Skip to content

خدا بھاگنے نہیں دیتا

Posted in خُدا کی تلاش

فرض کریں آپ کا کوئی بزرگ کوئی ایسا اہم کام آپ کو سُونپتا ہے جس کو انجام دینا سارے خاندان کی بہتری و بھلائی کا سبب ہو تو آپ کیا کریں گے؟ بخوشی تیار ہو جائیں گے یا اپنا سامان باندھ کر کہیں بھاگ جائیں گے۔ مطلب یہ کہ آپ نہ صرف اپنے قابلِ محترم بزرگ کی حکم عدُولی اور نافرمانی کر رہے ہیں بلکہ اُس کے اعتماد و بھروسہ کو بھی ٹھیس پہُنچا رہے اور خاندان کی بہتری و بھلائی کو بھی پسِ پشت ڈال رہے ہیں۔ خود ہی سوچئیے کہ بیچارہ بزرگ کہاں گلی گلی شہر شہر آپ کی تلاش میں مارا مارا پھرے گا، مگر جب بزرگ و برتر خدا کسی کو اپنے منصوبہ کی تکمیل کے لئے چُنتا ہے تو پھر اُسے بھاگنے نہیں دیتا۔ اور اگر کوئی بھاگ بھی جائے تو کہیں چھپ نہیں سکتا، خواہ آسمان کی اِنتہا یا زمین کی تہ میں جا چھپے، خداوند کی آنکھیں اُسے ڈھونڈ ہی نکالتی ہیں۔ چلیئے بائبل مُقدس سے دیکھتے ہیں کہ خدا کا پیارا بندہ دائود نبی اپنے خداوند کے بارے میں کیا کہتا ہے، ’’مَیں تیری رُوح سے بچ کر کہاں جائوں یا تیری حضوری سے کدِھر بھاگوں؟ اگر آسمان پر چڑھ جائوں تو تُو وہاں ہے۔ اگر مَیں پاتال میں بستر بچھائوں تو دیکھ! تُو وہاں بھی ہے۔ ‘‘ (زبور ۱۳۹:۷-۸) ایک اَور مقام پر خداوند خدا فرماتا ہے، ’’…کیا مَیں نزدیک ہی کا خدا ہوں اور دُور کا خدا نہیں؟ کیا کوئی آدمی پوشیدہ جگہوں میں چھپ سکتا ہے کہ مَیں اُسے نہ دیکھوں؟ خداوند فرماتا ہے، کیا زمین و آسمان مجھ سے معمُور نہیں ہیں؟ (یرمیاہ ۲۳:۲۳-۲۴) آپ نے دیکھا کہ اِنسان خدا سے کہیں بھی چھپ نہیں سکتا اگرچہ اِنسان نے باغِ عدن میں ہی اُس سے چھپنا اور بھاگنا شروع کر دیا تھا۔ پیدایش کی اِلہامی کتاب میں یوں لکھا ہے، ’’…اُنہوں نے خداوند خدا کی آواز جو ٹھنڈے وقت باغ میں پھرتا تھا سُنی اور آدم اور اُس کی بیوی نے آپ کو خداوند خدا کے حضور سے باغ کے درختوں میں چھپایا۔‘‘ (پیدایش ۳:۸) اِس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم اِنسان خدا کی حکم عدُولی اور گناہ بھی کرتے ہیں اور پھر بھاگتے چھپتے پھرتے ہیں۔

