Skip to content

آغازِ نَو

Posted in مرقس

بائبل مُقدس ہمیں بتاتی ہے کہ ’’خدا نے اِبتدا میں زمین و آسمان کو پیدا کِیا۔‘‘ (پیدایش ۱:۱) تخلیق کا کام ختم کرنے کے بعد، ’’…خدا نے سب پر جو اُس نے بنایا تھا نظر کی اور دیکھا کہ بہت اچھا ہے…‘‘ (پیدایش ۱:۳۱) مگر بدقسمتی سے جلد ہی اِنسان نے خدا کی اِس خوبصورت تخلیق کو تباہ و برباد کر دیا۔ گناہ کے سبب سے دُنیا میں موت، دُکھ، تکلیف اور تباہی آئی۔

اگر خدا چاہتا تو بنی نوع اِنسان کے ساتھ ساتھ وہ سب کچھ بھی نیست و نابود کر دیتا جس کو اِنسان نے اپنی باغیانہ روِش اور گمراہی سے بگاڑ کر رکھ دیا تھا۔ مگر خدا نے ایسا نہیں کِیا بلکہ اِنسان سے اپنے بے پناہ پیار سے مجبور ہو کر اُس نے ہمارے لئے اِلٰہی نور کی ایک نئی کِرن، حق و سچائی کی نئی راہ دِکھائی۔ مرقس اپنے نام سے منسُوب اِنجیل کا آغاز کچھ یوں کرتا ہے، ’’یسوع مسیح اِبنِ خدا کی خوشخبری کا شروع۔‘‘ (مرقس ۱:۱) یہ نہایت مناسب ہے کہ مرقس اپنی کتاب کا آغاز جو خدا کے پاک رُوح کی تحریک سے لکھی گئی اِس طرح سے کرے کیونکہ خدا نے بنی نوع اِنسان کو اُمید کی جو نئی کِرن دِکھائی ہے وہ یسوع مسیح کی شخصیت کے گِرد ہی گھومتی ہے۔

مگر سوال ہے کہ کون ہے یہ ہستی جس کے وسیلہ سے خدا نے ہمیں اُمید کی نئی کرِن اور حق و سچائی کی راہ دِکھائی ہے؟ اُس کا نام ہے یسوع۔ یسوع کا مطلب ہے ’’خدا کی نجات‘‘ کیونکہ یہ یسوع ہی ہے جس کے وسیلہ سے خدا ہم سب کو ہمارے گناہوں سے نجات دیتا ہے۔

یسوع صرف خدا کی طرف سے نجات دہندہ بن کر نہیں آیا بلکہ مرقس دعویٰ کرتا ہے کہ وہ مسیح بھی ہے۔ مسیح اُس کا کوئی خاندانی نام نہیں بلکہ اُس کا خطاب ہے۔ اِس کا مطلب ہے ’’مَسح کِیا گیا۔‘‘ یہودی رسم و رواج کے مطابق نبیوں، کاہنوں اور بادشاہوں کو اپنا عہدہ سنبھالنے سے پہلے پاک تیل سے مَسح کِیا جاتا تھا۔ ہم دوسرے کئی صحائف سے بھی جانتے ہیں کہ خدا نے مسیح یسوع کو نبی، کاہن اور بادشاہ ہونے کے لئے مَسح کِیا۔ یسوع خدا کا نبی ہے کیونکہ اُس نے خدا کا پیغام براہٴ راست خدا سے حاصِل کِیا اور دُنیا کے سامنے خدا کی طرف سے بولتا رہا (یوحنا ۱۴:۴۹-۵۰)۔ خدا نے یسوع مسیح کو سردار کاہن کے عہدے پر مُقرر کِیا تاکہ بنی نوع اِنسان کے گناہوں کی خاطر حتمی و آخری عظیم قربانی پیش کرے (عبرانیوں ۱۰:۱۱-۱۲)۔ یسوع مسیح بادشاہ ہے کیونکہ خدا نے آسمان و زمین کا کُل اِختیار اُسے بخشا (متی ۲۸:۱۸)۔ خدا نے اُسے پاک تیل کی بجائے اپنے پاک رُوح اور قدرت سے مَسح کِیا (اعمال ۱۰:۳۷-۳۸)۔

