Skip to content

خدا راست گو خدا ہے

Posted in خُدا کی تلاش

اِنسانی عقل بھی کیا عجیب چیز ہے۔ چاہے تو جھوٹ کو سچ سمجھ کر قبول کر لے اور چاہے تو سچ کو جھوٹ سمجھ کر ٹھکرا دے، اور ساری زندگی جھوٹ سچ کی کشمکش میں ہی گزار دے۔ آج جگہ جگہ پھیلتی ہوئی مُلحدانہ سوچ جھوٹ ہی کی ایک مکروہ اور گھنائونی شکل ہے، کیونکہ یہ لوگ جھوٹ میں اِس قدر رچ بس گئے ہیں کہ اُن کو حق و سچائی کی پہچان ہی نہیں رہی۔ شائد وہ سچائی سے آشنا ہوتے یا سچے خدا کی خصوصیات کو جانتے تو کبھی خدا کا اِنکار نہ کرتے۔ ہم نے اپنے پچھلے پروگراموں میں دیکھا کہ خدا محبت ہے، خدا راست ہے، اور آج ہم دیکھیں گے کہ خدا راست گو خدا ہے، یعنی خدا جھوٹ نہیں بولتا۔ معزز سامعین! جھوٹ، جھوٹ ہے خواہ وہ کسی بھی رنگ، کسی بھی ماحول کسی بھی صورت اور حالت میں کیوں نہ ہو۔ کہتے ہیں جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے یعنی جھوٹ بولنے والا ایک جھوٹ چھپانے کے لئے جھو ٹ پہ جھوٹ بولے چلا جاتا ہے اور یہ نہیں جانتا کہ آج نہیں تو کل اُس کی پکڑ ہونا ہی ہے خواہ اِس دُنیا میں یا اُس دُنیا میں۔ جھوٹ بولنے والا اور سچ کہنے والا دونوں اپنی اپنی پہچان اور شناخت کرواتے ہیں کیونکہ دونوں اپنے پیچھے ایک رائے، ایک تاثر چھوڑ جاتے ہیں جس کو بُنیاد بنا کر ہم تعلقات اور رشتوں کو تولتے اور پروان چڑھاتے ہیں کہ فلاں شخص اعتماد و بھروسہ کے قابل ہے یا نہیں۔ لہذا ثابت ہُوا کہ درُوغ گوئی اور راست گوئی دونوں اِنسانی سیرت و کردار کی اہم ترین خصوصیت ہیں جو نہ صرف دُنیا میں لوگوں کے سامنے بلکہ ایک دِن خدا کے سامنے بھی شرمندگی و ندامت اور عزت و برکت کا باعث بن سکتی ہیں۔ ہم اِنسان تو پھر بھی جھوٹ سے سمجھوتہ کر لیتے ہیں مگر خدا جھوٹ کو ہرگز برداشت نہیں کرتا کیونکہ پاک و راستباز خدا راست گو خدا ہے جو جھوٹ سے نفرت کرتا ہے۔

پاک صحائف بار بار خدا کی راست گوئی کا ذِکر کرتے ہیں کہ وہ کبھی کوئی ایسا کلام نہیں کرتا جِسے اُس نے پورا نہ کِیا ہو۔ جیسا کہ کتابِ مقدس میں لکھا ہے، ’’خدا اِنسان نہیں کہ جھوٹ بولے اور نہ وہ آدمزاد ہے کہ اپنا اِرادہ بدلے۔ کیا جو کچھ اُس نے کہا اُسے نہ کرے؟ یا جو فرمایا ہے اُسے پورا نہ کرے؟‘‘ (گنتی ۲۳:۱۹) ایک اَور مقام پر خداوند خدا کی راستی کے بارے میں لکھا ہے، ’’اور جو اِسرائیل کی قوت ہے (یعنی خدا) وہ نہ تو جھوٹ بولتا اور نہ پچھتاتا ہے کیونکہ وہ اِنسان نہیں ہے کہ پچھتائے۔‘‘ (۱- سموئیل ۱۵:۲۹)

اِنجیلِ پاک میں خدا کی راست گوئی بارے لکھا ہے، ’’اُس ہمیشہ کی زندگی کی اُمید پر جس کا وعدہ ازل سے خدا نے کِیا ہے جو جھوٹ نہیں بول سکتا۔‘‘ (طِطس ۱:۲) عبرانیوں کی اِلہامی کتاب میں خدا کی اِس خصوصیت کو بہت ہی خوبصورت انداز سے بیان کِیا گیا ہے۔ ’’اِس لئے جب خدا نے چاہا کہ وعدہ کے وارثوں پر اَور بھی صاف طور سے ظاہر کرے کہ میرا اِرادہ بدل نہیں سکتا تو قَسم کو درمیان میں لایا تاکہ وہ بے تبدیل چیزوں کے باعث جن کے بارے میں خدا کا جھوٹ بولنا ممکن نہیں ہماری پختہ طور سے دلجمعی ہو جائے جو پناہ لینے کو اِس لئے دوڑے ہیں کہ اُس اُمید کو جو سامنے رکھی ہوئی ہے قبضہ میں لائیں۔‘‘ (عبرانیوں ۶:۱۷۔۱۸)

