Skip to content

خدا ہماری زندہ اُمید ہے

Posted in خُدا کی تلاش

نااُمیدی اور اعصابی یا نفسیاتی دبائو یعنی ڈیپریشن کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ نااُمید اِنسان منفی سوچ کے بھنور میں کھو کر نہ صرف اپنے دوست احباب اور قریبی رشتوں سے دُور ہو جاتا ہے بلکہ اُسے اپنے وُجود ہی سے نفرت ہو جاتی ہے کہ مَیں تو کسی قابل ہی نہیں، سب اچھے ہیں اور ایک مَیں ہی بُرا ہوں۔ اُسے اپنی زندگی ایک بوجھ سا محسوس ہوتی ہے، اور یوں وہ اپنے اِس احساس کو مِٹانے کے لئے سگریٹ، شراب اور دوسری نشہ آور دوائیوں کا سہارا لیتا ہے اور سوچتا ہے کہ حالات کبھی بہتر نہیں ہو سکتے، میری تکلیفوں کا کوئی حل ہے ہی نہیں، میرے لئے اَب کوئی اُمید باقی نہیں رہی، اچھا ہے کہ اپنی جان ہی لے لوں۔ آج اخبارات، ٹیلی ویثرن اور سوشل میڈیا پر کوئی دِن ایسا ہو گا کہ خود کشی کی خبر نہ چل رہی ہو۔ آج فلاں نے اپنے آپ کو گولی مار لی اور فلاں نے اپنے گلے میں پھندا ڈال کر اپنی جان لے لی۔ ایک غریب بے چارہ تو بُھوک افلاس کے ہاتھوں تنگ آ کر اپنی جان ختم کر دیتا ہے، مگر ایک پڑھا لکھا خوش حال کامیاب ڈاکٹر ، مشہور و معرُوف فلم اسٹار یا دُنیا کا امیر ترین شخص کیوں نااُمید ہو کر خود کشی پر مجبور ہو جاتا ہے حالانکہ دُنیا کی ہر آسائش و آرام اور عزت و شہرت اُس کے پاس ہوتی ہے۔ اِس قدر نااُمیدی کی کیا وجہ ہے کہ لوگ اپنی ہی زندگی ختم کر لیتے ہیں؟ بُنیادی وجہ خدا سے دُوری ہے۔ اگر وہ خدا کو جانتے اور ڈرتے، اُسی سے شفقت کی اُمید رکھتے تو کبھی نااُمیدی کے گھپ اندھیرے میں نہ گرتے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ خدا کے پاک اِلہامی کلام میں کیا لکھا ہے، ’’خداوند اُن سے خوش ہے جو اُس سے ڈرتے ہیں اور اُن سے جو اُس کی شفقت کے اُمیدوار ہیں۔‘‘ (زبور ۱۴۷:۱۱) بائبل مُقدس میں دائود نبی کہتا ہے، ’’اَے خداوند! …میری اُمید تجھ ہی سے ہے۔ ‘‘ (زبور۳۹:۷) ایک اَور مقام پر خدا کا نیک و وفادار بندہ اپنی اُمید کا یوں اِظہار کرتا ہے، ’’…مَیں تو خدا کے گھر میں زیتون کے ہرے درخت کی مانند ہوں۔ میرا توکل ابدلآباد خدا کی شفقت پر ہے۔ مَیں ہمیشہ تیری شکرگزاری کرتا رہوں گاکیونکہ تُو ہی نے یہ کِیا ہے اور مجھے تیرے ہی نام کی آس ہو گی کیونکہ وہ تیرے مُقدسوں کے نزدیک خوب ہے۔‘‘ (زبور۵۲:۸-۹) اور پھر دائود نبی خدا پر زندہ اُمید رکھنے اور نہ رکھنے والوں کے بارے میں کہتا ہے، ’’…جو تیرے منتظر ہیں اُن میں سے کوئی شرمندہ نہ ہو گا۔ پر جو ناحق بے وفائی کرتے ہیں وہی شرمندہ ہوں گے۔‘‘ (زبور۲۵:۳)

