Skip to content

خدا نعمتیں بخشتا ہے

Posted in خُدا کی تلاش

دُنیا میں بہت سے لوگ ہیں جن کے پاس کوئی نہ کوئی ایسا وصف، خوبی، مہارت، ہُنر، قابلیت، جوہر اور گن ہوتا ہے جو اُنہیں دوسروں سے نُمایاں کرتا ہے اور اُن کی پہچان بن جاتا ہے۔ کچھ وصف و خوبیاں قدرتی طور پر اِنسان کے اندر موجود ہوتی ہیں، کچھ ماں باپ سے وراثت میں ملتی ہیں اور کچھ تجربہ کے ساتھ دھیرے دھیرے اپنے عروج کو چُھو لیتی ہیں۔ یقیناً یہ خدا کی ہی ایک برکت ہے خواہ وہ شخص خدا کو جانتا ہے یا نہیں۔ دُنیا بھر میں ایسے نامور کھلاڑی، گلوکار، موسیقار، شیف، فلم ڈائرکٹر، فلم ایکٹر، فیشن ڈیزائنر، سائنسدان اور ڈاکٹر ہیں جو خدائے واحد کو نہیں جانتے مگر اپنی بے پناہ قابلیت و مہارت اور کارناموں  کی وجہ سے دُنیا بھر میں جانے پہچانے جاتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ دُنیاوی ذہانت، قابلیت، خوبیاں اور وصف خدا کی نعمتوں میں شامل ہیں؟

ایک بات واضح کر دیں کہ قدرتی وصف و خوبیاں اور اِلٰہی نعمتیں دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے، مگر ونوں میں ایک قدرِ مشترک یہ ہے کہ دونوں خدا کی طرف سے برکت ہیں کیونکہ خدا ہی نے آسمان و زمین، سمندروں اور تمام مخلوقات کو پیدا کِیا ہے اور اُسی کے وسیلہ سے ہمارے اندر طرح طرح کی خوبیاں اور وصف جنم لیتے ہیں۔ بائبل مُقدس خدا کی تخلیق کی یوں گواہی دیتی ہے، ’’تُو ہی اکیلا خداوند ہے۔ تُو نے آسمان اور آسمانوں کے آسمان کو اور اُن کے سارے لشکر کو اور زمین کو اور جو کچھ اُس پر ہے اور سمندروں کو اور جو کچھ اُن میں ہے بنایا، اور تُو اُن سبھوں کا پروردگار ہے اور آسمان کا لشکر تجھے سجدہ کرتا ہے۔‘‘ (نحمیا۹ :۶) اِس کا مطلب یہ ہوا کہ خدا کی تخلیق ہونے کے ناطے ہم خدا کی طرف سے خوبیوں، وصفوں اور مہارتوں کے مالِک تو ہو سکتے ہیں مگر اِلٰہی نعمتوں کے حقدار ہرگز نہیں کیونکہ خدا کی نعمتیں نہ تو قدرتی طور پر، نہ تجربہ سے اور نہ وراثت میں ملتی ہیں بلکہ اُس شخص کو حاصل ہوتی ہیں جو صبر و تحمل سے خدا کا وفادار و تابعدار رہتا، اُس کے احکامات و مرضی پر چلتا اور خدا کے منصوبہ و اِنتظام کے مطابق اپنے گناہوں سے نجات پاتا ہے۔ ایک بات آپ اچھی طرح سے سمجھ لیں کہ اِلٰہی رُوحانی نعمتوں کا حق صرف اُسے حاصل ہے جو خدا کے بیٹے مسیح یسوع کی الوہیت پر دِل و جان سے اِیمان لاتا، اپنے گناہوں سے توبہ کرتا اور بپتسمہ لے کر خدا کے خاندان میں شامل ہوتا ہے، تو خدا کا پاک رُوح اُس میں سکونت کرتا ہے اور رُوح اُلقدس اُسے طرح طرح کی نعمتیں بخشتا ہے۔ خدا کے پاک اِلہامی کلام میں لکھا ہے، ’’نعمتیں تو طرح طرح کی ہیں مگر رُوح ایک ہی ہے۔ اور خدمتیں بھی طرح طرح کی ہیں مگر خداوند ایک ہی ہے۔ اور تاثیریں بھی طرح طرح کی ہیں مگر خدا ایک ہی ہے جو سب میں ہر طرح کا اثر پیدا کرتا ہے۔ لیکن ہر شخص میں رُوح کا ظہور فائدہ پہُنچانے کے لئے ہوتا ہے کیونکہ ایک کو رُوح کے وسیلہ سے حکمت کا کلام عنایت ہوتا ہے اور دوسرے کو اُسی رُوح کی مرضی کے مُوافق علمیت کا کلام۔ کسی کو اُسی رُوح سے اِیمان اور کسی کو اُسی ایک رُوح سے شفا دینے کی توفیق، کسی کو معجزوں کی قدرتیں، کسی کو نبوت، کسی کو رُوحوں کا اِمتیاز، کسی کو طرح طرح کی زبانیں، کسی کو زبانوں کا ترجمہ کرنا، لیکن یہ سب تاثیریں وہی ایک رُوح کرتا ہے اور جس کو جو چاہتا ہے بانٹتا ہے۔‘‘ (۱-کرنتھیوں۱۲:۴-۱۱)