مرقس نے نہ صرف مسیح یسوع کو نجات دہندہ بلکہ اُس کو خدا کا بیٹا بھی کہا۔ مگر سوال یہ ہے کہ یسوع خدا کا بیٹا کیسے ہو گیا؟ وہ واضح طور پر جسم اور خون رکھتا تھا جبکہ خدا رُوح ہے تو جسمانی، رُوحانی کا بیٹا کیسے ہو سکتا ہے؟ یقیناً مرقس، مسیح یسوع کو جسمانی طور پر خدا کا بیٹا نہیں کہہ رہا۔ درحقیقت پاک صحائف نے کبھی بھی مسیح کو جسمانی بیٹا نہیں کہا، بلکہ پاک کلام میں لفظ ’’بیٹا‘‘ مسیح کا خدا کے ساتھ روحانی رشتے کے لئے اِستعمال ہوا ہے کہ وہ خدا کے ’’…جلال کا پرتَو اور اُس کی ذات کا نقش ہو کر سب چیزوں کو اپنی قدرت کے کلام سے سنبھالتا ہے۔‘‘ (عبرانیوں ۱:۳) پاک صحائف یہ بھی کہتے ہیں، ’’وہ اندیکھے خدا کی صُورت اور تمام مخلوقات سے پہلے مولُود ہے، کیونکہ اُسی میں سب چیزیں پیدا کی گِئیں۔ آسمان کی ہوں یا زمین کی۔ دیکھی ہوں یا اندیکھی۔ …‘‘ (کلسیوں ۱:۱۵-۱۶) مسیح یسوع نے خدا کی سیرت و کردار اور خصُوصیات کا اِس کاملیت سے مظاہرہ کِیا کہ وہ اپنے بارے میں پورے اعتماد و یقین کے ساتھ کہہ سکا کہ ’’… جس نے مجھے دیکھا اُس نے باپ (یعنی خدا) کو دیکھا۔ …‘‘ (یوحنا ۱۴:۹) اِسی لئے نہایت مُناسب ہے کہ مسیح یسوع کو خدا کا بیٹا کہا جائے۔

یہ نکتہ بھی غور طلب ہے کہ مسیح کا کوئی جسمانی باپ نہیں تھا، اِسی لئے بھی ہم کہہ سکتے ہیں کہ خدا اُس کا باپ ہے۔

اَب سوال یہ ہے کہ مرقس کی اِنجیل پر مُشتمل پیغام کو خوشخبری کیوں کہتے ہیں؟ اِس لئے کہ یہ خوشخبری ہے کیونکہ بنی نوع اِنسان مسیح کے وسیلہ سے نجات پا کر نئی زندگی کا آغاز کر سکتے ہیں۔ ہم مسیح یسوع کی زندگی، موت، دفن ہونے اور مُردوں میں جی اُٹھنے کے وسیلہ سے

اپنے گناہوں کے نتائج سے ہمیشہ کے لئے چُھٹکارا پا سکتے ہیں، جیسا کہ پطرس رسول نے اپنے زمانے کے مذہبی رہنمائوں سے کہا، ’’اور کسی دوسرے کے وسیلہ سے نجات نہیں کیونکہ آسمان کے تلے آدمیوں کو کوئی دوسرا نام نہیں بخشا گیا جس کے وسیلہ سے ہم نجات پا سکیں۔‘‘ (اعمال ۴:۱۲) وہ جو گناہوں کے بُوجھ تلے دبے ہوئے ہیں اُن کے لئے یقیناً یہ خوشخبری ہے کہ مسیح اُن کو نجات دے سکتا ہے۔

یہ عظیم خوشخبری ہم تک کیسے پہنچی؟ پہلے باب کی آیت ۲ سے ۸ میں مرقس لکھتا ہے، ’’جیسا یسعیاہ نبی کی کتاب میں لکھا ہے کہ دیکھ مَیں اپنا پیغمبر تیرے آگے بھیجتا ہوں جو تیری راہ تیار کرے گا۔ بیابان میں پُکارنے والے کی آواز آتی ہے کہ خداوند کی راہ تیار کرو۔ اُس کے راستے سیدھے بنائو۔ یوحنا آیا اور بیابان میں بپتسمہ دیتا اور گناہوں کی معافی کے لئے توبہ کے بپتسمہ کی مُنادی کرتا تھا۔ اور یہودیہ کے مُلک کے سب لوگ اور یروشلیم کے سب رہنے والے نکل کر اُس کے پاس گئے اور اُنہوں نے اپنے گناہوں کا اِقرار کر کے دریایِ یردن میں اُس سے بپتسمہ لیا۔ اور یوحنا اُونٹ کے بالوں کا لِباس پہنے اور چمڑے کا پٹکا اپنی کمر سے باندھے رہتا اور ٹِڈیاں اور جنگلی شہد کھاتا تھا اور یہ مُنادی کرتا تھا کہ میرے بعد وہ شخص آنے والا ہے جو مجھ سے زورآور ہے۔ مَیں اِس لائق نہیں کہ جُھک کر اُس کی جوُتیوں کا تسمہ کھولوں۔ مَیں نے تو تم کو پانی سے بپتسمہ دیا مگر وہ تم کو رُوح اُلقدس سے بپتسمہ دے گا۔‘‘

