Skip to content

پودُوں کا بڑھنا

Posted in وجُودِ اِلٰہی

کیا آپ کبھی حیران ہوئے ہیں کہ پودے دائیں بائیں بڑھنے کی بجائے سیدھے اُوپر کی طرف کیوں بڑھتے ہیں؟ اور ہاں، یہ بھی سوچیں کہ پودوں کی جڑیں نیچے کی طرف کیوں پھیلتی ہیں؟ مانا کہ یہ قدرت کا ایک لاتبدیل اِنتظام ہے مگر سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟
پودوں کے بارے میں علم رکھنے والے سائنسدانوں نے اِس سوال کا جواب کسی حد تک دریافت کر لیا ہے، اور وہ یہ کہ پودوں کے تحریک پیدا کرنے والے عضویات۔ بِلاشبہ اُنہیں پہلے یہ دریافت کرنا تھا کہ پودوں میں جانوروں کی طرح تحریک پیدا کرنے والے عضویات موجود ہیں یا نہیں؟ تحریک پیدا کرنے والے یہ عضویات نہائت پیچیدہ نامیاتی کیمیا ہوتے ہیں جو بڑھنے اور ترقی پانے میں ترتیب و ضابطے کا کام کرتے ہیں۔
پودوں کے عضویات اور جانوروں کے عضویات آپس میں مشابہت نہ رکھنے کے باوجود ایک جیسا کام انجام دیتے ہیں، خاص طور پر تحریک پیدا کرنے والا وہ عضو جس کا ذکر ہم کر رہے ہیں۔ ابتدا میں بڑھنے اور ترقی پانے والا عضو ہوتا ہے، جِسے انگریزی میں Auxin کہتے ہیں۔ اِس عضو کے بڑھنے کے نطم و ضبط کے باعث پودے کا تنا اُوپر کی طرف اور جڑیں نیچے کی طرف بڑھتی ہیں۔
آئیے! دیکھتے ہیں کہ تحریک پیدا کرنے والے عضویات کِس طرح یہ کام سَر انجام دیتے ہیں۔ ذرا تھوڑی دیر کے لئے کسی پہاڑی کے ایک طرف سیدھی ڈھلوان پر نئے اُگتے ہوئے پودے کو دیکھئے، پہلے پہل یہ نوخیز درخت ایک طرف کو جھک جائے گا، لیکن پھر سیدھا اُوپر کی طرف رُخ کرے گا۔ ایسا اِس لئے ہوتا ہے کہ تحریک پیدا کرنے والے عضویات یعنی Auxin ٹہنی کے سِرے کے نچلی طرف زیادہ مضبوطی اور ٹھوس طریقہ سے جمع ہوتے ہیں۔ اِس سے نچلی طرف کے خُلیے کو اُوپر والے خلیوں کی نسبت جلد بڑھنے میں مدد ملتی ہے، اور پھر فوراً ہی اِس طرف کی ٹہنی کا نچلا حِصہ زیادہ لمبا ہو جاتا ہے۔ نشوونما پانے کی اِس زائد قوت کا رُخ اُوپر کی جانب ہوتا ہے اور یہ سلسلہ اُس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک کہ بڑھنے والی ٹہنی کا سِرا عمودی شکل اِختیار نہ کر لے، اُس وقت تک دونوں طرف تحریک پیدا کرنے والے عضویات کی مقدار برابر ہو جاتی ہے اور پھر پودا اُوپر کی طرف سیدھا بڑھنے لگتا ہے۔
لیکن فرض کریں کہ بڑھنے والی ٹہنی کا سِرا یعنی راہنما تباہ و برباد ہو جائے تو پھر کیا ہو گا؟ اگر پودا راہنما ٹہنی یا سِرے سے محروم بھی ہو جائے تو اُس کے نیچے کی کئی اور شاخیں یا ڈالیاں نشوونما بڑھانے والی زائد قوت حاصل کریں گی اور پھر اُوپر کی طرف اُٹھنا شروع ہو جائیں گی۔ اگر ایک ٹہنی یا سِرا دوسروں کی نسبت بہت زیادہ آگے نکل جائے تو وہ نیا راہنما بن جائے گا اور باقی پہلے کی طرح ماتحت کی حیثیت سے ہی رہیں گے اور عضویات کی زائد مقدار سے محروم ہو جائیں گے، لیکن اگر آگے نکلنے کی دوڑ میں دو ٹہنیاں جیت جائیں تو درخت اِس کے بعد دو حِصوں کی شکل اِختیار کر کے بڑھے گا اور وہ دونوں راہنما ہوں گے۔ لیکن وہ کون سی قوت ہے جس کے باعث جڑیں نیچے کی طرف رُخ کرتی ہیں؟ ایسی حالت میں تحریک پیدا کرنے والے عضویات کا اثر تنے پر کے اثر سے بالکل الُٹ ہوتا ہے۔
