Skip to content

خدا قہر و غضب والا خدا ہے

Posted in خُدا کی تلاش

یوں تو ہر اِنسان کے اندر کچھ نہ کچھ عیب اور بُرائیاں ہوتی ہیں مگر کچھ عیب ایسے ہوتے ہیں جن سے دوسری بُرائیاں بھی جُڑی ہوئی ہوتی ہیں اور اُنہی سے نفرتیں، کدُورتیں، رکاوٹیں، بدمزگیاں، دُوریاں، پستیاں، دُشمنیاں، لڑائیاں اور خون ریزیاں جنم لیتی ہیں۔ غصہ یا قہر ایک ایسی ہی بُرائی ہے۔ غصے میں ہم وہ کچھ کر جاتے اور کہہ جاتے ہیں جس کا ہوش میں تصور بھی نہیں کر سکتے اور شائد اِسی لئے کہتے ہیں کہ غصہ حرام ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ خدا کے لوگ جو اپنے آپ کو پاک و راستباز مانتے اور خدا کی ہدایت و راہنمائی میں چلتے ہیں، کیا وہ بھی قہر و غصہ کرتے ہیں؟ ہاں، خدا کے لوگ بھی غصہ میں بہک جاتے اور گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں، اور نہ صرف اپنے لئے بلکہ دوسرے بہن بھائیوں کے لئے بھی تکلیف، شرمندگی اور ٹھوکر کا سبب بنتے ہیں، مگر آئیے دیکھتے ہیں خدا کا پاک اِلہامی کلام قہر و غصہ کے بارے میں کیا کہتا ہے، ’’احمق اپنا قہر اُگل دیتا ہے لیکن دانا اُس کو رُوکتا اور پی جاتا ہے۔‘‘ (امثال ۲۹:۱۱) ایک اَور مقام پر لکھا ہے، ’’آدمی کی تمیز اُس کو قہر کرنے میں دھیما بناتی ہے اور خطا سے درگذر کرنے میں اُس کی شان ہے۔‘‘ (امثال ۱۹:۱۱) اور پھر لکھا ہے، ’’تُو اپنے جی میں خفا ہونے میں جلدی نہ کر کیونکہ خفگی احمقوں کے سینوں میں رہتی ہے۔‘‘ (واعظ۷:۹) اور پھر قلمبند ہے، ’’غضبناک آدمی فِتنہ برپا کرتا ہے، پر جو قہر میں دھیما ہے جھگڑا مِٹاتا ہے۔‘‘ (امثال ۱۵:۱۸) اور آئیے دیکھتے ہیں ہمارے خداوند مسیح یسوع نے اپنے پیروکاروں کو قہر و غصہ کے بارے میں کیا تعلیم دی ہے۔ ہم گارنٹی سے کہتے ہیں کہ اگر کوئی اِس ہدایت پر دِل سے عمل کرے تو غُصے، جھگڑے اور فتنے فساد کی کبھی نوبت نہیں آئے گی۔ مسیح یسوع نے فرمایا، ’’تم سُن چکے ہو کہ اگلوں سے کہا گیا تھا کہ خون نہ کرنا اور جو کوئی خون کرے گا وہ عدالت کی سزا کے لائق ہو گا۔ لیکن مَیں تم سے کہتا ہوں کہ جو کوئی اپنے بھائی پر غصے ہو گا وہ عدالت کی سزا کے لائق ہو گا، اور جو کوئی اپنے بھائی کو پاگل کہے گا وہ صدرِ عدالت کی سزا کے لائق ہو گا، اور جو اُس کو احمق کہے گا وہ آگ کے جہنم کا سزاوار ہو گا۔ پس اگر تُو قربان گاہ پر اپنی نذر گذرانتا ہو اور وہاں تجھے یاد آئے کہ میرے بھائی کو مجھ سے شکایت ہے تو وہیں قربانگاہ کے آگے اپنی نذر چھوڑ دے اور جا کر پہلے اپنے بھائی سے مِلاپ کر، تب اپنی نذر گذران۔‘‘ (متی ۵:۲۱-۲۴) یہاں بھائی کا مطلب خونی رشتہ کے تحت بھائی نہیں بلکہ اِیمان میں کوئی بھی بھائی یا بہن مُراد ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کتنے مسیحی اپنے خداوند کی اِس بنیادی تعلیم پر عمل کرتے ہیں۔ اِسی لئے اکثر گھروں میں غصہ جھگڑا فساد، عبادت گاہوں میں غصہ جھگڑا فساد، خدمتی اداروں میں غصہ جھگڑا فساد، میاں بیوی میں غصہ جھگڑا فساد، یار دوستوں، بھائیوں اور بہنوں میں غصہ جھگڑا فساد، تو خود ہی سوچئیے خدا ہم پر شفقت و برکت کا ہاتھ رکھے گا یا عدالت کی سزا کے لائق ٹھہرائے گا۔ چلو مانا کہ غیر مسیحیوں کے پاس نہ تو مسیح ہے، نہ مسیح کا کلام و تعلیم اور نہ ہی وہ حق کی پہچان رکھتے ہیں مگر مسیحیوں کے پاس تو مسیح بھی ہے، مسیح کا پاک کلام بھی اور حق کی پہچان رکھنے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں لہذا اگر پھر بھی مسیح کی مانند نہیں بنتے اور اُس کی تعلیم و کلام کا مطالعہ و عمل نہیں کرتے، اُلٹا گناہ کرتے ہیں تو اُن سے زیادہ سزا کے لائق ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ خدا کا پاک اِلہامی اِس بارے میں کیا کہتا ہے، ’’کیونکہ حق کی پہچان حاصل کرنے کے بعد اگر ہم جان بوجھ کر گناہ کریں تو گناہوں کی کوئی اَور قربانی باقی نہیں رہی۔ ہاں، عدالت کا ایک ہولناک اِنتظار اور غضبناک آتش باقی ہے جو مُخالفوں کو کھا لے گی۔‘‘ (عبرانیوں۱۰:۲۶-۲۷) لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ خدا قہر و غضب کرنے میں جلدی نہیں کرتا بلکہ ہمارے حق میں صبر کرتا ہے کہ اپنے گناہوں سے توبہ کریں اور معافی پائیں۔ ہاں، خدا رحیم و کریم ہے مگر وہ عادل خدا بھی ہے۔ وہ گناہ کو درگذر نہیں کر سکتا، یا تو ہم اپنے گناہوں سے توبہ کریں یا قہر و غضب کے لئے تیار ہو جائیں۔ جنسی ہَوس پرستی کا یہ عالم ہے کہ بےچاری عورتیں، بچے اور بچیاں اِنسان نما درندوں کی درندگی سے محفوظ نہیں حالانکہ جنگلی جانور بھی چھوٹے بڑے کا کچھ ادب لحاظ کرتے ہیں مگر ہم تو بحیثیت معاشرہ گناہ میں اِتنی اِنتہا کو پہنچ چکے ہیں کہ جانور بھی ہم سے چھپتے پھرتے ہیں کیونکہ ہم اُن بے زبانوں کو بھی اپنی ہَوس کا نشانہ بنانے سے نہیں شرماتے۔ اور جب زمین پر اخلاقی بد حالی حد سے پار ہو جائے تو خدا کے صبر و برداشت کا پیمانہ لبریز ہو جاتا ہے اور پھر خدا کے عدل و اِنصاف کا تقاضا ہے کہ وہ اپنا قہر و غضب نازل کرے۔ بائبل مُقدس گواہ ہے کہ خدا بنی نوع اِنسان کو راہِ راست پر لانے کی بار بار کوشش کرتا ہے اور جب اِنسان گناہ سے باز نہیں آتا تو اِلٰہی قہر و غضب بھڑک اُٹھتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے سب کچھ نیست و نابود ہو جاتا ہے۔ زمین و آسمان کی تخلیق ہی کے وقت جب آدم اور حوا نے حکم عدُولی کی تو خدا نے اپنے قہر و غضب میں دونوں کو جنت سے نکال باہر کِیا یعنی اپنے سے دُور کر دیا کیونکہ وہ گناہ کے سبب ناپاک ہو گئے تھے۔ ’’اِس لئے خداوند خدا نے اُسکو باغِ عدن سے باہر کر دیا تاکہ وہ اُس زمین کی جس میں سے وہ لیا گیا تھا کھیتی باڑی کرے۔‘‘ (پیدایش ۳:۲۳) یہ تھی خدا کے قہر و غضب کی پہلی جھلک، مگر بنی اِنسان نے اِس سے سبق نہیں سیکھا بلکہ شیطان کے تابع ہو کر گناہوں میں ڈوبتا چلا گیا۔ آدم اور حوا کے دو بیٹے قائن اور ہابل تھے۔ دونوں خدا کے حضور اپنے کھیت کے پھل کا ہدیہ لائے اور خدا نے ہابل کا ہدیہ قبول کِیا مگر قائن کا قبول نہ کِیا، جس سے قائن بہت غضباک ہُوا اور حسد میں آ کر اپنے بھائی ہابل کو قتل کر دیا اور خدا کا قہر و غضب قائن پر بھڑکا، ’’… تُو نے یہ کیا کِیا؟ تیرے بھائی کا خون زمین سے مجھ کو پکارتا ہے۔ اور اَب تُو زمین کی طرف سے لعنتی ہُوا، جس نے اپنا منہ پسارا کہ تیرے ہاتھ سے تیرے بھائی کا خون لے۔ جب تُو زمین کو جوتے تو وہ اَب تجھے اپنی پیداوار نہ دے گی اور زمین پر تُو خانہ خراب اور آوارہ ہو گا۔‘‘ (پیدایش ۴:۱۰-۱۲) اور پھر نوح نبی کے زمانہ میں بھی لوگ خدا سے دُور ہو کر گناہ کی پستیوں میں گر گئے۔ خدا تو چاہتا تھا کہ اِنسان اُس کی طرح پاک و راستباز ہو تاکہ اُس کے ساتھ رفاقت رکھے مگر جب ایسا نہ ہُوا تو خدا اِنسان کی حالت دیکھ کر ملُول و رنجیدہ ہُوا۔ ’’اور خداوند نے دیکھا کہ زمین پر اِنسان کی بدی بہت بڑھ گئی اور اُس کے دِل کے تصور اور خیال سدا بُرے ہی ہوتے ہیں۔ تب خداوند زمین پر اِنسان کو پیدا کرنے سے ملُول ہُوا اور دِل میں غم کِیا۔ اور خداوند نے کہا کہ مَیں اِنسان کو جِسے مَیں نے پیدا کِیا رُویِ زمین پر سے مِٹا ڈالوں گا۔ اِنسان سے لے کر حیوان اور رینگنے والے جاندار اور ہَوا کے پرندوں تک کیونکہ مَیں اُن کے بنانے سے ملُول ہوں۔ مگر نوح خداوند کی نظر میں مقبول ہُوا۔‘‘ (پیدایش۶:۵-۸) آپ نے دیکھا کہ نافرمان و باغی اِنسان کو پیدا کرنے سے خدا غمزدہ اور ملُول ہُوا مگر نیک و راستباز نوح خدا کی نظر میں مقبول ٹھہرا۔ آسمانی جانچ پرکھ کے اِسی اِلٰہی معیار کی روشنی میں ہمارے سامنے دو ہی راستے ہیں یا تو تابعداری سے راستباز ٹھہر کر خداوند کی نظر میں مقبول ہوں یا گناہگار بن کر نافرمانی کی سزا یعنی اِلٰہی قہر و غضب کے لئے تیار ہوں۔ اور پھر کچھ ایسا ہی ہُوا، خدا نے اپنے بندے نوح سے کہا کہ ایک کشتی تیار کر اور اُس میں تیرے ساتھ تیرے خاندان کے سب لوگ اور جانوروں کی ہر قِسم میں سے دو دو اپنے ساتھ لے لینا تاکہ وہ بھی تیرے ساتھ زندہ رہیں، اور اپنے ساتھ کھانے پینے کی چیزیں بھی رکھ لینا۔ اور جیسا خدا نے حکم دیا نوح نے تابعداری سے ویسا ہی کِیا۔ ’’اور چالیس دِن تک زمین پر طوفان رہا اور پانی بڑھا اور اُس نے کشتی کو اُوپر اُٹھا دیا۔ سو کشتی زمین پر سے اُٹھ گئی۔ اور پانی زمین پر چڑھتا ہی گیا اور بہت بڑھا اور کشتی پانی کے اُوپر تیرتی رہی، اور پانی زمین پر بہت ہی زیادہ چڑھا اور سب اُونچے پہاڑ جو دُنیا میں ہیں چھپ گئے۔ پانی اُن سے پندرہ ہاتھ اَور اُوپر چڑھا اور پہاڑ ڈوب گئے۔ اور سب جانور جو زمین پر چلتے تھے، پرندے اور چوپائے اور جنگلی جانور اور زمین پر کے سب رینگنے والے جاندار اور سب آدمی مر گئے۔ …فقط ایک نوح باقی بچا یا وہ جو اُس کے ساتھ کشتی میں تھے، اور پانی زمین پر ایک سو پچاس دِن تک چڑھتا رہا۔ ‘‘ (پیدایش ۷:۱۷-۲۱، ۲۳-۲۴) آپ نے دیکھا کہ اِنسان جب نافرمانی سے باز نہ آیا تو خدا نے کِس طرح اپنا قہر و غضب نازل کِیا۔ اِسی طرح بائبل مُقدس میں سدُوم اور عمورہ دو سر سبز و شاداب قدیم جڑواں شہروں کا ذِکر ہے جو دریائے یردن کی وادی میں آباد تھے۔ وہاں کے لوگ بھی خدا سے دُور ہو کر عیش و عشرت میں مدہوش ہو گئے اور مَردوں کے ساتھ جنسی بدفعلی کے سنگین گناہ کے مرتکب ہوئے، اگرچہ خدا کے نیک بندوں ابرہام نبی اور لُوط نبی نے اُنہیں راہِ راست پر لانے کی بہت کوشش کی، مگر شیطان نے اُن کی آنکھوں پر شیطانیت کی پٹی باندھ دی تھی، اور آخرِکار خدا کا قہر و غضب سدُوم اور عمورہ پر بھڑکا، ’’تب خداوند نے اپنی طرف سے سدُوم اور عمورہ پر گندھک اور آگ آسمان سے برسائی، اور اُس نے اُن شہروں کو اور اُس ساری ترائی کو اور اُن شہروں کے سب رہنے والوں کو اور سب کچھ جو زمین سے اُگاہ تھا غارت کِیا۔ …اور ابرہام صبح سویرے اُٹھ کر اُس جگہ گیا جہاں وہ خداوند کے حضور کھڑا تھا، اور اُس نے سدُوم اور عمورہ اور اُس ترائی کی ساری زمین کی طرف نظر کی اور کیا دیکھتا ہے کہ زمین پر دُھواں ایسا اُٹھ رہا ہے جیسے بھٹی کا دُھواں۔‘‘ (پیدایش ۱۹:۲۴-۲۵، ۲۷-۲۸) یہ ہے گناہوں میں گرنے اور توبہ نہ کرنے کا انجام، مگر خوشی و شادمانی کی بات یہ ہے کہ ہمارا خدا قہر کرنے میں دھیما اور شفقت میں غنی ہے، وہ کسی کی ہلاکت نہیں چاہتا، اِسی لئے اپنے بیٹے مسیح یسوع میں ہو کر خود دُنیا میں آیا اور صلیب پر ہمارے گناہوں کا کفارہ ادا کر کے ہمیں گندھک و آگ کی بھٹی میں جلنے سے بچا لیا۔ اَب ایک طرف خدا ہے اور دوسری طرف شیطان۔ ایک طرف ابدی زندگی ہے اور دوسری طرف ابدی ہلاکت، اور جب ہم خدا کو یعنی ابدی زندگی کو چھوڑ کر شیطان کو یعنی ابدی ہلاکت کو گلے لگاتے ہیں تو خدا حسد کرتا ہے کیونکہ خدا حسد کرنے والا خدا ہے۔

جی ہاں، خدا حسد کرنے والا خدا ہے، مگر شائد آپ سوچ رہے ہوں کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے، جاننے کے لئے ہمارا اگلا پروگرام ضرور سُنئیے گا۔