Skip to content

کبُوتر

Posted in وجُودِ اِلٰہی

ہم آپ سے ایک پہیلی بُوجھتے ہیں، بُوجھو تو جانیں۔ وہ کون سا پرندہ ہے جو اپنی ماں کا دُودھ پیتا ہے اور سینکڑوں میل دُور کسی بے نشان ویرانے میں اپنے گھر کا راستہ ڈھونڈ نکالتا ہے، اور جو ساری دُنیا میں امن کی علامت سمجھا جاتا ہے؟ اگر آپ کے ذہن میں کبوتر ہے تو آپ کا جواب بالکل درُست ہے۔
دراصل کبوتر کے خاندان میں کوئی ایک نسل بھی ایسی نہیں جو پورے طور پر اِس پہیلی کو حل کر سکے، لیکن مجموعی طور پر حل کر سکتے ہیں۔ فاختہ ساری دُنیا میں امن کی علامت ہے، بلکہ یہ کہنا بالکل مُناسب ہو گا کہ کبوتر اور فاختہ سب سے زیادہ امن پسند مخلوق ہیں۔ فاختہ اور کبوتر کا آپس میں بہت گہرا رشتہ ہے۔ اِن دونوں میں خاص بُنیادی فرق جِسامت کا ہے۔ کبوتروں کی وہ نسل جو جِسامت میں چھوٹی ہوتی ہے فاختہ کہلاتی ہے، اور جو بڑی ہوتی ہے وہ کبوتر کے نام سے جانی پہچانی جاتی ہے۔ سائنسی نقطۂ نگاہ سے اور غیر سائنسی نطریہ میں اِن کے بارے خاصا فرق ہے۔ ہاں، تو بات ہو رہی تھی پہیلی بُوجھنے کی۔ تو بتائیے کہ وہ کون سا پرندہ ہے جو اپنی ماں کا دُودھ پیتا ہے؟ اِس کا جواب یہ ہے، صرف کبوتر اور فاختہ۔ کبوتروں کی غیر معمولی خُصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ گھونسلے میں رہنے والے ماں باپ اپنے بچوں کو جو خوراک کِھلاتے ہیں وہ عام طور پر کبوتر کا دُودھ کہلاتی ہے۔
اصلی دُودھ صرف دُودھ دینے والے جانوروں سے ہی نکلتا ہے۔ کبوتر جو دُودھ نکالتے ہیں وہ اصلی نہیں ہوتا، لیکن آپ کبوتر کے بچے کو اِس بات پر قائل نہیں کر سکتے! کبوتر کا دُودھ درحقیقت کبوتر کے پوٹے کی بالائی تہہ سے نکلتا ہے۔ یہاں یہ جاننا دلچسپی کا باعث ہو گا کہ دونوں ماں باپ یعنی نَر و مادہ یہ دُودھ پیدا کرتے ہیں، اور بچے اُن کے گلے میں چُونچ ڈال کر یہ غذا دار رَس پیتے ہیں۔
یہ کبوتروں کی ایک اَور انوکھی خُصوصیت ہے کہ وہ اپنی قدرتی قابلیت و اہلیت سے اصلی مادے کو چُوستے ہیں ورنہ دوسرے تمام پرندے اپنی چُونچ کو سیال مادے سے بھر کر اپنے سَر کو اُوپر اُٹھاتے ہیں تاکہ سیال مادہ اچھی طرح اُن کے معدے میں چلا جائے۔ بچوں کو خوراک کِھلانے کے اِس طریقہ سے بے بال و پَر بچے اُس وقت تک اپنی پیشانی اور ٹھوڑی پر پَر نہیں نکالتے جب تک وہ بالغ خوراک یعنی بیج وغیرہ کھانا شروع نہ کر دیں، جس کا آغاز وہ پیدائش کے تقریباً دَس دِن بعد کرتے ہیں۔ یہ ایک مناسب طریقہ ہے۔ کیا کوئی تصور کر سکتا ہے کہ ماں اُس وقت تک کیا محسوس کرتی ہو گی جب اُس کا بچہ بھوکا ہونے کے سبب ہر دفعہ پَروں سمیت اپنی چُونچ اُس کے گلے میں ڈالے گا۔
