Skip to content

بادَل

Posted in وجُودِ اِلٰہی

ذرا تصور کیجئے! ہماری دُنیا بادلوں کے بغیر کیسے لگتی؟ ہاں واقعی ہم ایک بہت ہی خوبصورت چیز سے محروم ہو گئے ہوتے۔ بِلاشبہ بادل آسمان کی دِلکشی اور خوشنمائی میں مزید اِضافہ کرتے ہیں۔ اَب کون چڑھتے اور ڈوبتے سورج کے اُس حسین منظر کو بھول سکتا ہے جب خلا میں اُڑتے بادل یوں دِکھائی دیتے ہیں کہ جیسے کسی نے ہر طرف رنگ برنگے کپڑے کی خوبصورت چادر تان دی ہو؟
لیکن یہ تو ایک نہایت معمولی سی خدمت ہے جو بادل بنی نوع اِنسان کے لئے انجام دیتے ہیں، کیونکہ اِسے کہیں زیادہ اہم کام یہ ہے کہ بادل بارش لاتے ہیں جو ہر قِسم کی زندگی کو تر و تازہ رکھنے کے لئے اِنتہائی ضروری اور لازمی وسیلہ ہے۔ ممکن ہے کہ بادلوں کے بغیر زمین پر پانی کی اِتنی ہی بُہتات ہوتی جِتنی آج ہے، لیکن یہ سارا پانی سمندروں میں ہی ہوتا۔ اِ س حالت میں براعظم تپتے ہوئے صحرا بن جاتے، جن پر کسی قِسم کی زندگی کا وجود باقی نہ رہتا۔ بادل اپنے اندر نمی مُنتقل کرنے کی اہم خصوصیت بھی رکھتے ہیں جو خشک اور سخت زمین کو شادابی اور ترو تازگی پہنچا کر زندگی کا لباس پہناتی ہے۔ لیکن یہ نہ سمجھ لیجئے کہ بادلوں کی اہمیت اور قدر و قیمت کی فہرست بس ختم ہو گئی بلکہ وہ ہماری زمین کے اِرد گرد کمبل سا تان کر اُس کی حفاظت کا کام بھی انجام دیتے ہیں۔
ذرا اندازہ لگائیے کہ سورج ہماری دُنیا کی سطح کے فی مربع میل رقبہ پر روزانہ گھنٹوں ساڑھے تین کروڑ کِلو واٹ شعاعی قوت سے حملہ کر تاہے لیکن بادل اُس کی کچھ شعاعی قوت اپنے اندر جذب کر کے ہمیں شعاعوں کے اِنتہائی تیز اور گرم اثرات سے محفوظ رکھتے ہیں۔ وہ بھی سورج کی کچھ شعاعوں کو واپس خلا میں پھینکتے ہیں، جس کے سبب سے سورج کی آدھی سے بھی کم شعاعی قوت زمین کی سطح تک پہنچتی ہے۔ سورج کی کافی سے زیادہ قوت جو زمین تک پہنچتی ہے سمندروں میں جمع ہوتی رہتی ہے۔ سمندر کرۂ زمین کی پچاسی فیصد سے بھی زیادہ سطح کو اپنے گھیرے میں لے لیتے ہیں۔ یہ جمع شدہ قوت سمندر کے پانی سے اُٹھتی ہوئی بھاپ یعنی بُخارات میں تبدیل ہو کر بادل بنانے میں مدد دیتی ہے۔ اِس عمل کے ذریعہ فی گھنٹے کے حساب سے سمندر کے ہر مربع میل پر پانچ ہزار ٹن سے بھی زیادہ پانی کو بُخارات میں تبدیل کِیا جا سکتا ہے۔ ہاں، واقعی یہ بہت زیادہ پانی ہے لیکن ہمیں بادلوں کے اِس سلسلے کو برقرار رکھنے کے کیلئے ایندھن بھی کافی مقدار میں چاہیے۔
