Skip to content

خدا جبر و زبردستی نہیں کرتا

Posted in خُدا کی تلاش

یہ تو آپ خوب جانتے ہیں کہ دُنیا میں کوئی بھی کام ماتھے پر بندوق کی نالی رکھ کر نہیں کروایا جا سکتا، اور اگر آپ ایسا کریں گے تو اِس غیرشائستہ، غیر مہذہب فعل کو مہذب و با شعور لوگ جبر و زبردستی کا نام دیں گے، اور آپ کو سخت تنقید کا نشانہ بنائیں گے جس سے نہ صرف آپ کی ذات مجروع ہو گی بلکہ آپ کے خاندان اور دینی عقائد و نظریات پر بھی اُنگلیاں اُٹھیں گی، اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کو پولیس اور عدالتی کاروائیوں کا بھی سامنا کرنا پڑے۔ خواہ آپ مسیحی ہوں یا غیرمسیحی جو کوئی بھی ایسی غیراِنسانی حرکت کرے گا وہ مہذہب معاشرے اور خدا کے ہاں مجرم ٹھہرے گا۔ آج ہر دوسرے دِن چھوٹی چھوٹی کم عُمر لڑکیوں کو اغوا، شادی اور جبر و زبردستی اپنے دین و عقائد میں شامل کرنے کی خبریں چل رہی ہوتی ہیں۔ ظاہر ہے کچھ لوگ تو خوشی سے پُھولے نہیں سماتے اور کچھ اِس غیر مہذبانہ حرکت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کسی کو اپنے دین دھرم اور عقائد و نظریات میں شامل کرنے کے لئے کم عُمر معصُوم لڑکیوں پر ہی کیوں نظریں جم جاتی ہیں۔ کسی ۷۰ سالہ بزرگ عورت کو ماں بنا کر اور ۴۰ سالہ عورت کو بہن بنا کر دین دھرم میں شامل کیوں نہیں کِیا جاتا۔ سب سے پہلے تو یہ بات ذہن میں رہے کہ آپ جبر و زبردستی کسی کی ظاہری جسمانی حالت تو بدل سکتے ہیں مگر اندرُونی رُوحانی حالت صرف خدا ہی بدل سکتا ہے۔ لہذا ضروری ہے کہ ہم اپنی سیرت و کردار سے لوگوں کے سامنے ایک نمونہ بنیں جس سے نہ صرف ہمارا خاندانی پس منظر بلکہ مذہبی عقائد و نظریات بھی روشنی بن کر چمکیں اور دیکھنے والے خود ہی اپنی مرضی سے اندھیرے سے نکل کر روشنی میں آجائیں۔

آئیے دیکھتے ہیں کہ خداوند یسوع مسیح نے اِس بارے میں اپنے پیروکاروں سے کیا فرمایا ہے، ’’تم دُنیا کے نُور ہو۔ جو شہر پہاڑ پر بسا ہے وہ چھپ نہیں سکتا، اور چراغ جلا کر پیمانہ کے نیچے نہیں بلکہ چراغ دان پر رکھتے ہیں تو اُس سے گھر کے سب لوگوں کو روشنی پہنچتی ہے۔ اِسی طرح تمہاری روشنی آدمیوں کے سامنے چمکے تاکہ وہ تمہارے نیک کاموں کو دیکھ کر تمہارے باپ (یعنی خدا) کی جو آسمان پر ہے تمجید کریں۔‘‘ (متی ۵:۱۴-۱۶) مطلب یہ ہوا کہ مسیح کے پیروکار دُنیا میں چلتے پھرتے چراغ ہیں یعنی وہ اپنے اچھے نیک کاموں، اُٹھنے بیٹھنے، بول چال اور حُسنِ سلوک سے اندھیرے میں روشنی کی کرنیں بکھیرتے ہیں۔ اِسی لئے پولس رسول فلپیوں کے نام اپنے اِلہامی خط میں کہتا ہے، ’’پس اَے میرے عزیزو! جس طرح تم ہمیشہ سے فرمانبرداری کرتے آئے ہو اُسی طرح اَب بھی نہ صرف میری حاضری میں بلکہ اِس سے بہت زیادہ میری غیر حاضری میں ڈرتے اور کانپتے ہوئے اپنی نجات کا کام کِئے جائو۔ کیونکہ جو تم میں نیت اور عمل دونوں کو اپنے نیک اِرادہ کو انجام دینے کے لئے پیدا کرتا ہے وہ خدا ہے۔ سب کام شکایت اور تکرار بغیر کِیا کرو تاکہ تم بے عیب اور بُھولے ہو کر ٹیڑھے اور کجرو لوگوں میں خدا کے بے نقص فرزند بنے رہو (جن کے درمیان تم دُنیا میں چراغوں کی طرح دِکھائی دیتے ہو اور زندگی کا کلام پیش کرتے ہو)…‘‘ (فلپیوں۲:۱۲-۱۵)

