Skip to content

خدا نفرت کرنے والا خدا ہے

Posted in خُدا کی تلاش

کبھی آپ نے سوچا ہے کہ خدا کی دُنیا جو اُس نے نبی نوع اِنسان کو وقتی طور پر رہنے کے لئے دی ہے کِتنی خوبصورت ہے۔ یہ بلند و بالا پہاڑ، یہ بہتے ہوئے پانی کے جھرنے، یہ دُور تک پھیلی سرسبز و شاداب وادیاں، یہ رنگ برنگے مہکتے پھولوں کی لمبی لمبی قطاریں، طرح طرح کے خوشنما پھلوں سے لدی جھومتی ڈالیاں، یہ دریا، یہ سمندر، یہ بارش کی رِم جھم گرتی پھواریں، غرض خدا کی پیدا کی ہوئی ہر چیز حسین و دلکش ہے۔ مگر افسوس کہ ہم اِنسانوں نے خدا کی اِس خوبصورت تخلیق میں جگہ جگہ نفرتوں کی دیواریں کھڑی کر دی ہیں، اور ہم محبت، صُلح و یگانگت سے ایک دوسرے کے قریب آنے کی بجائے دُور ہوتے جا رہے ہیں۔ کیا خدا چاہتا ہے کہ ہم ایک دوسرے سے نفرت کریں؟ ہر گز نہیں۔ خدا نے تو اِنسان کو اپنی شبیہ پر پیدا کِیا ہے، اِسی لئے وہ چاہتا ہے کہ ہم اُسی کی طرح پاک اور محبت کرنے والے ہوں، مگر ہمارا یہ حال ہے کہ نفرتوں ہی میں جیتے اور نفرتوں ہی میں مَر جاتے ہیں۔ ذرا سوچیئے کہ جب ہم اِنسانوں سے جِنہیں ہم نے دیکھا ہے محبت نہیں کرتے تو خدا سے جِسے ہم نے دیکھا ہی نہیں محبت کیسے کر سکتے ہیں؟ آئیے دیکھتے ہیں کہ بائبل مُقدس عداوت و نفرت کے بارے میں کیا کہتی ہے، ’’عداوت جھگڑے پیدا کرتی ہے لیکن محبت سب خطائوں کو ڈھانک دیتی ہے۔‘‘ (امثال ۱۰:۱۲) اِس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ محبت، نفرت کو مِٹا سکتی ہے مگر اُس کے لئے لازم ہے کہ ہم پہلے محبت کے سَر چشمہ خدا کو اپنے دِل میں جگہ دیں تاکہ ہمارے دِل و دماغ کو عداوت و نفرت سے پاک صاف کر کے محبت بھر دے۔ اَب سوال یہ ہے کہ خدا جو محبت کا سَرچشمہ ہے، کیا وہ بھی نفرت کرتا ہے؟ ہاں، بالکل خدا نفرت کرتا ہے مگر اِنسانوں سے نہیں اُن کے کاموں سے، خدا گناہ سے نفرت اور گناہگار سے پیار کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ وہ توبہ اور معافی پا کر گناہ سے دُور اور اُس کے قریب ہو جائے۔ چلیئے آئیے دیکھتے ہیں کہ وہ کون سی چیزیں ہیں جن سے خدا نفرت بلکہ کراہیت رکھتا ہے، بائبل مُقدس کہتی ہے، ’’چھ چیزیں ہیں جن سے خداوند کو نفرت ہے بلکہ سات چیزیں ہیں جن سے اُسے کراہیت ہے۔ اُونچی آنکھیں، جھوٹی زبان، بے گناہ کا خون بہانے والے ہاتھ، بُرے منصُوبے باندھنے والا دِل، شرارت کے لئے تیز رُو پائوں، جھوٹا گواہ جو درُوغ گوئی کرتا ہے اور جو بھائیوں میں نفاق ڈالتا ہے۔‘‘ (امثال ۶:۱۶-۱۹)