سمندر کے پانی سے اُٹھتے ہوئے بخارات جو نظر نہیں آتے فی الحال بادلوں میں تبدیل نہیں ہوئے، نظر آنے اور بادل بننے کے لئے ضروری ہے کہ یہ بخارات پانی کے چھوٹے چھوٹے قطروں کی شکل میں اکٹھے ہوں۔ ہاں یہ بھی ذہن میں رکھیئے کہ ایک چھوٹے سے قطرے کو بارش کے ایک پورے سائز کے قطرے میں تبدیل ہونے کے لئے ایسے اَسی لاکھ قطروں کی ضرورت ہو گی۔ حتیٰ کہ یہ چھوٹے چھوٹے قطرے بھی نہیں بن سکتے جب تک مٹی کے باریک یا کئی دوسرے سخت ذرات پانی میں شامل نہ ہوں کہ اُسے مُنجمند کر سکیں۔ لیکن مٹی کے اُڑتے ہوئے طوفان اور جنگلات میں لگی ہوئی آگ اور کارخانوں سے اُٹھتی ہوئی آلودگی کے سبب سے اِن ذرات کی کچھ کمی ہی نہیں۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سگریٹ کا صرف ایک کش ہَوا میں تقریباً چار سَو کروڑ ذرات چھوڑتا ہے۔ یہ لاتعداد چھوٹے چھوٹے قطرے آسانی سے ہَوا میں اُس وقت تک ہزاروں میل سفر کر سکتے ہیں جب تک اُنہیں موقع نہ ملے کہ آپس میں باہم مِل کر ایک بڑے قطرے میں تبدیل ہو جائیں جو بارش کی صورت میں زمین پر گِرے۔ ایسا اُس وقت ممکن ہوتا ہے جب بادل پوری طرح پانی سے تربتر ہو جاتے ہیں۔ اِس حالت میں پانی کا کُل وزن اُس سے کہیں زیادہ ہو جاتا ہے جِتنا کہ ہَوا سنبھال سکتی ہے۔ سَرد ہَوا میں گرم ہَوا کے مقابلے میں زیادہ نمی نہیں ٹھہر سکتی لہذا جب سردیوں کا موسم گرمیوں کے موسم کی جگہ لیتا ہے تو پانی کے اِس بوجھ کا کچھ حِصہ تیزی سے زمین پر گرتا ہے۔ پانی کے بارش، برف یا ژالہ باری کی صورت میں گرنے کا سارا دارومَدار ہَوا کے درجۂ حرارت پر ہے۔ جب ہَوا میں ٹھہرائو ہو اور درجۂ حرارت بھی نقطۂ اِنجماد سے نیچے ہو تو برف گرتی ہے اور ژالہ باری اُس وقت ہوتی ہے جب بارش شدت سے اُوپر اُٹھتی ہوئی ہَوا سے ملتی ہے جو قطروں کو نقطۂ اِنجماد تک لے جاتی ہے اِس سے پہلے کہ وہ انہیں پھر نیچے گرنے دے۔ جب اُولے نیچے گر رہے ہوتے ہیں تو وہ اَور زیادہ نمی پکڑتے ہیں لیکن وہ اُوپر اُٹھی ہوئی ہَواوٗں میں پھنس کر پھر سے مُنجمند ہو سکتے ہیں۔ ایسا بار بار ہو سکتا ہے، مگر ہر مرتبہ اُولے سائز میں بڑھتے جاتے ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ آخرکار جب وہ زمین تک پہنچ جائیں تو مالٹوں جِتنے ہو جائیں۔
