Skip to content

زندگی کا توازن

Posted in وجُودِ اِلٰہی

ہم جتنا زیادہ اُن اسباب کو جاننے کی کوشش کریں گے جن کے تحت زندگی کا وجود ممکن ہے، اُتنا ہی حیران ہوں گے کہ زندگی کیسے وجود میں رہ سکتی ہے۔ مثال کے طور پر فطرت میں ایسے بہت سے نازک توازن ہیں جو زمین پر زندگی کے وجود کے لئے نہائت ضروری و لازم ہیں، جیسے کہ سورج سے ہماری زمین کا فاصلہ ایسا ہی ایک توازن ہے۔ اگر زمین سورج سے پانچ فیصد اَور نزدیک ہوتی یا محض ایک فیصد اَور دُور ہوتی تو سائنسدانوں کے اندازے کے مطابق زمین پر زندگی کا وجود ناممکن ہوتا۔ سائنسدانوں کے مطابق اگر دُنیا سورج کے زیادہ قریب ہوتی تو فِضا کی گہرائی بہت زیادہ ہوتی جس کی وجہ سے گرمی اِتنی بڑھ جاتی کہ زندگی کا وجود ناممکن ہو جاتا۔ درحقیقت سیارہ وینس جو دُنیا کے مقابلے میں سورج کے زیادہ قریب ہے، گرمی کی شدید لپیٹ میں آ جاتا، اور اِس کے برعکس اگر دُنیا سورج کے زیادہ دُور ہوتی تو سردی اِتنی بڑھ جاتی کہ سطحِ زمین پر برف ہی برف جمی رہتی۔
عام خیال یہ ہے کہ ہزاروں سال پہلے زمین ایک بڑی آزمائش سے گزر چُکی ہے، جب برفانی تودے زمین کے تقریباً ۱۰ فیصد حِصے پر پھیل گئے تھے۔ ایک مشہور سائنسی مُصف کے مطابق زمین اُس وقت ایک ڈگری کا دسواں حِصہ اَوسط درجہ کے نزدیک تھی جو زندگی کے وجود کو مُنجمند کر کے ختم کر دیتی۔
اِس کے علاوہ کئی اَور نازک توازن موجود ہیں۔ مثال کے طور پر اندازہ لگایا گیا ہے کہ اگر زمین کم رفتار سے یعنی ایک ہزار میل فی گھنٹہ کے حساب سے اپنے محور کے گرد گھومتی تو اُس کا ہر ایک حصہ یکے بعد دیگرے سورج کی گرمی کے سامنے زیادہ دیر تک رُکا رہتا اور پھر ہر ایک حصہ زیادہ دیر تک اِس گرمی سے محروم بھی رہتا اور روزانہ لگاتار جلتا اور مُنجمند ہوتا رہتا۔ نباتات ایسی حالت میں کبھی بھی نشوونما نہیں پا سکتے۔ اِس کے علاوہ اگر چاند زمین کے کچھ زیادہ قریب آ جاتا تو وہ کشِش جس سے سمندر کے پانی میں اُتار چڑھائو پیدا ہوتا ہے، دِن میں دو مرتبہ زمین کے براعظموں میں سیلاب اور طُغیانی کا سبب بن جاتی۔
ایک اَور نازک توازن ہماری فضا کی گہرائی ہے۔ اگر یہ گہرائی کم ہوتی تو بہت سے شہاب جو زمین پر مسلسل گولہ باری کرتے رہتے ہیں، جل کر سطح پر آ جاتے اور ہر طرف آگ لگا دیتے اور اِسطرح کسی بڑے نقصان کا باعث بنتے۔ لیکن فضا کی موجودہ گہرائی کے سبب سے شہاب کا بیشتر حصہ ہَوا میں بغیر نقصان پہنچائے جل جاتا۔
ایک اَور قِسم کی گولہ باری خلا کی طرف سے ہے جس کے بارے میں ہم زیادہ نہیں جانتے یعنی کائناتی شعاعوں کی گولہ باری۔ کائناتی شعاعیں نہ تو دِکھائی دیتی ہیں اور نہ ہی کسی مدد بغیر ہم اُنہیں محسوس کر سکتے ہیں۔ اگر فضا کے اُوپر والے حِصے میں گیس کی وہ باریک تہہ یعنی ozone شعاعوں کے مُہلک اثرات سے دُنیا کو محفوظ نہ کرتی تو شائد زندگی کا وجود ناممکن ہوتا۔