دُنیا میں کئی طرح کے لوگ ہیں جو خدا سے بھاگتے ہیں ایک تو وہ جو خدا کو نہیں جانتے یعنی بے اِیمان۔ وہ گناہوں کی لذت میں اِتنے کھو چکے ہوتے ہیں کہ چھوڑنا اُن کے لئے ممکن نہیں ہوتا۔ اِسی لئے خدا سے بھاگتے پھرتے ہیں۔ دوسرے مال دار و دولت مند ہیں، وہ خدا سے اِس لئے بھاگتے ہیں کہ خدا کی پیروی کرنے سے اُنہیں نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے کیونکہ یا تو خدا کو اولیت دیں گے یا اپنے مال و دولت کو۔ تیسرے وہ لوگ ہیں جو جھوٹی تعلیم و عقائد میں پھنسے ہوتے ہیں اور سچے واحد خدا کو جاننے پہچاننے سے بھاگتے ہیں۔ چوتھی قِسم کے لوگ خدا کو جانتے یعنی اِیمان دار ہیں۔ یہ اِس غلط فہمی کا شکار ہوتے ہیں کہ خدا کی برکتوں پر صرف اُن ہی کا حق ہے اور باقی سب گناہگاروں کو اپنے گناہوں میں ہی ہلاک ہونا چاہیے۔ یوناہ نبی ہمارے سامنے ایک ایسے ہی اِیمان دار کی مثال ہے جو خدا سے بھاگنے کی کوشش کرتا ہے۔ خدا نینوہ شہر کے گناہگار لوگوں کو توبہ کی طرف لانا چاہتا تھا تاکہ وہ گناہوں سے نجات پا کر اِلٰہی برکات پائیں۔ اُس نے یوناہ نبی کو چُنا کہ وہاں توبہ و معافی کی منادی کرے مگر یوناہ حسد کی آگ میں جل کر اُٹھ بھاگا کہ خدا کی نظروں سے کہیں دُور نکل جائے تاکہ اُسے گناہ میں ڈوبے ہوئے نینوہ کے لوگوں میں توبہ کی منادی نہ کرنی پڑے مگر وہ نہیں جانتا تھا کہ خدا بھاگنے نہیں دیتا۔ لہذا یوناہ نبی سمندری جہاز میں بیٹھ کر دُور دراز ترسیس کو روانہ ہو گیا۔ چلیئے آئیے پاک اِلہامی کلام سے سُنتے ہیں کہ پھر کیا ہُوا، ’’لیکن خداوند نے سمندر پر بڑی آندھی بھیجی اور سمندر میں سخت طوفان برپا ہُوا اور اندیشہ تھا کہ جہاز تباہ ہو جائے۔ تب ملاح ہراسان ہوئے اور ہر ایک نے اپنے دیوتا کو پکارا اور وہ اجناس جو جہاز میں تھیں سمندر میں ڈال دیں تاکہ اُسے ہلکا کریں۔ لیکن یوناہ جہاز کے اندر پڑا سو رہا تھا۔ تب ناخدا اُس کے پاس جا کر کہنے لگا، تُو کیوں پڑا سو رہا ہے؟ اُٹھ اپنے معبُود کو پُکار! شائد وہ ہم کو یاد کرے اور ہم ہلاک نہ ہوں۔ اُنہوں نے آپس میں کہا، آئو ہم قُرعہ ڈال کر دیکھیں کہ یہ آفت ہم پر کِس کے سبب سے آئی۔ چنانچہ اُنہوں نے قُرعہ ڈالا اور یوناہ کا نام نکلا۔ تب اُنہوں نے اُس سے کہا، تُو ہم کو بتا کہ یہ آفت ہم پر کِس کے سبب سے آئی ہے؟ تیرا کیا پیشہ ہے اور تُو کہاں سے آیا ہے؟ تیرا وطن کہاں ہے اور تُو کِس قوم کا ہے؟ اُس نے اُن سے کہا، مَیں عبرانی ہوں اور خداوند آسمان کے خدا بحر و بر کے خالق سے ڈرتا ہوں۔ تب وہ خوف زدہ ہو کر اُس سے کہنے لگے، تُو نے یہ کیا کِیا؟ کیونکہ اُن کو معلوم تھا کہ وہ خداوند کے حضور سے بھاگا ہے اِس لئے کہ اُس نے خود اُن سے کہا تھا۔‘‘ (یوناہ ۱:۴-۱۰)

