدوُروں کے ساتھ چھوڑ کر اُس کے پیچھے ہو لِئے۔‘‘

یُوحنا اِصطباغی یعنی بپتسمہ دینے والے کے تبلیغی مشن کا بُنیادی مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو مسیح کی دُنیا میں آمد کے لئے تیار کرے، اور اُس نے یہ کام بڑی اِیمانداری، لگن اور جذبے سے پورا کِیا۔ جونہی اُس نے مسیح کو بپتسمہ دیا اور اعلان کِیا کہ یہی ہے بنی نوع اِنسان کا وہ نجات دہندہ جس کے بارے میں پہلے سے مَیں بتاتا رہا، اور اِس کے ساتھ ہی یُوحنا کا کام مکمل ہو گیا۔ جب ہیرودیس نے اُسے جیل میں ڈالا تو اُس نے خدا کے کام کو اُس وقت ہی پورا کر دیا تھا، یُوحنا کی وفاداری، جذبے و لگن سے بھرپور یہی وہ اِلٰہی خدمت تھی جس نے مسیح کے تبلیغی مشن کو شروع کرنے کے لئے کامیابی بخشی۔

مسیح نے اپنے تبلیغی مشن کا آغاز اُسی پیغام سے کِیا جس کا پرچار یُوحنا کرتا رہا، ’’آسمان کی بادشاہی نزدیک آ گئی ہے۔‘‘ (متی ۳:۲) یہ اعلان کرنا کہ آسمان کی بادشاہی نزدیک آگئی ہے کا مطلب یہ ہے کہ بادشاہ کا آنا اَب نزدیک آ گیا ہے جو بادشاہی پر حکومت کرے گا۔ یہودی لوگ جن کو یُوحنا اور مسیح دونوں نے اپنا اِلٰہی پیغام سُنایا یہ سمجھتے تھے کہ مسیح جس کو خدا اُن پر حکومت کرنے کے لئے مَسح کرے گا، اُس کا دُنیا میں آنا نزدیک ہے۔ مرقس کی اِنجیل کے پہلے باب کی آیت ۱۰ میں مرقس لکھتا ہے کہ مسیح کے بپتسمہ کے وقت خدا کے رُوح کو اُس پر اُترتے دیکھا۔ پاک صحائف میں دوسرے کئی حوالہ جات میں لکھا ہے کہ خدا نے مسیح کو اپنے پاک رُوح سے مَسح کِیا تاکہ اُس کے لوگوں پر بادشاہی کرے۔ اِس بات کا پرچار کرنے سے کہ آسمان کی بادشاہی نزدیک آ گئی، مسیح کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ بہت ہی مختصر وقت میں خدا اُس کو اپنے وعدہ کے مطابق دُنیا پر اپنے بادشاہ کے طور پر ظاہر کرنے والا ہے۔

مسیح نے لوگوں کو نہ صرف یہ بتایا کہ آسمان کی بادشاہی نزدیک آ گئی ہے بلکہ اُس نے یہ بھی فرمایا کہ بادشاہی میں داخل ہونے کے لئے اُنہیں کیا کرنا چاہیے یعنی اپنے گناہوں سے توبہ کریں اور اِیمان لائیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ توبہ کا کیا مطلب ہے؟ مرقس لفظ توبہ کے لئے جو اِصطلاح اِستعمال کرتا ہے اُس کے معنی ہیں کسی کی سوچ و دماغ تبدیل کرنا۔ مگر توبہ سوچ و خیال اور دِل و دماغ میں تبدیلی سے کہِیں زیادہ ہے۔ ہم سوچتے ہیں اور پھر اپنی سوچ کے مطابق عمل کرتے ہیں۔ توبہ کا مطلب صرف سوچنے کے انداز میں تبدیلی نہیں بلکہ فعل و عمل اور حرکات و سکنات میں تبدیلی ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہُوا کہ ہمیں اپنی سوچ و خیال، دِل و دماغ، فعل و عمل اور حرکات و سکنات یعنی پُرانی روِش و زندگی کو قطعی طور پر ترک کر دینا ہے۔ خدا کی بادشاہی کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہم اپنے پُرانے رویے اور پُرانی روِش پر نہیں چل سکتے۔ ہم پر لازم ہے کہ اپنی سوچ و فعل کو خدا کی بادشاہی اور حکمرانی کے عین مطابق ڈھالیں، جیسے ہم کسی مُلک کے قانون کی پابندی کرتے ہوئے ایک اچھے شہری کی طرح رہتے ہیں، اُسی طرح جب ہم خدا کی بادشاہی و حکمرانی میں رہتے ہیں تو لازم ہے کہ ہم اُس کے اُصولوں، قاعدوں، ضابطوں اور قوانین کے مطابق زندگی بسر کریں۔

