Skip to content

شکر خُور چِڑیا

Posted in وجُودِ اِلٰہی

فرض کریں کہ آپ کو یہ ذمہ داری سُونپی جائے کہ ایک ایسی مشین تیار کریں جو مُختلف خوبیوں سے آراستہ ہو۔ مثلاً وہ ہَوا میں آگے پیچھے، سیدھی اُوپر اور سیدھی نیچے ایک جیسے توازن سے بغیر کسی مشکل کے پرواز کر سکے۔ اُس مشین میں یہ خوبی بھی لازمی ہو کہ پرواز کے دوران ہَوا میں مُعلق یعنی ٹھہری رہے۔ یقینا ایسی مشین تیار کرنا ایک نہائت اہم ذمہ داری کا کام ہو گا، لیکن اگر جہاز بنانے والا ماہر ترین انجینئر ہو تو شائد وہ ایسی مشین تیار کر لے مگر حقیقت یہ ہے کہ آج تک کوئی بھی ایسا نہیں کر سکا۔
اگر اِس مشین کی تیاری میں ایک اَور خوبی کا اِضافہ کر دیا جائے کہ وہ ایندھن لئے بغیر مُسلسل پانچ سَو میل سے زیادہ بلندی پر پرواز کر سکے، اِن تمام شرائط کو مدِنظر رکھ کر یقینا کہنا پڑے گا کہ ایسی مشین تیار کرنا اِنسان کے بس کی بات نہیں۔ لیکن آپ یقین کریں کہ حقیقت میں ایسی حیرت انگیز مشین موجود ہے۔ اِس کا نام ہے شکر خُور چِڑیا۔ اِسے یہ نام اِس لئے دیا گیا ہے کیونکہ یہ اپنی لمبی چُونچ سے پھولوں کا میٹھا میٹھا رَس نکال کر کھاتی ہے۔ پرواز کے دوران شکر خُور چَڑیا اپنے پَر ایک سیکنڈ میں 70 بار پھڑپھڑاتی ہے جس کی وجہ سے بھِنبھناہٹ یا گونج پیدا ہوتی ہے۔ اِس لئے اِسے Humming Bird بھی کہتے ہیں۔
شکر خُور چِڑیوں کی 320 اَقسام ہیں جو مغرب کے نصف کرۂ ارض میں پائی جاتی ہیں۔ جنوبی امریکہ میں پائی جانے والی بڑی سے بڑی چِڑیا کا وزن دو تہائی اَونس یعنی 20 گرام ہوتا ہے۔ کیوبا اور بحر اُلکاہل پر واقع فرانس کے جزیرے Pinesکی چِڑیا جِسامت کے لحاظ سے شہد کی مکھی کے برابر ہوتی ہے۔ اپنی بھرپور جوانی میں اُس کا وزن ایک اَونس کا پندرہواں حصہ یعنی صرف دو گرام ہوتا ہے۔ اگر آپ 240 شکر خُور چِڑیاں ایک ہی ساتھ پکڑ کر اُن کا وزن کریں تو وہ بمشکل ایک پونڈ ہو گا۔ لیکن جِسامت میں چھوٹی ہونے کے باوجود کچھ شکر خُور چِڑیاں ہر موسمِ خزاں میں اور موسمِ بہار میں ہجرت کے دوران دو ہزار میل تک سفر کرتی ہیں۔
سُرخ گلے والی شکر خُور چِڑیاں اپنے گھونسلے جنوبی کینیڈا میں بناتی ہیں، اور موسمِ سرما کی آمد پر وسطی امریکہ میں Panama تک ہجرت کر کے جارا وہیں کاٹتی ہیں۔ دو ہزار میل کے اِس سفر کے دوران کچھ شکر خُور چڑیاں بغیر رُکے 500 میل لمبا خلیج میکسیکو پار کر لیتی ہیں۔ ذرا غور فرمائیے کہ ایک چھوٹی سی مخلوق کیلئے جس کی جِسامت بمشکل دو اِنچ ہو ایسا حیران کن سفر کرنا یقینا معجزانہ عمل ہے۔
شکر خُور چِڑیوں کی طاقت جس سے وہ اِتنی تیزی سے پرواز کرتی ہیں، پھولوں کے رَس سے حاصل ہوتی ہے۔ اور اِس کے بدلے وہ رَس چُوستے ہوئے پھولوں کے زیرے کو ایک پھول سے دوسرے پھول میں مُنتقل کر دیتی ہیں تاکہ پھولوں کی نشو و نما ہو سکے۔ یہ باہمی اِنتظام کائنات کے بانی کا ایک مثالی نشان ہے۔ کائنات کی اعلیٰ منصوبہ بندی سے ہمیں اَن گنت ایسے نمونے حاصل ہوتے ہیں جن سے نباتات اور حیوانات لاشعوری طور پر باہمی تعاون سے کام کرتے ہیں جس سے نہ صرف ایک بیش قیمت توازن برقرار رہتا ہے بلکہ ہر قِسم کی نباتات اور حیوانات اپنی نئی نسل کو جنم دیتے ہیں۔ پھر بھی اِس اِنتظام سے کوئی جِنس لامحدُود طور پر ترقی نہیں کر سکتی، لیکن کبھی کبھی اِس نظامِ کائنات میں بنی نوع اِنسان بغیر سُوچے سمجھے مُداخلت کرتا ہے جس کے سبب سے توازن بگڑ جاتا ہے اور وسیع تر ناگہانی آفات نازل ہوتی ہیں۔