مطلب یہ ہوا کہ خدا کی نعمتیں پانے کے لئے ہمارے اندر خدا کے پاک رُوح کا ہونا لازمی ہے۔ ذہن میں رکھیئے کہ جسمانی و دُنیاوی کام کر کے ہم جسمانی برکتیں تو پا سکتے ہیں مگر خدا کے پاک رُوح کی رُوحانی نعمتیں ہمیں خداوند یسوع مسیح کے وسیلہ ہی مِل سکتی ہیں۔ خدا کے زندہ کلام میں لکھا ہے، ’’اور یہ اُترنے والا وہی ہے (یعنی مسیح) جو سب آسمانوں سے بھی اُوپر چڑھ گیا تاکہ سب چیزوں کو معمُور کرے۔ اور اُسی نے بعض کو رسول اور بعض کو نبی اور بعض کو مُبشر اور بعض کو چرواہا (یعنی کلیسیا کا پاسبان) اور اُستاد بنا کر دے دیا تاکہ مُقدس لوگ کامل بنیں اور خدمت گذاری کا کام کِیا جائے اور مسیح کا بدن ترقی پائے۔‘‘ (افسیوں۴:۱۰-۱۲)

خدا کے پاک اِلہامی کلام میں ایک اَور مقام پر لکھا ہے، ’’کیونکہ جس طرح ہمارے ایک بدن میں بہت سے اعضا ہوتے ہیں اور تمام اعضا کا کام یکساں نہیں، اُسی طرح ہم بھی جو بہت سے ہیں مسیح میں شامل ہو کر ایک بدن ہیں اور آپس میں ایک دوسرے کے اعضا۔ اور چونکہ اُس توفیق کے مُوافق جو ہم کو دی گئی ہمیں طرح طرح کی نعمتیں مِلیں، اِس لئے جس کو نبوت کی مِلی وہ اِیمان کے اندازہ کے مُوافق نبوت کرے۔ اگر خدمت مِلی ہو تو خدمت میں لگا رہے۔ اگر کوئی مُعلم ہو تو تعلیم میں مشغول رہے۔ اور اگر کوئی ناصِح ہو تو نصیحت میں۔ خیرات بانٹنے والا سخاوت سے بانٹے، پیشوا سَرگرمی سے پیشوائی کرے، رحم کرنے والا خوشی کے ساتھ رحم کرے۔‘‘ (رُومیوں۱۲:۴-۸) ظاہر ہے کہ جب خدا نے ہمیں رُوحانی نعمتیں بخشی ہیں تو ہمارا بحیثیت مسیحی فرض ہے کہ اُن کا اِستعمال بھی خداوند کے پاک رُوح کے تابع رہتے ہوئے کریں تاکہ یسوع مسیح کے وسیلہ سے خدا کا جلال ظاہر ہو۔ پطرس رسول اِس بارے میں کہتا ہے، ’’جن کو جس قدر نعمت مِلی ہے وہ اُسے خدا کی مختلف نعمتوں کے اچھے مُختاروں کی طرح ایک دوسرے کی خدمت میں صرف کریں۔ اگر کوئی کچھ کہے تو ایسا کہے کہ گویا خدا کا کلام ہے۔ اگر کوئی خدمت کرے تو اُس طاقت کے مطابق کرے جو خدا دے تاکہ سب باتوں میں یسوع مسیح کے وسیلہ سے خدا کا جلال ظاہر ہو۔ جلال اور سلطنت ابدُالاباد اُسی کی ہے، آمین۔ (۱-پطرس۴:۱۰-۱۱)

