Skip to content

اِیمان کا اِمتحان

Posted in قدرتی آفات

ہم کسی بھی چیز کی قابلیت و اصلیت کو کیسے پرکھیں گے؟ ظاہر ہے جانچ پرکھ کے ہی اُس کے اصلی و نقلی ہونے کا اندازہ لگا سکتے ہیں، مثال کے طور پر اگر آپ کاغذ کی اصلیت اور معیاری ہونے کو پرکھنا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ ہم اُس کا رنگ، بناوٹ و ساخت، لمبائی چوڑائی و مضبوطی کو دیکھیں، اگر آپ کار خریدنا چاہتے ہیں تو ظاہر ہے آپ دیکھیں گے کہ ایک لِیٹر پٹرول میں کِتنے کِلومِیڑ چلتی ہے، اِس میں کِتنے لوگ سوار ہو سکتے ہیں یا کِتنا سامان اُس میں آ سکتا ہے، یا وہ چلنے میں کِتنی آرام دہ ہے، یا کیا وہ بغیر کسی رکاوٹ کے اُونچائی پر چڑھ سکتی ہے۔
اِسی طرح ہم لوگوں کا تجزیہ و پرکھ بھی کرتے ہیں، مثال کے طور پر اسکول میں اِمتحان سے اندازہ لگایا جاتا ہے کہ طالبِ علموں نے کِتنا سیکھا ہے، بلکہ علمی اِمتحان سے زیادہ اہم و ضروری کردار و سیرت کا اِمتحان ہے، عام طور پر کسی کے کردار کا حقیقی پہلو اُس وقت پتہ چلتا ہے جب وہ ذہنی دبائو یا بوجھ کا شکار ہوتا ہے، نوکری کے اُمیدواروں کو پرکھنے اور پہچاننے کے لئے ملازمت دینے والا اُن کو ایک مشکل صورتِ حال سے گزارے گا تاکہ دیکھے کہ کون ذہنی بوجھ کے باوجود صحیح طور پر کام کرتا ہے۔
بعض اوقت خدا بھی ہمارے ساتھ ایسا ہی کرتا ہے، حقیقی کردار و سیرت کو سامنے لانے کے لئے ممکن ہے ہمیں ذہنی دبائو کا شکار کر کے مشکل حالات میں پھنسا دے۔ جب ہمارے حالات بہتر ہوں تو اِیمان پر قائم رہنا اور سب کچھ دُرست کرنا آسان ہوتا ہے، جب ہم اپنے کام سے مطمئن ہوں، جب ہم صحت مند ہوں، اور ہمارے پاس وہ سب کچھ ہو جس کی ہمیں ضرورت ہے تو سب کچھ آسان لگتا ہے، جب لوگ ہماری طبیعت و مزاج کے مطابق ہوں، اور ہم اپنی زندگی سے خوش بھی ہوں تو اُن کے ساتھ مِلنا جُلنا اچھا اور خوشگوار لگتا ہے، مگر جب ہم صدمہ و غم سے نڈھال ہوں، نوکری چلی جائے، بیماری نے مایوس کر دیا ہو، ضروریاتِ زندگی کی چیزوں کی شدت سے کمی ہو، اِرد گِرد رہنے والے لوگوں سے حالات و تعلقات کشیدہ ہوں تو ایسے میں ہمارے حقیقی کردار و سیرت کا پتہ چلتا ہے۔ کیا جب ہم صدمہ اور غم سے بُری طرح تڑپ رہے ہوں تو ہمارا اِیمان پہلے جیسا مضبوط و قائم دائم رہے گا؟ ہمارا رویہ و سلوک دوسروں کے ساتھ کیسا ہو گا جب ہم اُن سے کسی بات پر مُتفِق نہ ہوں یا کسی تکلیف و مصیبت سے گزر رہے ہوں؟
