کہتے ہیں غیبت و عیب جُوئی کرنے اور سُننے میں بھی ایک مزہ ہے۔ یہ ایک ایسی فِتنہ انگیز عادت ہے جو کچھ لوگوں میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے۔ وہ گھر سے سبزی والا تھیلا لے کر نکلتے ہیں اور راستے میں دو چار گھروں میں بُرائی و غیبت کر کے جھگڑے فساد کا بِیج بُو آتے ہیں۔ آج کل تو ویسے بھی ہر کسی کے ہاتھ میں فون ہوتا ہے، گھر گھر جانے کی ضرورت محسوس ہی نہیں ہوتی، فون پر ہی گھنٹوں بُرائیاں، عیب جُوئیاں اور بد گوئیاں کر کر کے اپنا پیٹ ہلکا کر لیتے ہیں۔ اَب سوال یہ ہے کہ بُرائی یا غیبت کرنے والے کا بُنیادی مقصد کیا ہوتا ہے؟ بد گُوئی اور عیب جُوئی ایک ایسا شیطانی فعل ہے جس کی تباہ کاریاں بہت ہی سنگین اور دِلخراش ہوتی ہیں۔ غیبت کرنے والا نہ تو خود سکون و اِطمینان میں ہوتا ہے اور نہ ہی کسی اَور کو چین سے رہنے دیتا ہے، اِسی لئے بے چینی و بے سکونی، اِنتشار و فساد پھیلانا اُس کا بُنیادی مقصد ہوتا ہے۔ اپنی اِس مَکروہ حرکت کے سبب کئی بار اُسے ذلیل و رُسوا بھی ہونا پڑتا ہے مگر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ وہ شرمندگی و ندامت اُٹھاتے اُٹھاتے عادی بدگُو و عیب جُو بن جاتا ہے۔ وہ اپنے کام کا اِتنا ماہر ہوتا ہے کہ ہمدردی کی آڑ میں ہی بُرائی و غیبت کی آگ لگا دیتا ہے، اور جب شعلے اُٹھتے ہیں تو آگ بُجھانے والوں میں وہ خود بھی شامل ہوتا ہے یعنی ہر طرف لڑائیاں اور تفرقے ڈال کر ہمدرد و غمگسار کا معصُومانہ کردار بھی خود ہی نبھاتا ہے۔ یہ تھی غیبتی، بدگُو اور عیب جُو کی ہلکی سی جھلک۔
ظاہر ہے ہمارے ہاں غیبت کرنا ایک عام سا فعل ہے مگر آئیے دیکھتے ہیں کہ خداوند خدا غیبت و عیب جُو کو کِس نظر سے دیکھتا ہے۔ پاک اِلہامی کلام میں لکھا ہے، ’’کجرَو آدمی فِتنہ انگیز ہے اور غیبت کرنے والا دوستوں میں جُدائی ڈالتا ہے۔‘‘ (امثال ۱۶:۲۸) اور پھر لکھا ہے، ’’جو کوئی لُترا پن کرتا پِھرتا ہے راز فاش کرتا ہے، اِس لئے تُو منہ پھٹ سے کچھ واسطہ نہ رکھ۔‘‘ (امثال ۲۰:۱۹) خدا کے زندہ کلام میں ایک اَور مقام پر لکھا ہے، ’’تیرے منہ سے بدی نکلتی ہے، اور تیری زبان فریب گھڑتی ہے۔ تُو بیٹھا بیٹھا اپنے بھائی کی غیبت کرتا ہے…‘‘ (زبور ۵۰:۱۹-۲۰) خداوند خدا غیبت اور عیب جوئی کرنے والوں کو اِس قدر ناپسند کرتا ہے کہ ’’جو درپردہ اپنے ہمسایہ کی غیبت کرے مَیں اُسے ہلاک کر ڈالوں گا…‘‘ (زبور ۱۰۱:۵)