اَب سوال یہ ہے کہ ہاں، خدا حاکمِ اعلیٰ ہے یعنی ہر بات میں مطلق اُلعنان ہے تو کیا وہ چاہے تو جھوٹ بھی بول سکتا ہے؟ نہیں وہ ہرگز ایسا نہیں کر سکتا۔ کیا خدا اِتنی بھاری چیز یا کوئی بھاری پتھر بنا سکتا ہے جس کو وہ خود ہی اُٹھا نہ سکے۔ اِسی طرح وہ کچھ بھی کر سکتا مگر جھوٹ نہیں بول سکتا۔ خدا اپنی ذات میں کامل ہے اِس لئے وہ کچھ بھی کر سکتا ہے مگر درُوغ گوئی نہیں کر سکتا۔ ہاں ہم جھوٹ بول سکتے ہیں اور بولتے ہیں کیونکہ ہم کامل نہیں ہیں۔

خدا کے نزدیک جھوٹ بولنا گناہ ہے۔ ہر گناہ ہماری ناکاملیت کو ظاہر کرتا ہے۔ اور کیونکہ خدا کامل ہے اِسی لئے وہ گناہ نہیں کر سکتا۔ لہذا اِس کا مطلب یہ ہُوا کہ خدا اخلاقی طور پر اعلیٰ ترین، کامل اخلاقی معیار کا مالک ہے اور گناہ سے بالکل پاک ہے، اور اگر وہ گناہ سے بالکل پاک ہے تو ظاہر ہے کہ جھوٹ سے بھی پاک ہے۔ اور اگر وہ مصلحتاً بھی جھوٹ بولتا تو کسی حالت میں کامل نہ رہتا اور اِنسانوں کی طرح ناکامل بن جاتا۔

خدا ازل سے راست گو تھا، خدا آج بھی راست گو ہے اور خدا ابد تک راست گو رہے گا کیونکہ راست گوئی اُس کی کاملیت میں شامل ہے۔ اِسی لئے پولس رسول دعوے کے ساتھ کہتا ہے، ’’اگر ہم بے وفا ہو جائیں گے تَو بھی وہ وفادار رہے گا کیونکہ وہ آپ اپنا اِنکار نہیں کر سکتا۔‘‘ (۲- تیمتھیس ۲:۱۳)

اگر خدا اپنا اِنکار نہیں کر سکتا یا وہ جھوٹ سے بالکل پاک ہے تو مطلب یہ ہُوا کہ اُس کا زندہ اور مقدس کلام بائبل بھی جھوٹ سے بالکل پاک اور سچا ہے۔ جیسا کہ لکھا ہے، ’’ تیرے کلام کا خلاصہ سچائی ہے۔ تیری صداقت کے کُل احکام ابدی ہیں۔‘‘ (زبور ۱۱۹:۱۶۰)

