Skip to content

مَوت کی خوبصُورتی

Posted in وجُودِ اِلٰہی

موسمِ خزاں میں پت جھڑ ایک خوشگوار دِن پہاڑیوں میں گِھرے ہوئے علاقہ میں کیا ہی درخشاں لگتا ہے۔ جب خزاں کی سُنہری سُرخی چوڑے پتوں والے درختوں کو سورج کی روشنی میں بھڑکتا ہوا شعلہ بنا دیتی ہے، ہم خوبصورت رنگوں کو دیکھ کر شادمانی، فرحت و راحت محسوس کرتے ہیں، اور دِلفریب مناظر کی رنگینیوں میں کھو جاتے ہیں، اُس وقت اگر یہ بھیانک سوچ ہمارے ذہن میں آ جائے کہ اِن خوبصورت رنگوں کی ظاہری شان و شوکت موت کی ایک گھڑی ہے۔ وہ پتے جو صرف ظاہرا شگفتہ دِکھائی دیتے ہیں حقیقت میں قوتِ حیات کے ساتھ پھوٹ رہے ہوتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ وہ مرنے کے عمل میں ہوتے ہیں، وہ جلد ہی مُرجھا جاتے اور تھوڑی دیر درخت کے ساتھ لٹکے رہنے کے بعد زمین پر گِر پڑتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ پہلے ہی اپنا کام چھوڑ چُکے ہوتے ہیں، بعد میں اپنی زندگی بخش نسوں کو درخت کی شاخ سے الگ کر لیتے ہیں۔
نشوونما پانے کے موسم کے دوران ہر ایک پتا اپنے اپنے کام میں مصروف ہوتا ہے۔ اُس کے خلیے سورج کی روشنی سے تواانائی لے کر جاندار پودے کے لئے غذائیت میں تبدیل کرتے ہیں۔ مگر موسمِ خزاں کے گھٹتے ہوئے دِن پتے میں ایک خاص تبدیلی لانا شروع کر دیتے ہیں۔ پتے پہلے اپنے اندر جمع شدہ کلورُوفل کے خلیے خالی کرتے ہیں، پہلے شاخ میں اور پھر درخت کے تنے میں خوراک اکٹھا کرتے ہیں۔ اِس عمل کے دوران خلیے کی ایک رکاوٹی تہہ پتوں کی ڈنڈی کے آخری حصے میں بنتی ہے، اور جب پتے گرتے ہیں تو یہ رکاوٹی تہہ سُوراخ کو بند کر دیتی ہے، اور اِس طرح درخت کا رَس نہیں رِستا۔ جب پتے اپنا سبز کلورُوفل کھو دیتے ہیں تو اُس کا اصلی رنگ نمودار ہوتا ہے۔ اکثر اوقات یہ رنگ زرد یا نارنجی ہوتا ہے۔ یہ رنگ موسمِ خزاں میں لکڑیوں میں پائے جاتے ہیں۔ دراصل پتے کی یہ رنگت مُستقل ایسی ہی رہتی ہے، مگر جب تک پتا قائم رہتا ہے، اُس پر کلورُوفل سبزے کا نقاب چڑھا رہتا ہے۔
بہرحال دوسرے پتوں میں مختلف شکلوں کی سُرخ رنگت کام ختم ہونے کے عمل کے دوران تیار ہو چُکی ہوتی ہے، ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اِس کی وُجوہات ابھی تک معلوم نہیں ہو سکیں۔ بہرکیف ہر حالت میں بیرونی طور پر شوخ رنگ کا ظاہر ہونا موت میں تبدیلی کی علامت ہے جبکہ اندرُونی طور پر اُس کی قبل از وقت آمد ہو چکی ہوتی ہے۔ یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ پتوں کی موت نہائت ضروری ہے تاکہ درخت، جھاڑی یا پودے کی زندگی جاری رہ سکے۔ اگر چوڑے پتوں والا پودا سارے موسمِ سرما میں سبز ہی رہنے کی کوشش کرے تو یہ خوراک کے ذخیرے کے بغیر ہونے کی وجہ سے بہت جلد شدید سردی کی لپیٹ میں آ جائے گا، جبکہ موسمِ سرما میں پودے کو قائم رہنے کے لئے نمی کی ضرورت ہے تاکہ موسمِ بہار میں زندگی شروع کر سکے۔ لہذا ثابت یہ ہوا کہ پتے بخوشی اپنی زندگی دوسروں کی بھلائی اور فلاح کے لئے قربان کر دیتے ہیں۔ اِس قربانی کی وجہ کیا ہے؟