جب ہم پیٹھ پیچھے کسی کی بُرائی، غیبت، عیب جوئی یا بدگوئی کرتے ہیں تو ہم نِفاق و تفرقہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کچھ لوگوں کے نزدیک یہ ایک معمُول کا کام ہے یعنی وہ اپنی عادت سے مجبور ہوتے ہیں مگر نہیں جانتے کہ غیبت و نِفاق ڈالنا خدا کے نزدیک کراہیت ہے جو اُن سنگین گناہوں میں شامل ہے جس سے خداوند خدا کو نفرت ہے۔ ’’چھ چیزیں ہیں جن سے خداوند کو نفرت ہے بلکہ سات ہیں جن سے اُسے کراہیت ہے۔ اُونچی آنکھیں، جھوٹی زبان، بے گناہ کا خون بہانے والے ہاتھ، بُرے منصوبے باندھنے والا دِل، شرارت کے لئے تیز رَو پائوں، جھوٹا گواہ جو درُوغ گوئی کرتا ہے اور جو بھائیوں میں نِفاق ڈالتا ہے۔‘‘ (امثال ۶:۱۶-۱۹)
کبھی آپ نے سوچا ہے کہ غیبت و نِفاق پھیلانے سے کتنے ہی خاندان و رشتے، محبت، بھائی چارے، امن و صُلح کا دامن چھوڑ کر نفرت و حقارت کی آگ میں جل کر خاک ہو جاتے ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں کہ غیبت و عیب جوئی کے انجام سے واقف نہیں ہوتے بلکہ ہم تو غیبت کرتے ہی اِس لئے ہیں کہ نِفاق پیدا ہو اور آگ بھڑکے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ خدا کے لوگوں میں بھی غیبت و عیب جوئی کی بیماری عام ہے حالانکہ وہ خوب جانتے ہیں کہ یہ ایک ایسا گناہ ہے جس سے خدا کو نفرت و کراہیت ہے مگر پھر بھی وہ اپنی غیبتی طبیعت سے کلیسیائوں میں نفرتیں، جُدایاں، دُشمنیاں اور عداوتیں پیدا کرتے چلے جاتے ہیں۔ اِسی وجہ سے بہت سی کلیسیائیں ٹوٹ پُھوٹ کا شکار ہو کر اِدھر اُدھر بکھر جاتی ہیں۔ غیبت و نِفاق، اِبلیس و شیطان کا ایک بہت ہی کارآمد ہتھیار ہے جِسے وہ بڑی ہوشیاری، مکاری اور چالاکی سے اِستعمال کرتا ہے۔
چلئے آئیے دیکھتے ہیں کہ بنی نوع اِنسان میں غیبت، عیب جوئی اور نِفاق کے گناہ کا بِیج شیطان نے کہاں اور کیسے بُویا۔ باغِ عدن یعنی جنت کا امن و صُلح اور محبت و پاکیزگی سے بھرپور ماحول، جہاں گناہ نام کی کوئی چیز ہی نہیں تھی، خدا نے آدم کو اپنا دَم پُھونک کر اپنی شبیہ پر بنایا، اور اُسے باغِ عدن میں رکھا کہ باغبانی اور نگہبانی کرے، اور خدا نے آدم کو حکم دیا اور کہا کہ ’’…تُو باغ کے ہر درخت کا پھل بے روک ٹوک کھا سکتا ہے لیکن نیک و بد کی پہچان کے درخت کا کبھی نہ کھانا کیونکہ جس روز تُو نے اُس میں سے کھایا تُو مرا۔‘‘ (پیدایش ۲:۱۶-۱۷) اور خداوند خدا نے آدم کی پسلیوں میں سے ایک کو نکال کر اُس کے لئے ایک مددگار یعنی حَوا کو بنایا۔ باغِ عدن میں وہ دونوں ننگے رہتے تھے اور ایک دوسرے سے شرماتے نہ تھے کیونکہ وہ خدا کی شبیہ پر تھے لہذا گناہ سے بالکل پاک تھے۔ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ شیطان پاکیزگی و امن کا دُشمن ہے وہ بھلا یہ کیسے برداشت کر سکتا تھا کہ باغِ عدن میں ہر طرف محبت و شادمانی اور امن و شانتی ہو لہذا اُس نے سانپ کا رُوپ دھارا، ’’اور سانپ کُل دشتی جانوروں سے جن کو خداوند خدا نے بنایا چالاک تھا اور اُس نے عورت سے (یعنی حَوا) سے کہا، کیا واقعی خدا نے کہا ہے کہ باغ کے کسی درخت کا پھل تم نہ کھانا؟ عورت نے سانپ سے کہا کہ باغ کے درختوں کا پھل تو ہم کھاتے ہیں پر جو درخت باغ کے بِیچ میں ہے اُس کے پھل کی بابت خدا نے کہا ہے کہ تم نہ تو اُسے کھانا اور نہ چُھونا ورنہ مر جائو گے۔ تب سانپ نے عورت سے کہا کہ تم ہرگز نہ مرو گے بلکہ خدا جانتا ہے کہ جس دِن تم اُسے کھائو گے تمہاری آنکھیں کھل جائیں گی اور تم خدا کی مانند نیک و بد کے جاننے والے بن جائو گے۔ عورت نے جو دیکھا کہ وہ درخت کھانے کے لئے اچھا اور آنکھوں کو خُوشنما معلوم ہوتا ہے اور عقل بخشنے کے لئے خوب ہے تو اُس کے پھل میں سے لیا اور کھایا اور اپنے شوہر کو بھی دیا اور اُس نے کھایا۔ تب دونوں کی آنکھیں کھل گئیں اور اُن کو معلوم ہُوا کہ وہ ننگے ہیں اور اُنہوں نے انجیر کے پتوں کو سی کر اپنے لئے لُنگیاں بنائِیں۔ اور اُنہوں نے خداوند خدا کی آواز جو ٹھنڈے وقت باغ میں پِھرتا تھا سُنی اور آدم اور اُس کی بیوی نے آپ کو خداوند خدا کے حضوُر سے باغ کے درختوں میں چھپایا۔‘‘ (پیدایش ۳:۱-۸)
آپ نے دیکھا کہ شیطان نے کِس طرح باغِ عدن کے پاک و مُقدس ماحول کو غیبت و نِفاق ڈال کر اپنی طرح گناہ آلودہ بنا دیا۔ شیطان آج بھی اپنے اِس شیطانی کام میں مصرُوف ہے، اور چاہتا ہے کہ ہم اِنسان غیبت و عیب جُوئی کے گناہ میں گر کر خدا سے دُور ہوتے رہیں۔
تو اَب سوال یہ ہے کہ کیسے ہم شیطان کے حربوں کو ناکام بنائیں۔ یہ وہ مشکل ترین کام ہے جو ہم خود سے کر ہی نہیں سکتے کیونکہ شیطان ہمارے اندر کسی بھی طرح کا رُوپ دھار کر ہمیں گمراہ و برگشتہ کر سکتا ہے۔ خداوند خدا ہماری اِس کمزوری سے خوب واقف تھا کہ ہم اِبلیس کے زہریلے تِیروں سے بچ نہیں سکتے کیونکہ یہ ایک رُوحانی جنگ ہے، اور رُوحانی جنگ جیتنے کے لئے ہمیں اپنا جسمانی لباس اُتار کر رُوحانی لباس پہننا ہے تاکہ رُوح میں سچائی کی کمر کَس کر شریر کا مقابلہ کریں۔ ’’پس سچائی سے اپنی کمر کَس کر اور راستبازی کا بکتر لگا کر، اور پائوں میں صُلح کی خوشخبری کی تیاری کے جُوتے پہن کر، اور اُن سب کے ساتھ اِیمان کی سِپر لگا کر قائم رہو جس سے تم اُس شریر (یعنی شیطان) کے سب جلتے ہوئے تِیروں کو بُجھا سکو، اور نجات کا خُود اور رُوح کی تلوار جو خدا کا کلام ہے لے لو، اور ہر وقت اور ہر طرح سے رُوح میں دُعا اور مِنت کرتے رہو…‘‘ (اِفسیوں ۶:۱۴-۱۸)