خدا کا شکر ہے کہ مسیح کے بہت سے پیروکار دُنیا کے کونے کونے میں جبر و زبردستی نہیں بلکہ اپنے خداوند کی محبت، صُلح و سلامتی سے بھرپور تعلیم پر عمل کرتے ہوئے چراغوں کی طرح چمک رہے ہیں اور اُن کے وسیلہ سے اندھیرے میں بھٹکے ہوئے گمراہ لوگ آج روشنی میں چل رہے ہیں۔ مگر افسوس کہ ایسے مسیحیوں کی بھی کمی نہیں جو بالکل بے خبر ہیں کہ وہ اِس دُنیا میں چراغوں کی مانند ہیں۔ اُن کو یہ احساس تو ہے کہ وہ مسیحی ہیں کیونکہ وہ ایک مسیحی خاندان میں پیدا ہوئے ہیں لیکن یہ نہیں جانتے کہ وہ دُنیا میں خدا کے چراغ ہیں اور اُن کا کام اندھیرے میں روشنی پھیلانا ہے تاکہ خدا کے نام کی حمد و تمجید ہو۔

شائد آپ کے ذہن میں سوال ہو کہ اگر مسیحیت میں جبر و زبردستی نہیں تو مسیحی دین دُنیا میں اِتنی ایذا رسائیوں، تکلیفوں اور بے اِنصافیوں کے سائے میں بھی اِتنا زیادہ کیسے پھیل گیا؟ لوگ کیوں آج بھی ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں جبر و زبردستی نہیں بلکہ اپنی خوشی و مرضی سے بائبل مُقدس کا بغور مطالعہ کر کے مسیحیت میں شامل ہو رہے ہیں؟ آپ کو ایک بھی شخص نہیں ملے گا جو دعوے سے کہدے دے کہ اُسے ڈنڈے کے زور پر یا بندوق ماتھے پر رکھ کر مسیح کا پیروکار بنایا گیا ہے۔ اور اِس کی بُنیادی وجہ یہ ہے کہ مسیحی اِیمان کے خالق و مالک مسیح یسوع نے کسی کو بھی جبر و زبردستی نہیں بلکہ پوری آزادی و مرضی سے اپنے پیچھے آنے کی دعوت دی۔ ’’…اگر کوئی میرے پیچھے آنا چاہے تو اپنی خودی سے اِنکار کرے اور اپنی صلیب اُٹھائے اور میرے پیچھے ہو لے۔‘‘ (مرقس ۸:۳۴) مسیح نے نہ جبر و زبردستی کی اور نہ ہی کسی کو ہراساں یا ڈرایا دھمکایا بلکہ لوگوں کی آزادی، خواہش اور مرضی کو اہمیت دی کہ ’’اگر کوئی میرے پیچھے آنا چاہے…‘‘ ذرا سوچئیے کہ اگر مسیحیت کی تعلیم ایسی ہے تو جبر و زبردستی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اگر آسمانی خدا کسی سے جبر و زبردستی نہیں کرتا تو ہم کون ہوتے ہیں کسی کے دِل میں خوف و ڈر پیدا کر کے اُس کی سوچ بدلنے والے؟ حالانکہ اگر خدا چاہے تو ہم پر جبر و زبردستی کر سکتا ہے مگر وہ ہرگز ایسا نہیں کرتا کیونکہ دُنیاوی بادشاہت اور آسمانی بادشاہت میں زمین آسمان کا فرق ہے، دونوں کے اُصول و قوانین ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ ایک طرف ظلم و جبر ہے اور دوسری طرف محبت و پیار۔ ایک طرف غلامی ہے اور دوسری طرف آزادی، ایک طرف خوف ہے اور دوسری طرف دلیری۔ اِسی لئے مسیحی خدا کے زندہ کلام کی روشنی میں محبت و پیار سے حق و سچائی کا پرچار کرتے ہیں اور سُننے والے کو پوری آزادی دیتے ہیں کہ وہ زندہ خدا کی ازلی سچائی کو قبول یا رَد کرے۔ اگر وہ قبول کرے گا تو ہمیشہ کے لئے خدا کی بادشاہی میں داخل ہو گا اور اگر رَد کرے گا تو ابدی سزا کے لائق ٹھہرے گا۔ نتیجہ خواہ کچھ بھی ہو یہ سُننے والے کی ذمہ داری اور آزادانہ مرضی و سوچ پر منحصر ہے، سُنانے والے نے حق و سچائی پیش کر کے اپنا فرض ادا کر دیا۔ اَب معاملہ خدا اور سُننے والے کے درمیان ہے۔ یہ ہے مسیحی دعوتِ نجات اور اِنجیل کی خوشخبری کا بُنیادی اُصول یعنی محبت و پیار۔ اور اگر کوئی مسیحی دوسروں سے محبت پیار کا برتائو نہیں کرتا تو وہ اپنے خداوند کے حکم کا اِنکار کرتا ہے کیونکہ جب کسی یہودی شرع کے عالم نے مسیح یسوع سے پوچھا کہ توریت میں سب سے بڑا حکم کون سا ہے تو اُنہوں نے فرمایا، ’’…خداوند اپنے خدا سے اپنے سارے دِل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل سے محبت رکھ، بڑا اور پہلا حکم یہی ہے۔ اور دوسرا اِس کی مانند یہ ہے کہ اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھ۔ اِنہی دو حکموں پر تمام توریت اور انبیا کے صحیفوں کا مدار ہے۔‘‘ (متی ۲۲:۳۷-۴۰)

