Skip to content

خدا زندہ خدا ہے

Posted in خُدا کی تلاش

یہ زندگی خدا کی دی ہوئی ایک بیش قیمت نعمت و برکت ہے۔ جب تک سانس چلتی ہے دُکھ سُکھ بھی ہیں، رشتے ناطے، دوست احباب اور کاروبارِ دُنیا بھی ہے۔ جونہی سانس بند ہوئی تو سب کچھ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے زمین کے اندر دفن ہو گیا۔ یہ ہے اِنسان کی حقیقت، ایک پانی کا بُلبلہ، ایک جنگلی پھول، اُدھر ہَوا چلی اور وہ نہیں۔ خدا کا عظیم بندہ دائود نبی کہتا ہے۔ ’’اِنسان کی عُمر تو گھاس کی مانند ہے، وہ جنگلی پھول کی طرح کھلتا ہے کہ ہَوا اُس پر چلی اور وہ نہیں۔‘‘ (زبور ۱۰۳:۱۵-۱۶) خدا کا ایک اَور پیارا بندہ ایوب نبی زندگی کو یوں بیان کرتا ہے، ’’اِنسان جو عورت سے پیدا ہوتا ہے، تھوڑے دِنوں کا ہے اور دُکھ سے بھرا ہے۔ وہ پھول کی طرح نکلتا اور کاٹ ڈالا جاتا ہے۔ وہ سایہ کی طرح اُڑ جاتا ہے اور ٹھہرتا نہیں۔‘‘ (ایوب ۱۴:۱-۲)

زندگی کا سَرچشمہ خدا ہے یعنی بنی نوع اِنسان کے اندر زندگی کا دَم پُھونکنے والا خدا ہے۔ ’’خدا کی رُوح نے مجھے بنایا ہے اور قادرِ مُطلق کا دَم مجھے زندگی بخشتا ہے۔‘‘ (ایوب۳۳:۴)

چلیئے آئیے دیکھتے ہیں کہ خداوند خدا نے باغِ عدن میں اِنسان کو کیسے تخلیق کِیا۔ پیدایش کی اِلہامی کتاب میں لکھا ہے، ’’اور خداوند خدا نے زمین کی مٹی سے اِنسان کو بنایا اور اُس کے نتھنوں میں زندگی کا دَم پُھونکا تو اِنسان جیتی جان ہُوا۔‘‘ (پیدایش ۲:۷) یسعیاہ نبی کے اِلہامی صحیفہ میں خداوند خدا اپنی مخلوق کو پیدا کرنے کے مقصد کو بھی واضح کرتا ہے، ’’مَیں نے اِن لوگوں کو اپنے لئے بنایا تاکہ وہ میری حمد کریں۔‘‘ (یسعیاہ ۴۳:۲۱) اور پھر کہتا ہے، ’’ہر ایک کو جو میرے نام سے کہلاتا ہے اور جس کو مَیں نے اپنے جلال کے لئے خلق کِیا، جِسے مَیں نے پیدا کِیا، ہاں جِسے مَیں ہی نے بنایا۔‘‘ (یسعیاہ ۴۳:۷)

