Skip to content

ہلاکت خیز درخت

Posted in وجُودِ اِلٰہی

ہماری دُنیا میں صرف شیر، چیتا، ریچھ اور کئی دوسرے شکاری جانور ہی تباہ کاری اور ہلاکت خیزی کا مزاج نہیں رکھتے بلکہ کچھ پودے بھی ایسے ہیں جو دوسروں کو موت کے گھاٹ اُتار کے اپنی زندگی کا دم برقرار رکھتے ہیں۔ اِن پودوں میں سے سب سے مُنفرد انجیر کا وہ درخت ہے، جِسے جکڑنے والا درخت بھی کہتے ہیں اور جو گرم علاقوں کے جنگلات میں پایا جاتا ہے۔
انجیر کے اِس درخت کی غیر معمولی حیثیت اُس وقت بھی نمایاں ہوتی ہے جبکہ وہ ایک ننھا سا پودا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر وہ اپنی زندگی کا آغاز زمین پر ہرگز نہیں کرتا اور اگر ایسا ہو جائے کہ وہ زمین سے پھوٹ نکلے تو کبھی بھی ہلاکت خیز درخت میں تبدیل نہیں ہو سکتا۔ انجیر کے صرف وہی درخت جو ہَوا میں بلندی پر بڑھتے اور پھلتے پھولتے ہیں شکاری مزاج رکھتے ہیں۔
انجیر کے جکڑنے والے درخت کا پھل بندر اور پرندے وغیرہ بڑے شوق سے کھاتے ہیں اور اِنہی کے ذریعہ اِس کے بیج دُور دُور تک پھیل جاتے ہیں کیونکہ وہ انجیر کے بیج ہضم نہیں کر سکتے۔ بیج پر ایک لیس دار تہہ جمی ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ جہاں جہاں گرتے ہیں وہیں چپک جاتے ہیں۔ لیکن وہی جو کسی درخت کی گندگی سے بھرے ہوئے دو شاخے یا اُس مقام پر گرتے ہیں جہاں سے درخت کا تنا مختلف شاخوں میں تقسیم ہوتا ہے تو پھوٹ نکلتے ہیں کیونکہ سڑے ہوئے گندے کورا کرکٹ ہی میں اِسقدر جراثیم ہوتے ہیں جو انجیر کے بیج کے ٹھوس اور مضبوط خول پر حملہ کر کے اُسے توڑ پھوڑ سکتے ہیں۔ بیج کے پھوٹ نکلنے سے پہلے ضروری ہے کہ اُس کا خول ٹوٹ کر تباہ ہو جائے۔ یہ کوئی اِتفاقی حادثہ نہیں ہے کہ ایسا اُسی جگہ واقع ہوتا ہے جہاں ننھے پودے کو نشوونما پانے کے لئے کافی مقدار میں غذائیت بخش خوراک مِل سکتی ہے۔ جوں جوں انجیر کا جکڑنے والا ننھا پودا کسی درخت کے دو شاخے پر پڑی ہوئی ہوائی کھاد کے ڈھیر پر بڑھتا اور پھلتا پھولتا ہے، توں توں یہ اپنی جڑیں نیچے زمین کی طرف پھیلانا شروع کر دیتا ہے اور جب تک اُس کا زمین سے رابطہ قائم نہ ہو جائے اور جب تک وہ پانی اُوپر کھینچنے اور اپنی ہوائی جڑوں کو غذا پہنچانے کے قابل نہ ہو جائے تو تب اُس کی سورج کی روشنی حاصل کرنے کیلئے اُوپر کی طرف بڑھنے کی جستجو شروع ہو گی۔
یوں دِکھائی دیتا ہے کہ جکڑنے والے انجیر کے درخت کو نیچے کی طرف بڑھنے کے لئے کافی سے زیادہ توانائی صَرف کرنی پڑتی ہے اِس سے پہلے کہ وہ اُوپر کی طرف بڑھنا شروع کر سکے، لیکن انجیر کا درخت ہَوا میں بلندی پر اپنی زندگی شروع کرنے کی وجہ سے اپنے اِس مقابلے میں کہیں زیادہ آگے ہے۔ اِس مقام تک اُس کے پاس بڑھنے کے لئے پہلے ہی سے کافی مقدار میں سورج کی روشنی موجود ہے برعکس اِس کے جو زمین سے حاصل ہو سکتی ہے۔