ذرا سوچیئے، کہ کُل کائنات کا خالق و مالک یعنی مُحرک کون ہے؟ شائد کسی کے ذہن میں یہ خیال آتا ہو کہ اِن پودوں اور جانوروں نے خود بخود اپنی موجودہ شکل کا تخلیقی تصور کِیا۔ لیکن یہ صریحاً خام خیالی اور بے و قوفی ہے کیونکہ شکر خُور چِڑیا ہمارے سامنے اِس کا زندہ ثبوت ہے۔ اگر اِس کو باقاعدگی سے پھولوں کا رَس نہ مِلے تو یہ بھوک سے نڈھال ہو کر مَر جائے، لہذا اِسے موسمی تبدیلی کے باعث ہجرت کرنا پڑتی ہے۔ یقینا یہ ایسا ہرگز نہ کر سکتی اگر روزِ اول ہی سے اِس کے بدن کے سارے اَعضا پورے طور پر اِسی طرح کام نہ کر رہے ہوتے۔ ہم نے جہاں تک شکر خُور چَڑیا کے حیرت انگیز بھید جاننے کی تحقیق کی ہے تو ہمیں بِلا شک و شبہ اِس میں نقشِ خدا نظر آتا ہے۔ ایوب نبی کو یہ حقیقت آج سے چار ہزار سال پہلے معلوم تھی، جیسا کہ اُس نے ایوب کی کتاب میں فرمایا، ’’حیوانوں سے پوچھ اور وہ تجھے سکھائیں گے اور ہَوا کے پرندوں سے دریافت کر اور وہ تجھے بتائیں گے یا زمین سے بات کر اور وہ تجھے سکھائے گی اور سمندر کی مچھلیاں تجھ سے بیان کریں گی۔ کون نہیں جانتا کہ اِن سب باتوں میں خداوند ہی کا ہاتھ ہے جس نے یہ سب بنایا؟ اُسی کے ہاتھ میں ہر جاندار کی جان اور کُل بنی آدم کا دَم ہے۔‘‘ (ایوب ۱۲:۱۰-۷)
شکر خُور چِڑیاں ہمارے سامنے وجودِ الٰہی کا ایک بہترین نمونہ پیش کر کے ہماری سوچ کے منفی انداز یعنی ہمارے اِنکار کو اِقرار میں بدل رہی ہیں بلکہ کئی دوسرے حیوانات بھی ہیں جن کے رہن سہن اور روز مرہ زندگی سے قدم قدم پر عقل و دانش کی جھلک نظر آتی ہے، جو ہمیں سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے کہ واقعی کوئی اعلیٰ ہستی ایسی ہے جو مکمل ضابطے، ترتیب اور خوبصورتی کے ساتھ اِس کمزور اور ناتوان مخلوق میں اپنا نقش دِکھا رہی ہے۔ بائبل مقدس میں لکھا ہے، ’’چار ہیں جو زمین پر ناچیز ہیں لیکن بہت دانا ہیں۔ چیونٹیاں کمزور مخلوق ہیں تو بھی گرمی میں اپنے لئے خورک جمع رکھتی ہیں اور سافان اگرچہ ناتوان مخلوق ہیں تو بھی چٹانوں کے درمیان اپنے گھر بناتے ہیں اور ٹڈیاں جن کا کوئی بادشاہ نہیں تو بھی پَرے باندھ کر نکلتی ہیں اور چھپکلی جو اپنے ہاتھوں سے پکڑتی ہے اور تو بھی شاہی محلوں میں ہے۔‘‘ (امثال ۳۰:۲۸-۲۴)
جبکہ حیوانات اِسقدر سمجھداری، وفاداری اور احسان مندی سے کسی نہ کسی طور پر اپنے مالکِ حقیقی کا جلال ظاہر کر رہے ہیں تو کیا اشرف المخلوقات ہوتے ہوئے ہمارا یہ فرض نہیں بنتا کہ ہم بھی اپنے تخلیق کار کی مہربانی، شفقت اور سرفرازی کا شکربجا لاتے ہوئے کمال وفاداری سے اُس کی حمد و ستائش کریں؟ کیونکہ خدائے قادرِ مطلق کُل کائنات کا خالق و مالک ہی ہیں بلکہ بنی نوع اِنسان کے سانس کی ڈور بھی اُسی کے ہاتھ میں ہے، اُسی کے دَم قدم سے زندگی کا رشتہ قائم و دائم ہے، اور وہی ہمارا مرکز و محور ہے۔