اِس کا مطلب یہ ہوا کہ خدا نے اپنے وفادار بندوں کو طرح طرح کی نعمتیں بخشی ہیں تاکہ کلیسیا کی ترقی کا باعث ہوں۔ ہاں، ہم جسمانی اور دُنیاوی برکتیں رکھ کر ڈھیر سارا روپیہ پیسہ تو کما سکتے اور شہرت کی بلندیوں کو بھی چُھو سکتے ہیں مگر مسیح کے بدن کو ترقی نہیں دے سکتے کیونکہ مسیح کے وسیلہ سے خدا کو جلال اُس وقت مِل سکتا ہے جب ہم خداوند کی کلیسیا میں خدمت گذاری کا کام کریں اور مُقدس و کامِل بنیں۔ شائد آپ سوچیں کہ مسیح ہی کے وسیلہ سے خدا کو جلال دینا کیوں ضروری ہے، تو اِس کا جواب یہ ہے کہ یہ خدا کے منصوبہ اور اِنتظام کے عین مطابق ہے کیونکہ بنی نوع اِنسان کے لئے خدا کا سب سے عظیم، اعلیٰ و افضل گِفٹ اور نعمت اُس کا بیٹا مسیح یسوع ہے۔ جس نے صلیب پر ہمارے گناہوں کا کفارہ دے کر اور ہمیں جہنم کی آگ میں جلنے سے بچا کر خدا کی آسمانی نعمتوں میں شامل کر لیا۔ یہ کوئی سُنی سُنائی من گھڑت کہانی نہیں بلکہ خدا کے پاک اِلہامی کلام میں یسوع مسیح کی پیدایش کے وقت فرشتہ نے مریم کے شوہر یوسف کو اِس گِفٹ و نعمت کی یوں خوشخبری سُنائی، ’’…خداوند کے فرشتہ نے اُسے خواب میں دِکھائی دے کر کہا، اَے یوسف ابنِ دائود اپنی بیوی مریم کو اپنے ہاں لے آنے سے نہ ڈر کیونکہ جو اُس کے پیٹ میں ہے وہ رُوح اُلقدس کی قدرت سے ہے۔ اُس کے بیٹا ہو گا اور تُو اُس کا نام یسوع رکھنا کیونکہ وہی اپنے لوگوں کو اُن کے گناہوں سے نجات دے گا۔ یہ سب کچھ اِس لئے ہُوا کہ جو خداوند نے نبی کی معرفت کہا تھا وہ پورا ہو کہ دیکھو، ایک کنواری حاملہ ہو گی اور بیٹا جنے گی اور اُس کا نام عمانوایل رکھیں گے جس کا ترجمہ ہے خدا ہمارے ساتھ۔‘‘ (متی ۱:۲۰-۲۳) کیا ہمارے لئے اِس سے بڑی کوئی اَور نعمت ہو سکتی ہے کہ خدا ہر وقت ہمارے ساتھ ہو، اور ہمیں طرح طرح کی نعمتوں سے بھی نوازے، جیسے کہ خدا کی محبت کی نعمت جس کے بارے میں پاک کلام کہتا ہے، ’’…مَیں نے تجھ سے ابدی محبت رکھی اِسی لئے مَیں نے اپنی شفقت تجھ پر بڑھائی۔‘‘ (یرمیاہ ۳۱:۳)