خدا کی بادشاہی میں رہتے ہوئے ہمیں محض ظاہری طور پر اپنے آپ کو نہیں بدلنا۔ اکثر لوگ اِسی طرح رہتے اور زندگی گزارتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں جس طرح وہ زمینی بادشاہی یا مُلک میں دُوغلے پن اور ریاکاری سے زندگی گزارتے ہیں ویسے ہی خدا کی بادشاہی میں بھی کام چل جائے گا۔ مگر ایسے لوگ اپنے رویے اور طرزِ زندگی سے قطعی مطمِٗن نہیں ہوتے، اِس کے برعکس مسیح نے لوگوں سے کہا کہ لازم ہے کہ وہ آسمان کی بادشاہی کی خوشخبری پر اِیمان لائیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ آسمان کی بادشاہی کے آنے کو ہم خوشخبری کیسے کہہ سکتے ہیں؟ یہ خوشی کی خبر ہی ہے کیونکہ پاک صحائف میں ایک اَور مقام پر لکھا ہے، ’’…اِس لئے کہ وہ ہر ایک اِیمان لانے والے کے واسطے پہلے یہودی پھر یونانی کے واسطے نجات کے لئے خدا کی قدرت ہے۔‘‘ (رومیوں ۱:۱۶) دوسرے لفظوں میں یہ کہ ہم خدا کے مَسح کِئے ہوئے بادشاہ یعنی مسیح کے وسیلہ سے خدا کے ساتھ اپنا ٹوٹا ہُوا رشتہ جوڑ سکتے ہیں۔ اگر آسمان کی بادشاہی نہیں آتی، اِس سے بھی زیادہ ضروری یہ کہ اگر خدا کا مَسح کِیا ہُوا بادشاہ یعنی مسیح دُنیا میں نہ آتا تو بنی نوع اِنسان اور خدا کے بیچ میں گناہ کے کے سبب سے جو جدائی پیدا ہو گئی ہے وہ کبھی ختم نہ ہو سکتی۔

مسیح نے نہ صرف خود خوشخبری کا پرچار کِیا بلکہ کچھ لوگوں کو بھی چُنا کہ وہ دُنیا کے کونے کونے میں آسمان کی بادشاہی قائم کرنے میں اُس کا ساتھ دیں۔ مسیح نے سب سے پہلے چار آدمیوں کو اپنی پیروی کرنے کو کہا۔ یہ چاروں ماہی گیر تھے۔ مسیح نے اُن سے کہا کہ وہ اُن کو ماہی گیر سے آدم گیر بنائیں گے۔ مرقس اپنی اِلہامی اِنجیل میں لکھتا ہے کہ وہ چاروں اپنے جال چھوڑ کر مسیح کے پیچھے ہو لئے۔