یہ ایک وجہ ہے کہ خدا قدرتی آفات یعنی سیلاب یا زلزلے آنے دیتا ہے، وہ قدرتی آفتوں کو ہمارے کردار کا اِمتحان لینے کے لئے اِستعمال کرتا ہے، وہ دیکھنا چاہتا ہے کہ ہم جو اِیمان کے بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں، مصیبتوں اور طوفانوں میں ہمارے اِیمان میں کِتنی پختگی اور مضبوطی ہو گی۔
یہ بالکل سچ ہے، نہ صرف اِنفرادی سطح پر بلکہ ساری قوم کے لئے بھی۔ جب خدا نے بنی اِسرائیل کو حضرت موسیٰ کی راہنمائی میں مِصر کی غلامی سے رہائی دی تو اُس نے اُن کو تپتے ہوئے صحرا، ویران و بیابان میں بھیج دیا جہاں اُن کے پاس نہ کچھ کھانے کو تھا اور نہ پینے کو، سوال یہ ہے کہ خدا نے اُن کو مِصر کی غلامی سے نکال کر بیابان میں بھوک پیاس کی اِذیت و تکلیف میں کیوں ڈالا؟ بائبل مقدس میں لکھا ہے، ’’اُس بیابان میں بنی اسرائیل کی ساری جماعت موسیٰ اور ہارون پر بُڑبڑانے لگی، اور بنی اسرئیل کہنے لگے کاش کہ خداوند کے ہاتھ سے مُلکِ مِصر میں جب ہی مار دیئے جاتے جب ہم گوشت کی ہانڈیوں کے پاس بیٹھ کر دِل بھر کر روٹی کھاتے تھے کیونکہ تم تو ہم کو اِس بیابان میں اِسی لئے لے آئے ہو کہ سارے مجمع کو بھوکا مارُو، تب خداوند نے موسیٰ سے کہا مَیں آسمان سے تم لوگوں کے لئے روٹیاں برسائوں گا، سو یہ لوگ نکل نکل کر فقط ایک ایک دِن کا حصہ ہر روز بٹور لیا کریں کہ اِس سے مَیں اُن کی آزمائش کروں گا کہ وہ میری شریعت پر چلیں گے یا نہیں۔‘‘ (خروج ۱۶:۲-۴)
خدا نے ایسا کیوں کِیا؟ اُس کو کیا ضرورت تھی کسی کا بلکہ ساری قوم کا اِمتحان لے؟ وہ خدا ہے! وہ پہلے سے جانتا ہے کہ کون سا شخص یا قوم کیا ہے، کوئی شک و شبہ نہیں کہ خدا سب کچھ جانتا ہے، ہم نہیں، خدا کی طرف سے پرکھ و اِمتحان ہمارے ہی فائدے کے لئے ہوتا ہے تاکہ ہم اپنی صحیح روحانی حالت کا اندازہ لگا سکیں۔
اِس سے دوسری وجہ ہمارے سامنے آ جاتی ہے جس کی بِنا پر خدا ہمیں قدرتی آفات اور مصیبتوں سے گزارتا ہے، ہماری پرکھ و اِمتحان سے نہ صرف ہمیں اپنی پہچان اور حقیقی حالت کا پتہ لگانے میں مدد ملتی ہے بلکہ اِس سے ہمارے اندر پختگی اور مضبوطی بھی پیدا ہوتی ہے، بالکل جس طرح سونے یا چاندی کو آگ کی بھٹی میں سے گزار کر ناخالص اجزا سے پاک کر کے خالص بنایا جاتا ہے، خدا ہمیں تکلیفوں اور مصیبتوں کی آگ سے گزار کر ہمارے اِیمان میں شامل سارے ناخالص اجزا سے پاک کرتا ہے، دُکھوں، تکلیفوں سے گزر کر ہی ہماری گمراہ کن سوچ کا پتہ چلتا ہے کہ ہماری سمجھ بوجھ اور اُمید کی صحیح سمت و منزل کیا ہے، اِس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ زندگی میں اہم و ضروری کیا ہے، مصیبتوں اور تکلیفوں کے بارے میں پطرس رسول لکھتا ہے، ’’یہ اِس لئے ہے کہ تمہارا آزمایا ہُوا اِیمان جو آگ سے آزمائے ہوئے فانی سونے سے بھی بہت ہی بیش قیمت ہے یسوع مسیح کے ظہور کے وقت تعریف اور جلال اور عزت کا باعث ٹھہرے۔