Skip to content

خدا رشتوں کا پاسبان ہے

Posted in خُدا کی تلاش

کبھی آپ نے سوچا ہے کہ آج گھروں اور رشتوں میں ناچاقیاں، ناراضگیاں، جُدائیاں اور دُوریاں کیوں ہیں؟ کیا وجہ ہے کہ نفرتیں بڑھتی اور محبتیں ماند پڑتی جا رہی ہیں؟کیونکہ جو ہم رات دِن دیکھتے اور سُنتے ہیں وہ ہمارے دِل و دماغ میں رچ بس جاتا ہے اور سمجھتے ہیں کہ بس یہی سب کچھ ہے۔ معزز سامعین! انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر جو گھناؤنا کھیل کھیلا جا رہا ہے وہ بے حد پریشان کن ہے، تقریباً تمام ٹی وی چینلز پر ڈراموں کے نام پر جو فحاشی پھیلائی جا رہی ہے وہ ہماری اخلاقی بدحالی کا مُنہ بولتا ثبوت ہے۔ ان ڈراموں میں ایک چیز تسلسل کے ساتھ دکھائی جا رہی ہے جن میں سالی، بھابھی، دیور، بہنوئی، سسر، بہو جیسے قریبی اور احترام کے رشتوں تک کو پامال کیا جاتا ہے۔ آجکل تقریباً ہر دوسرے ڈرامے میں کہیں ایک سالی اپنے بہنوئی پر ڈورے ڈال رہی ہے، کہیں ایک بھابھی اپنے دیور پر فدا ہے، کہیں ایک دیور بھابھی کے چکر میں ہے تو کہیں ایک بہنوئی اپنی سالی کے پیچھے لگا ہوا ہے اور کہیں ایک لڑکی اپنے بہنوئی سے رشتہ جوڑ کر اپنی منگنی توڑ دیتی ہے۔ آخر یہ سب کیا ہے؟ اتنی بے شرمی، بے حیائی اور بے غیرتی کو سَرِ عام دکھائے جانے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ رشتوں کا تقدُس تباہ و برباد ہو کر رہ گیا ہے۔جس کی وجہ سے جِدھر دیکھو جنسی بے راہروی، فحاشی، بے ہودہ ویڈیوز، گندے جُوکس، چھوٹے بچوں کا ریپ و قتل، بلکہ اَب تو گھروں میں پالتو جانور بھی شہوت پرستی کی آگ سے بچ نہیں سکتے۔ میاں بیوی کے درمیان چھوٹی چھوٹی بات پر لڑائی جھگڑا، طلاق اور خلع۔ خدا کی پناہ! ایک زمانہ تھا کہ لفظ طلاق شرم کی بات سمجھا جاتا تھا مگر آج لوگ فخر سے اپنی طلاق و اعمال کی کہانی مزے لے لے کر سُناتے ہیں۔ آئیے دیکھئے کہ خدا کا پاک کلام کیا کہتا ہے، ’’پھر تمہارے اعمال کے سبب سے خداوند کے مذبح پر آہ و نالہ اور آنسوئوں کی ایسی کثرت ہے کہ وہ نہ تمہارے ہدیہ کو دیکھے گا اور نہ تمہارے ہاتھ کی نذر کو خوشی سے قبول کرے گا۔ تو بھی تم کہتے ہو کہ سبب کیا ہے؟ سبب یہ ہے کہ خداوند تیرے اور تیری جوانی کی بیوی کے درمیان گواہ ہے۔ تُو نے اُس سے بے وفائی کی ہے اگرچہ وہ تیری رفیق اور منکُوحہ بیوی ہے۔ اور کیا اُس نے ایک ہی کو پیدا نہیں کِیا باوجُودیکہ اُس کے پاس اَور اَرواح موجود تھیں؟ پھر کیوں ایک ہی کو پیدا کِیا؟ اِس لئے کہ خدا ترس نسل پیدا ہو۔ پس تم اپنے نفس سے خبردار رہو اور کوئی اپنی جوانی کی بیوی سے بے وفائی نہ کرے کیونکہ خداوند اِسرائیل کا خدا فرماتا ہے کہ مَیں طلاق سے بیزار ہوں اور اُس سے بھی جو اپنی بیوی پر ظلم کرتا ہے۔ ربُ الافواج فرماتا ہے، اِس لئے تم اپنے نفس سے خبردار رہو تاکہ بے وفائی نہ کرو۔‘‘ (ملاکی ۲:۱۳-۱۶)