بادل زمین پر زندگی کی شادابی کے لئے کوئی اہم کِردار ادا نہ سکتے اگر پانی عجیب اور اُنوکھی خُصوصیات سے مالامال نہ ہوتا۔ کسی مشاہدہ کرنے والے نے کیا خوب کہا ہے کہ، ’’پانی کا اپنے آپ کو عجیب طریقہ سے غائب کر دینا اور پھر دوبارہ پانی یا برف کی صورت میں نظر آنا اور اُس کا کافی سے زیادہ مقدار میں حرارت جذب کرنا اور چھوڑنا، ایسی خوبیاں ہیں جو ہمیں موسم عطا کرتی ہیں،۔‘‘ اِس کے لئے ہمیں خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ کیونکہ اگر ہم اِس بارے میں سوچیں تو معلوم ہو گا کہ خدائے بزرگ و برتر ہی ہے جس کا ہمیں احسان مند ہونا چاہیے۔ کیا کوئی اَور ہستی پانی کو اِسقدر انوکھی خوبیوں کے ساتھ پیدا کر سکتی ہے؟ ہرگز نہیں! یہ کیسا احمقانہ تصور ہے کہ پانی جیسا ضروری اور اہم جوہر بس یوں ہی پیدا ہو گیا یا یہ سوچنا کہ خشکی اور تری کے درمیان یہ توازن اِتفاقاً رُونما ہوا کہ حرارت کی مقدار مستقل طور پر بنی نوع اِنسان کی ضرورت کے مطابق رہے یا یہ تصور کرنا کہ پانی بھاپ کی شکل اِختیار کر کے ہَوا سے بھی ہلکا ہوتا ہے اور یوں وہ بادل بنانے کا وسیلہ ہے۔
ہم جب بھی آسمان پر اُڑتے ہوئے بادلوں کو دیکھتے ہیں تو بنی نوع اِنسان پر خدا کی بے شمار برکتوں میں سے ایک کو گواہ کی حیثیت سے دیکھ رہے ہیں۔ اور ہاں، ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنا ہے کہ خدا اِن برکات کو اچھوں اور بُروں دونوں پر نازل کرتا ہے۔ جیسا کہ بائبل مقدس میں یسوع مسیح نے فرمایا، ’’…وہ اپنے سورج کو نیکوں اور بدوں دونوں پر چمکاتا ہے اور راستبازوں اور ناراستوں دونوں پر مینہ برساتا ہے۔‘‘ (متی ۵:۴۵)
لیکن جب خدا اپنی قدرتی برکات بغیر کسی طرفداری کے بانٹتا ہے تو اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہمیں ہر صورت میں اُس کی ہمدردی اور پیار حاصل ہے اور ہماری ہر روِش سے وہ خوش ہے۔ بائبل مقدس میں لکھا ہے کہ ’’…تیرے لوگوں پر تیری برکت ہو۔‘‘ (زبور۳:۸) پھر ایک اَور جگہ فرمایا گیا ہے، ’’…تُو صادق کو برکت بخشے گا۔ اَے خداوند! تُو اُسے کرم سے سِپر کی طرح ڈھانک لے گا۔‘‘ (زبور ۵:۱۲) لیکن شریر آدمی کے لئے وہ کہتا ہے، ’’…مَیں نیکی کے لئے نہیں بلکہ بدی کے لئے اُن پر نگران ہوں گا…‘ ‘(یرمیاہ۴۴:۲۷)
یقینا یہ ایک اِنتہائی اعلیٰ اور پُراُمید بات ہے کہ ہمارا خالق و مالک خداوند اپنی مخلوق پر نظر رکھتا ہے۔ اِسی لئے زندہ خدا کے زندہ کلام مینں لکھا ہے کہ، ’’خداوند کے راز کو وہی جانتے ہیں جو اُس سے ڈرتے ہیں اور وہ اپنا عہد اُن کو بتائے گا۔‘‘ (زبور ۲۵:۱۴)
آئیے! کائنات کے ذرے ذرے سے جو وجودِ الٰہی کا زندہ ثبوت پیش کر رہے ہیں کچھ جاننے، سمجھنے اور سیکھنے کی کوشش کریں تاکہ دُنیا کے کونے کونے میں اُس کے جلال کا بیان ہو۔