‘‘ (۱-پطرس ۱:۷)
ہر کوئی اپنی تعریف، اپنا جلال، عزت و رتبہ چاہتا ہے، لیکن یہ سب حاصل کرنے کے لئے پطرس رسول کہتا ہے ہمارا اِیمان ہر طرح کی مِلاوٹ سے پاک اور خالص ہونا چاہیے، اور اِس کا صرف ایک ہی طریقہ ہے یعنی دُکھوں، تکلیفوں اور مصیبتوں کی آگ سے گزرنا، حقیقت یہ ہے کہ مصیبت و تکلیف کسی پر بھی آ سکتی ہے، اور خدا ہماری زندگیوں میں دُکھوں کو اِس لئے آنے دیتا ہے کہ ہمارے اِیمان کو پختہ اور مضبوط کرے، یہ کِتنے افسوس کی بات ہے کہ ہم دُکھ تکلیف تو سہتے رہیں مگر اُس کا کوئی مُثبت نتیجہ نہ نکلے۔
مصیبت و تکلیف سے نہ صرف ہمارے اندر کی خامیوں کا پتہ چلتا ہے بلکہ اِس سے ہمیں پختہ و مضبوط بننے اور ہمارے کردار و سیرت کی تعمیر میں مدد بھی ملتی ہے، خدا کا نیک بندہ یعقوب لکھتا ہے، ’’اِس کو یہ جان کر کمال خوشی کی بات سمجھنا کہ تمہارے اِیمان کی آزمایش صبر پیدا کرتی ہے، اور صبر کو اپنا پورا کام کرنے دو تاکہ تم پورے اور کامِل ہو جائو اور تم میں کسی بات کی کمی نہ رہے۔‘‘ (یعقوب ۱:۳-۴)
پولس رسول، یعقوب سے بالکل مُتفِق ہے اور کہتا ہے، ’’پس جب ہم اِیمان سے راستباز ٹھہرے تو خدا کے ساتھ اپنے خداوند یسوع مسیح کے وسیلہ سے صلح رکھیں، جس کے وسیلہ سے اِیمان کے سبب سے اُس فضل تک ہماری رسائی بھی ہوئی جس پر قائم ہیں اور خدا کے جلال کی اُمید پر فخر کریں، اور صرف یہی نہیں بلکہ مصیبتوں میں بھی فخر کریں، یہ جان کر کہ مُصیبت سے صبر پیدا ہوتا ہے، اور صبر سے پختگی اور پختگی سے اُمید پیدا ہوتی ہے، اور اُمید سے شرمندگی حاصل نہیں ہوتی کیونکہ رُوح اُلقدس جو ہم کو بخشا گیا ہے اُس کے وسیلہ سے خدا کی محبت ہمارے دِلوں میں ڈالی گئی ہے۔‘‘ (رومیوں ۵:۱-۵)
لہذا آپ نے دیکھا کہ مصیبتں، تکلیفیں، رنج و غم اِس بات کا اِشارہ نہیں کہ خدا کو ہم سے محبت نہیں، اِس کے برعکس خدا قدرتی آفات کے سبب پیدا ہونے والے دُکھوں، تکلیفوں اور مشکلوں سے ہمارے کردار و سیرت کی تعمیر نَو کرتا ہے تاکہ ہم خالص و پاک ہو کر اُس کے قریب ہو جائیں، مصیبتوں، غموں اور صدموں سے ہمارے اندر صبر پیدا ہوتا ہے، اور صبر ہمارے کردار میں پختگی و مضبوطی کو جنم دیتا ہے جس سے ہمارے اندر اُمید کی کرن جاگ اُٹھتی ہے۔