خدائے واحد لاتبدیل خدا ہے۔ وہ اپنے کلام اور وعدوں سے پِھرتا نہیں۔ ایک اَور مقام پر لکھا ہے، ’’ چنانچہ جب خدا نے ابرہام سے وعدہ کرتے وقت قَسم کھانے کے واسطے کسی کو اپنے سے بڑا نہ پایا تو اپنی ہی قَسم کھا کر فرمایا کہ یقیناً مَیں تجھے برکتوں پر برکتیں بخشوں گا اور تیری اولاد کو بہت بڑھائوں گا۔‘‘ (عبرانیوں ۶:۱۳-۱۴) ہم نے دیکھا کہ خدا اپنے کلام، وعدوں اور عہدوں پر ہمیشہ قائم رہتا ہے۔ کیونکہ وہ ایک پاک خدا ہے لہذا اُس کی طبیعت میں ہی نہیں کہ جھوٹ بولے، اگر وہ ایسا کرے گا تو اپنی ہی ذاتِ پاک اور اِلٰہی سیرت و کردار کی نفی کرے گا۔ خدا نے اپنے پیارے بندے ابرہام سے جو وعدہ کِیا اُس کو ہر صورت میں پورا کِیا۔ جیسا کہ لکھا ہے، ’’اور خداوند نے ابرام سے کہا کہ تُو اپنے وطن اور اپنے ناتے داروں کے بیچ سے اور اپنے باپ کے گھر سے نکل کر اُس مُلک میں جا جو مَیں تجھے دِکھائوں گا۔ اور مَیں تجھے ایک بڑی قوم بنائوں گا اور برکت دوں گا اور تیرا نام سرفراز کروں گا۔ سو تُو باعثِ برکت ہُو! جو تجھے مُبارک کہیں اُن کو مَیں برکت دوں گا اور جو تجھ پر لعنت کرے اُس پر مَیں لعنت کروں گا اور زمین کے سب قبیلے تیرے وسیلہ سے برکت پائیں گے۔‘‘ ( پیدایش ۱۲:۱-۳) اور خدا کا یہ وعدہ دو ہزار سال بعد مسیح یسوع کی دُنیا میں آمد پر پورا ہُوا۔ جیسا کہ خدا کے پاک اِلہامی کلام میں لکھا ہے، ’’پس ابرہام اور اُس کی نسل سے وعدے کِئے گئے۔ وہ یہ نہیں کہتا کہ نسلوں سے۔ جیسا بہتوں کے واسطے کہا جاتا ہے بلکہ جیسا ایک کے واسطے کہ تیری نسل کو اور وہ مسیح ہے۔‘‘ گلتیوں ۳:۱۶) بِلا شبہ مسیح یسوع خدا کے اِس وعدے کی تکمیل تھا کیونکہ وہ ابرہام کی نسل سے تھا اور اَب اپنی موت، دفن ہونے اور مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے سبب سے ساری دُنیا کا نجات دہندہ ہے۔ گمراہ و برگشہ گناہگار اِنسان خواہ وہ کسی مُلحدانہ سوچ، عقیدے، فرقہ اور رنگ و نسل سے کیوں نہ ہو، مسیح یسوع پر اِیمان لا کر اور اپنے گناہوں سے معافی پا کر ہمیشہ کی زندگی پا سکتا ہے۔ جیسا کہ پاک کلام میں لکھا ہے، ’’جِتنوں نے اُسے قبول کِیا، اُس نے اُنہیں خدا کے فرزند بننے کا حق بخشا یعنی اُنہیں جو اُس کے نام پر اِیمان لاتے ہیں۔‘‘ (یوحنا ۱:۱۲) خدا کا ابرہام کے ساتھ وعدہ مسیح کے جی اُٹھنے سے پورا ہُوا جو آج بھی قائم ہے اور رہتی دُنیا تک رہے گا۔ جیسا کہ لکھا ہے، ’’کیونکہ خدا کے جِتنے وعدے ہیں وہ سب اُس میں (یعنی مسیح میں) ہاں کے ساتھ ہیں۔‘‘ (۲-کرنتھیوں ۱:۲۰)

اَب خدا کی راست گوئی کے بارے میں ایک اَور اہم نکتہ یہ ہے کہ خدا معاف کرے اگر خدا جھوٹ بولتا تو اُس میں اِبلیس کے کچھ اَوصاف شامل ہو جاتے، لیکن ہم خدا کا شکر بجا لاتے ہیں کہ وہ پاک اور راست گو خدا ہے، وہ ابلیس کی مانند جھوٹا اور خونی نہیں۔ ہاں، ہمارے اندر ابلیس کے اوصاف موجود ہیں جو ہمیں راستباز خدا سے دُور کرتے ہیں کیونکہ جھوٹ، سچ کے سامنے قائم نہیں رہ سکتا۔ خداوند مسیح یسوع نے خدا کے اِلہامی کلام میں جھوٹے ابلیس کی کیا خوب وضاحت کی ہے، ’’تم اپنے باپ اِبلیس سے ہو اور اپنے باپ کی خواہشوں کو پورا کرنا چاہتے ہو۔ وہ شروع ہی سے خونی ہے اور سچائی پر قائم نہیں رہا کیونکہ اُس میں سچائی ہے نہیں۔ جب وہ جھوٹ بولتا ہے تو اپنی ہی سی کہتا ہے کیونکہ وہ جھوٹا ہے بلکہ جھوٹ کا باپ ہے۔‘‘ (یوحنا ۸:۴۴) ایک اَور مقام پر مسیح نے ابلیس کو دُنیا کا سردار کہتے ہوئے دعویٰ کِیا کہ، ’’…دُنیا کا سردار آتا ہے اور مجھ میں اُس کاکچھ نہیں۔‘‘ (یوحنا ۱۴:۳۰) یہ ناممکن ہے کہ خدا کی پاک ذات میں اِبلیس کا ذرا بھی کچھ شامِل ہو کیونکہ ایک طرف حق و سچائی ہے اور دوسری طرف جھوٹ و باطل۔ ایک طرف شرمندگی و لعنت ہے اور دوسری طرف عزت و برکت۔ ایک طرف ابدی زندگی ہے اور دوسری طرف ابدی ہلاکت۔ اَب فیصلہ آپ کا ہے کہ آپ کِس طرف جائیں گے؟ راست گو خدا کی طرف یا اِبلیس کی طرف جو جھوٹ کا باپ ہے۔

آئیے اپنے مالک و تخلیق کار کی حمد و تمجید کریں کہ وہ جھوٹ سے بالکل پاک ہے، اور خدا کی یہی وہ خصوصیت ہے جس کا ہم اپنے اگلے پروگرام میں ذِکر کریں گے کہ خدا پاک ہے، سُننا مت بھولیئے گا۔