خدا کو اِن چیزوں کے علاوہ بُت پرستی سے بھی سخت نفرت ہے، خداوند خدا اپنے زندہ کلام میں کہتا ہے، ’’…مَیں تمہاری پرستش کے بلند مقاموں کو ڈھا دُوں گا اور تمہاری سُورج کی مُورتوں کو کاٹ ڈالوں گا اور تمہاری لاشیں تمہارے شکستہ بُتوں پر ڈال دُوں گا اور میری رُوح کو تم سے نفرت ہو جائے گی۔‘‘ (احبار ۲۶:۳۰) خدا کا پیارا بندہ دائود نبی اپنے خداوند کے بارے میں کہتا ہے، ’’کیونکہ تُو ایسا خدا نہیں جو شرارت سے خوش ہو۔ بدی تیرے ساتھ نہیں رہ سکتی۔ گھمنڈی تیرے حضور کھڑے نہ ہوں گے۔ تجھے سب بدکرداروں سے نفرت ہے۔‘‘ (زبور ۵:۴-۵) ایک اَور مقام پر دائود نبی کہتا ہے، ’’خداوند صادق کو پرکھتا ہے، پر شریر اور ظلم دوست سے اُس کی رُوح کو نفرت ہے۔‘‘ (زبور ۱۱:۵) اور پھر لکھا ہے، ’’جھوٹے لبوں سے خداوند کو نفرت ہے لیکن راستکار اُس کی خوشنودی ہیں۔‘‘ (امثال۱۲:۲۲) اَب سوال یہ ہے کہ ہم خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے راستکار کیسے بنیں؟ ہم کیا کریں کہ خدا کی نفرت کو خوشنودی میں بدل دیں؟ سچ یہ ہے کہ ہم خود سے یعنی اپنی کوشِش و طاقت سے کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ شائد آپ اِس غلط فہمی میں ہوں کہ اگر ہم نیک کام کریں اور دِل سے بُرے خیال نکال دیں تو خدا ہمارے نیک اعمال کے سبب سے خوش ہو کر سیدھا جنت میں بھیج دے گا، مگر خدا کہتا ہے کہ ’’دِل سب چیزوں سے زیادہ حِیلہ باز اور لاعلاج ہے، اُس کو کون دریافت کر سکتا ہے؟‘‘ (یرمیاہ ۱۷:۹) اور اگر ہمارا دِل حِیلہ باز، لاعلاج ہے اور خدا کے علاوہ اِسے کوئی دریافت نہیں کر سکتا تو یقیناً اِس کا علاج بھی خدا ہی کے پاس ہے۔ اور خدا اپنے بیٹے مسیح یسوع کی صورت میں دُنیا میں آیا تاکہ ہم اُس کے وسیلہ سے راستکار بن کر خدا کی خوشنودی حاصل کریں اور خدا کی بادشاہی یعنی جنت میں داخل ہوں۔ ایک بات تو آپ ذہن میں بِٹھا لیں کہ گناہوں سے نجات صرف اور صرف مسیح یسوع پر اِیمان لانے اور فضل کے وسیلہ سے ہی مِل سکتی ہے، اعمال کے وسیلہ سے نہیں۔ اِسی لئے پولس رسول اپنے اِلہامی خط میں کہتا ہے، ’’کیونکہ تم کو اِیمان کے وسیلہ سے فضل ہی سے نجات مِلی ہے۔ اور یہ تمہاری طرف سے نہیں، خدا کی بخشِش ہے، اور نہ اعمال کے سبب سے تاکہ کوئی فخر نہ کرے۔‘‘ (افسیوں۲:۸-۹) اور اگر ہم مسیح یسوع پر اِیمان لا کر فضل سے نجات نہیں پاتے تو خدا کی بخشِش ہم پر نہیں ہو سکتی۔ پھر یقیناً وہ ہم سے نفرت کرے گا اور اپنے گھر سے نکال دے گا۔ ’’اُن کی ساری شرارت جِلجال میں ہے۔ ہاں، وہاں مَیں نے اُن سے نفرت کی۔ اُن کی بداعمالی کے سبب سے مَیں اُن کو اپنے گھر سے نکال دُوں گا اور پھر اُن سے محبت نہ رکھوں گا۔