Skip to content

صُنوبر کا درخت

Posted in وجُودِ اِلٰہی

یہ ہر زندہ چیز کی فطرت میں شامل ہے کہ وہ اپنی آنے والی نسل کو اپنی جِنس کے موافق پیدا کرے۔ لیکن جب گنجان ترین جنگلات میں درخت ایسا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو اُنہیں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کیونکہ وہاں اُن کی آنے والی نسل کی نشوونما کے لئے کافی جگہ نہیں ہوتی، اور اگر جگہ ہو بھی تو پتوں سے گھرا ہوا چھت نما جنگل سورج کی انتہائی مفید اور ضروری شعاعوں کو روک لیتا ہے۔ اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بیج سے پیدا ہونے والے پودے صحیح نشوونما پانے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ لیکن اپنی نسل بڑھانے والے درخت اِس مسئلہ کا مختلف طریقہ سے ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں۔ کچھ درخت پَروں والے بیج پیدا کرتے ہیں جو ہَوا میں اُڑ کر دُور دُور تک بِکھر جاتے ہیں اور کچھ پرندوں، گلہریوں یا دوسرے بیج کُترنے والے چھوٹے جانوروں پر اِنحصار کرتے ہیں کہ وہ اِنہیں اُٹھا لے جائیں کیونکہ وہ کھانے کی بجائے زیادہ تر بیج کہیں چھپا دیتے ہیں۔ کچھ درخت ایسے بھی ہیں جو اپنے بیجوں کو زمین پر بے حِس و حرکت کئی سال تک پڑا رہنے دیتے ہیں، جب تک پھوٹ نکلنے یا اُگنے کے لئے بہتر حالات پیدا نہ ہو جائیں۔ لیکن آنے والی نسل کے لئے سب سے زیادہ حیران کن اور انوکھی تیاری شائد صُنوبر کے درختوں کی کچھ اقسام کو کرنی پڑتی ہے، کیونکہ یہ درخت اپنی آنے والی نسل کو اُس وقت تک سینے سے لگائے رکھتے ہیں جب تکہ جنگل کی آگ اُن کے لئے جگہ خالی نہ کر دے۔
اکثر صُنوبر کے درخت پر مخروطی خول نُما پھل اُس وقت کھلتے ہیں جب وہ اِس حد تک پک جاتے ہیں کہ بیجوں کو نیچے گرنے دیں۔ مگر صُنوبر کے اِن انوکھے درختوں کے مخروطی خول کئی سال تک مضبوطی سے بند رہتے ہیں، یہاں تک کہ درخت کی ہر سال بڑھنے والی چھال یا جِلد اُن کو اِرد گِرد سے بڑی سختی کے ساتھ جکڑ لیتی ہے۔ صرف ایک چیز ہے جو مخروطی خول کو اپنے چھلکے پھیلانے اور بیج چُھڑانے پر مجبور کر سکتی ہے اور وہ ہے اِنتہائی حرارت۔ اکثر اوقات جنگل کی آگ کے سبب سے نسل پیدا کرنے والا درخت جل کر ایسی حرارت پیدا کرتا ہے جس سے بند خول کھل جاتا ہے۔
صنوبر کے درخت صرف جان کنی کی حالت میں اپنی نسل پیدا کرتے ہیں اور صرف اِسی حالت میں اپنی نسل کے زندہ رہنے کے لئے جگہ مُہیا کر سکتے ہیں۔ اور اِسی طرح آگ سے جھلسی ہوئی سیاہ پہاڑیوں کو سبزے کا نیا لباس پہنانے کا اِنتظام بھی کِیا جاتا ہے۔ بِلا شک و شبہ یہ اِنتظام نہائت اعلیٰ اور حیران کن ہے۔ لیکن پھر بھی ہم یہ پوچھنے پر مجبور ہیں کہ یہ سب کچھ کیسے ہوا؟ کیا یہ بس یونہی ممکن ہو سکا؟ کیا یہ مسلسل اِرتقائی عمل کا نتیجہ ہے جس کا اکثر لوگ دعویٰ کرتے ہیں؟ اِرتقا سے متعلق غیرتصدیق شدہ نظریۂ ہمیں یہ ماننے کی ترغیب دیتا ہے کہ آہستہ آہستہ بتدریج صدیاں گزرنے کے ساتھ ساتھ صنوبر کے درختوں کی یہ اقسام حسبِ معمول موسمِ گرما میں بیج گرانے سے عمل سے ہٹ کر اُس موجودہ عمل کی طرف بڑھتی گئی کہ جب تک کوئی ناگہانی آفت حملہ نہ کر دے، بیج نیچے نہیں گرانے۔ اَب سوال یہ ہے کہ کیا یہ درمیانی طریقۂ کار اپنا کام کر سکا؟ ہرگز نہیں، کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ یہ تبدیلی رفتہ رفتہ رونما ہو ورنہ بیج معمولی حرارت کے باعث پہلے نکل آتے اور فنا ہو جاتے۔ لازم ہے کہ آگ اِسقدر تیز ہو کہ تمام جنگل جل جائے تاکہ بیج کو سورج کی روشنی میسر آسکے ورنہ وہ بھی مر جائے گا۔ نہیں، ایک مرتبہ ہم پھر دیکھتے ہیں کہ نہ تو آزمائش اور غلطی کرنے کی کوئی گنجائش ہے اور نہ ہی رفتہ رفتہ وقوع پذیر ہونے کے امکانات، لیکن یہ دونوں نظریات اِرتقا کے ماننے والوں کے لئے ضروری حیثیت رکھتے ہیں۔ اِس نظام کو پورے طور پر کام میں لانے کے لئے لازمی ہے کہ یہ پہلے سے نہ صرف موجود ہو بلکہ حرکت میں بھی ہو، اور یہ اُس واحد ہستی کی طرف اِشارہ ہے جو بڑی دُور اندیشی سے سب کچھ شروع سے آخر تک دیکھ رہی ہے۔