سُمندر اَور زیادہ طوفانی ہوتا جا رہا تھا، اور اُنہوں نے اُس سے پوچھا کہ ہم کیا کریں کہ سمندری طوفان تھم جائے؟ اُس نے کہا کہ مجھے اُٹھا کر سمندر میں پھینک دو تو سمندر ساکن ہو جائے گا کیونکہ تم پر یہ آفت میری ہی وجہ سے آئی ہے۔ مگر ملاح نہیں چاہتے تھے کہ خداوند اُس کا خون اُن کی گردن پر ڈالے۔ اُنہوںنے خداوند کے حضور گڑگڑا کر منت کی، اور پھر اُنہوں نے خداوند کی مرضی سمجھ کر یوناہ کو اُٹھا کر سمندر میں پھینک دیا اور سمندری طوفان ایک دَم تھم گیا۔ ’’تب وہ خداوند سے بہت ڈر گئے اور اُنہوں نے اُس کے حضور قربانی گذرانی اور نذریں مانیں۔ لیکن خداوند نے ایک بڑی مچھلی مُقرر کر رکھی تھی کہ یوناہ کو نگل جائے اور یوناہ تین دِن رات مچھلی کے پیٹ میں رہا۔‘‘ (یوناہ ۱:۱۶-۱۷) تب یوناہ خدا کے حضور سے بھاگنے پر پچھتایا۔ اُسے اپنے گناہ کا احساس ہُوا اور اُس نے سمندر کی تہ سے خداوند خدا کی قدرت و طاقت، حشمت و جلال اور رحمت و شفقت کو یاد کرتے ہوئے یوں دُعا کی، ’’تُو نے مجھے گہرے سمندر کی تہ میں پھینک دیا اور سیلاب نے مجھے گھیر لیا۔ تیری سب موجیں اور لہریں مجھ پر سے گذر گئیں اور مَیں سمجھا کہ تیرے حضور سے دُور ہو گیا ہوں لیکن مَیں پھر تیری مُقدس ہیکل کو دیکھوں گا۔ …اور میری دُعا تیری مُقدس ہیکل میں تیرے حضور پہنچی۔ جو لوگ جھوٹے معبُودوں کو مانتے ہیں وہ شفقت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ مَیں حمد کرتا ہُوا تیرے حضور قربانی گذرانُوں گا۔ مَیں اپنی نذریں ادا کروں گا۔ نجات خداوند کی طرف سے ہے۔ اور خداوند نے مچھلی کو حکم دیا اور اُس نے یوناہ کو خشکی پر اُگل دیا۔‘‘ (یوناہ ۲:۳-۴، ۷-۱۰) آپ نے دیکھا کہ خدا کا حکم نہ ماننے اور اُس سے بھاگنے کا کِتنا بھیانک انجام ہوتا ہے۔ یوناہ یہ سمجھ رہا تھا کہ وہ خدا سے بھاگ کر کہیں دُور نکل جائے گا مگر نہیں جانتا تھا کہ واپسی کا سفر دُور بھاگنے کے سفر سے کہیں زیادہ اجیرن اور تکلیف دہ ہو گا۔ اور یوناہ، خدا کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے نینوہ کو گیا اور لوگوں میں گناہوں سے باز رہنے کی مُنادی کرنے لگا اور بادشاہ سمیت سب لوگ اپنے گناہوں پر پچھتائے اور خداوند خدا کے حضور رحم کی بھیک مانگنے لگے تاکہ قہرِ شدید سے بچ جائیں۔ اور خدا نے جب دیکھا کہ وہ اپنی بُری روش سے باز آئے تو وہ اُن پر اپنا عذاب نازل کرنے سے باز آیا۔ مگر جیسا کہ ہم نے پہلے کہا کہ کچھ اِیماندار ایسے ہوتے ہیں جو خوش نہیں ہوتے کہ گناہگار خدا کی معافی و رحم پا کر اُس کی برکتوں میں شامل ہوں، لہذا یوناہ بھی نینوہ کے لوگوں پر خدا کا رحم و فضل دیکھ کر خوش نہ ہوا اور ناراضگی ہی میں خداوند خدا سے یوں دُعا کی، ’’…اَے خداوند، جب مَیں اپنے وطن ہی میں تھا اور ترسیس کو بھاگنے والا تھا تو کیا مَیں نے یہی نہ کہا تھا؟ مَیں جانتا تھا کہ تُو رحیم و کریم خدا ہے جو قہر کرنے میں دھیما اور شفقت میں غنی ہے اور عذاب نازل کرنے سے باز رہتا ہے۔ اَب اَے خداوند، مَیں تیری منت کرتا ہوں کہ میری جان لے لے کیونکہ میرے اِس جینے سے مَر جانا بہتر ہے۔ تب خداوند نے فرمایا، کیا تُو ایسا ناراض ہے؟ اور یوناہ شہر سے باہر مشرق کی طرف جا بیٹھا اور وہاں اپنے لئے ایک چھپر بنا کر اُس کے سایہ میں بیٹھ رہا کہ دیکھے شہر کا کیا حال ہوتا ہے۔‘‘ (یوناہ ۴:۲-۵) آپ نے دیکھا کہ ایک طرف حسد، غصہ اور ناراضگی ہے، دوسری طرف خدا کی عظیم محبت، شفقت اور معافی ہے۔ اور پھر خدا نے ناراض یوناہ نبی کو اپنی اِلٰہی محبت و قدرت کی ایک جھلک دِکھانے کے لئے ایک پودے اور ایک چھوٹے سے حقیر کیڑے کو اِستعمال کِیا کیونکہ خدا چاہتا تھا کہ یوناہ ناراض نہ ہو بلکہ بنی اِنسان کے لئے اُس کی بخشِش و نجات کو سمجھے۔ یوناہ دُھوپ کی تیزی سے بچنے کے لئے اپنے اُوپر چھپر بنا کر اُس کے سائے میں بیٹھا تھا کہ خدا نے کدُو کی ایک بیل اُگائی اور اُسے یوناہ کے اُوپر پھیلا دیا کہ اُس پر سایہ کرے تاکہ وہ گرمی کی شدت سے بچ جائے، یوناہ بہت خوش ہُوا کہ واہ، کدُو کی بیل نے مجھے دُھوپ میں مرنے سے بچا لیا ہے، لیکن دوسرے دِن خدا نے ایک کیڑا بھیجا اور اُس نے کدُو کی بیل کو کاٹ ڈالا اور وہ سُوکھ گئی۔ خدا نے سُورج کی گرمی کو اِتنا تیز کر دیا کہ یوناہ دُھوپ کی شدت سے تلملا اُٹھا، اور کہنے لگا، میرے اِس جینے سے مَر جانا بہتر ہے۔ ’’اور خدا نے یوناہ سے فرمایا، کیا تُو اِس بیل کے سبب سے ایسا ناراض ہے؟ اُس نے کہا، مَیں یہاں تک ناراض ہوں کہ مَرنا چاہتا ہوں۔ تب خدا نے فرمایا کہ تجھے اِس بیل کا اِتنا خیال ہے جس کے لئے تُو نے نہ کچھ محنت کی اور نہ اُسے اُگایا، جو ایک ہی رات میں اُگی اور ایک ہی رات میں سُوکھ گئی۔ اور کیا مجھے لازم نہ تھا کہ مَیں اِتنے بڑے شہر نینوہ کا خیال کروں جس میں ایک لاکھ بیس ہزار سے زیادہ ایسے ہیں جو اپنے دہنے اور بائیں ہاتھ میں امتیاز نہیں کر سکتے اور بے شمار مویشی ہیں؟‘‘ (یوناہ ۴:۹-۱۱)

معزز سامعین! کہیں ہم بھی خدا سے بھاگ تو نہیں رہے؟ شائد ہم گناہوں کی لذت میں مدہوش پڑے سو رہے ہیں، شائد مال و دولت کے نشے میں چور ہیں، ممکن ہے جھوٹی تعلیم و عقائد میں اُلجھے ہیں یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ خدا کو جانتے تو ہیں مگر یوناہ نبی کی طرح حسد کی آگ میں جل رہے ہیں۔ خدا سے دُور بھاگنے کی وجہ کچھ بھی کیوں نہ ہو آئیے اپنے خالق و مالک کی طرف واپسی کا سفر شروع کریں کیونکہ وہی ہماری زندہ اُمید ہے۔

جی ہاں، خدا ہماری زندہ اُمید ہے، خدا کی یہی وہ خصوصیت ہے جس کا ہے ہم اپنے اگلے پروگرام میں ذِکر کریں گے، ضرور سُنئیے گا۔