Skip to content

خدا شکرگزاری پسند کرتا ہے

Posted in خُدا کی تلاش

شکریہ، thanks یہ دو لفظ خواہ کسی بھی زبان میں ادا کیوں نہ کئے جائیں سُننے والے کو اچھا لگتا ہے، مگر لفظی شکرگزاری اور دِلی شکرگزاری میں بہت فرق ہے۔ پہلی رسمی طور پر اور دوسری عقیدت و خلوصِ دِل کے ساتھ ادا کی جاتی ہے۔ مگر کچھ لوگ ایسے بھی ہیں، خواہ اُن کے لئے کچھ بھی کریں وہ شکریہ ادا کرنا پسند ہی نہیں کرتے۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک ناگوار، غیرمہذب، غیر اخلاقی حرکت ہے۔ شائد اِسی لئے ہمارے ہاں ایسے شخص کو احسان فراموش یا ناشکرا کہا جاتا ہے۔ اِنسانوں کو تو چھوڑئیے، کچھ لوگ اپنے تخلیق کار کا بھی شکر ادا نہیں کرتے حالانکہ خدا کی ہماری زندگی پر اِتنی شفقتیں، مہربانیاں، رحمتیں، بخشِشیں اور احسانات ہیں کہ گِننا بھی چاہیں تو گِن نہیں سکتے۔ تو کیا ہمارا فرض نہیں کہ اپنے پروردگار کے سامنے جُھکیں اور شکرگزاری پیش کریں؟ خدا کا وفادار، چُنا ہُوا بندہ دائود نبی خداوند خدا کی حمد و تمجید کرتے ہوئے کہتا ہے، ’’مَیں اپنے پورے دِل سے خداوند کی شکرگزاری کروں گا۔ مَیں تیرے سب عجیب کاموں کا بیان کروں گا۔ مَیں تجھ میں خوشی منائوں گا اور مسرُور ہوں گا۔ اَے حق تعالیٰ! مَیں تیری ستائش کروں گا۔‘‘ (زبور ۹:۱-۲) اور پھر خوشی سے خداوند خدا کی عبادت و پرستِش کرتے ہوئے کہتا ہے، ـ’’اَے اہلِ زمین! سب خداوند کے حضُور خوشی کا نعرہ مارو۔ خوشی سے خداوند کی عبادت کرو، گاتے ہوئے اُس کے حضُور حاضر ہو۔ جان رکھو کہ خداوند ہی خدا ہے، اُسی نے ہم کو بنایا اور ہم اُسی کے ہیں، ہم اُس کے لوگ اور اُس کی چراگاہ کی بھیڑیں ہیں۔ شکرگزاری کرتے ہوئے اُس کے پھاٹکوں میں اور حمد کرتے ہوئے اُس کی بارگاہوں میں داخل ہو، اُس کا شکر کرو اور اُس کے نام کو مُبارک کہو کیونکہ خداوند بھلا ہے، اُس کی شفقت اَبدی ہے اور اُس کی وفاداری پُشت در پُشت رہتی ہے۔‘‘ (زبور ۱۰۰:۱-۵)

آپ نے دیکھا کہ خدا کا صادِق و سچا خادِم کِس عقیدت اور خلوصِ دِل سے خداوند خدا کے سامنے شکرگزاری پیش کرتا ہے ۔ لہذا ہمیں بھی چاہیے کہ خوشحالی و شادمانی میں ہی نہیں بلکہ دُکھوں اور تکلیفوں میں بھی خدا کی اَبدی برکتوں اور نعمتوں کا شکر بجا لائیں کیونکہ ہر اچھی نعمت ہمارے خداوند کی طرف سے ہے، وہ ہماری ساری بدکاریوں کو مِٹاتا، ہمیں تمام بیماریوں سے شِفا دیتا اور ہمارے سَر پر شفقت و رحمت کا تاج رکھتا ہے، تو پھر ہمارا فرض ہے کہ قدُوس خداوند کو مُبارک کہیں اور اُس کی کسی نعمت کو فراموش نہ کریں بلکہ خوشی کا نعرہ مارتے ہوئے اُس کے حضُور حاضر ہوں۔ ’’ اَے میری جان! خداوند کو مُبارک کہہ اور جو کچھ مجھ میں ہے اُس کے قدُوس نام کو مُبارک کہے۔ اَے میری جان! خداوند کو مُبارک کہہ اور اُس کی کسی نعمت کو فراموش نہ کر۔ وہ تیری ساری بدکاری کو بخشتا ہے، وہ تجھے تمام بیماریوں کو شِفا دیتا ہے۔ وہ تیری جان ہلاکت سے بچاتا ہے، وہ تیرے سَر پر شفقت و رحمت کا تاج رکھتا ہے۔ وہ تجھے عُمر بھر اچھی اچھی چیزوں سے آسُودہ کرتا ہے، تُو عقاب کی مانند اَز سرِ نَو جوان ہوتا ہے۔‘‘ (زبور ۱۰۳:۱-۵)