توازن کی ایک اَور علامت نباتاتی اور حیوانی زندگی کے درمیان حیرت انگیز تعلق یا رابطہ کی ہے جو ہَوا میں آکسیجن اور کاربن ڈائی آکسائڈ کی صحیح مقدار کو برقرار رکھتی ہے جبکہ سانس لیتے وقت حیوانات کاربن ڈائی آکسائڈ نکالتے ہیں۔ نباتات کو اپنی زندگی کا نظام برقرار رکھنے کے لئے کاربن ڈائی آکسائڈ کی ضرورت ہے اور اِس کے بدلے میں وہ آکسیجن خارج کرتے ہیں۔ اگر اِس عجیب و غریب طریقہ سے ہر قِسم کے مواد کی کمی پورا کرنا ممکن نہ ہوتا نہ نباتات اور نہ ہی حیوانات زیادہ دیر تک زندہ رہ سکتے۔ اِس کے علاوہ ہمارے سمندر کے پانی کی مقدار ہمارے ماحول میں آکسیجن اور کاربن ڈائی آکسائڈ کے بُنیادی توازن کو قائم رکھنے میں مدد دیتی ہے۔ یہ بھی اندازہ لگایا گیا ہے کہ اگر سمندر موجودہ گہرائی کی نسبت چند فٹ اَور گہرے ہوتے تو پانی کی زیادہ مقدار آکسیجن اور کاربن ڈائی آکسائڈ کو ہَوا سے اپنے اندر اِتنا جذب کر لیتی کہ زندگی کے وجود کے لئے ایک خطرہ پیدا ہو جاتا۔ اِس کے برعکس ہمارا اِنحصار سمندروں پر ہے، اِس لئے نہیں کہ وہ صرف بارش کے لئے بخارات کا ایک اہم ذریعہ ہیں بلکہ اِس لئے کہ یہ گرمی جمع کرنے اور بانٹنے کی اہلیت رکھتے ہیں، اور یوں سمندر دُنیا کے اِرد گرد کے موسمی حالات کی شدت کو ایک حد تک قائم قائم رکھتے ہیں۔
یہ نازک توازن کی چند ایک علامتیں ہیں جو زندگی کو زمین پر ممکن بناتی ہیں۔ لیکن کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ یہ سارے توازن خود بخود یعنی اِتفاقیہ طور پر وجود میں آئے؟ اِس سوال کا جواب ہمیں ایک مثال سے بخوبی مِل سکتا ہے۔ اگر کسی کباڑ خانہ میں ہوائی جہاز کے پُرزے پڑے ہوئے ہوں اور تُند و تیز ہَوا اِن پُرزوں کو اُڑا کر مکمل ہوائی جہاز میں تبدیل کر دے تو یقینا یہ ناممکن سی بات ہے۔ اِسی طرح وہ نازک توازن جن پر زندگی کا وجود مبنی ہے محض اِتفاقیہ نہیں ہو سکتے۔ مگر پھر بھی ہرشخص کو یہ آزادی حاصل ہے کہ وہ چاہے تو اِس قِسم کے اِتفاقیہ واقعہ پر یقین رکھے۔ لیکن ہم ایسے ثبوت پر بھروسہ رکھتے ہیں جو صاف طور پر واضح کرتا ہے کہ زندگی محض ایک حادثہ نہیں ہے بلکہ اُس خالق کے سوچے سمجھے منصوبے کی تخلیق ہے جو یقینی طور پر جانتا تھا کہ وہ کیا کر رہا ہے۔
اگر ہم اِس بات کا بغور جائزہ لیں اور اِس حقیقت کی مزید تحقیق کرنا چاہیں تو بائبل مقدس کی یہ آیت ہمارے لئے یقینا تقویت اور رہنمائی کا سبب ہو گی کہ، ’’چپ چاپ کھڑا رہ اور خدا کے حیرت انگیز کاموں پر غور کر۔‘‘ (ایوب ۳۷:۱۴) کیونکہ جب تک ہم حِلم و اِنکساری سے خدا کے عجیب اور انوکھے کاموں کو مکمل طور پر سمجھنے کی کوشِش نہیں کریں گے، اُس وقت تک بحیثیت مخلوق اپنے خالق کا جلال ظاہر نہیں کر سکیں گے۔ لہذا ضروری ہے کہ کائنات کے ذرے ذرے سے جو قدم قدم وجودِ الٰہی کا زندہ ثبوت پیش کر رہے ہیں، کچھ سیکھنے اور جاننے کی کوشِش کریں۔