خدا کے فضل کی نعمت: ’’کیونکہ تم کو اِیمان کے وسیلہ سے فضل ہی سے نجات مِلی ہے، اور یہ تمہاری طرف سے نہیں، خدا کی بخشِش ہے۔ اور نہ اعمال کے سبب سے ہے تاکہ کوئی فخر نہ کرے۔‘‘ (افسیوں۲:۸-۹)

خدا کے اِطمینان کی نعمت: ’’مَیں تمہیں اِطمینان دِئے جاتا ہوں۔ اپنا اِطمینان تمہیں دیتا ہوں، جس طرح دُنیا دیتی ہے مَیں تمہیں اُس طرح نہیں دیتا۔ تمہارا دِل نہ گھبرائے اور نہ ڈرے۔‘‘ (یوحنا ۱۴:۲۷)

خدا کے پاک رُوح کی نعمت: ’’…جب رُوح اُلقدس تم پر نازل ہو گا تو تم قوت پائو گے اور یروشلیم، اور تمام یہودیہ اور سامریہ میں بلکہ زمین کی اِنتہا تک میرے گواہ ہو گے۔‘‘ (اعمال ۱:۸)

مسیح میں نیا مخلوق بننے کی نعمت: ’’اِس لئے اگر کوئی مسیح میں ہے تو وہ نیا مخلوق ہے۔ پُرانی چیزیں جاتی رہِیں، دیکھو وہ نئی ہو گِئیں۔‘‘ (۲-کرنتھیوں ۵:۱۷)

گناہ اور موت سے آزاد ہونے کی نعمت: ’’پس اَب جو مسیح یسوع میں ہیں اُن پر سزا کا کوئی حکم نہیں کیونکہ زندگی کے رُوح کی شریعت نے مسیح یسوع میں مجھے گناہ اور موت کی شریعت سے آزاد کر دیا۔‘‘ (رُومیوں۸:۱-۲)

مسیح یسوع میں قوت و طاقت پانے کی نعمت: ’’جو مجھے طاقت بخشتا ہے اُس میں مَیں سب کچھ کر سکتا ہوں۔‘‘ (فلپیوں۴:۱۳)

خدا کے سامنے دلیری سے حاضر ہونے اور دُعا مانگنے کی نعمت: ’’اور ہمیں جو اُس کے سامنے دلیری ہے اُس کا سبب یہ ہے کہ اگر اُس کی مرضی کے مُوافق کچھ مانگتے ہیں تو وہ ہماری سُنتا ہے، اور جب ہم جانتے کہ جو کچھ ہم مانگتے ہیں وہ ہماری سُنتا ہے تو یہ بھی جانتے ہیں کہ جو کچھ ہم نے اُس سے مانگا ہے وہ پایا ہے۔‘‘ (۱-یوحنا۵:۱۴-۱۵)

خدا سے زندہ اُمید پانے کی نعمت: ’’پس خدا جو اُمید کا چشمہ ہے تمہیں اِیمان رکھنے کے باعث ساری خوشی اور اِطمینان سے معمُور کرے تاکہ رُوح اُلقدس کی قدرت سے تمہاری اُمید زیادہ ہوتی جائے۔‘‘ (رُومیوں ۱۵:۱۳)

دوستو، بہنو اور بھائیو! اگر آپ چاہیں تو خداوند خدا اپنی ساری آسمانی نعمتیں آج آپ پر بھی نچھاور کر سکتا ہے، مگر اِس کے لئے آپ کو مسیح خداوند پر اِیمان لا کر اپنے گناہوں سے نجات پانا اور پاک و راستباز بنانا ہے۔ اَب یہ آپ کی مرضی ہے کہ یا تو اپنی دُنیاوی جسمانی خوبیوں، وصفوں اور مہارتوں میں ہی مست رہیں یا مسیح یسوع کے وسیلہ سے رُوح اُلقدس پا کر آسمانی نعمتوں کے وارث ہوں، فیصلہ آپ کا ہے، کوئی جبر و زبردستی نہیں کیونکہ خدا جبر و زبردستی نہیں کرتا۔

جی ہاں، خدا جبر و زبردستی نہیں کرتا، خدا کی یہی وہ خصوُصیت ہے جس کا ہم اپنے اگلے پروگرام میں ذِکر کریں گے، ضرور سُنیئے گا۔