Skip to content

خدا ابدی خدا ہے

Posted in خُدا کی تلاش

یہ دُنیا ہمارا ابدی گھر نہیں بلکہ آخری منزل کی طرف جانے کا ایک Layoverیعنی عارضی پڑائو یا قیام ہے۔ گو ہم میں سے اکثر یہی سمجھتے ہیں کہ بس یہی ہمارا آخری ٹھکانہ ہے، اِس لئے جِتنا مال و دولت جمع کرنا ہے کر لو اور پھر بیٹھ کر مزے سے کھائو اور موجیں اڑائو۔ مگر نادان اِنسان یہ نہیں جانتا کہ اِس دُنیا کی شان و شوکت اور رعنائی و شہنائی عارضی ہے، بہت جلد یہ رنگ برنگ میلہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گا لیکن اِس کائنات کا خالق و مالک جو ابدی ہے، ازل سے اَبد تک قائم و دائم رہے گا۔

پاک اِلہامی کلام میں لکھا ہے، ’’اَے خداوند! تُو نے اِبتدا میں زمین کی نیو ڈالی اور آسمان تیرے ہاتھ کی کاریگری ہیں۔ وہ نیست ہو جائیں گے مگر تُو باقی رہے گا، اور وہ سب پوشاک کی مانند پُرانے ہو جائیں گے، تُو اُنہیں چادر کی طرح لپیٹے گا اور وہ پوشاک کی طرح بدل جائیں گے مگر تُو وہی ہے اور تیرے برس ختم نہ ہوں گے۔‘‘ (عبرانیوں ۱:۱۰-۱۲) اور خدا کا عظیم بندہ موسیٰ نبی اپنے ابدی خدا کی یوں حمد و تمجید کرتا ہے، ’’یا رب! پُشت در پُشت، تُو ہی ہماری پناہ گاہ رہا ہے۔ اِس سے پیشتر کہ پہاڑ پیدا ہوئے یا زمین اور دُنیا کو تُو نے بنایا، اَزل سے اَبد تک تُو ہی خدا ہے۔‘‘ (زبور ۹۰:۱-۲) اور خداوند خدا نے اپنے ابدی ہونے کے بارے بائبل مُقدس کی آخری اِلہامی کتاب مُکاشفہ میں خود فرمایا، ’’خداوند خدا جو ہے اور جو تھا اور جو آنے والا ہے یعنی قادرِمُطلق فرماتا ہے کہ مَیں الفا اور اومیگا ہوں۔‘‘ (مکاشفہ ۱:۸)

مطلب یہ ہُوا کہ خداوند خدا زمین و آسمان کی تخلیق سے پہلے موجود تھا اور اِس کا واضح ثبوت ہمیں بائبل مُقدس کی پہلی اِلہامی کتاب پیدایش کے پہلے باب کی پہلی آیت سے ملتا ہے۔ ’’خدا نے اِبتدا میں زمین و آسمان کو پیدا کِیا، اور زمین ویران اور سُنسان تھی اور گہرائو کے اُوپر اندھیرا تھا اور خدا کی رُوح پانی کی سطح پر جُنبش کرتی تھی۔‘‘ (پیدایش ۱:۱-۲)

