Skip to content

تمہید

Posted in مرقس

زمین سے آسمان پر اُٹھائے جانے سے کچھ ہی دیر پہلے مسیح یسوع نے اپنے شاگردوں کو بتایا، ’’…آسمان اور زمین کا کُل اِختیار مجھے دیا گیا ہے۔ پس تم جا کر سب قوموں کو شاگرد بنائو اور اُن کو باپ اور بیٹے اور رُوح القُدس کے نام سے بپتسمہ دو، اور اُن کو یہ تعلیم دو کہ اُن سب باتوں پر عمل کریں جن کا مَیں نے تم کو حکم دیا۔ اور دیکھو مَیں دُنیا کے آخر تک ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں۔‘‘ (متی ۲۸:۱۸-۲۰)

مسیح کے شاگردوں نے اپنے اُستاد اور خداوند کی اِس ہدایت پر بڑی سنجیدگی سے عمل کِیا، اور مسیح کے حکم کی پیروی کرتے ہوئے یروشیلم میں ہی رہے جب تک کہ رُوح القُدس کی قوت اُن پر نازل نہ ہوئی۔ اور جب پاک رُوح کی طاقت و قوت اُن پر نازل ہوئی تو وہ بڑی دلیری و جُرات سے چاروں طرف پرچار کرنے لگے کہ خداوند یسوع مسیح ہی نجات دہندہ ہے جس کے وسیلے سے خدا بنی نوع اِنسان کو اُن کے گناہوں سے چھٹکارا دیتا ہے۔

شاگردوں کی تبلیغ و پرچار کے آغاز سے ہی ہزاروں لوگ مسیح کے پیروکار بن گئے بلکہ صرف پہلے ہی دِن پندرہ مختلف مُلکوں اور صُوبوں سے لوگوں نے نجات کا پیغام سُن کر شاگردوں کے ہاتھوں بپتسمہ لیا۔ اور تھوڑے ہی عرصہ میں یروشلیم میں بپتسمہ لینے والوں کی تعداد پانچ ہزار ہو گئی (اعمال ۴:۴)۔ پہلے ہر نیا مسیح کا پیروکار یہودی تھا۔

شروع میں لوگوں کے دِل میں اِس نئے اِیمان و تعلیم کے بارے میں بڑی عزت و احترام تھا۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ مذہبی رہنمائوں کے ورغلانے اور بہکانے سے اُن کا رویہ تبدیل ہونے لگا اور وہ مسیح کے پیروکاروں پر ظلم و اذیت برپا کرنے لگے۔ اِس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ ظلم و اذیت کی ایک وجہ مسیح کی تعلیم تھی جس کا وہ سامنا نہیں کرنا چاہتے تھے۔ یوحنا رسول اِس بارے میں کہتا ہے، ’’…جو کوئی بدی کرتا ہے وہ نُور سے دُشمنی رکھتا ہے اور نُور کے پاس نہیں آتا۔ ایسا نہ ہو کہ اُس کے کاموں پر ملامت کی جائے۔‘‘ (یوحنا ۳:۲۰) مسیح یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا، ’’اگر دُنیا تم سے عداوت رکھتی ہے تو تم جانتے ہو کہ اُس نے تم سے پہلے مجھ سے بھی عداوت رکھی ہے۔ اگر تم دُنیا کے ہوتے تو دُنیا اپنوں کو عزیز رکھتی لیکن چونکہ تم دُنیا کے نہیں بلکہ مَیں نے تم کو دُنیا سے چُن لیا ہے اِس واسطے دُنیا تم سے عداوت رکھتی ہے۔ جو بات مَیں نے تم سے کہی تھی اُسے یاد رکھو کہ نوکر اپنے مالِک سے بڑا نہیں ہوتا۔ اگر اُنہوں نے مجھے ستایا تو تمہیں بھی ستائنیگے…‘‘ (یوحنا ۱۵:۱۸-۲۰)

ظلم و اذیت سے دو نتائج برآمد ہوئے۔ پہلا یہ کہ مسیح کے بہت سے پیروکار یروشلیم سے بھاگ گئے۔ بائبل مُقدس میں قلمبند ہے کہ کچھ مُدت کے لئے رسولوں کے سِوا کوئی بھی اِیماندار یروشلیم میں نہ رہا (اعمال ۸:۱)۔

