Skip to content

خوشی کا سبب بیٹا

Posted in مرقس

ہم کیسے جان سکتے ہیں کہ جس شخص کو کسی خاص عہدے کے لئے چُنا گیا ہے وہ اُس کا اہل بھی ہے یا نہیں؟ اگر ہم سوچ رہے ہیں کہ کسی کو ملازمت دیں تو کیسے بھروسہ کریں کہ وہ واقعی اِس قابل ہے؟ بہت سارے ایسے عہدے یا نوکریاں ہوتی ہیں جن کے لئے ہمیں کوئی تحریری ثبوت یا ڈگری چاہیے ہوتی ہے۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ مَیں انجینئر ہوں تو لازم ہے کہ ہم اُس کی ڈگری یا سرٹیفکیٹ دیکھیں جس سے پتہ چلے گا کہ واقعی اُس نے انجینئرنگ کا اِمتحان پاس کِیا ہُوا ہے۔ اِس کے علاوہ ہم اُس کا کِردار و سیرت بھی دیکھیں گے۔ مثال کے طور پر ایک شخص بہت ہی اعلیٰ اکائونٹینٹ ہے اور اُس کے پاس تمام ڈگریاں اور سرٹیفکیٹ بھی ہیں مگر ہم اپنا بزنس اکائونٹ اُس کے حوالے نہیں کریں گے جبکہ ہم جانتے ہیں کہ وہ چور ہے۔

اِسی طرح کے حالات کا رُوحانی مسائل میں بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہم نہیں چاہتے کہ اپنی رُوح کو کسی ایسی ہستی کے حوالے کر دیں جو اہل و قابل ہی نہیں۔ اَب سوال یہ ہے کہ مسیح یسوع کے پاس کیا اہلیت و قابلیت ہے کہ ہم اُس پر اِیمان لائیں؟ اِلہامی اِنجیل میں جو مرقس کے نام ہی سے منسُوب ہے، مرقس دعوے سے کہتا ہے کہ مسیح نجات دہندہ اور خدا کا بیٹا ہے۔ شائد آپ سوچیں کہ مرقس کے پاس کیا ثبوت و شواہد ہیں جن کی روشنی میں وہ اِتنا بڑا دعویٰ کرتا ہے؟ پہلے باب کی آیت ۹ سے ۱۳ تک وہ لکھتا ہے، ’’اور اُن دِنوں ایسا ہُوا کہ یسوع نے گلیل کے ناصرۃ سے آ کر یردن میں یوحنا سے بپتسمہ لیا۔ اور جب وہ پانی سے نکل کر اُوپر آیا تو فی الفُور اُس نے آسمان کو پھٹتے اور رُوح کو کبوتر کی مانند اپنے اُوپر اُترتے دیکھا۔ اور آسمان سے آواز آئی کہ تُو میرا پیارا بیٹا ہے۔ تجھ سے مَیں خوش ہوں۔ اور فی الفُور رُوح نے اُسے بیابان میں بھیج دیا۔ اور وہ بیابان میں چالیس دِن تک شیطان سے آزمایا گیا اور جنگلی جانوروں کے ساتھ رہا کِیا اور فرشتے اُس کی خدمت کرتے رہے۔‘‘ (مرقس ۱:۹-۱۳)

بائبل مُقدس کے اِس حوالے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مسیح نے خود سے اپنے آپ کو اِس عہدے پر نہیں بِٹھایا، اور نہ ہی اُس نے اپنے ساتھ کوئی ایسا لقب یا خطاب لگانے کا دعویٰ کِیا جو اُس کا نہیں۔ مسیح کے بپتسمہ کے وقت خدا نے دو ایسے ثبوت مُہیا کِئے جن سے اِس کی تصدیق ہوتی ہے۔ پہلا یہ کہ آسمان پھٹ گیا اور رُوح کبوتر کی مانند اُس پر آ کر ٹھہر گیا۔ یسعیاہ نبی کی دِلی خواہش تھی کہ خدا اُس زمانے کے لوگوں پر اپنے آپ کو ظاہر کرے۔ اُس نے فرمایا، ’’کاش کہ تُو آسمان کو پھاڑے اور اُتر آئے…‘‘ ( یسعیاہ ۶۴:۱) خدا نے مسیح کے بپتسمہ کے وقت بالکل ایسا ہی کِیا۔ اُس نے آسمان کو پھاڑا اور اُس کی رُوح مسیح پر آ کر ٹھہر گئی۔ بعد میں مسیح یسوع اِس قابل ہُوا کہ کہہ سکے اُس نے یسعیاہ نبی کی پیشین گوئی کو مکمل کر دیا ہے۔ جیسا کہ لوقا کی اِنجیل میں لکھا ہے، ’’خداوند کا رُوح مجھ پر ہے۔ اِس لئے کہ اُس نے مجھے غریبوں کو خوشخبری دینے کے لئے مَسح کِیا۔ …‘‘ ( لوقا ۴:۱۸)