شیطان چاہتا ہے کہ ہم نااُمید ہو کر خدا سے دُور ہو جائیں، مگر خدا کی زندہ اُمید ہمیں شیطان کے زہریلے تِیروں سے محفوظ رکھتی ہے، اور اُس کی محبت و شفقت اپنے بندوں پر ہمیشہ قائم رہتی ہے بشرطیکہ ہم وفادار، ثابت قدم اور پُراُمید رہیں۔ سوال یہ ہے کہ زندہ اُمید ہے کیا؟ آئیے خدا کے پاک اِلہامی کلام میں دیکھتے ہیں کہ پطرس رسول اِس بارے میں کیا کہتا ہے، ’’ہمارے خداوند یسوع مسیح کے خدا اور باپ کی حمد ہو جس نے یسوع مسیح کے مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے باعث اپنی بڑی رحمت سے ہمیں زندہ اُمید کے لئے نئے سِرے سے پیدا کِیا تاکہ ایک غیرفانی اور بے داغ اور لازوال مِیراث کو حاصل کریں۔‘‘ (۱-پطرس ۱:۳) پطرس رسول کا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں مسیح یسوع کے مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے سبب سے زندہ اُمید حاصل ہوئی ہے اور جب ہم مسیح خدا وند کو اپنا نجات دہندہ قبول کر کے اُس میں بپتسمہ پاتے ہیں تو یہ نیا جنم یعنی اپنے گناہوں سے دُھل کر نئے سِرے سے پیدا ہونا ہمارے لئے خدا کی طرف سے زندہ اُمید اور نجات کا تحفہ ہے۔ یوحنا کی اِلہامی اِنجیل میں لکھا ہے، ’’وہ نہ خون سے نہ جسم کی خواہش سے نہ اِنسان کے اِرادہ سے بلکہ خدا سے پیدا ہوئے۔‘‘ (یوحنا ۱:۱۳) اور افسیوں کے نام اپنے اِلہامی خط میں پولس رسول کہتا ہے، ’’جب قصوُروں کے سبب سے مُردہ ہی تھے تو ہم کو مسیح کے ساتھ زندہ کِیا ( تم کو فضل ہی نجات مِلی ہے)۔‘‘ (افسیوں ۲:۵) ایک اَور مقام پر لکھا ہے، ’’…اگر کوئی مسیح میں ہے تو وہ نیا مخلوق ہے۔ پُرانی چیزیں جاتی رہیں۔ دیکھو وہ نئ ہو گِئیں۔‘‘ (۲-کرنتھیوں ۵:۱۷) زندہ اُمید کی ایک اَور جھلک ملاحظہ فرمائیے، ’’جب مسیح جو ہماری زندگی ہے ظاہر کِیا جائے گا تو تم بھی اُس کے ساتھ جلال میں ظاہر کِئے جائو گے۔‘‘ (کلسیوں۳:۴) اور اَب آئیے سُنئیے کہ مسیح یسوع نے اپنے پیروکاروں سے کِس یقین کے ساتھ زندہ اُمید کا وعدہ کِیا، ’’مَیں تم سے سچ سچ کہتا ہوں کہ جو میرا کلام سُنتا اور میرے بھیجنے والے کا یقین کرتا ہے ہمیشہ کی زندگی اُس کی ہے اور اُس پر سزا کا حکم نہیں ہوتا بلکہ وہ موت سے نکل کر زندگی میں داخل ہو گیا ہے۔‘‘ (یوحنا ۵:۲۴) مگر اَب سوال یہ ہے کہ کیا خدا کے لوگ یعنی مسیحی بھی نااُمید ہوتے ہیں؟ ہاں، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مسیح یسوع کے پیروکار بھی شیطان کے حملوں کی لپیٹ میں آ کر زندہ اُمید کا دامن چھوڑ دیتے اور نااُمیدی کے اندھیرے میں ڈوب جاتے ہیں۔ ہم اپنی کیا بات کریں مسیح کے شاگرد بھی جو اپنے خداوند کے ساتھ ساتھ رہتے اور اُس کی اِلٰہی قدرت و معجزات کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے تھے، جب اُن کا اُستاد و خداوند صلیب پر قربان ہو کر قبر میں دفن ہو گیا تو وہ بھی نااُمید ہو گئے اور دروازے بند کر کے بیٹھ گئے کہ مسیح تو اِتنے دعوے کرتا تھا مگر یہ کیا ہُوا۔ ہم تو اَب اکیلے رہ گئے۔ وہ جو مُردوں کو اپنی قدرت و طاقت سے زندہ کر دیتا تھا، صلیب پر گھائل ہو کر قبر میں پڑا ہے۔ مگر وہ اپنے خداوند کا زندہ اُمید سے بھرپور یہ دعویٰ بھول گئے جو اُس نے یہودیوں کے سامنے کِیا کیونکہ وہ اُسے پکڑ کر قتل کرنا چاہتے تھے،’’…اِس مَقدس کو ڈھا دو تو مَیں اُسے تین دِن میں کھڑا کر دوں گا۔‘‘ (یوحنا۲:۱۹) مسیح یسوع یہاں اپنے مَرنے اور پھر تیسرے دِن مُردوں میں سے جی اُٹھنے کی بات کر رہے تھے مگر یہودی یہ سمجھے کہ یہ ہیکل یعنی یہودی عبادت گاہ کو کھڑا کرنے کی بابت کہہ رہے ہیں۔ اور پھر اُس نے صلیب دیئے جانے اور تیسرے دِن مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے بارے میں اپنے شاگردوں کو واضح طور پر یہ زندہ اُمید دی، ’’دیکھو ہم یروشلیم کو جاتے ہیں اور ابنِ آدم سردار کاہنوں اور فقیہوں کے حوالہ کِیا جائے گا، اور وہ اُس کے قتل کا حکم دیں گے، اور اُسے غیر قوموں حوالہ کریں گے تاکہ وہ اُسے ٹھٹھوں میں اُڑائیں اور کوڑے ماریں اور صلیب پر چڑھائیں اور وہ تیسرے دِن زندہ کِیا جائے گا۔‘‘ (متی ۲۰:۱۸-۱۹) مگر شاگرد جو مسیح کے ساتھ رہتے اور کھاتے پیتے تھے وہ بھی اِس ازلی اِلٰہی سچائی کو نہ سمجھ سکے، اِسی لئے جب مسیح صلیب پر اپنے کہنے کے مطابق لٹکایا گیا تو شاگرد نااُمید ہو گئے کیونکہ وہ تو مسیح یسوع کو ایک دُنیاوی طاقت ور بادشاہ کے رُوپ میں دیکھنا چاہتے تھے جو اُنہیں رُومیوں کی غلامی سے نجات دے گا مگر مسیح کے مَرتے اور قبر میں دفن ہوتے ہی اُن کی اُمید بھی مَر کر دفن ہو گئی۔ اور جب اُنہوں نے زندہ اُمید کو اپنے وعدے اور دعوے کے عین مطابق حق و سچائی کے رُوپ میں اپنے سامنے دیکھا تو اُنہیں اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔ آئیے سُنتے ہیں کہ پھر کیا ہُوا، ’’اور سبت کے بعد ہفتہ کے پہلے دِن پَو پھٹتے وقت مریم مگدلینی اور دوسری مریم قبر کو دیکھنے آئِیں۔ اور دیکھو ایک بڑا بُھونچال آیا کیونکہ خداوند کا فرشتہ آسمان سے اُترا اور پاس آ کر پتھر کو لڑھکا دیا اور اُس پر بیٹھ گیا۔ اُس کی

