Skip to content

خدا طلاق سے نفرت کرتا ہے

Posted in خُدا کی تلاش

ایک زمانہ تھا کہ لفظ طلاق سُنتے ہی لوگوں کی رُوح کانپ اُٹھتی تھی مگر آج طلاق ایک فیشن سا بن گیا ہے۔ جدِھر دیکھو طلاق نے گھروں کے گھر تباہ و برباد کر کے رکھ دئیے ہیں۔ طلاق محض میاں بیوی کے درمیان جُدائی و رسوائی اور اذیت و تکلیف ہی نہیں بلکہ سارا خاندان، خاص طور پر بچے طلاق کی تباہ کاریوں میں ذہنی و جسمانی طور پر زندگی بھر کے لئے سسکتے، تڑپتے، بکھرتے رہتے ہیں۔ مگر پھر بھی نہ جانے کیوں طلاق، طلاق کی منحوس آواز گھر گھر سُنائی دے رہی ہے۔ مسیحی تعلیم کے مطابق شادی میاں بیوی کے درمیان ایک معاہدہ یعنی کنٹریکٹ ہی نہیں بلکہ خدا کے سامنے ایک عہد ہے، مگر طلاق آسمانی عہد کے اِس تصور ہی کو ختم کردیتی ہے۔

چلئیے آئیے دیکھتے ہیں کہ خداوند خدا نے شادی کے پاکیزہ بندھن و عہد کی بُنیاد کہاں اور کیسے ڈالی۔ بائبل مُقدس میں پیدایش کی اِلہامی کتاب میں لکھا ہے، ’’اور خداوند خدا نے کہا کہ آدم کا اکیلا رہنا اچھا نہیں۔ مَیں اُس کے لئے ایک مددگار اُس کی مانند بنائوں گا۔ …اور خداوند خدا نے آدم پر گہری نیند بھیجی اور وہ سو گیا اور اُس نے اُس کی پسلیوں میں سے ایک کو نکال لیا اور اُس کی جگہ گوشت بھر دیا، اور خداوند خدا اُس پسلی سے جو اُس نے آدم میں سے نکالی تھی ایک عورت بنا کر اُسے آدم کے پاس لایا، اور آدم نے کہا کہ یہ تو اَب میری ہڈیوں میں سے ہڈی اور میرے گوشت میں سے گوشت ہے اِس لئے وہ ناری کہلائے گی کیونکہ وہ نر سے نکالی گئی۔ اِس واسطے مرد اپنے ماں باپ کو چھوڑے گا اور اپنی بیوی سے مِلا رہے گا اور وہ ایک تن ہوں گے۔‘‘ (پیدایش ۲:۱۸، ۲۱-۲۴)

اَب سوال یہ ہے کہ خدا نے آدم کی پسلی میں سے ناری یعنی ایک عورت کو ہی کیوں بنایا؟ خدا چاہتا تو نر کو پیدا کر سکتا تھا یا دو، تین، چار ناریاں بنا کر آدم کا مددگار بنا سکتا تھا مگر خدا نے ایک ناری یعنی حَوا کو پیدا کِیا جو آدم کی مددگار و جیون ساتھی ہو۔

آدم و حَوا یعنی پہلے میاں بیوی کے لئے خدا کا منصوبہ یہ تھا کہ وہ زندگی بھر ایک دوسرے کے ساتھ رہیں، خداوند خدا کی حمد و پرستش کریں، پھلیں، بڑھیں اور آسمانی برکتوں سے معمُور ہوں۔ ’’اور خدا نے اِنسان کو اپنی صُورت پر پیدا کِیا۔ خدا کی صُورت پر اُس کو پیدا کِیا۔ نر و ناری اُن کو پیدا کِیا، اور خدا نے اُن کو برکت دی اور کہا کہ پھلو اور بڑھو اور زمین کو معمُور و محکوم کرو اور سمندر کی مچھلیوں اور ہَوا کے پرندوں اور کُل جانوروں پر جو زمین پر چلتے ہیں اِختیار رکھو۔‘‘ (پیدایش ۱:۲۷-۲۸)