آسمان سے اپنی پاک رُوح اُتار کر خدا نے مسیح یسوع کو دُنیا کے سامنے کھلم کھلا دیئے گئے عہدے و رُتبے کے لئے مَسح کر دیا۔ بعد میں پطرس رسول نے اِس بارے میں کہا، ’’اُس بات کو تم جانتے ہو جو یوحنا کے بپتسمہ کی مُنادی کے بعد گلیل سے شروع ہو کر تمام یہودیہ میں مشہور ہو گئی کہ خدا نے یسوع ناصری کو رُوح اُلقدس اور قدرت سے کِس طرح مَسح کِیا۔ … ‘‘ ( اعمال ۱۰:۳۷-۳۸)

دوسرا ثبوت جو مسیح کے عہدے و رُتبے کی تصدیق کرتا ہے یہ ہے کہ بپتسمہ کے وقت آسمان سے آواز آئی۔ خدا نے نہ صرف یہ کہا کہ وہ مسیح سے خوش ہے بلکہ اُس نے اِس حقیقت کی بھی تصدیق کی کہ یہ اُس کا پیارا بیٹا ہے۔ اِس طرح ۲ زبور کی ۷ آیت میں درج پیشین گوئی کی تکمیل ہو گئ، ’’ مَیں اُس فرمان کو بیان کروں گا۔ خداوند نے مجھ سے کہا تُو میرا بیٹا ہے۔ آج تُو مجھ سے پیدا ہُوا۔‘‘ (زبور ۲:۷)

بہت سے لوگ مسیح کے اِس لقب ’’خدا کا بیٹا‘‘ سے خوش نہیں ہیں۔ یہ لقب خود خدا نے مسیح کو دیا ہے اور اُسے اپنا بیٹا کہہ کر مخاطب کِیا۔ اَب اگر خدا کسی کو اپنا بیٹا کہتا ہے تو ہم اعتراض کرنے والے کون ہیں؟

اِس سے پہلے کہ ہم آگے بڑھیں لازم ہے کہ ایک ضروری سوال کا جواب دے دیں۔ جیسا کہ ہم نے پہلے ذِکر کِیا کہ مرقس نے اپنی اِنجیل میں لکھا کہ یوحنا کا بپتسمہ گناہوں کی معافی کے لئے توبہ کا بپتسمہ تھا (مرقس ۱:۴)۔ پاک صحائف میں صاف اور واضح طور پر لکھا ہے کہ مسیح نے کبھی گناہ نہیں کِیا یعنی وہ معصوم و پاک ہیں۔ اگر اُن سے گناہ سَرزد ہُوا ہوتا تو وہ کبھی ہمارا نجات دہندہ نہ بن سکتے۔ مگر اَب سوال یہ ہے کہ پھر اُنہوں نے یوحنا سے بپتسمہ کیوں لیا؟ اِس کا ایک جواب یہ ہے کہ یوحنا کا بپتسمہ توبہ کے لئے تھا۔ توبہ یعنی اپنے فعل و حرکت سے پلٹ جانا یا مُڑ جانا۔ بپتسمہ لینے سے مسیح نے کھلم کھلا سب کے سامنے یہ دِکھا دیا کہ وہ اپنے ماضی یعنی پچھلی زندگی سے منہ موڑ کر خدا کے عطا کردہ نئے مشن و کام

کو اَنجام دینے کے لئے تیار ہیں جس کے لئے خدا نے اُنہیں مَسح کِیا ہے۔ اپنے بپتسمہ سے مسیح نے اپنی سابقہ بڑھئی کی زندگی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خیرباد کہہ دیا، اور خدا کی مرضی اور اِرادے کے مطابق نئی زندگی کا جلالی سفر شروع کِیا۔

خدا کی مرضی و اِرادے پر چلنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اَب ہماری زندگی میں تکلیفیں، پریشانیاں اور مُصیبتیں نہیں آئیں گی۔ نہ خدا کی رُوح سے بھر جانے سے ہم بُرائی اور گناہ کا سامنا نہیں کر پائیں گے۔ غور فرمائیے کہ جونہی مسیح نے بپتسمہ لیا تو رُوح اُن کو بیابان میں لے گیا جہاں شیطان نے چالیس دِن تک اُنہیں مختلف آزمائشوں میں اُلجھائے رکھا۔ خدا کے پیارے بندے موسیٰ کے زمانے میں خدا نے بنی اِسرائیل کو اپنا بیٹا کہا (خروج ۴:۲۲)۔ موسیٰ کی رہنمائی میں بنی اِسرائیل بیابان میں چالیس سال تک بھٹکتے رہے۔ خدا کا ایک مقصد یہ تھا کہ اُن کو آزمائشوں سے گزار کر اِیمان کی پختگی و مضبوطی سے مالا مال کرے، ’’اور تُو اُس سارے طریق کو یاد رکھنا جس پر چالیس برس میں خداوند تیرے خدا نے تجھ کو اِس بیابان میں چلایا تاکہ وہ تجھ کو عاجز کر کے آزمائے اور تیرے دِل کی بات دریافت کرے کہ تُو اُس کے حُکموں کو مانے گا یا نہیں۔‘‘ (اِستثنا ۸:۲) خدا کا بیٹا بنی اِسرائیل اِس اِلٰہی آزمائش میں ناکام رہا مگر خدا کا بعٹا مسیح اپنی اِلٰہی آزمائش میں کامیاب رہا۔

