Skip to content

کھجور کا درخت

Posted in وجُودِ اِلٰہی

وہ کیا ہے جو ایک طرف سے دولتمندوں کے لئے سبزی یا سلاد کا کام دیتا ہے اور دوسری طرف سے ٹوتھ برش کے طور پر اِستعمال کِیا جاتا ہے؟ جبکہ آپ اِس بارے میں سوچ بچار کر رہے ہیں تو آئیے اپنے سوال میں ایک اَور بات کا اِضافہ کرتے چلیں کہ اُس کا درمیانی حصہ بھی بے کار نہیں ہوتا بلکہ ہر چیز اِنسان کے لئے مفید اور کارآمد ہے۔ مگر یہ ہے کیا؟ یہ کھجور کا درخت یا یوں کہہ لیں کہ کھجور کے درختوں کی کوئی قِسم ہے کیونکہ اُن کی سینکڑوں مختلف اَقسام ہوتی ہیں۔
کھجور کے درختوں میں سے اچھی چیز جو کھانے کے قابل ہوتی ہے، وہ اُن کی چوٹی پر بڑھنے اور نشوونما پانے والا شگوفہ یا کونپل ہے، جِسے کبھی دولتمندوں کی سبزی یا سلاد کہا جاتا تھا کیونکہ جب کھجور کے درخت کی چوٹی سے یہ شگوفہ یا کونپل الگ کر لی جائے تو درخت سوکھ کر تباہ ہو جاتا ہے اور صرف دولتمند حضرات ہی اپنے کھانے میں نفاست پیدا کرنے کے لئے یہ تباہی لا سکتے ہیں۔ ناریل، ساگودانہ، کھجوریں، تیل اور پان میں اِستعمال ہونے والا چھالیا، جس سے لاکھوں کروڑوں لوگ کیف و سرُور حاصل کرتے ہیں، دراصل کھجور کے درخت سے پیدا ہوتا ہے۔ گرم علاقوں میں کھجور کے درختوں کے پتے نہ صرف چھپر یا چھت وغیرہ ڈالنے کے کام آتے ہیں بلکہ اُنہیں بُن کر دیواروں کے لئے تختے یا سورج سے بچائو کیلئے سایہ دار پردے بھی تیار کِئے جاتے ہیں۔
کھجور کے درخت کی ایک اَور قِسم Rattan سے فرنیچر وغیرہ بنایا جاتا ہے اور کچھ ایسے بھی ہیں جن کے بیج کے چھلکے اِسقدر سخت ہوتے ہیں کہ اُنہیں سڑکوں پر بجری یا کنکر کے طور پر اِستعمال کِیا جاتا ہے۔
کھجور کے درخت کے ایک اَور قِسم Ivory سے خوبصورت بٹن تیار کِئے جاتے ہیں۔ اور ہاں ٹوتھ برش؟ صدیوں سے کچھ لوگ کھجور کے درخت کی جڑ کے ٹکروں سے اپنے دانت صاف کرتے چلے آ رہے ہیں۔ اِن تمام خصوصیات نے مِل کر کھجور کے درخت کو اِسقدر مفید اور کارآمد بنا دیا ہے کہ اِسے نباتات کی دُنیا کا شہزادہ کا لقت دیا گیا ہے۔ باقی درختوں کی نسبت کھجور کے درخت کے بڑھنے اور نشوونما پانے کا طریقۂ کار انوکھا اور عجیب ہے۔ دراصل یہ عام درختوں کے مقابلے میں کافی حد تک مکئی کے ڈنٹھل کی مانند پھلتا پھولتا ہے۔ جس طرح مکئی کے ڈنٹھل کا درمیانی حصہ گودے دار ہوتا ہے اُسی طرح کھجور کے درخت کا درمیانی حصہ بھی گودے دار ہوتا ہے، خاص طور پر اُس کی ایک قِسم Sago جو اپنے گودے میں کھانے کے قابلِ نشاستہ جمع رکھتا ہے۔ اور جس طرح مکئی کا ڈنٹھل زیادہ تر اپنی نشوونما باہر والی موٹی اور ٹھوس تہہ میں کرتا ہے اُسی طرح کھجور کا درخت بھی اپنی باہر والی ٹھوس تہہ میں نشوونما پاتا ہے۔ ایک عام درخت باہر کی طرف بڑھنے سے محروم ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ عام طور پر موٹائی میں زیادہ نہیں بڑھ سکتا۔
کھجور کا درخت اِن ریشوں کے سبب سے جع تنے یا ڈالیوں کی بیرونی تہوں میں ٹھوس طریقہ سے جکڑے ہوتے ہیں، بے حد لچک دار ہوتا ہے۔ یہ مضبوط ریشے کھجور کے درخت کو تیز آندھی اور طوفان میں جھکنے، مڑنے اور پلٹ کر واپس آنے کے قابل بناتے ہیں جبکہ دوسرے درخت لچک دار خاصیت نہ ہونے کے باعث آندھ طوفان میں گِر کر ٹوٹ جاتے ہیں۔ اَب سوال یہ ہے کہ کِس طرح یہ مختلف قِسم کا درخت وجود میں آیا؟ اِرتقائی عمل کے تحت جیسا کہ اِرتقا کے ماننے والے دعویٰ کرتے ہیں؟ ہرگز نہیں! اِرتقائی نطریئے کے تحت وہ پودا یا جانور جو عام حالت سے مختلف ہے اُس کا وجود قطعی ناممکن ہے۔ اِرتقائی نظریہ محض بے بہا کامیابی پر منحصر ہے یعنی جیتنے والے پہلے سے کہیں زیادہ کامیاب ہوتے ہیں اور ہارنے والوں کو پیچھے چھوڑ جاتے ہیں۔ اِسی لئے اِرتقائی عمل سے بنائی ہوئی دُنیا میں زیادہ ورائٹی یعنی ہر قِسم کی زندگی کے لئے واقعی کوئی جگہ نہیں ہے۔ یہ بات گرم علاقوں میں خصوصی طور پر سچ ثابت وہ گی جہاں بڑھنے اور نشوونما پانے کیلئے جگہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ مگر اِس کے باوجود زیادہ تر گرم علاقوں ہی میں کھجور کی یہ قِسم پیدا ہوتی ہے۔ شائد کچھ لوگوں کے لئے یہ حیرت کی بات ہو لیکن یہ سوال کہ سب کچھ کیسے وجود میں آیا، اِس کا ایک معقول جواب بھی ہے جو ہمیں زندہ خدا کی زندہ کتاب بائبل مقدس میں ملتا ہے۔ جیسا کہ لکھا ہے، ’’اور خدا نے کہا کہ زمین گھاس اور بیج دار بوٹیوں کو اور پھل دار درختوں کو جو اپنی اپنی جِنس کے مُوافق پھلیں اور جو زمین پر اپنے آپ ہی میں بیج رکھیں اُگائے اور ایسا ہی ہوا۔ …اور خدا نے دیکھا کہ اچھا ہے۔‘‘ (پیدائش ۱:۱۲-۱۱)
کھجور کا درخت واقعی اچھا ہے۔ ہمارے لئے یہ وہ برکت ہے جو ہمیں قادرِ مطلق باپ یعنی خدائے بزرگ و برتر کی طرف سے تحفے کہ طور پر ملی ہے۔ ہاں، اُسی خدا کی طرف سے جس نے اِس زمین کو خوبصورت باغ کی شکل میں تخلیق کر کے اُس میں آدم کو بحیثیت ایک اعلیٰ ترین شاہکار کے رکھا۔ بائبل مقدس میں بھی یہ لکھا ہے کہ اِس طرح سے یہ سب وجود میں آیا۔ لیکن بائبل صرف آدم کے عروج ہی کا ذکر نہیں کرتی بلکہ اُس کے زوال کا حال بھی بتاتی ہے کہ کِس طرح اُس نے اپنے تخلیق کار کی حُکم عدولی کرتے ہوئے تباہ کار دُشمن کی صلاح مان کر خوشنما باغ کی معصومیت اور پاکیزگی کو اپنے پائوں تلے روندا، اور پھر موت و تباہی کا وہ اذیت ناک سفر شروع ہوا جس نے کائنات کو گہری تاریکی میں لپیٹ لیا۔
لیکن بائبل مقدس میں یہ بھی لکھا ہے کہ کائنات ہمیشہ تباہ و برباد اور اندھیری رات میں ڈوبی نہ رہے گی۔ وہ دِن آ رہا ہے کہ سب کچھ اِس کے برعکس ہو گا اور سب چیزیں بالکل ویسے ہی ہو جائیں گی جیسے پہلے تھیں۔ اُس دِن کے لئے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بھیڑیا بھیڑ کے ساتھ رہے گا۔ پھر کہیں قتل و غارت اور خونریزی نہ ہو گی۔ پھر کہیں ویرانی و تنہائی اور مایوسی نہ ہو گی بلکہ ہر سو امن و سکوں اور آرام ہو گا۔ کوئی بھی نہیں جانتا کہ بحالی کا وہ دِن کب آئے گا مگر ہمیں اُس گہری تاریکی سے نکلنے کے لئے خدا کے ساتھ ٹوٹا ہوا رشتہ جوڑنے کیلئے اُس دِن کا اِنتظار نہیں کرنا۔ بحالی کی راہ اَب بھی ہے جس پر چل کر ہم اپنے خدا اور تخلیق کار کے ساتھی ابدی صلح کر سکتے ہیں۔ شائد آپ سوال کریں کہ ہاں مَیں بحالی کا یہ سفر شروع کرنا چاہتا ہوں مگر راہ کہاں ہے؟
تو عزیز دوستو، بہنو اور بھائیو! وہ راہ صرف اور صرف یسوع مسیح سے ہو کر جاتی ہے، جس نے پورے اِختیار سے یہ دعویٰ کِیا کہ ’’…راہ اور حق اور زندگی مَیں ہوں۔ کوئی میرے وسیلے کے بغیر باپ (یعنی خدا) کے پاس نہیں آتا۔‘‘ (یوحنا ۱۴:۶)
ہماری یہ دعا ہے کہ جتنے لوگ بھی مسیح سے دُور ہیں، وہ اُسے اپنا نجات دہندہ قبول کر کے ہمیشہ کی زندگی پائیں، کیونکہ وہی ایک کامِل راہ ہے۔ وہی ایک کامِل وسیلہ ہے جو خدا سے ہمارا دوبارہ ملاپ کروا سکتا ہے۔
توآئیے! کائنات کے ذرے ذرے سے جو وجود الٰہی کا زندہ ثبوت پیش کر رہے ہیں کچھ جاننے، پہچاننے اور سیکھنے کی کوشش کریں تاکہ اپنے خالق کی مکمل تابعداری کر کے اُس کا جلال ظاہر کر سکیں۔