مسیح یسوع کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ خواہ کوئی بھی کیوں نہ ہو ایک مسیحی کا فرض ہے کہ وہ اُس سے محبت رکھے، پڑوسی گھر کے پاس ہی رہنا والا شخص نہیں ہوتا بلکہ کوئی بھی راہ چلتا آدمی پڑوسی ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسیحی اپنے خداوند کی محبت و خدمت کے جذبہ سے سرشار ہو کر ہزاروں میل دُور ایسے مُمالک کا سفر کرتے ہیں جہاں غربت، بیماری اور بھوک اپنے پنجے گاڑھے ہوئے ہوتی ہے۔ روزانہ چھوٹے چھوٹے بچے اور عورتیں صحت بخش ادویات و خوراک نہ ہونے کے سبب مَر رہے ہوتے ہیں، مگر آفرین ہے مسیح یسوع کے اِن خادِموں پر جو اپنی جان پر کھیل کر اور اپنے آرام و آسائش کو پَرے پھینک کر دُنیا کے کونے کونے میں دُکھی اِنسانیت کی خدمت کر رہے ہیں۔ اُن کا مقصد بیماری زدہ، حالات کے مارے اور معاشرے کے ٹھکرائے ہوئے لوگوں کو مسیحی بنانا نہیں ہوتا بلکہ مسیح کی محبت سے آشنا کرنا ہوتا ہے کہ وہ خود سوچنے پر مجبور ہو جائیں کہ یہ کیسے لوگ ہیں، ہمارے تو اپنے رشتے داروں عزیزوں اور دوستوں نے ہمیں چھوڑ دیا ہے مگر اِن سے نہ کوئی ہمارا رشتہ تعلق ہے اور نہ جان پہچان، یہ کیوں اپنی جان مُصیبت میں ڈال کر رات دِن ہماری دیکھ بھال کر رہے ہیں؟ تو بہنو اور بھائیو ایک سچے مسیحی کے سامنے ہمیشہ آسمانی عدالت کا وہ نظارہ رہتا ہے جب خداوند یسوع مسیح بادشاہ جلال کے تخت پر بیٹھے ہم میں سے ہر ایک کا عدل و اِنصاف اُن کے پھلوں کی روشنی میں کرے گا، ’’جب ابنِ آدم اپنے جلال میں آئے گا اور سب فرشتے اُس کے ساتھ آئیں گے، تب وہ اپنے جلال کے تخت پر بیٹھے گا۔ اور سب قومیں اُس کے سامنے جمع کی جائیں گی اور وہ ایک کو دوسرے سے جُدا کرے گا جیسے چرواہا بھیڑوں کو بکریوں سے جُدا کرتا ہے۔ اور بھیڑوں کو اپنے دہنے اور بکریوں کو بائیں کھڑا کرے گا۔ اُس وقت بادشاہ اپنے دہنی طرف والوں سے کہے گا، آئو میرے باپ (یعنی خدا) کے مُبارک لوگو جو بادشاہی بنایِ عالم سے تمہارے لئے تیار کی گئی ہے اُسے مِیراث میں لو کیونکہ مَیں بُھوکا تھا، تم نے مجھے کھانا کھلایا۔ مَیں پیاسا تھا، تم نے مجھے پانی پلایا۔ مَیں پردیسی تھا، تم نے مجھے اپنے گھر میں اُتارا۔ ننگا تھا تم نے مجھے کپڑا پہنایا۔ بیمار تھا، تم نے میری خبر لی۔ قید میں تھا، تم میرے پاس آئے۔ تب راستباز جواب میں اُس سے کہیں گے، اَے خداوند! ہم نے کب تجھے بُھوکا دیکھ کر کھانا کھلایا یا پیاسا دیکھ کر پانی پلایا؟ ہم نے کب تجھے پردیسی دیکھ کر گھر میں اُتارا؟ یا ننگا دیکھ کر کپڑا پہنایا؟ ہم کب تجھے بیمار یا قید میں دیکھ کر تیرے پاس آئے؟ بادشاہ جواب میں اُن سے کہے گا، مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تم نے میرے اِن سب سے چھوٹے بھائیوں میں سے کسی ایک کے ساتھ یہ سلوک کِیا، تو میرے ہی ساتھ کِیا۔‘‘ (متی ۲۵:۳۱-۴۰)

اگر ہم محض مسیحیت میں ہیں اور مسیح میں نہیں تو خداوند کی محبت کا مزہ نہ خود چکھ سکتے ہیں اور نہ دوسروں کو چکھا سکتے ہیں۔ اگر ہم خود ہی چراغ نہیں تو اندھیرے میں بھٹکنے والوں کو روشنی میں کیسے لا سکتےہیں۔ لہذا لازم ہے کہ پہلے خود روشنی میں آئیں تاکہ دوسروں کو بھی روشن کر سکیں، اور ایسا تب ہی ممکن ہے جب خدا کا نور ہم پر چمکے گا کیونکہ خدا نُور ہے۔

جی ہاں، خدا نُور ہے، اور خدا کی یہی وہ خصوُصیت ہے جس کا ہم اپنے اگلے پروگرام میں ذِکر کریں گے ضرور سُنئیے گا۔