خدا کی یہی وہ برکت و عہد ہے جس میں مسیحی شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے ساتھ بندھے رہتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ جب تک ہم دونوں مِل کر خدا کے حکموں کے وفادار رہیں گے، خداوند میں پھلیں، بڑھیں اور معمُور ہوں گے اور جس دِن شیطان کے بہکاوے میں آ کر نافرمان بن گئے تو خدا کی برکتوں سے محرُوم اور خدا کے گھر سے خارج کر دیئے جائیں گے۔

بائبل مُقدس میں شوہر بیوی کے درمیان رشتے کو بڑی اہمیت دی گئی ہے بلکہ لکھا ہے کہ اچھی بیوی خداوند کی طرف سے ملتی ہے۔ ’’گھر اور مال تو باپ دادا سے مِیراث میں ملتے ہیں لیکن دانشمند بیوی خداوند سے ملتی ہے۔‘‘ (امثال ۱۹:۱۴) ایک مسیحی شوہر جانتا ہے کہ اُس کی بیوی خداوند کی طرف سے تحفہ ہے اور بیوی کے وسیلہ اُس پر فضل ہُوا ہے۔ خدا کے پاک زندہ اِلہامی کلام میں لکھا ہے، ’’جس کو بیوی ملی اُس نے تحفہ پایا اور اُس پر خداوند کا فضل ہُوا۔‘‘ (امثال ۱۸:۲۲) اور جب شوہر، بیوی کو خدا کی برکت اور بیوی، شوہر کو خداوند کے فضل کے رُوپ میں دیکھتی ہے تو دونوں ایک دوسرے سے جُدا ہونے کا تصور بھی نہیں کرتے۔ اِسی لئے خدا کے سچے پیروکار اپنے گھر میں طلاق کا لعنتی لفظ سُننا پسند نہیں کرتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ شیطان کا وہ شیطانی ہتھیار ہے جو ہنستے بستے گھر کو اُجاڑ کر رکھ دیتا ہے۔ باغِ عدن میں شیطان نے یہی کِیا اور آدم و حَوا کو خدا سے دُور کر دیا۔

مسیحی تعلیم کے مطابق میاں بیوی کا رشتہ پاک و مُقدس رشتہ ہے جس میں مکر، دُھوکا، جھوٹ، جھگڑا، لالچ، حسد و نفرت کا نام و نشان نہیں ہوتا۔ ایک اِیماندار مسیحی مرد اور عورت کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنے لئے مسیح میں اِیماندار مرد و عورت کا اِنتخاب کریں نہ کہ دُنیاوی مال و دولت اور ظاہری خوبصورتی کے لالچ میں بے اِیمان ساتھی چُنیں۔ خدا کے پاک اِلہامی کلام میں لکھا ہے، ’’بے اِیمانوں کے ساتھ ناہموار جُوئے میں نہ جُتو کیونکہ راستبازی اور بے دینی میں کیا میل جول؟ یا روشنی اور تاریکی میں کیا شراکت؟‘‘ (۲-کرنتھیوں ۶:۱۴) خداوند خدا نے سختی سے منع کِیا ہے کہ مسیحی غیر قوموں کے بے اِیمان جُوئے میں مت جُتیں یعنی اُن کے ساتھ ازدواجی رشتے داریاں قائم نہ کریں بلکہ اپنا جیون ساتھی چُننے کے لئے خداوند خدا سے دُعا اور مدد مانگیں۔ یقیناً وہ حکمت و برکت بخشے گا، اور گھر محبت و امن کی کرنوں سے روشن رہے گا جہاں شیطانی طلاق کا اندھیرا کبھی نہیں پڑے گا کیونکہ طلاق وہ فِتنہ ہے جس سے خدا کو نفرت ہے۔ ’’کیونکہ خداوند اِسرائیل کا خدا فرماتا ہے، مَیں طلاق سے بیزار ہوں اور اُس سے بھی جو اپنی بیوی پر ظلم کرتا ہے۔ ربُ الافواج فرماتا ہے، اِس لئے تم اپنے نفس سے خبردار رہو تاکہ بے وفائی نہ کرو۔‘‘ (ملاکی ۲:۱۶)