دُنیا میں ایسے بہت سے لوگ ہیں جو نہ تو دُکھ سُکھ کی گھڑی میں اور نہ ہی کھانے کی میز پر خدا کا شکر ادا کرتے اور برکت چاہتے ہیں۔ اُن کے سامنے میز پر طرح طرح کے کھانے چُنے ہوئے ہوں یا ہاتھ میں رُوکھی سُوکھی روٹی ہو، وہ نہیں جانتے کہ یہ خدا کی طرف سے برکت و نعمت ہے کیونکہ نہ جانے کتنے ہی لوگ ہیں جن کو یہ نعمت میسر نہیں، اور وہ بچوں کے ساتھ بُھوکے پیاسے سُو جاتے ہیں۔ ایوب نبی خدا کا نیک بندہ، بہت ہی مالدار آدمی تھا۔ جب شیطان نے اُس سے سب کچھ چھین لیا، یہاں تک کہ اُس کے بیٹے بیٹیاں بھی مَر گئے تو، ’’تب ایوب نے اُٹھ کر اپنا پیراہن چاک کِیا اور سَر مُنڈایا اور زمین پر گر کر سجدہ کِیا اور کہا، ننگا مَیں اپنی ماں کے پیٹ سے نکلا اور ننگا ہی واپس جائوں گا۔ خداوند نے دیا اور خداوند نے لے لیا۔ خداوند کا نام مُبارک ہو۔‘‘ (ایوب ۱:۲۰-۲۲) ہم تو ذرا سی تکلیف و پریشانی دیکھ کر خدا سے ناراض ہو جاتے اور دُعا شکر ہی بھول جاتے ہیں مگر ایوب نبی ایک صادِق و راستباز آدمی تھا جو ہر حال میں خدا کا شکر ادا کرتا تھا۔ شیطان نے اُس کے بدن کو سَر سے پائوں تک پھوڑوں سے بھر دیا تو اُس کی بیوی نے اُس پر طنز کے تِیر برساتے ہوئے کہا، ’’…کیا تُو اَب بھی اپنی راستی پر قائم رہے گا؟ خدا کی تکفیر کر اور مَر جا۔‘‘ (ایوب ۲:۹) ایوب نبی نے جب اپنی بیوی کی یہ بات سُنی تو جواب دیا، ’’…تُو نادان عورتوں کی سی باتیں کرتی ہے۔ کیا ہم خدا کے ہاتھ سے سُکھ پائیں اور دُکھ نہ پائیں؟ اِن سب باتوں میں ایوب نے اپنے لبوں سے خطا نہ کی۔‘‘ (ایوب ۲:۱۰) ایوب نبی پر مُصیبتوں اور تکلیفوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے مگر وہ خدا کی حمد و تمجید اور صبر و شکر کرنے سے باز نہ آیا، اور خدا نے بھی اُسے پہلے سے کہیں زیادہ برکت بخشی۔

