Skip to content

مَگر مَچھ

Posted in وجُودِ اِلٰہی

ذرا مگر مچھ کے بارے میں سوچیئے، اور اُسے سورج کی گرمی میں دریا کے کنارے کیچڑ میں خاموشی سے پڑے ہوئے دیکھئے، کیسی بدصورت چیز ہے۔ اپنی گانٹھ دار کھال اور گنبد نُما آنکھوں کے ساتھ وہ کبھی بھی مقابلہء حسن جیت نہیں سکتا۔
ذرا اُس کے غیر معمولی منہ اور خونخوار دانتوں پر بھی غور فرمائیے اور ہاں، اُس کی دُم کو نہ بھولیئے، کیونکہ یہ اُس کا ایک خوفناک ہتھیار ہے۔ یقینا آپ کسی جوان مگرمچھ کو پالتو جانور کے طور پر اپنے گھر میں نہیں رکھیں گے۔ لیکن پھر بھی اُس کی زندگی کا مقصد ضرور ہے اور جیسا کہ ہم دیکھیں گے کہ اُس کو اپنے مقصدِ زندگی کے لئے بڑے انوکھے طریقہ سے ہر قابلیت عطا کی گئی ہے۔
ہم درحقیقت اُن پانچ خصُوصی خاصیتوں کی نشاندھی کر سکتے ہیں جو اِن دیو ہیکل جانوروں کو زندگی میں کامیاب بناتی ہیں، سب سے پہلے وہ خاصیت جس سے اُس کی آنکھیں، کان اور نتھنے اُس کے مُناسب مقام پر بنائے گئے ہیں، سب سے زیادہ نمایاں ہیں۔ یہ محض اِتفاقیہ بات نہیں ہے کہ یہ تین عضو یعنی آنکھیں، کان اور نتھنے مگرمچھ کے لمبے سَر کی بالائی سطح پر لگائے گئے ہیں۔ مگرمچھ جب پانی کی سطح کے نیچے تیرتا ہے تو یہ تینوں عضو سطح سے اُوپر ہوتے ہیں۔ اِس طرح وہ اپنے آپ کو بالکل شہتیر نُما گول لکڑی کی مانند جو پانی کی سطح پر تیر رہی ہو، ظاہر کر سکتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنے کسی بھی شکار کو پھاڑ کھانے کے لئے بالکل تیار ہے۔
دوسری خاصیت یہ کہ اُس کی دونوں آنکھوں دو کے بجائے تین پپوٹے ہوتے ہیں۔ تیسرا پپوٹا جِھلی نُما وہ پردہ ہے جو آنکھوں پر پڑے رہنے کے باوجود قوتِ بینائی نہیں رُوکتا۔ یہ پپوٹا اُوپر نیچے حرکت کرنے کی بجائے دائیں بائیں گاڑی کے wiper blades کی طرح آنکھوں کی صفائی کرتا ہے۔ لیکن صفائی کرنے کے علاوہ یہ پپوٹا، اُس وقت آنکھوں کی حفاظت کا کام سَرانجام دیتا ہے جب مگر مچھ پانی کی سطح کے نیچے تیر رہا ہوتا ہے۔ اِس کے علاوہ جب مگرمچھ خشکی پر لیٹتا ہے یا چل پھر رہا ہوتا ہے تو اِس تیسرے پپوٹے کی مدد سے وہ آنکھوں کو نمی پہنچاتا ہے۔
تیسری خاصیت مگرمچھ کے کانوں سے متعلق ہے۔ اُس کے کان پہنچاننا کافی مشکل ہوتا ہے کیونکہ وہ آنکھوں کے بالکل پیچھے نلی نُما جلد کی طرح ہوتے ہیں،۔کان کی اِن نلیوں کے ذریعہ ہر قِسم کی آواز کان کے اندرونی حصہ تک پہنچتی ہے۔ کان کی اِن نلیوں کے اُوپر ڈھکنے سے ہوتے ہیں جو پانی کی سطح کے نیچے جانے سے پہلے بند ہو جاتے ہیں تاکہ پانی مگرمچھ کے کانوں میں داخل نہ ہو سکے۔
چوتھی خاصیت مگرمچھ کے نتھنوں سے متعلق ہے جو یقینا قابلِ غور ہیں۔ یہ نہ صرف ہَوا کو اندر کھینچتے ہیں بلکہ پانی کی سطح پر یوں دِکھائی دیتے ہیں جیسے کسی شہتیرنُما بڑی لکڑی کا گانٹھ دار حصہ بہتا جا رہا ہے، لیکن اُن کے ساتھ خاص پٹھے ہوتے ہیں جو اُن کو پانی کے اندر بند کر دیتے ہیں تاکہ پانی داخل نہ ہو۔
اور اَب شائد آخر میں سب سے غیر معمولی خاصیت اُس کا معدہ یا معدے ہیں۔ مگرمچھ اپنی خوراک بالکل اُسی طرح چباتا ہے جس طرح دانتوں کے بغیر پرندے اپنے پوٹے میں۔ بے شک جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ مگرمچھ کے دانت ہوتے ہیں، لیکن اُن کی شکل چاقو نُما ہے جو صرف اپنا شکار پکڑنے اور ہلاک کرنے کا کام کرتے ہیں۔ اُس کے منہ میں خوراک پیسنے کے لئے کوئی خاص دانت نہیں ہیں، مگر اِس کی بجائے اُن کے معدے کا سامنے والا حصہ ایک طاقت ور پٹھے پر مُشتمل ہوتا ہے جو مگرمچھ کے لئے چبانے کی کا کام کرتا ہے۔ مگرمچھ جبلی طور پر پتھر نِگل جاتے ہیں تاکہ پتھروں کی تیز سطح خوراک کو ٹکڑے ٹکڑے کر نے کے قابل ہو سکے۔ یہ پتھر مگرمچھ کے پوٹے ہی میں رہتے ہیں۔