دوسرا نتیجہ یہ نکلا کہ مسیح کے پیروکاروں کے وسیلہ سے یہ نیا اِیمان اَور بھی زیادہ تیزی سے پھیلنے لگا۔ جو یروشلیم سے نکل آئے تھے، اُنہوں نے جہاں جہاں بھی وہ گئے مسیح کے بارے میں بتایا۔ بلکہ کچھ نے تو اُن لوگوں کو بھی مسیح کے وسیلہ سے گناہوں سے نجات بارے بتایا جو یہودی نہیں تھے۔ اِس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بہت بڑی تعداد میں یہودی اور غیر یہودی انطاکیہ، شام میں مسیح کی پیروی کرنے لگے (اعمال ۱۱:۱۹-۲۱)۔

کچھ سال بعد جب یروشلیم میں کلیسیا یعنی خدا کے لوگ پھر سے مضبوط ہونے لگے تو ایک بار پھر ظلم و اذیت کا بازار گرم ہو گیا۔ مگر اِس بار کلیسیا کے ممبرز نہیں بلکہ حکومتی اِختیار والوں نے رسولوں کو نشانہ بنایا جن کو مسیح نے مُقرر کِیا تھا کہ اُس کا پیغام دُنیا کے کونے کونے میں پہنچائیں۔ ہیرودیس بادشاہ نے یوحنا کے بھائی یعقوب کو تلوار سے قتل کر دیا، اور جب اُس نے دیکھا کہ لوگ اِس سے خوش ہوئے ہیں تو اُس نے مسیح کے شاگرد پطرس کو بھی قتل کرنے کے اِرادے سے گرفتار کر لیا۔ مگر خدا نے اُسے معجزانہ طور پر جیل سے چُھڑا لیا اور پطرس ہلاکت سے بچ گیا، اَب لازم تھا کہ وہ بادشاہ کی نظروں سے چھپ جائے (اعمال ۱۲:۱-۱۷)۔

اِن تمام حالات نے کلیسیا کو بہت زیادہ مشکل میں ڈال دیا۔ یروشلیم سے دُور دراز علاقوں میں بِکھرے ہوئے مسیح کے نئے پیروکاروں کو کیسے تعلیم دی جائے اور کیسے مسیحی زندگی کے بارے میں سِکھایا جائے، جن میں سے بیشتر مسیح کی شخصی زندگی اور کام کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے؟ اِسقدر زیادہ تعداد اور دُور دراز علاقوں میں بسنے کے مسائل کے علاوہ مسیح کے حالات و واقعات کے چشم دِید گواہ یعقوب کی موت نے واضح کر دیا کہ جو مسیح اور اُس کی تعلیم کو خوب اچھی طرح سے جانتے تھے، وہ زیادہ عرصہ تک زندہ نہیں رہیں گے۔ اَب سوال یہ تھا کہ کلیسیا کیسے مسیح کی تعلیم اور ہدایات کو محفوظ و تازہ رکھے جبکہ چشم دِید گواہ نہیں رہے؟

اِس مسئلہ کا حل یہ تھا کہ مسیح کی تعلیم کو قلمبند کِیا جائے۔ اِس بارے میں لوقا رسول لکھتا ہے، ’’چونکہ بہتُوں نے اِس پر کمر باندھی ہے کہ جو باتیں ہمارے درمیان واقع ہوئیں اُن کو ترتیب وار بیان کریں، جیسا کہ اُنہوں نے جو شروع سے خود دیکھنے والے اور کلام کے خادِم تھے اُن کو ہم تک پہنچایا۔‘‘ (لوقا ۱:۱-۲)

بائبل مُقدس ہمیں یہ نہیں بتاتی کہ پطرس رسول، ہیرودیس بادشاہ سے بھاگ کر کہاں گیا۔ فلسطین میں جہاں جہاں ہیرودیس کی حکمرانی تھی وہ وہاں محفوظ نہیں تھا۔ اگرچہ ہم وثوق سے کہہ نہیں سکتے مگر کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ سفر کرتے کرتے رُوم چلا گیا اور ہیرودیس کی موت تک وہیں رہا۔ کیونکہ پطرس رسول کو یونانی زبان پر عبور حاصل نہیں تھا، شائد اِسی لئے اُس نے مرقس نامی نوجوان کو اپنے ساتھ لیا تاکہ وہ ترجمہ کر سکے۔ رُوم میں مسیح کے پیروکاروں نے مرقس سے کہا کہ وہ اُن کے لئے پطرس کی تعلیم کو لکھ کر محفوظ کر لے، اور پطرس نے مرقس کو ایسا ہی کرنے کی اِجازت دی۔ ہیرودیس بادشاہ کی وفات کے بعد پطرس اور مرقس، یروشلیم کو واپس آئے۔ وہاں سے پولس رسول، برنباس اور مرقس کو ساتھ لے کر انطاکیہ، شام میں آیا۔ مرقس نے پولس اور برنباس کے ساتھ پہلے تبلیغی سفر میں ساتھ دیا (اعمال ۱۲:۲۵، ۱۳:۵)۔