جب ایک دفعہ انجیر کا درخت جنگل میں باقی درختوں کی اونچائی تک پہنچ جاتا ہے تو پھر وہ تیزی سے بڑھنا شروع کرتا ہے۔ ایسا وہ زمین کی طرف اپنی جڑیں پھینک کر کرتا ہے اور جب یہ تعداد میں بہت زیادہ ہو جاتی ہیں تو ظاہر ہے کہ ایک دوسرے سے چھونے لگتی ہیں اور جب ایسا ہوتا ہے تو وہ آپس میں پیوستہ ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ اور پھر کافی عرصہ گزر جانے کے بعد انجیر کا درخت اپنے میزبان درخت کے تنے کے ارد گرد ایک گھیرا سا ڈال لیتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ گھیرا میزبان درخت کے لئے تابوت بن جاتا ہے اور پھر انجیر کے درخت کی بڑھتی ہوئی جڑوں کے تنے آہستہ آہستہ اپنے میزبان درخت کی زندگی کا دم کھینچ لیتے ہیں۔ کچھ اَور وقت گزرنے کے بعد میزبان درخت گل سڑ جاتا ہے اور اُس کے کھوکھلے سوراخ جکڑنے والے انجیر کے درخت کی پھیلتی جڑوں سے بھر جاتے ہیں۔
جکڑنے والے انجیر کا ایک پورا تیار شدہ درخت کافی عرصہ تک قائم و دائم رہ سکتا ہے۔ اور ہاں یہ بھی ممکن ہے کہ وہ جنگل میں سب سے زیادہ تن آور درخت ہو۔ اِس میں بھی حیرت کی کوئی بات نہیں کہ جب ہم اِنسان درخت کاٹ کاٹ کر جنگلات کا صفایا کر رہے ہوتے ہیں تو بعض اوقات جکڑنے والا انجیر کا درخت کٹنے سے بچ رہتا ہے کیونکہ اُس کی لکڑی دوسرے درختوں کی لکڑی کے مقابلے میں فضول اور بے کار ہوتی ہے، اِس لئے وہ سایہ دار درخت کی حیثیت سے کٹنے سے محفوظ رہتا ہے۔
بہت سے جانور ایسے ہیں جو انجیر کے جکڑنے والے درخت کو بے حد پسند کرتے ہیں کیونکہ اِس کا پھل کئی قِسم کے پرندے اور بندر بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔ وہ اِس لذیذ پھل کو توڑ توڑ کر اُونچی جگہوں پر اِکٹھا کرتے رہتے ہیں اور صرف یہی نہیں بلکہ جنگلی سُور اور کُترنے والے جانور بھی زمین پر گرے ہوئے پھل کو مزے سے کھاتے ہیں۔
اِس کے علاوہ بہت سے چھوٹے چھوٹے جانور اور کیڑے مکوڑے تنے کے اُن بے شمار کھوکھلے سوراخوں میں جہاں انجیر کے درخت کی جڑیں آپس میں نہیں مل سکتی اپنے گھونسلے وغیرہ بناتے ہیں۔ اَب اگر ہمیں یہ فیصلہ کرنا پڑ جائے کہ انجیر کا جکڑنے والا درخت اچھا ہے یا بُرا تو یقینا ہمارے لئے یہ ایک مشکل مسئلہ ہو گا۔ حقیقت یہ ہے کہ دوسروں کو موت کے گھاٹ اُتارنے والا یہ درخت نہ تو اچھا ہے اور نہ ہی بُرا۔ بس وہ کائنات کا ایک حصہ ہے۔ یہ وہی کرتا ہے جو اِسے کرنا ہوتا ہے اور یوں کائنات میں اپنا ایک کردار ادا کرتا ہے۔ لہذا نہ تو ہم اِس کی تعریف کریں گے اور نہ ہی اِس کو ملامت کریں گے بلکہ اِسے پہچاننے کی کوشش کریں گے کہ واقعی یہ ایک اَور اِس کا ثبوت ہے کہ خدائے قادرِ مطلق ہی نے ہماری دُنیا کو تخلیق کِیا اور سنوارا ہے۔
اگر انجیر کا جکڑنے والا درخت ہمیں بتا سکے تو وہ بتائے گا کہ وہ کِس طرح عجیب اور انوکھے طریقہ سے وجود میں لایا گیا تاکہ اپنا رتبہ برقرار رکھ سکے۔ وہ ہمیں یاد کروائے کہ صرف ایک حِکمت والا تخلیق کار ہی اُس کی جڑوں کو زمین تک رابطہ قائم کرنے کے طویل اور لمبے مرحلے کے دوران سُوکھنے اور مُرجھانے سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔ وہ ہمیں یہ بھی بتائے گا کہ ایک مخصوص قِسم کی بناوٹ ہی اُس کے بیج کے اِرد گِرد ایک مضبوط اور ٹھوس تہہ پیدا کر سکتی ہے جس کے لئے ضروری ہے کہ بیج کے پھوٹنے سے پہلے وہ جراثیم کے ذریعہ پِگھل جائے اور یوں وہ یہ بھی یقین دِلائے گا کہ پُھوٹ نکلنے والے پودے کیلئے کافی مقدار میں غذائیت بخش خوراک موجود ہے۔ اور اگر انجیر کا درخت بولنے کے ساتھ ساتھ زندہ خدا کے زندہ کلام کا حوالہ بھی دے سکے تو وہ بِلا شک و شبہ پولس رسول کے صدیوں پہلے بُت پرستوں کو کہے گئے یہ الفاظ دہرائے گا، ’’…لوگو! تم یہ کیا کرتے ہو؟ ہم بھی تمہارے ہم طبیعت اِنسان ہیں اور تمہیں خوشخبری سُناتے ہیں تاکہ باطل چیزوں سے کنارہ کر کے اُس زندہ خدا کی طرف پِھرو جس نے آسمان اور زمین اور سمندر اور جو کچھ اُن میں ہے پیدا کِیا۔ اُس نے اگلے زمانے میں سب قوموں کو اپنی اپنی راہ چلنے دیا تو بھی اُس نے اپنے آپ کو بے گواہ نہ چھوڑا۔ چنانچہ اُس نے مہربانیاں کِیں اور آسمان سے تمہارے لئے پانی برسایا اور بڑی بڑی پیداوار کے موسم عطا کِئے اور تمہارے دِلوں کو خوراک اور خوشی سے بھر دیا۔‘‘ (اعمال ۱۴:۱۷-۱۵)
خدا کے وجود اور اُس کے زندہ کاموں کے بہت سے گواہ ہیں۔ آئیے! انجیر کے جکڑنے والے درخت کی گواہی سُنیں۔ لیکن انجیر کے درخت میں ہمارے لئے ایک اَور ضروری سبق بھی ہے۔ مسیح یسوع نے زندگی کے اعلیٰ مقصد کی وضاحت کرنے کیلئے ایک دوسری قِسم کے انجیر کے درخت کو اِستعمال کِیا۔ اُنہوں بائبل مقدس میں انجیر کے بے پھل درخت کے بارے میں ایک تمثیل کہی جس کو اُس کا مالک کاٹ ڈالنا چاہتا تھا تاکہ پھل لانے والے درخت کے لئے جگہ خالی ہو سکے۔ لیکن باغبان نے مِنت کرتے ہوئے کہا، ’’…اِس سال تو اَور بھی اِسے رہنے دے تاکہ اُس کے گرد تھالا کھودوں اور کھاد ڈالوں اگر آگے کو پھلا تو خیر نہیں تو اِسے کاٹ ڈالنا۔‘‘ (لوقا ۱۳:۹-۸)
مسیح یسوع نے اِس سادہ سی تمثیل میں ہمارے لئے ایک غور طلب سوال اُٹھایا ہے کہ کیا ہماری زندگی پھلدار ہے یا بے پھل؟ ممکن ہے انجیر کا بے پھل درخت ہماری ہی نمائندگی کر رہا ہو۔ بائبل مقدس میں لکھا ہے، ’’…ہم اُسی کی کاریگری ہیں اور مسیح یسوع میں اُن نیک اعمال کے واسطے مخلوق ہوئے جن کو خدا نے پہلے سے ہمارے کرنے کیلئے تیار کِیا تھا۔‘‘ (افسیوں ۲:۱۰)
کیا ہم نیک اور اچھے کام کر رہے ہیں؟ اِس سے پہلے کہ ہم وہ پھلدار کام کرنے کے لئے تیار ہوں جن کو کرنے کے واسطے خدا نے ہمیں پیدا کِیا ہے، ہمارے لئے یہ سمجھنا اور جاننا نہائت ضروری ہے کہ ہم درحقیقت اُس کی اولاد ہیں اور ایسا صرف اُسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب ہم خدا کو پورے ایمان کے ساتھ اُس کے بیٹے یسوع مسیح کے وسیلہ سے پہچاننے کی کوشش کریں۔ جیسا کہ بائبل مقدس میں لکھا ہے کہ، ’’…کسی دوسرے کے وسیلہ سے نجات نہیں کیونکہ آسمان کے تلے آدمیوں کو کوئی دوسرا نام نہیں بخشا گیا جس کے وسیلہ سے ہم نجات پا سکیں۔‘‘ (اعمال ۴:۱۲)
تو آئیے! کائنات کے ذرے ذرے سے جو وجودِ الٰہی کا زندہ ثبوت پیش کر رہے ہیں کچھ جاننے، پہچاننے اورسیکھنے کی کوشش کریں تاکہ اپنے خالق کی مکمل تابعداری کر کے اُس کا جلال ظاہر کر سکیں۔