یہ بات قابلِ غور ہے کہ مسیح یسوع کو جو گناہ سے بالکل پاک تھا، دُکھوں اور تکلیفوں کی آگ سے گرزنا پڑا، مصیبتیں، تکلیفیں اور مشکلات تعمیر و کاملیت کے وہ ہتھیار ہیں جن کی مدد سے خدا نے مسیح کو بنی نوع اِنسان کی نجات کے لئے تیار کِیا، بائبل مقدس میں لکھا ہے، ’’اُس نے اپنی بشریت کے دِنوں میں زور زور سے پُکار کر اور آنسو بہا بہا کر اُسی سے دُعائیں اور اِلتجائیں کِیں جو اُس کو موت سے بچا سکتا تھا اور خدا ترسی کے سبب سے اُس کی سُنی گئی، اور باوجود بیٹا ہونے کے اُس نے دُکھ اُٹھا اُٹھا کر فرمانبرداری سیکھی، اور کامِل بن کر اپنے سب فرمانبرداروں کے لئے ابدی نجات کا باعث ہُوا۔‘‘ (عبرانیوں ۵:۷-۹)
اگر بے گناہ و پاک مسیح یسوع جس نے ہمیں گناہوں سے بچانے کے لئے اپنی جان قربان کر دی، اور جس نے کاملیت تک پہنچنے کے لئے ہماری طرح ہر دُکھ، تکلیف اور مصیبت کو برداشت کِیا، تو سوچیئے کہ ہم کون ہیں جو دُکھ تکلیف سہے بغیر پاکیزگی و کاملیت تک پہنچ جائیں؟ جب قدرتی آفات آتی ہیں، جب دُکھ تکلیف کا حملہ ہوتا ہے، جب ہم مشکلوں اور مصیبتوں سے گزرتے ہیں تو ہمیں خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اُس نے ہمیں جانچنے اور پرکھنے کا بیش قیمت موقع دیا کہ ہم اپنا جائزہ لے سکیں، اور اپنے اِیمان کو پختہ و مضبوط کر کے اپنے اندر اُمید کی شمع جلا سکیں۔
ہمارے لئے یہ بھی اِطمینان اور تسلی کی بات ہے کہ ہمارا خداوند یسوع مسیح ہماری طرح دکھ تکلیف اور مصیبتوں سے گزر کر کاملیت تک پہنچا، اِس لئے وہ اِس قابل ہُوا کہ ہمارے دکھ، غم، تکلیف و مصیبت میں ہماری مدد و راہنمائی کرے، کیونکہ وہ خود دُکھوں کی آگ سے گزرا اِس لئے وہ ہمارے درد اور ہماری تکلیف کو محسوس کر کے ہمیں تسلی، آرام، صبر، سکون، اُمید اور فتح دے سکتا ہے۔
جب ہمیں احساس ہوتا ہے کہ خدا ہماری بہتری چاہتا ہے، تو پھر خواہ ہم پر دکھوں اور تکلیفوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑے ہم ہمت نہیں ہاریں گے بلکہ ہماری سوچ کا انداز ہی بدل جائے گا، پھر قدرتی آفات میں پھنس کر ہمیں کوئی ڈر خوف محسوس نہیں ہو گا، پھر ہم دہشت اور نااُمیدی کی زندگی نہیں گزاریں گے، بلکہ ہم بے چینی سے اِنتظار کریں گے کہ خدا ہمارے اِیمان کا اِمتحان لے تاکہ ہمارے اندر سے مِلاوٹ و آمیزش کے سارے جراثیم نکال کر ہمیں کاملیت اور پختگی سے آراستہ کر دے۔