خداوند خدا کا یہ فرمان ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے کہ ہم غیبت و عیب جُوئی بلکہ کسی بھی قِسم کے شیطانی گناہ سے اُس وقت تک چُھٹکارا نہیں پا سکتے جب تک سچائی، راستبازی، صُلح کی خوشخبری، اِیمان کی سِپر، نجات کا خُود اور رُوح کی تلوار سے لیس نہیں ہوتے، اور یہ بھی ضروری ہے کہ ہم خداوند خدا سے رُوح میں دُعا اور مِنت بھی کرتے رہیں۔
اَب شائد آپ سوال کریں کہ ہاں مَیں رُوح کے اِن تمام ہتھیاروں سے لیس ہونا چاہتا ہوں مگر شیطان کا مقابلہ کرنے کے لئے یہ سب ہتھیار کہاں سے اور کیسے حاصل کروں؟ تو بہنو اور بھائیو! خدا نے یہ کام بھی اپنی محبت اور عدل و اِنصاف سے مجبور ہو کر ہمارے لئے خود ہی کر دیا ہے۔ خدا آپ اپنے بیٹے یسوع مسیح میں مجسم ہو کر دُنیا میں آیا تاکہ شریر کے جلتے ہوئے تِیروں کو بُجھا سکیں۔ خداوند مسیح یسوع جب صلیب پر ہمارے گناہوں کے عوض قربان ہوئے، دفن ہوئے اور تیسرے دِن مُردوں میں سے جی اُٹھے تو یہ شیطان کی بدترین شکست تھی۔ شیطان کبھی نہیں چاہتا تھا کہ مسیح خداوند صلیب پر اپنی جان کا کفارہ دیں اور کُل دُنیا کے اِنسانوں کے لئے نجات کا سبب بنیں مگر یہ سب خدا کے منصُوبے کے عین مطابق تھا۔ لہذا لازم ہے کہ ہم خداوند یسوع مسیح کے پاس آئیں، اپنے گناہوں کا اِقرار کریں اور مسیح کے نام میں بپتسمہ لیں تو یقیناً وہ ہمیں معاف کر کے خدا کا پاک رُوح یعنی مددگار اِنعام میں دے گا جس سے ہم دُنیا میں تاریکی کے فرزندوں پر غالب آ سکتے ہیں۔
آئو شکر ادا کریں کہ ہمارا خداوند ہمیں اِبلیس کے زہریلے تِیروں سے محفوظ رکھتا ہے۔ ’’مگر خداوند سچا ہے۔ وہ تم کو مضبوط کرے گا اور اُس شریر (یعنی اِبلیس) سے محفوظ رکھے گا۔‘‘ (۲-تِھسلُنیکیوں ۳:۳) ایک اَور مقام پر پاک زندہ اِلہامی کلام میں لکھا ہے، ’’پس خدا کے تابع ہو جائو اور اِبلیس کا مقابلہ کرو تو وہ تم سے بھاگ جائے گا۔‘‘ (یعقوب ۴:۷) آئو خداوند خدا کے تابع ہو جائیں تاکہ وہ ہمیں غیبت و عیب جُوئی کے گناہ سے ہی نہیں بلکہ ہر طرح کے شیطانی گناہ سے محفوظ رکھے کیونکہ ایسے بھی گناہ ہیں جو خدا کے خلاف گستاخی و کفر ہیں، اور یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ خدا گستاخی و کفر پسند نہیں کرتا۔
جی ہاں، خدا گستاخی و کفر پسند نہیں کرتا، اور خدا کی یہی وہ خصوُصیت ہے جس کا ہم اپنے اگلے پروگرام میں ذِکر کریں گے سُننا مت بُھولئیے گا۔