ہماری پہیلی بُوجھنے کے بارے میں آخری اِشارہ گھر ڈھونڈنے کی قابلیت ہے جبکہ عام طور پر گھر تلاش کرنا یقینا ناممکن ہے۔ یہ ایک ایسی مافوق اُلفطرت قابلیت ہے جو قاصِد کبوتر حیرت انگیز طور پر رکھتے ہیں۔ یہ بار بار آزمایا جا چُکا ہے کہ قاصِد کبوتروں کو بند پنجروں میں اپنے گھر کے کبوتر خانے سے سینکڑوں میل دُور لے جایا گیا مگر وہ پھر بھی گمراہ نہیں ہوئے اور گھر پہنچ گئے۔
درحقیقت بارہویں صدی قبل از مسیح سے میدانِ جنگ میں قاصِد کبوتروں سے پیغام رسانی کا کام لیا جاتا رہا ہے۔ کبوتروں سے پیغام رسانی کا کام لینے کا طریقہ مِصری سپہ سالاروں نے وقت رائج کِیا۔ کبوتروں کی یہ قابلیت اُن پرندوں اور کیڑے مکوڑوں کی مانند نہیں جس کی بدولت وہ سورج یا ستاروں کی راہنمائی سے سفر کرتے ہیں۔ اگرچہ یہ بھی ایک حیرت انگیز کارِ عظیم ہے، مگر کبوتروں کو آسمان پر بنے بنائے راستوں کی پیروی کرنے سے کہیں زیادہ کرنا پڑتا ہے، جیسا کہ ہجرت کرنے والے جانور کرتے ہیں کیونکہ اُن کو اپنے ہر سفر کا آغاز مختلف سمت سے کرنا ہوتا ہے۔ اُن کے اِس بھید کو آج تک کوئی بھی نہیں سمجھ سکا۔ اگرچہ کبوتر یا فاختہ ایک شاندار پرندہ ہے مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ اُنہوں نے یہ فوق اُلفطرت قابلیت کِس طرح حاصل کی؟ یا تو اُنہوں نے ارتقائی طور پر نشوونما پائی یا لاثانی طور پر اُن کے خالق و مالک نے بنایا جو ابتدا سے جانتا تھا اور چاہتا تھا کہ یہ پرندہ کیسا ہونا چاہیے۔ یہ تصور کر لینا بہت ہی مشکل ہے کہ کبوتر کی ساری خصوصیات ارتقائی عمل کا نتیجہ ہیں۔ یقینا ہمارے لئے یہ نظریہ قابلِ قبول نہیں کیونکہ سوال یہ ہے کہ کبوتر کے دُودھ نے کیسے قدرتی طور پر نشوونما پائی؟ مزید حیرت ناک بات یہ ہے کہ کِس طرح کبوتر کے بچے اُس حالت میں زندہ رہے جبکہ صدیاں پہلے دُودھ ابھی اپنی تکمیل کے مراحل سے گزار رہا تھا؟ اور اِس کا فائدہ بھی کیا، جب تک وہ اپنے ماں باپ کے گلے سے دُودھ چُوسنے کی لیاقت و قابلیت پیدا نہ کر لیں؟ ہم میں سے کوئی پوچھ سکتا ہے کہ کبوتروں نے عام پرندوں کی خصوصیات کے برعکس یہ خاص ارتقائی سمت کیوں اختیار کی؟ اگر اُن کو ویسی ہی فرضی خصوصیات نسل در نسل ورثے میں ملی ہیں تو یقینا یہ بات بے معنی سی ہے۔ ذرا غور فرمایئے کہ وہ کونسی چیز اِسے پُرمعنی اور معقول و مناسب بناتی ہے؟ صرف کبوتر کی لاثانی خصوصیات ہی نہیں بلکہ زندگی کے سارے حیران کن رنگ جو ہم اپنی دُنیا میں دریافت کرتے ہیں کہ یہ سب ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہے۔