اِس میں کوئی شک نہیں کہ ایک ماہرِ نباتات چند ایک یقینی کیمیائی اثرات کی طرف توجہ دے گا جو اِس ردِ عمل کا آغاز کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر پتے اپنی تباہی کا عمل اُس وقت شروع کر دیتے ہیں جب وہ نباتاتی مادہ یعنی پودے کے بڑھنے کا مادہ بنانا بند کر دیتے ہیں۔ یہ خیال بھی ہے کہ موسمی تبدیلی کے تحت دِنوں کا گھٹنا ایک سبب ہے جس کی وجہ سے پتے مادہ پیدا کرنا بند کر دیتے ہیں۔ مگر ہم یہ نہیں جانتے کہ یہ کیسے ترتیب دیا گیا ہے اور سب کچھ کیسے شروع ہوا۔ جیسے کہ قدرت کے بہت سارے بھید جن کا ہم وجودِ الٰہی کے اِس سلسلے میں جائزہ لے رہے ہیں، پتے کا گرنا شروع ہی سے ایک مکمل اور کامِل شکل تھی ورنہ پودے کی نسل بہت جلد نیست و نابود ہو چکی ہوتی،۔اگر پودا گرم علاقہ میں نشوونما پائے تو اِس کی قطعی ضرورت نہیں، لیکن اگر ضرورت نہیں تو پودا اِس کو اپنی طرف سے ایجاد کیوں کرے۔ لہذا یہ دو باتیں مدِنظر رکھ کر کہنا پڑتا ہے کہ پودوں نے یہ سلسلہ خود بخود ایجاد نہیں کیِا، اور نہ ہی اُن کے اندر اِتنی قابلیت ہے کہ اپنے طور پر اِس سارے سلسلے کو قائم رکھ سکیں۔
ایک بار پھر ہم خدا کی حیرت انگیز دستکاری کی گواہی دے رہے ہیں کیونکہ صرف وہی کامِل عجائب کی تخلیق کا خالق ہے، جنہیں ہم دریافت کرتے ہیں۔ درحقیقت ہم جتنا زیادہ گہرائی میں جائیں گے اُتنا ہی زیادہ ہم پر واضح ہو گا کہ وہ زندگی جو ہم اپنے چاروں طرف دیکھتے ہیں رفتہ رفتہ وجود میں نہیں آئی بلکہ ازل سے اِس کی شکل ایسے ہی ہے۔ مگر ہم پتوں کے خود بخود گرنے اور اُن کی موت کی خوبصورتی سے ایک اَور سبق سیکھتے ہیں۔ جسطرح ایک پتا پودے کی بہتری اور بھلائی کے لئے اپنے آپ کو قربان کر دیتا ہے، اُسی طرح ایک اعلیٰ ترین ہستی نے بھی دوسروں کی بہتری اور بھلائی کے لئے اپنی جان قربان کر دی تاکہ بنی نوع انسان ہلاکت و تباہی سے بچ جائیں۔ اور یہ بھی خدا کے ایک عجیب اِنتظام کے تحت ہوا، کہ اُس نے اپنے بندوں پر نگاہ کی اور دیکھا کہ سب گناہگار ہیں اور آسمانی جلال میں داخل ہونے کے قابل نہیں۔ اُس وقت ہمارے عِوض ایک قربانی کی ضرورت تھی تاکہ کوئی ہمارے گناہوں کا بوجھ اُٹھا لے۔ خدا کی نظر میں ایک ہی تھا جو گناہ سے بالکل پاک تھا۔ اگر وہ بھی بنی نوع اِنسان کی طرح گناہگار ہوتا تو یقینا اُس کے لئے بھی قربانی کی ضرورت ہوتی۔ پس خدا نے اپنے بیٹے یسوع المسیح کو دُنیا میں بے داغ قربانی کا برہ بنا کے بھیجا تاکہ اِنسان اُس کے وسیلہ سے اپنے گناہوں سے معافی پا کر خدا کی جلالی بادشاہی میں داخل ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ مسیح کی موت میں اِنتہا کی خوبصورتی ہے، اِس کے باوجود وہ صلیب پر اذیت و تکلیف کی حالت میں مُوأ۔ یہی ایک بڑا سبب ہے کہ بائبل مقدس میں لکھا ہے کہ، ’’بیٹے کو چُومو، ایسا نہ ہو کہ وہ قہر میں آئے اور تم راستہ میں ہلاک ہو جائو، کیونکہ اُس کا غضب جلد بھڑکنے کو ہے۔ مبارک ہیں وہ سب جن کا توکل اُس پر ہے۔‘‘ (زبور ۲:۱۲)