یہ سب کی سب خوبیاں اور خاصیتیں ایک مگرمچھ کو خطرناک اور مشاق شکاری جانور بنانے میں مدد دیتی ہیں۔ اِن خاصیتیوں کے بغیر ہم نے کبھی کسی ایسے جانور کے بارے میں شائد ہی سُنا ہو گا کیونکہ وہ اِن کے بغیر کئی صدیاں پیشتر ہی ہلاک ہو چُکا ہوتا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ مگرمچھ کے اندر یہ سب خوبیاں اور خاصیتیں کس طرح پیدا ہوئیں؟ کیا اُس نے خود وقت کے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ پیدا کِیا، جیسے کہ ارتقائی نظرئیے کے ماننے والے یقین رکھتے ہیں؟
کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ مگرمچھ جو رفتار میں اِتنا سُست اور وزن میں اِتنا بھاری ہے خشکی پر جا کے اپنا شکار پکڑ سکتا ہے؟ شکار پکڑنے کے لئے پانی اُس کی بہترین شکار گاہ ہے اور اُس کی ساری کی ساری خاصیتیں اِسی لئے ہیں کہ وہ پانی کے اندر اپنا شکار پکڑ سکے۔ یقینا مگرمچھ کی نسل نے سینکڑوں ہزاروں سال انتظار نہیں کِیا ہو گا تاکہ یہ سب خاصیتیں اُس میں بتدریج رُونما ہوں۔ بِلا شک و شبہ اُنہیں اِن خاصیتیوں کی روزِ اول ہی سے ضرورت تھی، اِسی لئے اُن کی یہ خاصیتیں اُن کی شروع دِن سے مِل گئیں ورنہ اُن کی نسل نیست و نابود ہو چکی ہوتی۔ بائبل مُقدس نے اِس حقیقت کی یوں تصدیق کی ہے، ’’اور خدا نے جنگلی جانوروں اور چوپایوں کو اُن کی جِنس کے موافق اور زمین کے رینگنے والے جانداروں کو اُن کی جِنس کے موافق بنایا اور خدا نے دیکھا کہ اچھا ہے۔‘‘ (پیدائش ۱:۲۵)
جب بائبل یہ کہتی ہے کہ ’’خدا نے دیکھا کہ اچھا ہے‘‘، اِس کا مطلب یہ ہے کہ یہ مخلوق مکمل طور پر تخلیق ہو چُکی ہے اور اپنا کام سَرانجام دینے کے قابل ہے۔ خدا نے اپنی تخلیق کو مکمل کر کے اُسے ہر طرف سے دیکھا کہ سب اچھا ہے۔ اُس نے دُنیا کو خوبصورت اور صاف سُتھرا بنایا، اِسی لئے ہر چیز میں ایک بھرپور مطابقت اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ جب خدا نے نئی نئی دُنیا بنائی تو نہ کہیں غصہ اور قہر و غضب برپا تھا، نہ کہیں حسد و لالچ تھا اور نہ کہیں موت،تباہی و بربادی تھی۔ اِن سب برائیوں نے دُنیا میں اُس وقت تباہی و ہلاکت پھیلا دی جب اِن کی وسیلہ سے گناہ دُنیا میں آیا۔ اِسی سبب سے بائبل مقدس کہتی ہے کہ، ’’…ساری مخلوقات مِل کر اَب تک کراہتی ہے اور دردِ زہ میں پڑی تڑپتی ہے۔‘‘ (رومیوں ۸:۲۲)
دُنیا نے بڑی بے چینی سے بائبل مقدس کے اِس وعدے کا اِنتظار کِیا کہ، ’’…بھیڑیا، بَرہ کے ساتھ رہے گا اور چیتا، بکری کے بچے کے ساتھ بیٹھے گا، اور بچھڑا اور شیر بچہ اور پَلا ہوا بیل مِل جُل کر رہیں گے اور ننھا بچہ اُن کی پیش روئی کرے گا۔ گائے اور ریچھنی مِل کر چریں گی، اُن کے بچے اِکٹھے بیٹھیں گے اور شیر ببر بیل کی طرح بھوسا کھائے گا اور دودھ پیتا بچہ سانپ کے بِل کے پاس کھیلے گا اور وہ لڑکا جس کا دودھ چھڑایا گیا ہو افعی کے بِل میں ہاتھ ڈالے گا۔ وہ میرے کوہِ مُقدس پر نہ ضرر پہنچائیں گے، نہ ہلاک کریں گے کیونکہ جس طرح سمندر پانی سے بھرا ہے اُسی طرح زمین خداوند کے عرفان سے معمور ہو گی۔‘‘ (یسعیاہ ۱۱:۹-۶)
ہم نہیں جانتے کہ اُن جلالی دِنوں میں مگرمچھ کیا کھاتے ہوں گے۔ لیکن اُن دِنوں بھی خدا اُن کی ضروریات کو لازمی پورا کرتا ہو گا، جیسے ہ آج کر رہا ہے اور ہمیشہ کرتا رہے گا۔ خدا نے جس طرح بنی نوع اِنسان کی جسمانی ضروریات کو پورا کِیا ہے اُسی طرح وہ ہماری رُوحانی ضروریات کو بھی اپنے بیٹے یسوع مسیح کے وسیلہ سے پورا کرنا چاہتا ہے۔ آئیے کائنات کے ذرے ذرے سے جو قدم قدم پر وجودِ الٰہی کا زندہ ثبوت پیش کر رہے ہیں، کچھ سیکھنے اور جاننے کی کوشش کریں۔