Skip to content

کارکُن مکھی

Posted in وجُودِ اِلٰہی

ہم اپنے پچھلے پروگراموں میں بھی شہد کی مکھیوں کے بارے میں کچھ عجیب و غریب اور انوکھی باتیں بتا چُکے ہیں۔ آئیے! اِس پروگرام میں مزید گہرائی کے ساتھ شہد کی کارکن مکھیوں کے شب و روز کا مشاہدہ کریں کہ وہ کِس لگن اور جانفشانی سے اپنے فرائض ادا کرتی ہیں۔

کارکن شہد کی مکھیوں کی حیثیت چھتے میں اُس خدمتگار کی طرح ہوتی ہے جو اپنے آپ کو کمال وفاداری سے کسی خدمت کیلئے وقف کر دیتا ہے، کارکن مکھی کی زندگی مختصر ہوتی ہے۔ جب یہ اپنے سال بھر کا بیشتر کام کرتی ہے تو اُس عرصہ کے دوران وہ صرف چار یا پانچ ہفتے زندہ رہتی ہے۔ اِس کے باوجود اُس کی زندگی کی معیاد بہت کم ہوتی ہے پھر بھی وہ پوری جانفشانی سے اپنے آپ کو چھتے کی خدمت کے لئے مخصوص کِئے رکھتی ہے، یہاں تک کہ اگر ضرورت پڑے تو شہد کے چھتے کو اِنسان اور حیوان سے بچانے کی کوشش میں خود موت کے منہ میں چلی جاتی ہے۔

کارکن شہد کی مکھی اگر اپنا تیِر نما ڈنک کسی کے بدن میں پیوست کر دے تو اُسے کھینچ کر باہر نہیں نکال سکتی۔ اُس کا ڈنک تِیر کی مانند نوکِیلا اور خاردار ہوتا ہے۔ جب مکھی اپنے شکار میں سے ڈنک نکالنے کی کوشِش کرتی ہے تو وہ اپنے زہر سے بھرے ہوئے غدُود سمیت علیحدہ ہو کر ڈنگ لگنے والی جگہ میں پھنس جاتا ہے، اور زہر سے بھرا ہوا غدُود ڈنک کی اندرونی باریک نالی کے ذریعہ مُسلسل زہر خارج کرتا رہتا ہے۔ اِس عمل سے کارکن مکھی اپنے آپ کو زخمی کر لیتی ہے اور جلد ہی موت کی نیند سُو جاتی ہے۔ چھتے کی حفاظت کی خاطر جانثاری کا یہ جذبہ اور ڈنک کی صُورت میں فطری زہریلا ہتھیار دونوں اپس کے مقصدِ زندگی کے حُصول کے لئے مِثالی حیثیت رکھتے ہیں۔ کارکن شہد کی مکھی اپنے خول سے نکلتے ہی کام میں مصرُوف ہو جاتی ہے۔ اُس کا ہر کام اُس کی اہلیت کے مطابق ہوتا ہے، اور یہی اہلیت جس کی مدد سے یہ سب کچھ کرتی ہے چھتے کی ضرورت کے عین مطابق ہوتی ہے۔

کارکن شہد کی مکھی کا پہلا فرض یہ ہے کہ وہ اگلی نسل کی پیدائش کے لئے سارے خول خوب اچھی طرح صاف کرے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ صفائی کے کام کی ابتدا اُسی خول سے کرے جس سے وہ خود پیدا ہوئی۔ وہ چھتے کے سارے خول گرم رکھنے کے ساتھ ساتھ چھتے کی اندرونی حالت بھی جاننے کی کوشِش کرتی ہے۔ لیکن کچھ ہی دِن بعدخوراک مُہیا کرنے والے غدُود اُس کے سَر کے اندر مکمل ہو کر اپنا کام شروع کر دیتے ہیں جس کے سبب سے وہ پیدا ہونے والے لاروے کو اپنی خوراک کِھلاتی ہے۔ کارکن مکھی پیدا ہونے والے تین لاروے پرورش کرنے کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ وہ اُن کو چھ دِن کے عرصہ کے دوران یعنی جب تک وہ لاروے کی حالت میں رہتے ہیں، دو سے تین ہزار بار خوراک کِھلاتی ہے۔ اِس مدت میں لاروے وزن میں پانچ سَو گُنا بڑھ جاتے ہیں۔ لاروے کی زندگی کے پہلے دو دِن تک اکثریت کو روغن اور پروٹین پر مُشتمل غذا کِھلائی جاتی ہے جو شاہی جیلی کہلاتی ہے۔ یہ شاہی جیلی کارکن مکھی کے غدُود سے پیدا ہوتی ہے۔ دو دِن کے بعد لاروے کو شہد اور زیرہ کِھلایا جاتا ہے، لیکن خاص خوراک کے سبب سے مکھیاں جِنسی اعتبار سے بالکل ہی تبدیل ہو جاتی ہیں تاکہ انڈے دے سکیں۔ جبکہ وہ مکھیاں جن کو لگاتار شاہی جیلی نہیں ملتی انڈے نہیں دے سکتیں۔ تقریباً دَس دِن کے بعد پرورش کرنے والی کارکن مکھیوں کی شکل بدل جاتی ہے اور اُن کو خوراک مُہیا کرنے والے غدُود کمزور ہو کر سُکڑ جاتے ہیں اور مُوم بنانے والے غدُود اُن کے پیٹ پر مُوم پیدا کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اَب اُن کے ذمہ امُورِ خانہ داری کا کام ہوتا ہے جس میں مُوم سے چھتے کے خانے بنانا، مرمت کرنا، باہر سے آنے والی مکھیوں سے شہد اور پھولوں کے زیرے کا بوجھ اُتارنا اور خوراک کو چھتے کے خاص خانوں میں محفوظ کرنا شامل ہیں۔ اِس کے علاوہ دیگر کاموں میں اُس کی ہم عمر مکھیاں بھی تعاوں کرتی ہیں مثلاً گندگی اور مَری ہوئی مکھیوں کو چھتے سے باہر پھینکنا۔ اِن تمام کاموں کا سر انجام دینے میں تقریباً دَس دِن لگ جاتے ہیں، اور آخر میں کچھ کارکن مکھیاں چھتے کی محافظ بن جاتی ہیں اور چھتے کے اندر داخل ہونے والی ہر مکھی کا بغور معائنہ کرتی ہیں کہ اِس کا تعلق اِسی چھتے سے ہے یا نہیں۔ وہ ہر اُس بِھڑ یا شہد چوری کرنے والے پر چھتے کو بچانے کی خاطر حملہ کر دیتی ہیں۔ اگر کوئی خطرناک جانور بھی چھتے کو نقصان پہنچائے تو وہ حملہ کرنے سے قطعی گریز نہیں کرتیں۔