اپنی زندگی کے آخری ایام میں جب پطرس موت کے قریب تھا تو اُس نے مسیح کے پیروکاروں کو اپنے خط میں کہا، ’’پس مَیں ایسی کوشش کروں گا کہ میرے اِنتقال کے بعد تم اِن باتوں کو ہمیشہ یاد رکھ سکو۔‘‘ (۲-پطرس ۱:۱۵) اِس کی روشنی میں یوں لگتا ہے کہ پطرس نے مرقس کو حوصلہ دیا کہ وہ خدا کے کلام کو جو اُس کے وسیلہ سے پاک رُوح کی قدرت سے نازل ہوتا ہے ترتیب دے کر لکھ لے۔ کلیسیا سے روایت ہے کہ پطرس، پولس اور برنباس کے ساتھ خدمت کا کام کرنے کے علاوہ، مرقس نے مِصر کا سفر کِیا تاکہ وہاں لوگوں کو مسیح کے بارے میں خوشخبری سُنا سکے۔ کہتے ہیں کہ جب وہ مِصر کے شہر اِسکندریہ میں تھا تو اُس نے جو کچھ بھی لکھا اُس کو آخری شکل دی، اور بائبل مُقدس میں مرقس کی اِنجیل خدا کے پاک رُوح کی تحریک سے مرقس کی کوششوں اور کاوشوں کی بدولت آج ہمارے سامنے موجود ہے۔

متی رسول نے مسیح کی زندگی کے حالات و واقعات کو خدا کے رُوح کی تحریک سے مامُور ہو کر یہودی پس منظر رکھنے والے لوگوں کے لئے، اور مرقس نے غیر یہودی لوگوں کے لئے لکھا۔ اُس نے اپنے پڑھنے والوں کو یہودی رسم و رواج اور تصورات سے آگاہ کِیا۔ اُس کی زبان فصیح و نفیس نہیں ہے۔ اُس نے گلی محلے اور مارکیٹ میں کام کرنے والے ایک عام آدمی کے لئے لکھا۔ اگرچہ اُس نے مسیح کی اُن باتوں کو قلمبند کِیا جو سکھائی یا جن کی تعلیم دی، مرقس نے مشکل فلسفیانہ سوچ و انداز کو چھوڑ کر اِس بات کو مرکز و بُنیاد بنایا کہ مسیح نے کیا کِیا۔ اُس نے مسیح یسوع کو ایک ایسے نمونے کے طور پر پیش کِیا جس کی ہم سب کو لازمی پیروی کرنا چاہیے تاکہ ہماری زندگی اور مزاج اُس کے مطابق ہو۔

مرقس نے مسیح کی زندگی کے حالات و واقعات کو اُس طرح پیش نہیں کِیا جس طرح حقیقت میں ہوئے بلکہ اُس کی کتاب مسیح کی تعلیم کے گِرد گھومتی ہے کہ کِس طرح دوسروں کی بے لوث خدمت کی جائے، یعنی کہ مسیح نے اِنسانی خدمت کے اعلیٰ ترین معیار کے بارے میں فرمایا، ’’… جو تم میں بڑا ہونا چاہے وہ تمہارا خادِم بنے، اور جو تم میں اول ہونا چاہے وہ سب کا غلام بنے۔‘‘ (مرقس ۱۰:۴۳-۴۴)

مختصر یہ کہ مرقس نے اپنی تحریر سے واضح کِیا کہ خواہ ہمارا تعلق کسی بھی تہذیب و تمدن، ذات پات، رنگ و نسل، عہدے و رُتبے سے کیوں نہ ہو مسیح کا پیغام ہر ایک کے لئے ہے۔