گر آپ کا ایمان زندہ خدا کے زندہ کلام پر ہے تو پھر شک کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ خدا ابدی خدا ہے۔ پیدایش کی کتاب سے لے کر مُکاشفہ کی بابرکت کتاب تک خدا کے لوگوں کا اپنے ابدی خدا سے بہت گہرا رشتہ و تعلق رہا ہے۔ بادشاہوں سے لے کر نبیوں تک، ماہی گیروں سے لے کر محصُول لینے والوں تک، ظالم و بے رحم رُومیوں سے لے کر ریاکار و مُنافق یہووی مذہبی راہنمائوں تک، جنگلوں میں بھیڑ بکریاں چراتے نوجوان دائود سے لے کر بااِیمان بوڑھے ابرہام تک، اِن سب کا ابدی خدا کے ساتھ آمنا سامنا رہا۔ ظاہر ہے کہ کچھ نے خداوند خدا کی اَبدیت کو پہچان کر دِل و جان سے قبول کِیا اور کچھ نے اپنی ہٹ دھرمی و گھمنڈ کے سبب رَد کر دیا۔ چلئیے آئیے دیکھتے ہیں کہ خدا کے اِیماندار بندوں نے ابدی خدا کو پہچان کر کیسے حمد و تمجید کی، ’’تب ابرہام نے بیرسبع میں جھائو کا یک درخت لگایا اور وہاں اُس نے خداوند سے جو ابدی خدا ہے دُعا کی۔‘‘ (پیدایش ۲۱:۳۳) دائود نبی خداوند خدا کے حضور یوں ہدیہٴ تشکر پیش کرتا ہے، ’’خداوند اِسرائیل کا خدا ازل سے ابد تک مُبارک ہو اور ساری قوم کہے، آمین۔ خداوند کی حمد کرو۔‘‘ (زبور ۱۰۶:۴۸) یسعیاہ نبی ابدی خدا کے بارے میں کہتا ہے، ’’کیونکہ وہ جو عالی اور بلند ہے اور ابدالآباد تک قائم ہے جس کا نام قدُوس ہے، یوں فرماتا ہے کہ مَیں بلند اور مُقدس مقام میں رہتا ہوں اور اُس کے ساتھ بھی جو شکستہ دِل اور فروتن ہے تاکہ فروتنوں کی رُوح کو زندہ کروں اور شکستہ دِلوں کو حیات بخشوں۔‘‘ (یسعیاہ ۵۷:۱۵) خدا کا ایک اَور نیک و پیارا بندہ پولس رسول ابدی خدا کی یوں حمد و ستائش کرتا ہے، ’’اَب ازلی بادشاہ یعنی غیرفانی نادِیدہ واحد خدا کی عزت اور تمجید ابدالآباد ہوتی رہے۔آمین۔‘‘ (۱-تیمتھیس ۱:۱۷) اور بائبل مُقدس کی آخری اِلہامی کتاب مُکاشفہ میں خدا کا نیک و راستباز بندہ یوحنا، اِلہامی رُویا میں خداوند خدا کی اَبدیت کو دیکھتے ہوئے یوں شہادت و گواہی پیش کرتا ہے، ’’پھر مَیں نے ایک اَور فرشتہ کو آسمان کے بِیچ میں اُڑتے ہوئے دیکھا جس کے پاس زمین کے رہنے والوں کی ہر قوم اور قبیلہ اور اہلِ زبان اور اُمت کے سُنانے کے لئے اَبدی خوشخبری تھی، اور اُس نے بڑی آواز سے کہا کہ خدا سے ڈرو اور اُس کی تمجید کرو کیونکہ اُس کی عدالت کا وقت آ پہنچا ہے اور اُس کی عبادت کرو جس نے آسمان اور زمین اور سمندر اور پانی کے چشمے پیدا کِئے۔‘‘ (مُکاشفہ ۱۴:۶-۷)

خدا کے اِن نیک، راستباز و اِیماندار بندوں کی گواہی و شہادت اِس بات کا ٹھوس ثبوت ہے کہ خدائے قادرِ مُطلق اِبدی خدا ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ خدا کی اِبدیت کو ہم کسی طرح بھی ناپ تول نہیں سکتے۔ نہ تو اُس کا آغاز ہے اور نہ اختتام، نہ ہی وہ ہماری طرح وقت کا پابند ہے۔ وہ اپنی اَبدیت اور لامحدُودیت کے باوجود ہم سے محبت کرتا ہے۔ اِبدی خدا کی بنی نو اِنسان سے محبت دیکھئے کہ وہ ہمیں بھی ہمیشہ رہنے والی اَبدی آسمانی بادشاہی میں داخل کرنا چاہتا ہے تاکہ ہم بھی اُس کے ساتھ اِبدیت میں رہیں۔ جی ہاں، ہمارا خدا ہماری اَبدی پناہ ہے، ’’اَبدی خدا تیری سکونت گاہ ہے اور نیچے دائمی بازو ہیں۔‘‘ (اِستثنا ۳۳:۲۷) خدا کی حکمت اِبدی و لامحدُود ہے، ’’کیا تُو نہیں جانتا؟ کیا تُو نے نہیں سُنا کہ خداوند خدایِ اَبدی و تمام زمین کا خالق تھکتا نہیں اور ماندہ نہیں ہوتا؟ اُس کی حکمت اِدراک سے باہر ہے۔‘‘ (یسعیاہ ۴۰:۲۸) خدا اپنی اَبدی شفقت سے ہم پر رحم کرتا ہے۔ ’’خداوند تیرا نجات دینے والا فرماتا ہے کہ قہر کی شدت میں مَیں نے ایک دَم کے لئے تجھ سے منہ چُھپایا پر اَب مَیں اَبدی شفقت سے تجھ پر رحم کروں گا۔‘‘ (یسعیاہ ۵۴:۸)

