Skip to content

سانپ

Posted in وجُودِ اِلٰہی

کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ سانپ عینک پہنے ہوئے پھِر رہا ہو؟ اور فرض کریں کہ اگر سانپ عینک پہن بھی لے تو وہ کیسے زمین پر رینگتے ہوئے ناک پر فِٹ رکھ سکتا ہے؟ ہاں، مگر یہ حقیقت ہے کہ سانپ واقعی عینک پہنتے ہیں بلکہ ہر ایک سانپ عینک پہنے ہوئے تھا اور آئندہ بھی پہنے رہے گا۔
یقینا ہم اُن عینکوں کی بات نہیں کر رہے جو شیشے یا پلاسٹک سے بنا کر مختلف ڈیزائن کے فریم میں لگا کر کان پر رکھی جاتی ہیں۔ ایسی عینکیں تو اِنسان پہنتے ہیں۔ مگر سانپ کی عینک بالکل صاف شفاف چھلکے سے اُن کی جِلد کا ایک حصہ ہوتی ہیں۔ سائنسدان اُن کو عینکیں یا lenses کہتے ہیں۔ یہ صاف شفاف چھلکے اُن کی آنکھوں پر اِتنی اچھی طرح سے لگے ہوتے ہیں کہ ایک عام مشاہدہ کرنے والا اُنہیں قطعی طور پر دیکھ نہیں سکتا۔
جب سانپ اپنی جِلد بدلنے کے مَرحلے میں ہوتا ہے تو پُرانی جِلد آنکھوں پر لگی ہوئی اِن عینکوں سمیت نئی جِلد بدلنے کے مرحلے میں ہوتا ہے تو پُرانی جِلد سے جو اُس کے نیچے ہوتی ہے، الگ ہو جاتی ہے، اور تیل جیسی رقِیق شہء اُس درمیانی جگہ کو بھر دیتی ہے۔ اِس موقعہ پر سانپ کی آنکھوں پر نیلی سفید جھلی ظاہر ہونے لگتی ہے جو سانپ کو اندھا کر دیتی ہے۔ سانپ کی آنکھوں پر یہ صاف شفاف سخت چِھلکے اُن کئی نمایاں پہلوئوں میں سے ایک ہیں جن کی مدد سے وہ عجیب اور انوکھے طریقہ سے آراستہ ہو کر اپنی جسمانی حدُود کے اندر زندگی گزارتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ سانپ اپنے جبڑے کی ہڈیوں اور اپنے پھیپھڑوں کے ذریعہ سُنتے ہیں، اُن کے کان باہر کی طرف نہیں ہوتے اور نہ ہی کوئی ایسا راستہ ہے جو اُن کے اندرونی کانوں تک جاتا ہو۔ لیکن اِس کی بجائے زمین کی تھرتھراہٹ جبڑے کی ہڈی کے ذریعہ کھوپڑی کی دوسری ہڈیوں اور پھر اندرونی کانوں میں مُنتقل ہو جاتی ہے۔ اِس طرح وہ ایک چھوٹی سی چوہیا کے پائوں کی ہلکی سے ہلکی سرسراہٹ کا بھی پتہ چلا لیتے ہیں۔ لیکن سانپ اپنے پھیپھڑوں میں ایک خاص قِسم کی نَس کے باعث ایسی آوازیں بھی آسانی سے سُن سکتے ہیں جو صرف ہَوا کے دُوش پر حرکت کرتی ہیں۔ تحقیق و تفتیش سے یہ ثابت ہوا ہے کہ سانپ دَس فٹ دُور تک آہستہ آہستہ باتیں کرتے ہوئے لوگوں کی آواز بھی سُن سکتے ہیں۔
خدا نے سانپ کو اپنی زندگی کے حالات کے مطابق گزر بسر کرنے کے لئے انوکھی قابلیت بخشی ہے۔ مثلاً سانپ کی ٹانگیں نہیں ہوتیں، وہ صرف رینگتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ رینگتا کیسے ہے؟ دراصل وہ اپنی تقریباً دو سَو جوڑی پسلیوں اور اُن کے ساتھ ہی پیٹ سے جڑی پلیٹوں کو آگے کی طرف حرکت دیتا ہے جیسے ہی پیٹ کے ساتھ جڑی ہوئی پلیٹیں زمین کو پکڑتی ہیں تو پچھلے حِصے کی پسلیاں اور پلیٹیں اُن کی جگہ لے لیتی ہیں۔ آگے حرکت کرنے اور زمین پکڑنے کا یہ سلسلہ سانپ کی پوری لمبائی یعنی منہ سے لے کر دُم تک دُہرایا جاتا ہے۔
اگر ہم کسی سانپ کا جِلد کے بغیر ہڈیوں پر مُشتمل ڈھانچہ آگے حرکت کرتے ہوئے دیکھیں تو ہمیں قدیم بحری جہازوں میں قطار در قطار مَلاحوں کا چپُو چلانا یاد آ جائے گا کہ وہ کِس طرح پیچھے اور آگے باقاعدہ ہم آہنگی اور اِتحاد کے ساتہ کام سَر انجام دیتے ہیں۔ ہدیوں کی یہ حرکت بظاہر بے ڈھنگی اور بُوجھل دِکھائی دیتی ہے مگر پھر بھی سانپ سطح زمین کو تیز رفتاری سے عبور کر سکتے ہیں اور کچھ درختوں پر بھی چڑھ جاتے ہیں۔