…‘‘ (ہوسیع ۹:۱۵) مگر ہم مسیح یسوع کے وسیلہ سے خدا کی محبت میں شامل اور ہمیشہ کے لئے اُس کے گھر میں رہ سکتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے رویے اور کام اِس قابل ہیں کہ خدا کی کامِل مرضی پوری کریں۔ پولس رسول کہتا ہے، ’’اِس جہان کے ہمشکل نہ بنو بلکہ عقل نئ ہو جانے سے اپنی صُورت بدلتے جائو تاکہ خدا کی نیک اور پسندیدہ اور کامِل مرضی تجربہ سے معلوم کرتے رہو۔‘‘ (رُومیوں۱۲:۲) جیسا کہ ہم نے پہلے کہا کہ خدا ہم سے محبت کرتا مگر ہمارے گناہ آلُودہ کاموں سے نفرت رکھتا ہے۔ شیطان کے اِن نفرتی کاموں کو مِٹانے کے لئے اُس نے اپنے بیٹے مسیح یسوع کو صلیب پر قربان کِیا تاکہ ہم اُس کے پاک خون کے وسیلہ سے راستباز ٹھہریں۔ پولس رسول رُومیوں کے نام اپنے اِلہامی خط میں کہتا ہے، ’’لیکن خدا اپنی محبت کی خوبی ہم پر یوں ظاہر کرتا ہے کہ جب ہم گناہگار ہی تھے تو مسیح ہماری خاطر مُواٴ۔ پس جب ہم اُس کے خون کے باعث اَب راستباز ٹھہرے تو اُس کے وسیلہ سے غضبِ اِلٰہی سے ضرور ہی بچیں گے۔ ‘‘ (رُومیوں ۵:۸-۹) بائبل مُقدس میں ایک اَور مقام پر مسیح کے بارے لکھا ہے، ’’اُسی نے ہم کو تاریکی کے قبضہ سے چُھڑا کر اپنے عزیز بیٹے کی بادشاہی میں داخل کِیا، جس میں ہم کو مخلصی یعنی گناہوں کی معافی حاصل ہے۔‘‘ (کلسیوں ۱:۱۳)

مسیح یسوع نے نہ صرف اپنے خون کے باعث ہمیں تاریکی کے قبضہ سے چُھڑا کر مخلصی و گناہوں کی معافی دی بلکہ ہر کام و عمل، تعلیم و کلام اور سِیرت و کردار سے خدا کی نیک، پسندیدہ اور کامِل مرضی کو پورا کِیا، اِسی لئے مسیح کی زندگی ہمارے لئے ایک ایسا نمونہ ہے جس پر چل کر ہم اپنے اِرد گرد کھڑی نفرت کی دیوار گرا کر دوسروں کو محبت سے گلے لگا سکتے ہیں۔ مسیح کے زمانہ میں یہودی کوڑھیوں سے اِس قدر نفرت کرتے تھے کہ اُن کو چُھوناٴ تو ایک طرف اُنہیں لشکرگاہ یعنی آبادی سے باہر الگ تھلگ رکھتے تھے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ خدا کی طرف سے اُن پر گناہوں کے سبب لعنت و سزا ہے۔ کوڑھی سے نفرت کا یہ عالم تھا کہ کوڑھ کا شکار شخص زندہ دَرگور ہونے کے مُترادف تھا، اور جب کوئی اُس کے قریب آتا تو اُسے چِلا کر کہتاکہ ناپاک، ناپاک، ناپاک یعنی مَیں ناپاک ہوں، مجھ سے دُور ہو جائو۔ لیکن مسیح یسوع نے ایک کوڑھی کی منت و اِلتجا پر وہ کر دیا جو پہلے کبھی نہ ہُوا تھا۔ ’’اور ایک کوڑھی نے اُس کے پاس آ کر اُس کی منت کی اور اُس کے سامنے گھٹنے ٹیک کر اُس سے کہا، اگر تُو چاہے تو مجھے پاک صاف کر سکتا ہے۔ اُس نے اُس پر ترس کھا کر ہاتھ بڑھایا اور اُسے چُھو کر اُس سے کہا، مَیں چاہتا ہوں، تُو پاک صاف ہو جا۔ اور فی الفُور اُس کا کوڑھ جاتا رہا اور وہ پاک صاف ہو گیا۔‘‘ (مرقس ۱:۴۰-۴۱) مسیح یسوع چاہتے تو کوڑھی کو بِنا چُھوئے بھی شفا دے سکتے تھے مگر اُنہوں نے اُسے جان بُوجھ کر ہاتھ لگایا تاکہ یہودیوں کے دِلوں میں کوڑھیوں کے لئے جو نفرت ہے اُسے ختم کریں۔ اِس کے علاوہ مسیح نے گناہوں کی اُس سزا کو جو یہودیوں کے نزدیک خدا کی طرف سے اُس شخص پر کوڑھ کی شکل میں آئی تھی، چُھو کر ہمیشہ کے لئے نجات دی یعنی جسمانی اور رُوحانی طور پر وہ کوڑھی شفا پا گیا کیونکہ مسیح کے نزدیک اُس کی رُوحانی بیماری، جسمانی بیماری سے زیادہ خطرناک تھی۔ آج ہمارا بھی یہی حال ہے، ہمیں اپنی رُوحانی بیماری سے زیادہ جسمانی بیماری کی فکر ہوتی ہے اور نہیں جانتے کہ اگر ہم خداوند یسوع مسیح کے پاس آئیں اور گھٹنے ٹیک کر سجدہ و اِلتجا کریں تو وہ ہماری جسمانی اور رُوحانی دونوں بیماریوں کو شفا دینے کی قدرت و طاقت رکھتا ہے۔ اِسی طرح ایک مرتبہ یہودی مذہبی راہنما یعنی فقیہ اور فریسی ایک عورت کو مسیح یسوع کے پاس لائے جو عین زنا کے فعل کے وقت پکڑی گئی تھی۔ اُنہوں نے ہاتھوں میں پتھر اُٹھائے ہوئے تھے کہ اُسے توریت میں موسیٰ نبی کے حکم مطابق سنگسار کریں۔ وہ چالاکی سے مسیح کو آزمانے کے لئے اپنے جال میں پھنسانا چاہتے تھے تاکہ اُسے پکڑنے کا بہانہ ڈھونڈیں۔ جب وہ مسیح سے سوال کرتے ہی رہے تو اُس نے کہا، ’’…جو تم میں بے گناہ ہو وہی پہلے اُس کے پتھر مارے۔ …وہ یہ سُن کر بڑوں سے لے کر چھوٹوں تک ایک ایک کر کے نکل گئے اور یسوع اکیلا رہ گیا، اور عورت وہیں بِیچ میں رہ گئی۔ یسوع نے سیدھے ہو کر اُس سے کہا، اَے عورت یہ لوگ کہاں گئے؟ کیا کسی نے تجھ پر حکم نہیں لگایا؟ اُس نے کہا، اَے خداوند کسی نے نہیں۔ یسوع نے کہا، مَیں بھی تجھ پر حکم نہیں لگاتا، جا پھر گناہ نہ کرنا۔‘‘ (یُوحنا ۸:۷-۱۱) آپ نے دیکھا کہ لوگوں کے دِلوں میں اُس عورت کے لئے اِتنی نفرت تھی کہ وہ اُسے سنگسار کرنا چاہتے تھے مگر خداوند مسیح نے اُس پر نہ تو تہمت لگائی اور نہ نفرت سے ڈانٹا بلکہ رحم، شفقت، فضل و محبت کا اِظہار کِیا اور اُسے جسمانی اور رُوحانی طور پر نجات دے کر کہا، جا پھر گناہ نہ کرنا۔ آج خدا ہمیں بھی مسیح یسوع کے وسیلہ جسمانی اور رُوحانی بیماری سے نجات دینا چاہتا ہے کیونکہ خدا نجات بخشنے و۱لا خدا ہے۔

جی ہاں، خدا نجات بخشنے والا خدا ہے، خدا کی یہی وہ خصوُصیت ہے جس کا ہم اپنے اگلے پروگرام میں ذِکر کریں گے، ضرور سُنئیے گا۔