اور بنی نوع اِنسان کے لئے خدا کا سب سے بڑا تحفہ اُس کا ہمارے ساتھ اَبدی رشتہ و تعلق ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا۔ اور اِسی رشتے کو قائم و دائم رکھنے کے لئے خداوند خدا اپنے بیٹے مسیح یسوع کی صُورت خود دُنیا میں آیا تاکہ ہم اپنے گناہوں سے چھٹکارا و نجات پا کر اَبدی زندگی پائیں۔ کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ خدا اپنا آسمانی جلال چھوڑ کر ہم گناہگاروں کو بچانے دُنیا میں آئے؟ جب خدا کے سامنے بنی نوع اِنسان کو اپنی اَبدیت میں شامل کرنے کا کوئی راستہ نہ رہا، نہ تو بھیڑوں بیلوں کی قربانی، نہ ہمارے نیک اچھے اعمال اور نہ ہی ہماری دُعائیں نمازیں۔تو وہ خود ہمارے گناہ اُٹھائے صلیب پر قربان ہو گیا تاکہ اُس کے پاک خون سے دُھل کر ہم اَبدی نجات پائیں۔ اِسی لئے پوس رسول خدا کے رُوح کی تحریک سے سِر شار ہو کر کہتا ہے، ’’لیکن خدا اپنی محبت کی خوبی ہم پر یوں ظاہر کرتا ہے کہ جب ہم گنہگار ہی تھے تو مسیح ہماری خاطر مُوٴا۔ پس جب ہم اُس کے خون کے باعث اَب راستباز ٹھہرے تو اُس کے وسیلہ سے غضبِ اِلٰہی سے ضرور ہی بچیں گے کیونکہ جب باوجود دُشمن ہونے کے خدا سے اُس کے بیٹے کی موت کے وسیلہ سے ہمارا میل ہو گیا تو میل ہونے کے بعد تو ہم اُس کی زندگی کے سبب سے ضرور ہی بچیں گے۔ اور صرف یہی نہیں بلکہ اپنے خداوند یسوع مسیح کے طفیل سے جس کے وسیلہ سے اَب ہمارا خدا کے ساتھ میل ہو گیا خدا پر فخر بھی کرتے ہیں۔‘‘ (رُومیوں ۵:۸-۱۱)

اَبدی خدا کی دُنیا سے محبت و قربانی کی تصدیق یُوحنا رسول یوں کرتا ہے، ’’کیونکہ خدا نے دُنیا سے ایسی محبت رکھی کہ اُس نے اپنا اِکلوتا بیٹا بخش دیا تاکہ جو کوئی اُس پر اِیمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے۔ کیونکہ خدا نے بیٹے کو دُنیا میں اِس لئے نہیں بھیجا کہ دُنیا پر سزا کا حکم کرے بلکہ اِس لئے کہ دُنیا اُس کے وسیلہ سے نجات پائے۔‘‘ (یوحنا ۳:۱۶-۱۷) اور پولس رسول خدا کے پاک رُوح میں اَبدی خدا کے ساتھ مرنے اور جی اُٹھنے کی یوں گواہی دیتا ہے، ’’اِسی سبب سے مَیں برگزیدہ لوگوں کی خاطر سب کچھ سہتا ہوں تاکہ وہ بھی اُس نجات کو جو مسیح یسوع میں ہے اَبدی جلال سمیت حاصل کریں۔ یہ بات سچ ہے کہ جب ہم اُس کے (یعنی مسیح کے) ساتھ مَر گئے تو اُس کے ساتھ جیئنگے بھی۔ اگر ہم دُکھ سہیں گے تو اُس کے ساتھ بادشاہی بھی کریں گے۔ اگر ہم اُس کا اِنکار کریں گے تو وہ بھی ہمارا اِنکار کرے گا۔‘‘ (۲-تیمتھیس۲:۱۰-۱۲)

