Skip to content

(مَسے(سخت تِل یا دانے

Posted in وجُودِ اِلٰہی

کون نہیں جانتا کہ مَسے کیا ہوتے ہیں؟ دراصل وہ چھوٹے چھوٹے بدنُما پھنسی پھوڑے جو ہماری جِلد پر رُونما ہوتے ہیں، مَسے کہلاتے ہیں۔ یہ اپنی اپنے آپ میں زندگی رکھتے ہیں۔ بنتے تو ہمارے ہی جسم سے ہیں لیکن اِن کا ہمارے جسم کے اعضا سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، حتیٰ کہ وہ اپنے خون کا ذخیرہ خود بڑھاتے ہیں اور آکسیجن اور غذائیت کے ذریعہ جسم کے شریانی نظام کی طرف رُجوع کرتے ہیں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ مَسوں کے رُونما ہونے کی وجوہات کیا ہیں؟ ہر شخص یہ بات نہیں جانتا، مگر پھر بھی کئی سالوں سے بہت سی بے بُنیاد قیاس آرائیاں جنم لے چُکی ہیں، جن میں ایک بہت ہی مشہور، مگر جھوٹ پر مبنی ہے۔ تصور کیا جاتا ہے کہ ایک خاص قِسم کے مینڈک کو چُھونے کی وجہ سے مَسے نکل آتے ہیں۔ یہ واقعہ حقیقت میں بڑا منطقی دِکھائی دیتا ہے کہ کچھ لڑکوں نے بغیر سوچے سمجھے مینڈک اُٹھا لئے تو اُن کے ہاتھوں پر مَسے نکل آئے۔ مگر سچائی کی آنکھ سے دیکھا جائے تو اِن دو واقعات کا آپس میں دُور کا بھی واسطہ نہیں۔
جدید طبی علم نے یہ دریافت کر لیا ہے کہ مَسے مُتعدی امراض کے جراثیم کے باعث بدن پر رُونما ہوتے ہیں۔ درحقیقت وہ کسی بیماری کی علامت ہوتے ہیں، اور مُتعدی امراض کے زہر کی وجہ سے ایک دوسرے کے ذریعہ منتقل ہوتے ہیں۔ لہذا کسی خاص قِسم کے مینڈک کو چُھونے کے باعث مَسے نہیں نکلتے بلکہ کسی دوسرے مَسے کو چُھونے اُس ہاتھ کے چُھونے سے جس نے پہلے مَسے کو چُھوأ ہو یا دروازے کے اُس ہینڈل یا دستہ کو چُھونے سے، جس کو پہلے سے مَسے والے ہاتھ نے پکڑا ہو مَسے پیدا ہوتے ہیں۔
اکثر اوقات مَسے بے ضرر ہوتے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خود بخود غائب ہو جاتے ہیں۔ لیکن جو مَسے پائوں کے نیچے پیدا ہوتے ہیں وہ تلوے کے مَسے کہلاتے ہیں۔ پائوں کے نیچے ہونے کی وجہ سے کافی تکلیف دے سکتے ہیں۔ لہذا اُنہیں ختم کرنے کے لئے باقاعدہ علاج کی ضرورت ہوتی ہے، ورنہ چلنا پھرنا مشکل ہو جائے گا۔
مَسوں کی حیرت انگیز بات یہ ہے کہ وہ مُتعدی بیماری کے اندیکھے جراثیم کے باعث پیدا ہوتے ہیں۔ مُتعدی بیماری کے جراثیم اِتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ کسی اعلیٰ ترین خوردبین سے نیچے رکھ کر ہی دیکھے جا سکتے ہیں۔ مُتعدی کا وبا کا جراثیم ایک بڑے فاسِد پھوڑے کو پیدا کرنے کا سبب کیسے بنتا ہے؟ اِس سے بھی حیرت انگیز بات یہ ہے کہ کِس طرح یہ مَسے کو اُس کے اپنے مُفت خور خونی نظام میں بڑھنے کا باعث ہے؟ اور یہ کہ مُتعدی وبا کا جراثیم اپنے منصوبے کے لئے بحیثیت عمارتی سامان کیا اِستعمال کرتا ہے؟ ہم آخری سوال کا جواب تو جانتے ہیں کہ مُتعدی امراض کا جراثیم حملہ شدہ جسم کے خلیے اِستمال کرتا ہے، کسی نہ کسی طرح یہ اِنسانی جسم یعنی ہمارے بدن کو مجبور کر دیتا ہے کہ وہ اپنے خلیوں پر سے قبضہ چھوڑ دیں۔ ہمارا جسم اُن خلیوں کی ضروریات پوری کرنے کے لئے ہر چیز لگاتار مُہیا کرتا ہے، مگر اَب وہ بے جا مداخلت کرنے والے مُتعدی وبا کے جراثیم کے قبضہ میں ہے۔