یہ عظیم اور اعلیٰ تر منصوبہ بندی کرنے والی ہستی وہ ہے جس نے بڑے پیار سے قدرت کے اِن عناصر کو اِنفرادی طور پر وضع کِیا اور ہر ایک جِنس کو ایک انوکھی حیثیت بخشی کہ وہ اِن کو نہ صرف قوت و طاقت عطا فرمائے بلکہ اِن میں ہم آہنگی بھی قائم کرے۔ یہ سب خدا کی دستکاری ہے۔ خدائے قادرِ مطلق نے ایک معمولی ذرے لے کر ایک حقیر کی کیڑے کی تخلیق تک بالکل اُسی طرح بھر پور توجہ دی جس طرح اُس نے ستاروں سے بھرے وسیع آسمان کو آباد کرتے ہوئے دی۔ خدا نہ صرف گھاس کی ہر پتی کی نگہداشت کرتا ہے بلکہ گھاس چرنے والے بیل اور بیل کو ہانکنے والے اِنسان کی بھی حفاظت کرتا ہے۔ خدا نہ کرے ہم غرور و تکبر سے کام لے کر اپنے آپ کو کچھ سمجھیں۔ ہمیں خدائے بزرگ و برتر کے پاک کلام کے یہ الفاظ ہمیشہ یاد رکھنے چاہیے، ’’اِنسان کی عمر تو گھاس کی مانند ہے، وہ جنگلی پھول کی طرح کِھلتا ہے کہ ہَوا اُس پر چلی اور وہ نہیں اور اُس کی جگہ اُسے پھر نہ دیکھے گی۔‘‘ (زبور ۱۰۳:۱۶-۱۵)
عزیز دوستو! نہ تو یہ دُنیا ہمارا مستقِل ٹھکانہ ہے اور نہ ہی ہم یہاں بغیر کسی مقصد کے پیدا کِئے گئے ہیں۔ ہر پتے، ہر پتھر، ہر ندی نالے و چشمہ، ہر مخلوق اور ہر اِنسان کی بناوٹ میں اِرادتاً الٰہی مقصد و منصوبہ چھپا ہوا ہے۔ بائبل مقدس میں اِس بارے میں یوں لکھا ہے، ’’اے ہمارے خداوند اور خدا تُو ہی تمجید اور عزت اور قدرت کے لائق ہے کیونکہ تُو ہی نے سب چیزیں پید اکیں اور وہ تیری ہی مرضی سے تھیں اور پیدا ہوئیں۔‘‘(مکاشفہ۱۱:۴)
ہم اِس لئے پیدا کِئے گئے ہیں کہ خدا کی مرضی بجا لا کر اُسے خوش کر سکیں، وہ خوشی و کامرانی جو ایک باپ اُس وقت محسوس کرتا ہے جب اُس کے بچے پیار کا جواب پیار سے دیتے ہیں۔ ہم جب اپنے چاروں طرف بیماری و موت کی سی وحشت و تباہی، قتل و خون اور رونا پیٹنا دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہم نے اپنی جائز حدود کو پار کر کے اپنے آرام و سکون میں خود ہی زہر گھول دیا ہے۔ یہ سب کچھ خدا کے منصوبے اور ارادے کے مطابق نہیں ہے بلکہ یہ لعنت بنی نوع اِنسان کی امن و سکون اور الٰہی مقصد کے خلاف باغیانہ روش اِختیار کرنے کے سبب سے ہے۔ بائبل مقدس میں اِس بارے میں یوں پیشین گوئی کی گئی ہے کہ خدا ڈرامائی طور پر دوبارہ تاریخ میں قدم رکھے گا تاکہ فطرت کے زخموں پر امن و صلح کی پٹی باندھ کر ابدی آرام دے سکے۔ اُس وقت کسی آدمی کا ہاتھ اپنے پڑوسی کے گریبان پر نہ ہو گا بلکہ سب پیار و محبت اور باہمی یگانگت کے ساتھ مسیح یسوع کی خدمت کریں گے جو راستبازی اور اِنصاف پسندی سے حکمرانی کرے گا۔ لیکن ہمیں خدا کے ساتھ امن و صلح کا یہ رشتہ جوڑنے کے لئے آنے والے وقت کا اِنتظار نہیں کرنا چاہیے بلکہ وہ آج اِسی وقت اُن سب کو جو مسیح یسوع پر دُنیا کے ظلم و ستم اور دکھ تکلیف سہنے کے باوجود ایمان رکھتے ہیں، ابدی خوشی اور ابدی آرام دیتا ہے۔ تو پھر آئیے! کائنات کے ذرے ذرے سے جو وجودِ الٰہی کا زندہ ثبوت پیش کر رہے ہیں کچھ جاننے، سمجھنے اور سیکھنے کی کوشش کریں تاکہ دُنیا کے کونے کونے میں خدا کے جلال، شفقت و رحمت کا بیان کریں۔