جتنا زیادہ نزدیک سے ہم کائنات کے رنگوں کو دیکھتے ہیں تو اُتنا ہی ہمیں ہر ایک مخلوق اور ہر ایک پودے میں زندگی اپنی تمام تر رعنائیوں اور رنگینیوں کے ساتھی نظر آتی ہے، جو مکمل طور پر اپنے حیاتیاتی مقام پر حاضر موجود ہے جیسے کوئی نایاب گوہر اپنی مخصوص جگہ پر جڑا ہوا ہے۔ یہ بالکل ویسی ہی بات ہے جس کا کلامِ مقدس کے اِس بیان میں اِشارہ کِیا گیا ہے۔ ’’اور خدا نے بڑے بڑے دریائی جانوروں اور ہر قِسم کے جاندار کو جو پانی سے بکثرت پیدا ہوئے تھے اُن کی جنس مُوافق اور ہر قِسم کے پرندوں کو اُن کی جنس کے مُوافق پیدا کِیا اور خدا نے دیکھا کہ اچھا ہے اور خدا نے اُن کو یہ کہہ کر برکت دی کہ پھلو اور بڑھو…‘‘ (پیدائش ۱:۲۲-۲۱)
فاختہ کی ایک اور خوبی جس کا ذکر کرنا ہم ضروری سمجھتے ہیں یہ ہے کہ فاختہ صرف امن و شانتی کی ترجمانی نہیں کرتی بلکہ خدا نے جو امن و شانتی کا سرچشمہ ہے اپنا رُوح القدس دُنیا میں بھیجا تاکہ اُس کے اعلیٰ الہامی منصوبے اور ارادے کی تکمیل کرے۔
غور فرمائیے کہ وہ فاختہ ہی تھی جو خدا کے پیارے اور نیک بندے حضرت نُوح کے پاس کشتی میں زیتون کی ایک پتی علامت کے طور پر لائی کہ پانی کا بڑا سیلاب ختم ہو گیا ہے۔ اور وہ بھی فاختہ ہی کی ایک شکل تھی جو مسیح یسوع پر اُن کے بپتسمہ پانے کی وقت خدا کی طرف سے بطور علامت اُتری کہ یہ میرا پیارا بیٹا ہے۔ بائبل مقدس میں لوقا کی انجیل ۳ باب اُس کی ۲۲ آیت میں نمایاں طور پر اشارہ ہے کہ رُوح القدس عارضی طور پر جسمانی رُوپ میں یعنی کبوتر کی مانند نازل ہوا۔ اُس وقت سے فاختہ خدا کی مخلوقات پر ایک نگہبان کی علامت کے طور پر ہے۔ بائبل مقدس میں صاف طور پر لکھا ہے کہ خدا نے اپنا پاک رُوح دُنیا میں بھیجا تاکہ وہ آ کر دُنیا کو گناہ اور راستبازی اور عدالت کے بارے میں قصوروار ٹھہرائے۔ (یوحنا ۱۶:۸) خدا کا پاک رُوح آج بھی دُنیا میں وہی کام سر انجام دے رہا ہے۔ وہ بنی نوع اِنسان کو دُنیا کے کونے کونے سے اپنے پاس بُلاتا ہے کہ وہ اپنی گناہوں سے توبہ کریں اور یسوع مسیح کو پکاریں تاکہ اُس کے وسیلے سے ابدی زندگی پائیں۔
جب کبھی آپ کبوتر اور فاختہ کو دیکھیں تو اِن تمام باتوں کے بارے میں ضرور سوچیں کہ کہیں ہم اپنے گناہوں کے سبب سے خدا سے دُور تو نہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ خدا کا پاک رُوح ہمارے دِل کے دروازے پر کھڑا کھٹکھٹا رہا ہے اور ہم آنکھیں اور کان بند کئے لاپرواہی سے مدھُوش پڑے سو رہے ہیں؟ آئیے! اپنے دِل کا بند دروازہ کھول کر خدا کے پاک رُوح کو کام کرنے کا موقع دیں۔