آپ نے دیکھا کہ خدا نے اِنسان کو اپنی شبیہ اور اپنا دَم پُھونک کر بنایا، اور یہی وہ بُنیادی فرق ہے جو اِنسان کو دوسرے جانداروں سے جُدا کرتا ہے۔ جیسا کہ پاک اِلہامی کلام میں لکھا ہے کہ خدا نے سمندر کی مچھلیوں، ہَوا کے پرندوں اور کل جانوروں کو بنایا تو کیا وجہ ہے کہ صرف اِنسان ہی میں اپنا دَم پُھونک کر اپنی شبیہ پر بنایا۔ خدا کی شبیہ پر بنائے جانے کا ایک اہم ترین مقصد یہ ہے کہ وہ خدا کی طرح پاک و راستباز بن کر اُس کی حمد و تمجید کرے اور روئے زمین پر خدا کے ازلی اِرادہ و منصوبہ کو پورا کرے۔ ظاہر ہے حمد و تمجید تو زندہ ہی کی ہو سکتی ہے اور اپنے اِرادہ و منصوبہ کی تکمیل بھی زندہ ہی کر سکتا ہے مگر افسوس کہ کچھ لوگ زندہ کی بجائے مُردوں کی حمد و پرستش اور اُنہی سے مانگتے ہیں حالانکہ نہ وہ دیکھتے اور نہ سُنتے ہیں۔ یسعیاہ نبی کہتا ہے، ’’وہ مَر گئے، پھر زندہ نہ ہوں گے۔ وہ رحلت کر گئے، پھر نہ اُٹھیں گے کیونکہ تُو نے اُن پر نظر کی اور اُن کو نابُود کِیا اور اُن کی یاد کو بھی مِٹا دیا ہے۔‘‘ (یسعیاہ ۲۶:۱۴) اور پھر لکھا ہے، ’’اُن کے بُت چاندی اور سونا ہیں یعنی آدمی کی دستکاری۔ اُن کے منہ ہیں پر وہ بولتے نہیں۔ آنکھیں ہیں پر وہ دیکھتے نہیں۔ اُن کے کان ہیں پر وہ سُنتے نہیں۔ ناک ہیں پر وہ سُونگھتے نہیں۔ اُن کے ہاتھ ہیں پر وہ چُھوتے نہیں۔ پائوں ہیں پر وہ چلتے نہیں۔ اور اُن کے گلے سے آواز نہیں نکلتی۔ اُن کے بنانے والے اُن ہی کی مانند ہو جائیں گے بلکہ وہ سب جو اُن پر بھروسہ رکھتے ہیں۔‘‘ (زبور ۱۱۵:۴-۸)

یسعیاہ نبی ہی کے صحیفہ میں ایک اَور مقام پر خداوند خدا اپنے بارے میں کہتا ہے، ’’…رب الافواج یوں فرماتا ہے کہ مَیں ہی اول اور مَیں ہی آخر ہوں اور میرے سِوا کوئی خدا نہیں۔ …کھودی ہوئی مُورتوں کے بنانے والے سب کے سب باطِل ہیں اور اُن کی پسندیدہ چیزیں بے نفع، اُن ہی کے گواہ دیکھتے نہیں اور سمجھتے نہیں تاکہ پشیمان ہوں۔ کِس نے کوئی بُت بنایا یا کوئی مُورت ڈھالی جس سے کچھ فائدہ ہُو؟‘‘ (یسعیاہ ۴۴:۶، ۹-۱۰) زندہ خدا ایک اَور مقام پر بنی اِسرائیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے، ’’میرے حضور تُو غیر معبُودوں کو نہ ماننا۔ تُو اپنے لئے کوئی تراشی ہوئی مُورت نہ بنانا، نہ کسی چیز کی صُورت بنانا جو اُوپر آسمان میں یا نیچے زمین پر یا زمین کے نیچے پانی میں ہے۔ تُو اُن کے آگے سجدہ نہ کرنا اور نہ اُن کی عبادت کرنا کیونکہ مَیں خداوند تیرا خدا غیُور خدا ہوں اور جو مجھ سے عداوت رکھتے ہیں اُن کی اولاد کو تیسری اور چوتھی پُشت تک باپ دادا کی بدکاری کی سزا دیتا ہوں اور ہزاروں پر جو مجھ سے محبت رکھتے اور میرے حکموں کو مانتے ہیں رحم کرتا ہوں۔‘‘ (خروج ۲۰:۳-۶)