امُورِ خانہ داری کی تمام ذمہ داریاں نبھانے کے بعد کارکن مکھی کا عہدہ بڑھ جاتا ہے یعنی اَب اُس کی ذمہ داری چھتے کے لئے خورک جمع کرنا ہے۔ خزاں کے موسم میں پیدا ہونے والی شہد کی مکھیاں جو مُعتدل آب و ہوا کے علاقوں میں رہتی ہیں اکثر موسمِ سرما کے آخر تک زندہ رہتی ہیں۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ اُن کی زندگی چند مہینے کی ہے۔ سردی کے موسم میں چھتے میں کام کاج گرمیوں کی نسبت کم ہوتا ہے، جس کی وجہ سے مکھیاں سخت محنت مُشققت سے اِتنی جلدی نہیں مرتیں۔ کارکن مکھیاں یکے بعد دِیگرے جو خدمات انجام دیتی ہیں وہ اُن جسمانی تبدیلیوں پر مبنی ہیں جو رفتہ رفتہ اُن کے جسم میں ظہور پذیر ہوتی ہیں۔ دراصل چھتے میں زندگی رکھنے والا ہر کوئی خوب سے خوب تر کی تلاش میں گامزن رہتا ہے تاکہ سب کو مُشترکہ فائدہ حاصل ہو۔

یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ جو کچھ چھتے کی فلاح و بہبود کے لئے ہوتا ہے وہ ساری کائنات کی بہتری کا سبب بنتا ہے۔ خوراک جمع کرنے والی مکھیاں پھولوں کا زیرہ ایک پھول سے دوسرے پھول میں مُنتقل کرنے میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

بعض اوقات مکھیوں کا تنہا وُجود بے معنی سا لگتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اُن کے وُجود کا وسیع تر اِنحصار باہمی اِتحاد یعنی چھتے پر مُنحصر ہے۔ یہ چھتا گرد و نواح کی نباتات کے ساتھ وسیع رابطہ قائم رکھتا ہے اور اگر ہم اِس رابطے کے بارے میں مزید جاننے کی کوشِش کریں تو معلوم ہو گا کہ شہد کی مکھیاں پھولوں کا جو زیرہ ایک پھول سے دوسرے پھول میں مُنتقل کرتی ہیں، اُن کے اِس عمل پر دُنیا کی خوراک کا دار و مدار کافی حد تک ہے۔ اِسی لئے بنی نوع اِنسان کے لئے شہد کی مکھیاں شہد مُہیا کرنے سے بھی بڑھ کر اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

شہد کی مکھیوں کے ایسے عجیب و غریب اور انوکھے شب و روز کو دیکھتے ہوئے ہمیں کھلے دِل سے تسلیم کرنا پڑے گا کہ اُن کی تمام تر حکمتِ عملی کے پیچھے کا ایک علیٰ ترین مُحرک ضرور ہے جس کے تحت اِسقدر ہم آہنگی، ترتیب و مطابقت سے کائنات کا سارا نظام چل رہا ہے، تاکہ سب کے لئے ماحول ساز گار ہو۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کون ہے جو نظامِ کائنات کو اِتنی ترتیب و خوبصورتی سے چلا رہا ہے؟ یقینا وہ اعلیٰ و عُرفا ہستی خدائے قادرِ مطلق ہے۔ زبور کی کتاب کے مُصنف نے خدا کی الُوہیت اور قدرت کو پہچانتے اور تسلیم کرتے ہوئے کیا خوب کہا ہے، ’’جوان شیر اپنے شکار کی تلاش میں گرجتے ہیں اور خدا سے اپنی خوراک مانگتے ہیں۔‘‘ (زبور ۱۰۴:۲۱)

ہاں! زور آور شیر اپنی بے پناہ طاقت کے باوجود خدا کے بنائے ہوئے منصوبے اور اُس کی مقرر کردہ حدُود کے اندر رہتے ہیں۔ اِسی طرح بنی نوع اِنسان بھی خدا کے منصوبے کا ایک حِصہ ہے۔ بائبل مقدس کے مطابق ساری کائنات بنی نوع اِنسان کی خاطر وجود میں آئی۔ درحقیقت خدا نے ہمیں اِس لئے خلق کِیا کہ اُس کے ساتھ رفاقت اور میل ملاپ رکھیں۔ اِسی میں خدا کی خوشنودی ہے کہ ہم اُسے جانیں اور پہچانیں، اور جب ہم ایسا کرتے ہیں تو اُس کے اعلیٰ مقصد کے تحت زندگی گزارتے ہیں، جس طرح خود غرضی سے پاک شہد کی مکھیاں گزارتی ہیں۔