اگر آپ کو ریڈیو یا ٹیلی ویثرن پر پودے کے وَرموں کے بارے میں کوئی پروگرام سُننے اور دیکھنے کا اِتفاق ہوا ہو، جس میں خاص طور پر کیڑے مکوڑوں اور جراثیموں کے بارے میں بتایا جائے جو پودے کی نسل کو دوبارہ بڑھانے کے قابل ہوتے ہیں تو آپ ایک مُتوازی مشابہت محسوس کریں گے۔ ورمی مضبوط لکڑی والے درختوں کو مجبور کر دیتی ہیں کہ وہ اُن کی آئندہ نسلوں کے لئے آرام دہ جگہ تیار کریں۔ بِھڑوں کا لاروا یہ تکمیل جبراً اُس پیچیدہ کیمیاوی عمل کے ذریعہ کرتا ہے جو وہ اپنے اندر سے خارج کرتا ہے، اور جو پودوں کے اپنے کیمیاوی منصوبے پر غالب آ جاتا ہے۔ کچھ اِسی طرح کی صورتِ حال مَسوں کے بڑھتے ہوئے وقت محسوس ہوتی ہے لیکن اِس فرق کے ساتھ ساتھ کے بنی نوع اِنسان مظلوم ہیں اور مُتعدی امراض کے جراثیم ظالم۔
ممکن ہے کہ تحقیق کرنے والے یہ دریافت کر لیں کہ کوئی ملتی جلتی چیز اُس وقت واقع ہوتی ہے جب سرطان اِنسانی جسم میں بڑھتا ہے۔ خیر، اِس کا فیصلہ مُستقبل میں ہو گا۔
یہ کتنی حیران کن بات ہے کہ ایک نہائت ہی چھوٹی سی چیز اپنی بالا دستی ہمارے جسم کے اعضا پر قائم کر سکتی ہے تاکہ ہمارا بدن اُس کے خواہش کے مطابق رہنے کی جگہ تیار کرے۔ مُتعدی جراثیم یہ سب کچھ اپنی عقل سے نہیں کر سکتے کیونکہ جراثیم کی ساخت اِتنی سادہ ہوتی ہے کہ سائنسدان تصدیق نہیں کر سکتے کہ وہ جاندار ہے یابے جان۔ لیکن بِلاشبہ ایک حکمت و سمجھ اور عقل و دانش سے بھرپور ایک عظیم ہستی نے ایک ایسا نظام بنایا ہے جس کے سبب سے یہ مُتعدی جراثیم ہمارے حملہ شدہ بدن کے خلیے اپنے مقصد کے لئے اِستعمال کر سکتے ہیں۔ اور اِس طرح جب ہمیں ایک عام چھوٹی سی چیز کی حقیقت معلوم ہوتی ہے تو اُس کے پیچھے ہمیں نقشِ خدا نظر آتا ہے۔ اُس کی صنعت کاری کا ثبوت آسمان پر بڑے بڑے ستاروں سے لے کر، چھوٹے چھوٹے ذرات تک، غرض ہر جگہ موجود ہے۔ جیسا کہ بائبل مقدس میں لکھا ہے، ’’خداوند کے کام عظیم ہیں۔ جو اُن میں مسرور ہیں اُن کی تفتیش میں رہتے ہیں۔ اُس کے کام جلالی اور پُر حشمت ہیں اور اُس کی صداقت ابد تک قائم ہے۔ اُس نے اپنے عجائب کی یادگار قائم کی ہے… اُس نے قومون کی میراث اپنے لوگوں کو دے کر اپنے کاموں کا زور اُن کو دِکھایا۔‘‘ (زبور ۱۱۱:۲-۶)
آئیے! آج جب فضا میں بِکھرے ہوئے قدرت کے حسین رنگوں میں کھو جائیں تو تھوڑی دیر کے لئے سوچیں کہ کہیں زمین پر بِکھرا ہوا رنگ و خوشبو کا وہ جھِلمِلاتا ہوا جھرمٹ، کہیں بہتے جھرنوں کی وہ چھن چھن کرتی ہوئی جھنکار، کہیں مستی سے بل کھاتے ہوئے دریا کا وہ شاہانہ اندارز، کہیں رسیلے پھلوں سے لدی ہوئی ہری بھری ڈالیاں، کہیں رنگ برنگے پرندوں کی بھانت بھانت کی بولیاں، کہیں ٹھاٹھیں مارتا ہوا نیلگوں سمندر، اور کہیں برف کی چارد تانے اُونچے اُونچے پہاڑ، یہ سب کیا ہے؟ کیوں ہم فضا میں بِکھرے ہوئے قدرت کے حسین نظاروں کی چمک دمک و گونج محسوس نہیں کرتے، جو نہ جانے کب سے ہمارے بند کانوں سے ٹکرا کر خدا کی عظمت و جلال کا بیان کر رہے ہیں؟