مطلب یہ ہُوا کہ نہ تو مُردہ زندگی دے سکتا ہے اور نہ ہاتھ سے بنے ہوئے بُت اور مُورت۔ لیکن اگر ہم پھر بھی مُردوں اور بُتوں کی عبادت کرتے اور اُن سے زندگی کی بھیک مانگتے رہیں تو ہم سے زیادہ بدبخت و بدقسمت اَور کون ہو گا۔ مت بھولئیے کہ زندگی وہی دے سکتا ہے جو خود زندہ ہے۔ یرمیاہ نبی خدا کے اِلہامی کلام میں خدا کے پاک رُوح کی تحریک سے کہتا ہے، ’’…وہ زندہ خدا اور ابدی بادشاہ ہے۔ اُس کے قہر سے زمین تھرتھراتی ہے اور قوموں میں اُس کے قہر کی تاب نہیں۔ تم اُن سے یوں کہنا کہ یہ معبُود جِنہوں نے آسمان اور زمین کو نہیں بنایا زمین پر سے اور آسمان کے نیچے سے نیست ہو جائیں گے۔‘‘ (یرمیاہ ۱۰:۱۰-۱۱) اور جب دارا بادشاہ نے خدا کے نیک اور پیارے بندہ دانی ایل نبی کو لوگوں کے کہنے پر شیروں کی ماند میں ڈالنے کا حکم دیا تو آئیے دیکھئے کہ زندہ خدا نے اُسے کیسے بچایا۔ ’’تب بادشاہ نے حکم دیا اور وہ دانی ایل کو لائے اور شیروں کی ماند میں ڈال دیا، پر بادشاہ نے دانی ایل سے کہا، تیرا خدا جس کی تُو ہمیشہ عبادت کرتا ہے تجھے چُھڑائے گا۔ اور ایک پتھر لا کر اُس ماند کے مُنہ پر رکھ دیا گیا اور بادشاہ نے اپنی اور اپنے امیروں کی مُہر اُس پر کر دی تاکہ وہ بات جو دانی ایل کے حق میں ٹھہرائی گئی تھی تبدیل نہ ہو۔‘‘ (دانی ایل ۶:۱۶-۱۷) اور بادشاہ ساری رات فاقہ کر کے بے چینی سے صبح کا اِنتظار کرتا رہا اور صبح سویرے اُٹھ کر شیروں کی ماند کی طرف گیا اور جب ماند پر پہنچا۔ وہ بہت غمگین تھا کہ شائد شیروں نے اُسے چِیرپھاڑ دیا ہو گا۔ بادشاہ نے غمناک آواز سے دانی ایل کو پُکارا، ’’…اَے دانی ایل زندہ خدا کے بندے کیا تیرا خدا جس کی تُو عبادت کرتا ہے قادِر ہُوا کہ تجھے شیروں سے چُھڑائے؟ تب دانی ایل نے بادشاہ سے کہا، اَے بادشاہ ابد تک جِیتا رہ۔ میرے خدا نے اپنے فرشتہ کو بھیجا اور شیروں کے مُنہ بند کر دئے اور اُنہوں نے مجھے ضرر نہیں پہنچایا…‘‘ (دانی ایل ۶:۲۰-۲۲) بادشاہ یہ دیکھ کر بہت خوش ہُوا اور حکم دیا کہ دانی ایل کو شیروں کی ماند سے نکالیں۔ اور دیکھنے والے حیران ہوئے کہ شیروں نے دانی ایل نبی کو کچھ نقصان نہیں پہنچایا کیونکہ اُس نے اپنے زندہ خدا پر توکل کِیا تھا۔ تب بادشاہ نے سب قوموں اور زمین پر بسنے والے سب لوگوں میں ایک فرمان جاری کرتے ہوئے کہا، ــ’’…میری مملکت کے ہر ایک صوبہ کے لوگ دانی ایل کے خدا کے حضور ترسان و لرزان ہوں کیونکہ وہی زندہ خدا ہے اور ہمیشہ قائم ہے اور اُس کی سلطنت لازوال ہے اور اُس کی مملکت اَبد تک رہے گی۔ وہی چُھڑاتا اور بچاتا ہے اور آسمان اور زمین میں وہی نشان اور عجائب دِکھاتا ہے۔ اُسی نے دانی ایل کو شیروں کے پنجوں سے چُھڑایا ہے۔‘‘ (دانی ایل ۶:۲۶-۲۷)

جس طرح دانی ایل نبی کا توکل اپنے زندہ خدا پر تھا اُسی طرح ہمیں بھی چاہیے کہ پورے اِیمان کے ساتھ زندہ خدا کے پاس آئیں اور اُس کے زندہ کلام کا مطالعہ کریں۔ ’’کیونکہ خدا کا کلام زندہ اور مُوٴثر اور ہر ایک دو دھاری تلوار سے زیادہ تیز ہے اور جان اور رُوح اور بند بند اور گودے گودے کو جُدا کر کے گذر جاتا ہے اور دِل کے خیالوں اور اِرادوں کو جانچتا ہے۔‘‘ (عبرانیوں ۴:۱۲) اور زندہ خدا کا زندہ کلام اپنے بیٹے مسیح یسوع میں مجسم ہو کر دُنیا میں آیا تاکہ ہمیں موت سے نکال کر زندگی میں لائے۔

