Skip to content

کاغذ بنانے والی بِھڑیں

Posted in وجُودِ اِلٰہی

کاغذ ایک حیرت انگیز ایجاد ہے۔ ہزارہا کام ایسے ہیں جو کاغذ کے بغیر ممکن نہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ کہاں سے آیا؟ کِس سے اور کیسے ایجاد ہوا؟ تحقیق کرنے والے تقریباً دوسری صدی عیسوی کے آغاز سے کاغذ کی ایجاد کا صلہ چینیوں کو دیتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ وہ اہلِ چین کو کاغذ کا مُوجد قرار دیتے ہیں۔ لیکن ہم آپ کو یہ بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ چینی لوگ کاغذ کے پہلے مُوجد نہیں بلکہ وہ حقیقی مُوجدوں کے ہزاروں سال بعد دُنیا میں وارِد ہوئے۔ درحقیقت کاغذ کے اصلی مُوجد اِنسان نہیں بلکہ بِھڑیں تھیں۔
اِن بِھڑوں کی نسل ابھی تک کاغذ کے کاروبار میں مصرُوف ہے کیونکہ وہ ابھی تک اپنے چھتے باریک کاغذ سے بناتی ہیں۔ گرم علاقوں میں کچھ چھتے جن میں ہزاروں بِھڑیں ملِ کر رہتی ہیں کافی بڑے بن جاتے ہیں، مگر موسمِ سرما کے سرد ترین دِنوں میں صرف بِھڑوں کی ملِکہ ہی مدُھوشی کے عالم میں جاڑے کا یہ شدید موسم کاٹتی ہے، اور موسمِ بہار میں نئی بستیاں شروع کرنے کے لئے زندہ رہتی ہیں۔
بِھڑوں کی ملِکہ بیداری کے بعد سُوکھی ہوئی پُرانی لکڑی کا کوئی ٹکڑا تلاش کرتی ہے اور اپنے جبڑوں سے لکڑی کے ریشوں کو اُوپر سے کُھرچتی ہے، تب وہ محض منہ میں چبا کر کاغذ بناتی ہے۔ کاغذ بنانے کا یہ طریقہ نہائت چھوٹے پیمانے پر ہونے کے باوجود کاغذ بنانے والی جدید فیکڑوں سے مِلتا جُلتا ہے۔ بڑی فیکڑوں میں لکڑی کے ٹکڑوں کو تحلیل کر کے ریشوں کا مَلیدہ بنایا جاتا ہے، اور بعد میں اُنہیں ترتیب دے کر کاغذ کی شکل میں خشک کر لیا جاتا ہے۔
کچھ دیر ملِکہ اکیلی چھتے کے ضروری کام کاج کا آغاز کرتی ہے، لیکن چھتے کے دیگر کاموں میں دوسری ملِکہ بِھڑیں بھی اُس کی مدد کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اور اگر یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے تو پہلی اُن پر حاوی ہو جائے گی اور وہ دوسری ملِکہ بِھڑوں کو برداشت کر کے اُن کی مدد قبول کر لے گی۔ لیکن وہ بہت محنت مشقت سے کام کرنے والی ہے، اور خاص طور پر اِس بات پر توجہ دیتی ہے کہ سب ایک خادم کی طرح رہیں نہ کہ دُشمن و رقیب کی طرح۔ بعد میں اگر کوئی ساتھی ملِکہ چھتے میں انڈے دینے کی کوشش کرے تو پہلے آنے والی ملِکہ اُسے انڈے دینے سے لگاتار رُوکتی ہے یا اگر وہ انڈے پہلے ہی دے چکی ہے تو وہ اُنہیں کھا جائے گی، لیکن پہلے ضروری ہے کہ چھتے کی تعمیر کا کام مکمل ہو۔ ملِکہ یا تو اکیلی یا دوسری ملِکہ بِھڑوں کے مدد سے درخت کی کسی شاخ یا کھوکھلے حِصے میں چھتے کی بُنیاد رکھ کر کام کا آغاز کرتی ہے۔ اِس بُنیاد سے وہ نیچے کی طرف لارووُں کی اِبتدائی حالت محفوظ رکھنے کے لئے اپنے مُنہ کے کاغذ بنانے والے لُعاب سے خول بنانا شروع کرتی ہے۔ اور جب وہ آدھی درجن کے قریب خول بنا لیتی ہے تو ہر ایک خول میں انڈا دیتی ہے۔ اِن انڈوں سے کارکن بِھڑیں جنم لیتی ہیں جو چھتے کی تعمیر اور نئے پیدا ہونے والوں لارووُں کی پرورش کا کام سنبھال لیتی ہیں۔ پھر ملِکہ اُس کارکن فوج سے علیحدہ ہو جاتی ہے اور اپنی تمام تر توانائی انڈے دینے اور دوسری ملِکہ مکھیوں کو انڈے رُوک دینے پر لگاتی ہے۔
مُشاہدہ کرنے والوں نے تصدیق کی ہے کہ ایک چھتے کے ایک حصے میں کارکن بِھڑیں نئے خول تعمیر کرنے میں مصروف ہیں جبکہ دوسرے حصے میں دوسرے کارکن خول توڑنے میں لگے ہوئے ہیں۔ بظاہر یہ سب کچھ درہم برہم سا لگتا ہے اِس کا حتمی نتیجہ ہمیشہ ایک بہترین طریقہ سے بنے ہوئے چھتے کی صورت میں نکلتا ہے جو اِس قِسم کی بِھڑوں کے چھتا بنانے کے پسندیدہ تعمیری تصور کے عین مطابق ہے۔
کارکن بِھڑیں صرف جولائی کے آخر تک پیدا ہوتی ہیں۔ لیکن اگست کے شروع میں نَر بَھڑیں اور وہ بِھڑیں جو مُستقبل میں ملِکہ بنیں گی وجود میں آنے لگتی ہیں۔ اُس عرصہ میں جب موسمِ خزاں کی آمد پر دِن چھوٹے ہو جاتے ہیں تو رفتہ فتہ کارکن بِھڑوں کی پیدائش میں کمی اور نَر و مادہ بِھڑوں کی تعداد میں اِضافہ ہوتا جاتا ہے۔ اور آخرِ کار یہ سب کچھ بِھڑوں کی کالونی کے لئے موت کا سبب بنتا ہے، کیونکہ نَر اور مُستقبل کی ملِکہ بِھڑیں چھتے کی نشوونما میں کوئی خاطر خواہ حصہ نہیں لیتی بلکہ اُلٹا وہ اپنا پیٹ بھرنے کے لئے کارکن بِھڑوں سے خوراک منگوانے میں مصروف رہتی ہیں۔ جبکہ محض چند ہفتے تک زندہ رہنے والی کارکن بِھڑیں، بھوکے لارووُں، سُست نَر بَھڑوں اور ملِکہ بِھڑوں کو خوراک کِھلانے کی کوشش میں مزید پیچھے سے پیچھے رہ جاتی ہیں، اور وہ ناگزیر دِن آ جاتا ہے جب نَر بھِڑیں اور ملِکہ بِھڑیں اپنی بھوک مِٹانے کے لئے لاروے کھانا شروع کر دیتی ہیں اور اِس سے آگے چھتے کی قسمت میں تباہی ہی تباہی ہوتی ہے۔ لیکن چھتے کو کسی نہ کسی تباہ ہونا ہی ہے کیونکہ ویسے بھی ہلاکت خیز برفانی سردی کچھ زیادہ دُور نہیں ہے۔ اِس لئے زیادہ بہتر ہے کہ ہم چھتے کی تباہی کا ذمہ دار نَر اور مُستقبل کی ملِکہ بھِڑوں کو نہ ٹھہرائیں کیونکہ وہ تو پوری توجہ و لگن سے اپنی قوت میں اِضافہ کرنے اور اپنی زندگی کے اُصولوں پر کاربند رہنے کے لئے سَرگرمِ عمل ہیں۔ نَر بِھڑوں کو جنسی مِلاپ کرنا اور مَر جانا ہوتا ہے اور ملِکہ بَھڑوں کو چھتے کا دوبارہ آغاز کرنے کے لئے جاڑے کا موسم میں مدھوش پڑے رہنا ہوتا ہے۔ لہذا اِس طرح کاغذ بنانے والی بِھڑیں زندگی گزارتی ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ کاغذ بنانے والی بِھڑوں نے کاغذ ایجاد نہیں کِیا اور نہ ہی اُنہوں نے دریافت کیِا ہے بلکہ ایجاد اور دریافت دونوں کے لئے منطقی عمل کارفرما ہے۔ لیکن بِھڑیں شروع ہی سے بغیر سوچے سمجھے اِس کام کو کرتی چلی آ رہی ہیں۔ دراصل کاغذ بنانے کا کام اُن کی زندگی کا ایک لازمی حصہ ہے، جس سے وہ اُس وقت سے آراستہ ہیں جب اُنہوں نے دُنیا میں پہلا جنم لیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ وہ کیسے اور کِس کی بدولت اِس انوکھے اور عجیب کام کو کرتی ہیں؟ یہ سب کچھ معلوم کرنے کے لئے نہ صرف ہمیں کاغذ کے اَصل موجد بلکہ زمین کے اُوپر اور زمین کے نیچے کُل کائناب کے بنانے والے کا کھوج لگانا پڑے گا کہ وہ کون ہے؟ یقینا وہ صرف ایک ہی ہستی ہے جو اِس دُنیا کو لاجواب و بے مثال خوبصورتی میں تخلیق کرنے کی حکمت و قدرت رکھتی ہے یعنی خدائے قادرِ مطلق۔ خدا کے پیارے اور نیک بندے یرمیاہ نبی نے خدائے برحق کے بارے میں کیا خوب فرمایا ہے، ’’اُسی نے اپنی قدرت سے زمین کو بنایا۔ اُسی نے اپنی حکمت سے جہان کو قائم کِیا اور اپنی عقل سے آسمان کو تان دیا ہے۔‘‘ (یرمیاہ ۱۰:۱۲)
خدا کی پیدا کردہ ہزاروں لاکھوں مخلوقات میں سے کاغذ بنانے والی بِھڑیں بھی یرمیاہ نبی کی شہادت کے حق میں ٹھوس اور جامع گواہی پیش کرتی ہیں۔ خدا کا ایک اَور وفادار بندہ حضرت ایوب تاکید کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ہم فطرت کی شہادت پر توجہ دیں، اَے بندے، ’’حیوانوں سے پوچھ اور وہ تجھے سکھائیں گے اور ہَوا کے پرندوں سے دریافت کر اور وہ تجھے بتائیں گے یا زمین سے بات کر اور وہ تجھے سکھائے گی اور سمندر کی مچھلیاں تجھ سے بیان کریں گی۔ کون نہیں جانتا کہ اِن سب باتوں میں خداوند ہی کا ہاتھ ہے جس نے یہ سب بنایا؟‘‘ (ایوب ۱۲:۹-۷)
ایوب نبی اپنے بیان میں پُرسوچ جملے کا اِضافہ کرتے ہوئے کہتا ہے، ’’اُسی کے ہاتھ میں ہر جاندار کی جان اور کُل بنی آدم کا دَم ہے۔‘‘ (ایوب ۱۲:۱۰)
اِس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ خدا کے بارے میں اِتنا جان لینا ہی کافی نہیں کہ اُس نے ہمیں تخلیق کِیا ہے بلکہ ہمیں تسلیم کرنا ہے کہ وہ ہمارا پروردگار بھی ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے خالق کی ذات سے بھرپور محبت رکھتے ہوئے اُس کے ازلی ارادے کو جاننے اور پہچاننے کی کوشِش کریں تاکہ پوری سمجھ اور پورے اعتماد کے ساتھ اُس کے جلال کا بیان کر سکیں۔