یوحنا نے مسیح کی راہ دو اہم طریقے سے تیار کی۔ پہلی کہ وہ لوگوں کو بپتسمہ دیتا تھا۔ اِس کا مطلب یہ ہُوا کہ وہ اُن کو پانی میں مکمل طور پر ڈِبو دیتا تھا۔ یہودی لوگوں میں ہزاروں سال سے اپنے آپ کو پاک صاف کرنے کی رسم چلی آ رہی تھی۔ مثال کے طور پر یروشلیم میں عبادت و پرسِتش کرنے سے پہلے وہ پانی میں ڈوب کر غُسل کرتے اور اپنے آپ کو پاک صاف کرتے تھے۔ مگر جو بپتسمہ یوحنا دیتا تھا وہ اِس سے بالکل مختلف تھا، یعنی اپنے آپ کو خود سے پانی میں ڈبونے کی بجائے یوحنا اُن کو ڈِبو کر پانی سے نکالتا تھا۔ اِس طرح وہ لوگوں کو یہ سِکھانا چاہتا تھا کہ نجات ہم خود اپنی کوشش سے حاصل نہیں کر سکتے۔ نجات ہمارے لئے باہر سے آتی ہے۔

اِس کے علاوہ یوحنا نے پہلی بار اپنے آپ کو پاک صاف کرنے کی رسم کو موت کے ساتھ اِکٹھا کِیا۔ یہ یونانی لفظ ’’بپتسمہ‘‘ ہی سے ظاہر ہوتا ہے۔ یونانی لوگ اِس لفظ کو ڈوبنے یا سمندری جہاز کو سمندر کی لہروں کے نِگل جانے کے لئے اِستعمال کرتے تھے۔ موت کے ساتھ یہ شراکت یوحنا کے بپتسمہ دینے کے مقصد کو اُجاگر کرتی ہے۔ یہ توبہ اور گناہوں سے معافی کا بپتسمہ تھا۔ توبہ کا مطلب ہے کہ جس راہ پر ہم چل رہے ہیں اُس سے ہٹ کر دوسری طرف مُڑ جانا۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ خدا ہمارے گناہ معاف کرے تو ہم توبہ کرنے کے بعد پھر سے گناہ کی زندگی نہیں گزار سکتے۔ ہمارا فرض ہے کہ جو پہلے کرتے تھے اُس طرزِ زندگی سے ہمیشہ کے لئے منہ موڑ لیں۔ جِنہوں نے اپنے گناہوں سے توبہ کر کے یوحنا سے بپتسمہ لیا وہ کھلے دِل سے مسیح کو اپنا نجات دہندہ قبول کرنے کے لئے تیار ہو گئے۔

یوحنا نے مسیح کی راہ دوسری اِس طرح سے تیار کی کہ اُس نے لوگوں کو مسیح کی آمد کے لئے تیار کِیا، اور دعوے سے اعلان کِیا کہ مسیح یسوع آ رہا ہے۔ بِلاشبہ یوحنا اُس وقت کے مطابق عظیم تھا مگر وہ بتانا چاہتا تھا کہ اُس سے عظیم تر اپنا چہرہ دِکھانے والا ہے۔ کئی سو سال سے خدا کے نبی یہ اعلان اور دعویٰ کرتے چلے آ رہے تھے کہ نجات دہندہ آنے والا ہے۔ مگر اُن کی پیشین گوئیاں دُور کے کسی زمانے اور وقت کی طرف اشارہ کرتی تھیں۔ مگر یوحنا نے دعویٰ اور اعلان کِیا کہ وہ نجات دہندہ جس کی صدیوں پہلے پیشین گوئی کی گئی تھی بس دروازہ پر کھڑا ہے یعنی آنے ہی والا ہے۔ یقیناً یوحنا کا یہ پیغام بہت سے لوگوں کے لئے اُمید کی نئی کرن بن کر آیا۔ اِس سے اُن کے دِل میں تمنا جاگی کہ جب مسیح آئے تو وہ اُس کی سُنیں۔ یوحنا رسول، مسیح کے تبلیغی سفر کے آخری دِنوں کا ذِکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ مسیح، ’’… پھر یردن کے پار اُس جگہ چلا گیا جہاں یوحنا پہلے بپتسمہ دیا کرتا تھا اور وہِیں رہا۔ اور بُہتیرے اُس کے پاس آئے اور کہتے تھے کہ یوحنا نے کوئی معجزہ نہیں دِکھایا مگر جو کچھ یوحنا نے اِس کے حق میں کہا تھا وہ سچ تھا۔ اور وہاں بُہتیرے اُس پر اِیمان لائے۔‘‘ (یوحنا ۱۰:۴۰-۴۲)