آپ نے غور فرمایا کہ خداوند خدا طلاق سے کتنا بیزار و نفرت کرتا ہے۔ خدا کا یہ فرمان ملاکی نبی کی اِلہامی کتاب کے ۲ باب کی ۱۶ آیت کا حوالہ ہے لیکن اگر آپ آیت ۱۳ کا مطالعہ کریں تو واضح ہو گا کہ خدا طلاق سے محض نفرت ہی نہیں کرتا بلکہ وہ شادی کے آسمانی عہد کو توڑنے والوں کی دُعا و بندگی، حمد و ستائش اور نذر و ہدیہ بھی قبول نہیں کرتا۔ ’’پھر تمہارے اعمال کے سبب سے خداوند کے مذبح پر آہ و نالہ اور آنسوئوں کی ایسی کثرت ہے کہ وہ نہ تمہارے ہدیہ کو دیکھے گا اور نہ تمہارے ہاتھ کی نذر کو خوشی سے قبول کرے گا، تو بھی تم کہتے ہو کہ سبب کیا ہے؟ سبب یہ ہے کہ خداوند تیرے اور تیری جوانی کی بیوی کے درمیان گواہ ہے۔ تُو نے اُس سے بے وفائی کی ہے اگرچہ وہ تیری رفیق اور منکُوحہ بیوی ہے، اور کیا اُس نے ایک ہی کو پیدا نہیں کِیا باوُجودیکہ اُس کے پاس اَور اَرواح موجود تھیں؟ پھر کیوں ایک ہی کو پیدا کِیا؟ اِس لئے کہ خدا ترس نسل پیدا ہو۔ پس تم اپنے نفس سے خبردار رہو اور کوئی اپنی جوانی کی بیوی سے بے وفائی نہ کرے۔‘‘ (ملاکی ۲:۱۳-۱۵)

کلامِ پاک کے اِس حوالہ سے صاف ظاہر ہُوا کہ خداوند خدا شوہر بیوی کے رشتے کا گواہ ہے کیونکہ دونوں نے خدا کے حضور زندگی بھر ساتھ رہنے کا عہد کِیا ہے، اور اگر کوئی خدا کے اِس عہد کو توڑے گا تو اُس کی دُعائیں، نذریں اور ہدیے خداوند قبول نہیں کرے گا۔

خدا طلاق سے اِس لئے بھی نفرت کرتا ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ اِیماندار شوہر بیوی کے ملاپ سے خدا ترس نسل پیدا ہو، اور یہ اُسی وقت ممکن ہو گا جب دونوں ماں باپ خدا کے عہد پر قائم رہیں گے اور اپنے بچوں کو بھی خدا کے عہد پر قائم رہنے کی تعلیم دیں گے۔

ہم آپ کو دعوے سے کہتے ہیں کہ اگر کوئی شوہر یا بیوی بائبل مُقدس کی تعلیم پر عمل کرے تو طلاق کی شیطانی گونج گھر میں کبھی سُنائی نہیں دے گی۔ ’’اَے بیویو! اپنے شوہروں کی ایسے تابع رہو جیسے خداوند کی، کیونکہ شوہر بیوی کا سَر ہے جیسے کہ مسیح کلیسیا کا سَر ہے اور وہ خود بدن کا بچانے والا ہے لیکن جیسے کلیسیا مسیح کے تابع ہے ویسے ہی بیویاں بھی ہر بات میں اپنے شوہروں کے تابع ہوں۔ اَے شوہرو! اپنی بیویوں سے محبت رکھو جیسے مسیح نے بھی کلیسیا سے محبت کر کے اپنے آپ کو اُس کے واسطے موت کے حوالہ کر دیا تاکہ اُس کو کلام کے ساتھ پانی سے غُسل دے کر اور صاف کر کے مُقدس بنائے۔ اور ایک اسی جلال والی کلیسیا بنا کر اپنے پاس حاضر کرے جس کے بدن میں داغ یا جُھری یا کوئی اَور ایسی چیز نہ ہو بلکہ پاک اور بے عیب ہو۔ اِسی طرح شوہروں کو لازم ہے کہ اپنی بیویوں سے اپنے بدن کی مانند محبت رکھیں۔ جو اپنی بیوی سے محبت رکھتا ہے وہ اپنے آپ سے محبت رکھتا ہے کیونکہ کبھی کسی نے اپنے جسم سے دُشمنی نہیں کی بلکہ اُس کو پالتا اور پرورش کرتا ہے جیسے کہ مسیح کلیسیا کو۔ اِس لئے کہ ہم اُس کے بدن کے عُضو ہیں۔ اِسی سبب سے آدمی باپ سے اور ماں سے جُدا ہو کر اپنی بیوی کے ساتھ رہے گا اور دونوں ایک جسم ہوں گے۔‘‘ (اِفسیوں ۵:۲۲-۳۱) ایک اَور مقام پر لکھا ہے، ’’اَے بیویو! جیسا خداوند میں مُناسب ہے اپنے شوہروں کے تابع رہو۔ اَے شوہرو! اپنی بیویوں سے محبت رکھو اور اُن سے تلخ مزاجی نہ کرو۔‘‘ (کلسُیوں ۳:۱۸-۱۹)