اَب سوال یہ ہے کہ خدا نے اپنے بیٹے کو اِس طرح آزمائش میں کیوں ڈالا؟ یہ نہایت ضروری تھا کہ زمین پر بنی نو اِنسان کو گناہوں سے ابدی چھٹکارے کا نجات بخش کام شروع کرنے سے پہلے خدا اپنے بیٹے مسیح کو تیار کرے۔ بائبل مُقدس میں عبرانیوں کی کتاب میں مسیح کے بارے میں لکھا ہے، ’’اور باوجُود بیٹا ہونے کے اُس نے دُکھ اُٹھا اُٹھا کر فرمانبرداری سیکھی اور کامِل بن کر اپنے سب فرمانبرداروں کے لئے ابدی نجات کا باعث ہُوا۔‘‘ (عبرانیوں ۵:۸-۹)

مرقس زیادہ تفصیل سے اِس کا ذِکر نہیں کرتا مگر دوسرے کئی مقامات پر بالکل واضح ہے کہ ایک سوال جو شیطان نے مسیح سے پوچھا یہ تھا کہ کیا وہ واقعی خدا کا بیٹا ہے؟ اُس نے مسیح سے کہا کہ اگر وہ درحقیقت خدا کا بیٹا ہے تو معجزات کر کے اِس کا ثبوت دے مگر مسیح نے ایسا کرنے سے اِنکار کر دیا۔ لیکن بعد میں اُنہوں نے اپنی اُلوہیت کو ثابت کرنے کے لئے کہ وہ واقعی خدا کی طرف سے ہیں مختلف معجزات کِئے۔ مگر شیطان کے کہنے پر نہیں بلکہ اپنے خدا کی مرضی اور تابعداری کو محسوس کرتے ہوئے خدا کا بیٹا ہونے کا ثبوت دیا۔

شیطان کی ہر آزمائش پر مسیح پاک صحائف کے حوالے دے کر غالب آئے۔ اِس سے ہمیں مسیح کی سِیرت و کردار کا پتہ چلتا ہے۔ خدا کا پاک کلام اُس کے اندر اِس قدر رچ بس چُکا تھا کہ وہ زندگی کی ہر آزمائش کا ڈٹ کر مقابلہ کر سکتا تھا۔ آج اگر ہم اپنی زندگیوں کا جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ ہم دُکھ مُصیبت کی گھڑی میں اِس لئے ثابت قدم نہیں رہتے کہ ہم نے خدا کے کلام کو اپنے اندر اُس طرح نہیں بسایا جس طرح مسیح کے اندر رچا بسا تھا۔

مرقس اِنجیلِ مُقدس میں خدا کی تحریک سے لکھتا ہے، مسیح ’’… بیابان میں چالیس دِن تک شیطان سے آزمایا گیا اور جنگلی جانوروں کے ساتھ رہا کِیا اور فرشتے اُس کی خدمت کرتے تھے۔‘‘ (مرقس ۱:۱۳)

مسیح کے بپتسمہ کے موقع پر خدا نے اُسے بادشاہ ہونے کے لئے مَسح کِیا۔ بعد میں مسیح نے فرمایا، ’’…آسمان اور زمین کا کُل اِختیار مجھے دیا گیا ہے۔‘‘ (متی ۲۸:۱۸) پولس رسول خدا کے پاک رُوح کی تحریک سے لکھتا ہے، ’’…اِسی واسطے خدا نے بھی اُسے بہت سَربلند کِیا اور اُسے وہ نام بخشا جو سب ناموں سے اعلیٰ ہے تاکہ یسوع کے نام پر ہر ایک گھٹنا ٹِکے۔ خواہ آسمانیوں کا ہو خواہ زمینیوں کا۔ خواہ اُن کا جو زمین کے نیچے ہیں۔‘‘ (فلپیوں ۲:۹-۱۰)

یہاں ہم مسیح کے اِلٰہی اِختیار و عہدے کی ایک جھلک دیکھتے ہیں۔ جنگلی جانور اُس سے دُور نہیں بھاگے بلکہ ساتھ رہتے تھے، اور خدا کے فرشتے اُس کی خدمت کرتے تھے۔ کیا اَب بھی ہم مسیح کی اُلوہیت اور اِلٰہی مرتبے و اِختیار بارے شک میں ہیں؟ کیا اَب بھی ہم اُسے اپنا بادشاہ و خداوند قبول کرنے کو تیار نہیں؟