جیسا کہ ہم نے پہلے کہا کہ زندگی وہی دے سکتا ہے جو خود زندہ ہے، مسیح یسوع بھی ہمارے گناہوں کی خاطر صلیب پر قربان ہُوا، دفن ہُوا اور تیسرے دِن مُردوں میں سے جی اُٹھا اور آسمان پر زندہ اُٹھا لیا گیا، اور ہمیں زندہ اُمید دے گیا کہ مسیح کا پیروکار اگر جسمانی طور پر مَر بھی جائے تو قیامت کے دِن اپنے منجی خداوند کے ساتھ جی اُٹھے گا۔ پولس رسول اپنے اِلہامی خط میں کہتا ہے، ’’کیا تم نہیں جانتے کہ ہم جِتنوں نے مسیح یسوع میں شامل ہونے کا بپتسمہ لیا تو اُس کی موت میں شامل ہونے کا بپتسمہ لیا؟ پس موت میں شامل ہونے کے بپتسمہ کے وسیلہ سے ہم اُس کے ساتھ دفن ہوئے تاکہ جس طرح مسیح باپ (یعنی خدا) کے جلال کے وسیلہ سے مُردوں میں سے جِلایا گیا (یعنی زندہ کِیا گیا) اُسی طرح ہم بھی نئی زندگی میں چلیں کیونکہ جب ہم اُس کی موت کی مُشابہت سے اُس کے ساتھ پیوستہ ہو گئے تو بیشک اُس کے جی اُٹھنے کی مُشابہت سے بھی اُس کے ساتھ پیوستہ ہوں گے۔ چنانچہ ہم جانتے ہیں کہ ہماری پُرانی اِنسانیت اُس کے ساتھ اِس لئے مصلُوب کی گئی کہ گناہ کا بدن بیکار ہو جائے تاکہ ہم آگے کو گناہ کی غلامی میں نہ رہیں کیونکہ جو مُواٴ وہ گناہ سے بری ہُوا۔ پس جب ہم مسیح کے ساتھ مُوئے تو ہمیں یقین ہے کہ اُس کے ساتھ جیئنگے بھی۔‘‘ (رُومیوں ۶:۳-۸) اور مسیح یسوع نے ایک شاگرد کو یقین دِلاتے ہوئے دعوے سے فرمایا، ’’…قیامت اور زندگی تو مَیں ہوں، جو مجھ پر اِیمان لاتا ہے گو وہ مَر جائے تو بھی زندہ رہے گا۔ اور جو کوئی زندہ ہے اور مجھ پر اِیمان لاتا ہے وہ اَبد تک کبھی نہ مَرے گا۔…‘‘ (یُوحنا ۱۱:۲۵-۲۶)

آئیے زندگی بخشنے والے زندہ خدا کے سامنے جُھکیں اور شکر بجا لائیں کہ ہم زندہ و ابدی خدا کی ابدی بارگاہوں میں ابد تک آباد رہیں گے۔ ’’میری جان خداوند کی بارگاہوں کی مُشتاق ہے بلکہ گُداز ہو چلی، میرا دِل اور میرا جسم زندہ خدا کے لئے خوشی سے للکارتے ہیں۔ …کیونکہ خداوند خدا آفتاب اور سِپر ہے، خداوند فضل اور جلال بخشے گا۔ وہ راست رَو سے کوئی نعمت باز نہ رکھے گا۔ اَے لشکروں کے خداوند! مُبارک ہے وہ آدمی جس کا توکل تجھ پر ہے۔‘‘ (زبور ۸۴:۲، ۱۱-۱۲) بے شک لشکروں کا زندہ خدا راستباز اِنسان کو جس کا توکل اُس پر ہے فضل اور جلال بخشتا ہے اور اُسے اپنی کسی نعمت سے باز نہیں رکھتا بلکہ اپنے ساتھ ابدیت میں شامل کرتا ہے کیونکہ خدا ابدی خدا ہے۔

جی ہاں، خدا ابدی خدا ہے، اور خدا کی یہی وہ خصوُصیت ہے جس کا ہم اپنے اگلے پروگرام میں ذِکر کریں گے، ضرور سُنئیے گا۔