کیونکہ سانپ اپنی خوراک پکڑ کر منہ تک نہیں لا سکتے لہذا وہ خوراک کو ایک ہی ٹکڑے میں ہڑپ کر جاتے ہیں۔ کھانے کے اِس عمل کو ممکن بنانے کے لئے اُن کے دانت پیچھے سے مڑے ہوئے ہوتے ہیں، اور اُن کے جبڑے حِصوں میں تقسیم ہوتے ہیں تاکہ اپنے شکار کو بِلا رکاوٹ آگے دھکیل سکیں۔ اگر آپ نزدیک سے بغور دیکھیں کہ سانپ چوہے کو کیسے نگلتا ہے تو آپ کو نچلے جبڑے کا ایک حصہ آہستہ آہستہ آگے اُس کے جسم میں پیوست ہو کر اُسے جکڑتا ہوا نظر آئے گا۔ اِس کے بعد نچلے جبڑے کا دوسرا حصہ آگے بڑھے گا اور پھر اُوپر والے جبڑے آگے کی طرف حرکت شروع کر دیں گے اور یوں جبڑے سانپ کی خوراک پرچلتے ہوئے دِکھائی دیتے ہیں۔
بعض اوقات سانپ کا شکار اُس کے جبڑے کی چوڑائی سے کہیں زیادہ بڑا ہوتا ہے۔ لیکن اُس کے لئے کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ سانپ کا نچلا جبڑا اِس طرح بنایا گیا ہے کہ وہ اُوپر والے جبڑے اور درمیان سے، جہاں وہ ایک لچکدار پٹھے سے جڑا ہوتا ہے علیحدہ ہو جاتا ہے۔
سانپ اپنے منہ کے ذریعہ سانس لیتے ہیں اور یہ اُس وقت ایک مسئلہ بن سکتا ہے جب وہ پوری جفا کشی سے اپنی خوراک نِگل رہے ہوتے ہیں۔ لیکن اِس مشکل مرحلے کے دوران جب سانپ اپنے شکار کو حلق تک ٹھونس لیتا ہے تو اُس کی ہَوا کی نالی خود بخود اپنی باقاعدہ جگہ سے حلق میں نچلے جبڑے کے سامنے آگے کی طرف حرکت کرتی ہے تاکہ اِس عمل سے سانپ پورے طور پر سانس لے سکے۔ اِس سارے ماہرانہ اِنتظام کا کسی نہ کسی کو سہرا ضرور جانا چاہیے، جس نے سانپ کے لئے یہ ممکن بنایا کہ وہ رکاوٹوں کے باوجود اپنی زندگی بسر کر سکے۔
آپ کے خیال میں اِس ماہرانہ اِنتظام کا سہرا کِس کے سَر ہونا چاہیے؟ اِرتقائی نطریئے کے ماننے والے یہ سکھاتے ہیں کہ سانپ اِس کا خود ذمہ دار ہے۔ وہ یہی دعویٰ کرتے ہیں کہ ہر مخلوق نے اپنی موجودہ شکل و حالت اپنی طاقت، رفتار اور عقل سے حاصل کی ہے۔ ارتقا کے ماننے والوں کے نزدیک زندگی کا آغاز حادثاتی طور پر ہوا، یہ زُور آور کے کمزور پر برتری پانے سے وجود میں آیا۔ آئیے اِس نطریئے کا سانپ ہی کی مدد سے جائزہ لیں۔ سانپ جو عینکیں پہنتے ہیں وہ صاف شفاف چِھلکوں سے بنی ہوتی ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ کیسے وجود میں آئے؟ یاد رہے کہ اِرتقائی نظرئیے کے مطابق ایک طویل مدت گزرنے کے بعد نہائت معمولی تبدیلی واقع ہوتی ہے۔ اَب غور طلب بات یہ ہے کہ جب سے سانپ نے پیٹ کے بل رینگنا شروع کِیا ہے اُس وقت سے یقینا اُس کی آنکھوں کو حفاظت کی ضرورت ہے، اِس کے لئے وہ ہزاروں لاکھوں سال اِنتظار نہیں کر سکتا۔ یہ اُس کے خاص طور پر مشکل ہوتا کہ وہ آنکھوں پر پڑے ہوئے چِھلکوں کا اِنتظام مکمل ہونے تک ہزاروں سال انتظار کرتا رہے، اِس طویل عرصہ کے دوران وہ یقینا مکمل طور پر اندھا ہو جاتا۔
یہی دلیل دوسری خاصییتوں پر صادق آتی ہے یعنی کوئی بھی سانپ اِتنے لمبے عرصہ تک اِنتظار نہیں کر سکتا کہ اُس کے کان بتدریج پیدا ہوں کیونکہ اُس کی خوراک کا سارا دارو مدار کانوں پر ہے۔ اِسطرح صاف ظاہر ہوا کہ سانپ کے جبڑوں کا اِنتظام محض اِتفاقیہ نہیں اور نہ ہی وہ آہستہ آہستہ بتدریج وجود میں آیا ہے۔ اگر ہم سانپ کو مکروہ بھی سمجھتے ہیں تو پھر بھی ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ بڑی دانشمندی سے تخلیق کِیا گیا ہے۔ اُس کی خاصیتیں اِس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ تمام مخلوقات کسی اعلیٰ ترین حکمت والے کی تخلیق ہے۔ یہ حکمت والا بِلا شک و شبہ خدا ہی ہے۔ اُس کے پاک کلام میں لکھا ہے، ’’اَے خداوند! تیری صِفتیں کیسی بے شمار ہیں! تُو نے یہ سب کچھ حکمت سے بنایا۔‘‘ (زبور ۱۰۴:۲۴)
آئیے، کائنات کے ذرے ذرے سے جو قدم قدم پر وجودِ الٰہی کا زندہ ثبوت پیش کر رہے ہیں، کچھ سیکھنے اور جاننے کی کوشش کریں تاکہ خوشی و کامرانی سے اپنے تخلیق کار کی حمد و ستائش گا سکیں۔