سائنِسدانوں نے دریافت کِیا ہے کہ جڑ کے خلیے بڑھنے والے عضویات کے زیرِ اثر نہائت حساس ہوتے ہیں اور اُن کا ردِ عمل اُس وقت ویسا ہی ہوتا ہے جب تک کہ عضویات کی طاقت کم رہتی ہے۔ لیکن جب یہ طاقت ایک نازک نقطۂ توازن تک پہنچتی ہے تو اِس کا اثر بالکل اُلٹ ہو جاتا ہے یعنی نشوونما بڑھنے کی بجائے رُک جاتی ہے، اور تحریک پیدا کرنے والے عضویات پھر سے جڑ کی ٹہنی کے آگے بڑھے ہوئے سِرے کی نچلی طرف اکٹھے ہو جاتے ہیں جیسے کہ زمین کے اُوپر والے حِصوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ لیکن سِرے کو سیدھا اُوپر دھکیلنے کی بجائے یہ خلیے سُست پڑ جاتے ہیں جبکہ اُوپر والے حسبِ معمول نشوونما پا رہے ہوتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ نیچے کی طرف جڑ نیچے کی طرف پھیلتی اور بڑھتی ہے۔ لیکن اگر ہم یہ اُمید رکھیں کہ سائنس نے اِس مسئلے کا مکمل حل ڈھونڈ لیا ہے کہ پودے کیوں ہمیشہ سے اِسی طرح کرتے آئے ہیں ہماری اُمید خاک میں ملتی ہوئی نظر آتی ہے۔
ہم نے تخلیق کار کے ہدایات پر مشتمل کتابچے میں سے صرف ایک یا دو صفحے سرسری طور پر پڑھے ہیں اور ہماری اِس دریافت سے کئی اَور بھید کھل کر سامنے آئے ہیں۔ مثال کے طور پر پہلے یہ اندازہ لگایا جاتا تھا کہ سورج کی روشنی نشوونما پانے کا مکمل طریقۂ کار وضع کرتی ہے جس کے باعث پتے، تنے، شاخیں اور ڈالیاں اُوپر روشنی کی طرف کھینچتے چلے جاتے ہیں اور جڑیں اُس سے دُور نیچے کی طرف۔ لیکن ایک سادہ ترین تجربہ بھی یہ ثابت کرے گا کہ یہ سب کچھ اِتنا آسان نہیں ہے۔ بیج جو بالکل تاریکی میں نشوونما پاتے ہیں اُن سے شاخیں اور ڈالیاں اُوپر کی طرف پھوٹتی ہیں اور جڑ نیچے کی طرف بڑھتی ہے۔ لہذا یہ روشنی کے سبب سے نہیں ہے یا یوں کہہ لیں کہ کم سے کم صرف روشنی ہی کے اثر سے ایسا نہیں ہوتا۔ ممکن ہے کہ کششِ ثقل اِس سلسلے میں اپنا کچھ کردار ادا کرتی ہو۔ خیر اِس مسئلے کا جواب ابھی تک نہیں مِل سکا۔ ہم صرف اِتنا جان سکے ہیں کہ کوئی چیز تحریک پیدا کرنے والے عضویات کی پیدائش کو ضبط میں رکھتی ہے اور اُن کی تقسیم مناسب جگہوں پر پوری اور صحیح قوت سے عمل میں لاتی ہے۔ کوئی چیز جڑ کے خلیے کو اُس وقت نشوونما بڑھانے والے عضویات کی طرف اُلٹ ردِ عمل ظاہر کرنے کا سبب بنتی ہے جب یہ عضویات صحیح مقدار میں جڑ کو ملتے ہیں۔ کوئی انجانی قوت حکم دیتی ہے کہ تحریک پیدا کرنے والے زائد عضویات یعنی Auxin ٹہنیوں کے نئے راہنما کی طرف بھیجے جائیں جبکہ پودا اصلی راہنما سے محروم ہو چکا ہے۔
عزیز دوستو! کسی نہ کیسی طرح ہر بیج اپنے اندر ہی سے بنے ہوئے ہدائت نامہ سے پوری طرح آراستہ ہو کر آتا ہے جو اپنی نشوونما کی راہنمائی پہلے پتے سے آخری شکل اِختیار کرنے تک کرتا ہے۔ ہر بیج ایک وسیع اور پُرحکمت ذہن ایک انوکھی اور عجیب تخلیق ہے جو ہماری دُنیا میں ہر روز خاموشی سے حیران کن اور پُر سوچ واقعات لاتی ہے۔ اور ہم اِس تخلیق کے پوشیدہ بھیدوں کو جاننے اور سمجھنے کی کوشِش کریں گے تو تب ہی اُس کی پُر جلال کاملیت کو وسیع پیمانے پر محسوس کر سکیں گے۔
ہم بعض اوقات خدائے قادرِ مطلق کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے اور اُس کے عجائب کا مشاہدہ کرنے میں جھجھک سے کام لیتے ہیں، لیکن یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ زندہ خدا کے زندہ کام ہر سو اُس کے جلال کا بیان کر رہے ہیں۔