صورت بجلی کی مانند تھی اور اُس کی پوشاک برف کی مانند سفید تھی، اور اُس کے ڈر سے نگہبان کانپ اُٹھے اور مُردہ سے ہو گئے۔ فرشتہ نے عورتوں سے کہا، تم نہ ڈرو کیونکہ مَیں جانتا ہوں کہ تم یسوع کو ڈھونڈتی ہو جو مصلُوب ہُوا تھا۔ وہ یہاں نہیں ہے کیونکہ اپنے کہنے کے مطابق جی اُٹھا ہے۔ آئو یہ جگہ دیکھو جہاں خداوند پڑا تھا۔ اور جلد جا کر اُس کے شاگردوں سے کہو کہ وہ مُردوں میں سے جی اُٹھا ہے، اور دیکھو وہ تم سے پہلے گلیل کو جاتا ہے، وہاں تم اُسے دیکھو گے۔ دیکھو مَیں نے تم سے کہہ دیا ہے۔ اور وہ خوف اور بڑی خوشی کے ساتھ قبر سے جلد روانہ ہو کر اُس کے شاگردوں کو خبر دینے دوڑیں۔ اور دیکھو یسوع اُن سے مِلا اور اُس نے کہا، سلام۔ اُنہوں نے پاس آ کر اُس کے قدم پکڑے اور اُسے سجدہ کِیا۔ اِس پر یسوع نے اُن سے کہا، ڈرو نہیں۔ جائو میرے بھائیوں کو خبر دو تاکہ گلیل کو چلے جائیں، وہاں مجھے دیکھیں گے۔ …اور گیارہ شاگرد گلیل کے اُس پہاڑ پر گئے جو یسوع نے اُن کے لئے مُقرر کِیا تھا۔ اور اُنہوں نے اُسے دیکھ کر سجدہ کِیا مگر بعض نے شک کِیا۔ یسوع نے پاس آ کر اُن سے باتیں کِیں اور کہا کہ آسمان اور زمین کا کُل اِختیار مجھے دیا گیا ہے۔ پس تم جا کر سب قوموں کو شاگرد بنائو اور اُن کو باپ اور بیٹے اور رُوح اُلقدس کے نام سے بپتسمہ دو، اور اُن کو یہ تعلیم دو کہ اُن سب باتوں پر عمل کریں جن کا مَیں نے تم کو حکم دیا۔ اور دیکھو مَیں دُنیا کے آخر تک ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں۔‘‘ (متی ۲۸:۱-۱۰، ۱۶-۲۰) اور وہ شاگرد جو ڈرے ہوئے نااُمید بیٹھے تھے، زندہ اُمید کو اپنے سامنے دیکھ کر، سُن کر اور چُھو کر ایک نئے جوش و جذبہ اور ہمت و دلیری کے ساتھ گھر گھر، نگر نگر خداوند یسوع مسیح میں زندہ اُمید کی خوشخبری پھیلانے لگے کیونکہ اُن کو کامِل یقین تھا کہ ’’…اگر مسیح نہیں جی اُٹھا تو ہماری منادی بھی بے فائدہ ہے اور تمہارا اِیمان بھی بے فائدہ۔ …اگر ہم صرف اِسی زندگی میں مسیح میں اُمید رکھتے ہیں تو سب آدمیوں سے زیادہ بدنصیب ہیں۔‘‘ (۱-کرنتھیوں ۱۵:۱۴، ۱۹)

شائد آپ سوچ رہے ہوں کہ شاگردوں میں اچانک اِتنی دلیری کہاں سے آ گئی کہ مسیح کی خاطر اپنی جانیں تک قربان کر دِیں۔ اِس لئے کہ خدا کا یہ وعدہ اور عہد ہر وقت اُنہیں زندہ اُمید اور دلیری بخشتا تھا، ’’دیکھو مَیں دُنیا کے آخر تک ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں۔‘‘ اور جب خدا ہمارے ساتھ ہے تو پھر ہمیں کیسی نااُمیدی اور کیسا ڈر۔ آئیے خدا کے اِس وعدے پر مکمل بھروسہ کرتے ہوئے دلیری سے چلیںکیونکہ خدا دلیری بخشتا ہے۔

جی ہاں، خدا دلیری بخشتا ہے، خدا کی یہی وہ خوبی ہے جس کا ہم اپنے اگلے پروگرام میں ذِکر کریں گے، سُننا مت بھولیئے گا۔