معزز سامعین! یوں تو خدا نے بنی نوع اِنسان کو ازل سے ہر طرح کی نعمتوں اور برکتوں سے نوازا لیکن خدا کا ہماری زندگیوں پر ایک احسان ایسا ہے جس کا ہمیں ہر لمحہ شکر ادا کرنا چاہیے، اور وہ ہے اُس کا اِکلُوتا بیٹا یسوع مسیح۔ خدائے قادرِ مُطلق اپنا آسمانی جلال چھوڑ کر اپنے بیٹے کی صورت زمین پر آیا تاکہ ہم گناہگاروں کو موت کی سزا سے چُھڑا کر ہمیشہ کی زندگی میں لائے۔ ہم میں سے کتنے ہیں جو خدا کی اِس نعمتِ عظیم کے لئے شکر ادا کرتے ہیں؟ کتنے ہیں جن کو یہ احساس ہے کہ اگر خدا مسیح یسوع کی صورت دُنیا میں نہ آتا تو گناہوں کی آگ میں جل کر راکھ ہو چکے ہوتے۔ وہ دُنیا میں آیا، ہماری طرح اِنسان بن کر دُکھ سہتا رہا مگر پھر بھی ہر بات میں اپنے آسمانی باپ کا شکر ادا کرتا رہا حالانکہ وہ خود زمین و آسمان کا خالق و مالک تھا اور ہے، اُسی کے وسیلہ سے ہر چیز پیدا کی گئی خواہ زمین کی ہو یا آسمان کی۔ مسیح یسوع نے اپنی زمینی خدمت کے دوران دُعا اور حمد و شکر کو ہمیشہ ترجیح و اولیت دی۔ خواہ پانچ روٹیوں اور دو مچھلیوں پر آسمانی خدا کا شکر کرنا اور پانچ ہزار کے مجمع کو کِھلا کر سیر کرنا ہو یا چار دِن کے مُردہ لعزر کو زندہ کرنا۔ یہ کتنی عجیب اور انوکھی بات ہے کہ وہ جو خود زندگی کی روٹی تھا اور ہے، روز کی جسمانی روٹیوں پر اپنے آسمانی باپ کا شکر ادا کر رہا ہے۔ ’’یسوع نے کہا کہ لوگوں کو بٹھائو اور اُس جگہ بہت گھاس تھی۔ پس وہ مَرد جو تخمیناً پانچ ہزار تھے بیٹھ گئے۔ یسوع نے وہ روٹیاں لِیں اور شکر کر کے اُنہیں جو بیٹھے تھے بانٹ دِیں اور اِسی طرح مچھلیوں میں سے جس قدر چاہتے تھے بانٹ دیا۔ جب وہ سیر ہو چکے تو اُس نے اپنے شاگردوں سے کہا کہ بچے ہوئے ٹکڑوں کو جمع کرو تاکہ کچھ ضائع نہ ہو۔ چنانچہ اُنہوں نے جمع کِیا اور جَو کی پانچ روٹیوں کے ٹکڑوں سے جو کھانے والوں سے بچ رہے تھے بارہ ٹوکریاں بھرِیں۔ پس جو معجزہ اُس نے دِکھایا وہ لوگ اُسے دیکھ کر کہنے لگے، جو نبی دُنیا میں آنے والا تھا فی الحقیقت یہی ہے۔‘‘ (یوحنا ۶:۱۰-۱۴) کیا مسیح خداوند کو کسی کا شکر ادا کرنے کی ضرورت تھی وہ تو خود خدا تھا اور ہے، مگر پھر بھی اُس نے وفاداری و تابعداری سے اپنے آسمانی باپ کی حمد و شکر کرنا ضروری سمجھا جس کے وسیلہ وہ اپنا جلال چھوڑ کر بیٹے کی صورت زمین پر آیا تھا۔