مرقس کے بیان سے یوں لگتا ہے کہ چاروں کا مسیح کی پیروی کرنے کا فیصلہ اچانک اور جلد بازی میں تھا، حالانکہ دوسری اناجِیل کے بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ اِن میں سے کم از کم دو بھائی یعنی اِندریاس اور یُوحنا پہلے ہی یُوحنا اِصطباغی کے شاگرد تھے۔ اُنہوں نے اُس سے سُن رکھا تھا کہ ’’…دیکھو یہ خدا کا برہ ہے جو دُنیا کے گناہ اُٹھا لے جاتا ہے۔‘‘ (یُوحنا ۱:۲۹) وہ پہلے ہی مسیح سے مِل چکے اور اُس کی تعلیم سُن چکے تھے۔ وہ پہلے ہی مسیح کا معجزہ دیکھ چکے تھے جب اُس نے شادی میں پانی کو مَے بنایا (یُوحنا ۲:۲۔۱۱)۔ لہذا اُن کے دِل پہلے ہی سے مسیح کی طرف مائل تھے، اور جب اُس نے اُن کو اپنی پیروی کرنے کو کہا تو اُنہوں نے قطعی کوئی جھجھک محسوس نہیں کی۔ یوُحنا اِصطباغی کو سُننے کے بعد اَب وہ مسیح کو سُننے کے لئے تیار تھے کیونکہ یُوحنا اِصطباغی مسیح کے بارے میں بتا چکا تھا کہ مسیح آنے والا ہے جس کو خدا نے مَسح کِیا ہے۔

مرقس کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ مسیح کا پیروکار بننے کے لئے آپ کو قیمت ادا کرنا پڑتی ہے، شمعون اور اِندریاس کا اپنا مچھلیوں کا کاروبار تھا۔ مسیح نے اُن کو بڑی کشتی یا کاروبار وسیع کرنے کی پیشکش نہیں کی تھی کہ میرے پیچھے آئو تو تمہیں یہ سب مِلے گا۔ اُس نے اُن کو یہ بھی پیشکش نہیں کی کہ جِتنا تم اَب کماتے ہو، میرے پیچھے آنے سے اِتنا تم کو مِل جایا کرے گا، بلکہ مسیح کی پیروی کرنے کی وجہ سے اُن کو اپنے کاروبار سے بھی ہاتھ دھونے پڑ گئے۔ اَب نہ اُن کے پاس کمانے کا کوئی ذریعہ تھا اور نہ ہی کوئی تحفظ۔ ہاں، مسیح نے اُن سے صرف ایک وعدہ کِیا کہ وہ اُن کو ماہی گیر سے آدم گیر بنائے گا۔ شمعون اور اِندریاس کو مسیح پر اِتنا اعتماد و بھروسہ تھا کہ وہ فوراً اپنے جال چھوڑ کر اُس کے پیچھے ہو لئے۔

مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم مسیح کی پیروی کرنے کے لئے اپنا سب چھوڑنے کو تیار ہیں؟ کیا ہم اپنی جائداد، اپنا کاروبار اور آمدنی کا ذریعہ چھوڑ کر مسیح کے پیچھے چلنے کو راضی ہیں؟ کیا ہم اپنی جان اور مال اسباب کی پرواہ کِئے بغیر مسیح کی پیروی کرنے کو تیار ہیں؟

شائد مسیح کے پیچھے چلنے کی ایک اَور قیمت بھی ادا کرنا پڑے، اُس کے دوسرے شاگردوں یعقوب اور یُوحنا نے اپنا کاروبار چھوڑ دیا، مگر مرقس لکھتا ہے کہ اُنہوں نے اپنے باپ کو بھی چھوڑ دیا۔ بعض اَوقات ہمیں مسیح کی خاطر اپنے خاندان کو بھی چھوڑنا پڑ سکتا ہے، مگر سوال یہ ہے کہ ہمارے لئے زیادہ اہم اور ضروری کیا ہے، خدا کے مَسح کِئے ہوئے بادشاہ یعنی مسیح کی پیروی یا اپنے خاندان کی خوشی؟ کیا ہم اپنے خاندان کی مخالفت کے باوجود مسیح کے پیچھے چلنے کو تیار ہیں؟

مسیح کی نہ صرف یہ قابلیت تھی کہ وہ وفاداری اور اِلٰہی خدمت سے بھرپور لوگوں کو اپنے تبلیغی مشن میں شامل کریں بلکہ اُن کو جِن بُھوت اور بَدرُوحوں پر قدرت اور اِختیار حاصِل تھا۔ اگر آپ جاننا چاہتے ہیں تو ہمارا اگلا پروگرام ضرور سُنئیے گا۔