اور اَب آئیے دیکھتے ہیں اَبدی خدا کے بیٹے خداوند یسوع مسیح نے خود خدا کے ساتھ اَبدیت کے بارے میں سامری عورت سے کیا کہا جو پانی بھرنے کنوئیں پر آئی تھی اور جانتی نہ تھی جس سے وہ پانی کا تقاضا کر رہی ہے وہ کون ہے ’’یسوع نے جواب میں اُس سے کہا، جو کوئی اِس پانی میں سے (یعنی کنوئیں میں سے) پیتا ہے وہ پھر پیاسا ہو گا مگر جو کوئی اُس پانی میں سے پیئگا جو مَیں اُسے دُوں گا وہ اَبد تک پیاسا نہ ہو گا بلکہ جو پانی مَیں اُسے دُوں گا وہ اُس میں ایک چشمہ بن جائے گا جو ہمیشہ کی زندگی کے لئے جاری رہے گا۔‘‘ (یُوحنا ۴:۱۳-۱۴) پاک اِلہامی کلام میں ایک اَور موقع پر مسیح یسوع نے اپنے اَبدی خدا ہونے اور ہمیں بھی اپنی اَبدیت یعنی ہمیشہ کی زندگی میں شامل کرنے کے بارے میں فرمایا، ’’مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو میرا کلام سُنتا اور میرے بھیجنے والے کا یقین کرتا ہے ہمیشہ کی زندگی اُس کی ہے اور اُس پر سزا کا حکم نہیں ہوتا بلکہ وہ موت سے نکل کر زندگی میں داخل ہو گیا ہے۔‘‘ (یُوحنا ۵:۲۴-۲۵) اور پھر فرمایا، ’’کیونکہ میرے باپ (یعنی خدا) کی مرضی یہ ہے کہ جو کوئی بیٹے کو دیکھے اور اُس پر اِیمان لائے ہمیشہ کی زندگی پائے اور مَیں اُسے آخری دِن پھر زندہ کروں۔‘‘ (یُوحنا ۶:۴۰) آپ نے غور فرمایا کہ ’’مَیں اُسے آخری دِن پھر زندہ کروں گا‘‘ مطلب یہ ہُوا کہ مسیح یسوع ہمیشہ کی زندگی دینے والا اَبدی خدا ہے۔ وہ آج بھی ہم سے ویسے ہی محبت کرتا ہے جیسے اَزل کے دِن سے کرتا تھا۔ ہاں، ہم تبدیل ہو سکتے ہیں مگر لاتبدیل و لازوال اَبدی خدا کبھی تبدیل نہیں ہو سکتا اور نہ ہمارے ساتھ اُس کی محبت کم ہو سکتی ہے۔ آئیے سُنتے ہیں پاک اِلہامی کلام اِس بارے میں کیا کہتا ہے، ’’یسوع مسیح کل اور آج بلکہ اَبد تک یکسان ہے۔‘‘ (عبرانیوں ۱۳:۸) اور کیونکہ خداوند خدا اَبدی ہے لہذا اُس کا کلام بھی لاتبدیل و اَبدی ہے۔ اِسی لئے خدا کا عظیم بندہ دائود نبی کہتا ہے، ’’تیرے کلام کا خلاصہ سچائی ہے، تیری صداقت کے کُل احکام اَبدی ہیں۔‘‘ (زبور ۱۱۹:۱۶۰)

خدا کا یہی وہ سچا اور اَبدی کلام ہے جس کے ذریعہ زندہ خدا ہم پر ظاہر ہُوا اور ہمارے درمیان رہا۔ شائد یہ اٹل و ٹھوس حقیقت ہم میں سے کچھ کے لئے ٹھوکر کا باعث ہو، لیکن ہاں، یہ سچ ہے کہ خدا ہم پر ظاہر ہوتا ہے۔

جی ہاں، خدا ہم پر ظاہر ہوتا ہے، اور خدا کی یہی وہ خصوُصیت ہے جس کا ہم اپنے اگلے پروگرام میں ذِکر کریں گے، ضرور سُنئیے گا۔