اَب ذرا غور فرمائیے کہ وہ جو خود زندگی کا سَرچشمہ ہے، جس کے ایک حکم سے سمندری طوفان تھم جاتے اور پہاڑ ہِل جاتے تھے، جب مُردہ لعزر کی قبر پر آیا تو کِس وفاداری کے ساتھ اپنے آسمانی باپ کا شکر ادا کرتا ہے۔ وہ قبر ایک غار تھا، جس پر پتھر رکھا ہُوا تھا اور وہاں لوگوں کی ایک بڑی بھِیڑ جمع تھی۔ ’’یسوع نے کہا، پتھر کو ہٹائو۔ اُس مَرے ہوئے شخص کی بہن مرتھا نے اُس سے کہا، اَے خداوند! اُس میں سے تو اَب بدبُو آتی ہے کیونکہ اُسے چار دِن ہو گئے۔ یسوع نے اُس سے کہا، کیا مَیں نے تجھ سے کہا نہ تھا کہ اگر تُو اِیمان لائے گی تو خدا کا جلال دیکھے گی؟ پس اُنہوں نے اُس پتھر کو ہٹا دیا۔ پھر یسوع نے آنکھیں اُٹھا کر کہا اَے باپ، مَیں تیرا شکر کرتا ہوں کہ تُو نے میری سُن لی اور مجھے تو معلوم تھا کہ تُو ہمیشہ میری سُنتا ہے مگر اِن لوگوں کے باعث جو آس پاس کھڑے ہیں مَیں نے کہا تاکہ وہ اِیمان لائیں کہ تُو ہی نے مجھے بھیجا ہے۔ اور یہ کہہ کر اُس نے بلند آواز سے پُکارا کہ اَے لعزر نکل آ۔ جو مَر گیا تھا وہ کفن سے ہاتھ پائوں بندھے ہوئے نکل آیا اور اُس کا چہرہ رُومال سے لپٹا ہُوا تھا۔ یسوع نے اُن سے کہا، اُسے کھول کر جانے دو۔‘‘ (یوحنا ۱۱:۳۹-۴۴)

اِسی طرح مسیح خداوند جو خود حکمت و دانش کا سَرچشمہ ہے، جس کی باتیں سُن کر بڑے بڑے یہودی شرع کے عالم دنگ رہ جاتے تھے، ہم جیسے کم عقل اور ناسمجھ اِنسانوں کو حکمت و دانش دیئے جانے پر اپنے آسمانی باپ کا شکر ادا کرتا ہے، ’’…یسوع نے کہا، اَے باپ آسمان اور زمین کے خداوند مَیں تیری حمد کرتا ہوں کہ تُو نے یہ باتیں دانائوں اور عقلمندوں سے چھپیائِیں اور بچوں پر ظاہر کِیں۔‘‘ (متی ۱۱:۲۵)

اور جب مسیح یسوع کو صلیب دیئے جانے کا وقت قریب آیا تو اُنہوں نے اپنے شاگردوں کے ساتھ آخری کھانا کھایا، اور کھانے کی میز پر اپنے آسمانی باپ کا دُکھ کی گھڑی میں بھی شکر ادا کِیا، ’’پھر اُس نے پیالہ لے کر شکر کِیا اور کہا کہ اِس کو لے کر آپس میں بانٹ لو کیونکہ مَیں تم سے کہتا ہوں کہ انگور کا شِیرہ اَب سے کبھی نہ پیئوں گا جب تک خدا کی بادشاہی نہ آ لے۔ پھر اُس نے روٹی لی اور شکر کر کے توڑی اور یہ کہہ کر اُن کو دی کہ یہ میرا بدن ہے جو تمہارے واسطے دیا جاتا ہے۔ میری یادگاری کے لئے یہی کِیا کرو۔‘‘ (لُوقا ۲۲:۱۷-۱۹)

اَب سوال یہ ہے کہ اگر خداوند یسوع مسیح ہر بات میں اپنے آسمانی باپ (یعنی خدا) کا شکر ادا کرتے تھے تو کیا ہمارا فرض نہیں کہ صادِق و راستباز بن کر دُکھ سُکھ اور غم خوشی میں خداوند خدا کا شکر بجا لائیں؟ یقین کیجئے جب خدا صادِقوں کو وفاداری سے حمد و شکر کرتے دیکھتا ہے تو اپنے صادِقوں کو شادمان کرتا ہے۔

جی ہاں، خدا صادِقوں کو شادمان کرتا ہے، اور خدا کی یہی وہ خصُوصیت ہے جس کا ہم اپنے اگلے پروگرام میں ذِکر کریں گے، سُننا مت بُھولئیے گا۔