یہودی مذہبی راہنما خداوند یسوع مسیح کے دُشمن تھے، وہ اُس کے پاس آئے اور آزمانے کے لئے طلاق بارے سوال کِیا ’’…کیا ہر ایک سبب سے اپنی بیوی کو چھوڑ دینا روا ہے؟ اُس نے جواب میں کہا، کیا تم نے نہیں پڑھا کہ جس نے اُنہیں بنایا، اُس نے اِبتدا ہی سے اُنہیں مرد اور عورت بنا کر کہا کہ، اِس سبب سے مرد باپ سے اور ماں سے جُدا ہو کر اپنی بیوی کے ساتھ رہے گا اور وہ دونوں ایک جسم ہوں گے۔ پس وہ دو نہیں بلکہ ایک جسم ہیں۔ اِس لئے جِسے خدا نے جوڑا ہے اُسے آدمی جُدا نہ کرے۔ اُنہوں نے اُس سے کہا، پھر موسیٰ نے کیوں حکم دیا ہے کہ طلاقنامہ دے کر چھوڑ دی جائے؟ اُس نے اُن سے کہا کہ موسیٰ نے تمہاری سخت دِلی کے سبب سے تم کو اپنی بیویوں کو چھوڑ دینے کی اِجازت دی مگر اِبتدا سے ایسا نہ تھا۔ اور مَیں تم سے کہتا ہوں کہ جو کوئی اپنی بیوی کو حرامکاری کے سِوا کسی اَور سبب سے چھوڑ دے اور دوسری سے بیاہ کرے وہ زنا کرتا ہے اور جو کوئی چھوڑی ہوئی سے بیاہ کرے وہ بھی زنا کرتا ہے۔‘‘ (متی ۱۹:۳-۹)

کیا اَب بھی کوئی طلاق دینے کے بارے میں سوچے گا؟ کیا اَب بھی کوئی خدا کے عہد کو توڑ کر طلاق طلاق کرے گا؟ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اُس کی دُعائیں، مُناجاتیں، قربانیاں، ہدیئے خدا کبھی قبول نہیں کرے گا بلکہ آسمانی برکتوں کے دروازے اُس پر ہمیشہ کے لئے بند ہو جائیں گے۔

جب ہدیوں کی بات چلی ہے تو اکثر بہن بھائی یہ سوچتے ہیں کہ کیا خدا کو ہمارے ہدیوں کی ضرورت ہے؟ ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے خدا ہی کا دیا ہُوا ہے تو پھر اُسے واپس کیوں دیں؟ شائد اِسی لئے کچھ لوگ تنگ دِلی و بیزاری سے خدا کے گھر میں دیتے ہیں، اور کچھ خدا کے گھر میں خوش دِلی سے اپنے ہدئیے لاتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ خدا خوش دِل ہدیئے پسند کرتا ہے۔

جی ہاں، خدا خوش دِل ہدئیے پسند کرتا ہے، اور خدا کی یہی وہ خصوُصیت ہے جس کا ہم اپنے اگلے پروگرام میں ذِکر کریں گے، سُننا مت بُھولئیے گا۔