مسیحی تعلیم کی روشنی میں طلاق و بے وفائی کی قطعی اِجازت نہیں کیونکہ میاں بیوی کے خوبصورت رشتہ کی بُنیاد خدا نے زمین و آسمان کی تخلیق کے وقت رکھی۔ باغِ عدن میں خدا نے آدم کو اپنا دَم پھونک کر اپنی شبیہ پر بنایا مگر وہ اکیلا تھا، ’’اور خداوند خدا نے کہاکہ آدم کا اکیلا رہنا اچھا نہیں۔ مَیں اُس کے لئے ایک مددگار اُس کی مانند بنائوں گا۔ …اور خداوند خدا نے آدم پرگہری نیند بھیجی اور وہ سو گیا اور اُس نے اُس کی پسلیوں میں سے ایک کو نکال لیا اور اُس کی جگہ گوشت بھر دیا۔ اور خداوند خدا اُس پسلی سے جو اُس نے آدم میں سے نکالی تھی ایک عورت بنا کر اُسے آدم کے پاس لایا۔ اور آدم نے کہا کہ یہ تو میری ہڈیوں میں سے ہڈی اور میرے گوشت میں سے گوشت ہے اِس لئے وہ ناری کہلائے گی کیونکہ وہ نر سے نکالی گئی۔ اِس واسطے مَرد اپنے ماں باپ کو چھوڑے گا اور اپنی بیوی سے مِلا رہے گا اور وہ ایک تن ہوں گے۔‘‘ (پیدایش ۲:۱۸، ۲۱-۲۴) آپ نے غور فرمایا کہ خدا نے آدم کی پسلی نکال کر اُس کے لئے مددگار یعنی بیوی کو بنایا۔ اَب سوال یہ ہے کہ خدا نے پسلی ہی کیوں نکالی، سَر کی یا پائوں کی ہڈی بھی نکال سکتا تھا۔ سَر کی ہڈی اِس لئے نہیں نکالی کہ کہیں عورت فخر کر کے مَرد پر حکمرانی نہ جتائے، اور پائوں کی ہڈی اِس لئے نہیں نکالی کہ کہیں مَرد اُس پر حکمران نہ بن بیٹھے۔ دِل کے پاس یعنی پہلو سے نکالنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ برابر کھڑی ہے اور دِل کے پاس ہے، اور وہ اپنی بیوی سے ویسے ہی محبت رکھے گا جیسے اپنی رُوح و بدن سے رکھتا ہے۔ آئیے پاک کلام میں دیکھتے ہیں کہ خداوند خدا بیویوں اور شوہروں کو کیا حکم دیتا ہے۔ ’’اَے بیویو! جیسا خداوند میں مناسب ہے اپنے شوہروں کے تابع رہو۔ اَے شوہرو! اپنی بیویوں سے محبت رکھو اور اُن سے تلخ مزاجی نہ کرو۔‘‘ (کلسیوں۳:۱۸-۱۹) ایک اَور مقام پر خداوند مسیح یسوع کو نمونہ بنا کر میاں بیوی سے تاکید کی گئی ہے کیونکہ خدا کے بیٹے مسیح نے صلیب پر ہمارے گناہوں کا فدیہ دے کر ہمیں پاک صاف کِیا تاکہ اُس کی کلیسیا یعنی اُس کے لوگ ہوں۔ لکھا ہے، ’’اَے بیویو! اپنے شوہروں کی ایسے تابع رہو جیسے خداوند کی۔ کیونکہ شوہر بیوی کا سَر ہے جیسے کہ مسیح کلیسیا کا سَر ہے اور وہ خود بدن کا بچانے والا ہے۔ لیکن جیسے کلیسیا مسیح کے تابع ہے ویسے ہی بیویاں بھی ہر بات میں اپنے شوہروں کے تابع ہوں۔ اَے شوہرو! اپنی بیویوں سے محبت رکھو جیسے مسیح نے بھی کلیسیا سے محبت کر کے اپنے آپ کو اُس کے واسطے موت کے حوالہ کر دیا تاکہ اُس کو کلام کے ساتھ پانی سے غسل دے کر اور صاف کر کے مُقدس بنائے۔ اور ایک ایسی جلال والی کلیسیا بنا کر اپنے پاس حاضر کرے جس کے بدن میں داغ یا جُھری یا کوئی اَور ایسی چیز نہ ہو بلکہ پاک اور بے عیب ہو۔ اِسی طرح شوہروں کو لازم ہے کہ اپنی بیویوں سے اپنے بدن کی مانند محبت رکھیں۔ جو اپنی بیوی سے محبت رکھتا ہے وہ اپنے آپ سے محبت رکھتا ہے کیونکہ کبھی کسی نے اپنے جسم سے دُشمنی نہیں کی بلکہ اُس کو پالتا اور پرورش کرتا ہے جیسے کہ مسیح کلیسیا کو۔‘‘ (افسیوں ۵:۲۲-۲۹) شائد لفظ تابع کسی کے لئے ٹھوکر کا باعث ہو مگر اِس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ بیوی، شوہر کی نوکرانی بن کر ایک ہی آواز پر گھر میں بھاگتی پھرے اور شوہر ہر وقت فون یا ٹی وی میں مگن ہو۔ اگر ایک اچھا شوہر اپنی بیوی سے اپنے بدن کی مانند محبت کرتا ہے اور جان دینے سے بھی دریغ نہیں کرتا تو بیوی کا بھی فرض ہے کہ اُس کو بدلے میں ویسا ہی پیار دے۔ اَب آئیے دیکھتے ہیں کہ مسیح یسوع نے طلاق کے بارے میں کیا فرمایا ہے کیونکہ بہت سے غیر مسیحیوں کو اِس بارے میں غلط فہمی ہے حالانکہ مسیحیت میں طلاق سختی سے منع ہے۔ مسیح کے زمانہ میں فریسییوں یعنی شرع کے عالموں نے مسیح یسوع کو آزمانے کے لئے اِسی بارے میں سوال کِیا۔ ’’…کیا ہر ایک سبب سے اپنی بیوی کو چھوڑ دینا روا ہے؟ اُس نے جواب میں کہا، کیا تم نے نہیں پڑھا کہ جس نے اُنہیں بنایا اُس نے اِبتدا ہی سے اُنہیں مَرد اور عورت بنا کر کہا کہ اِس سبب سے مَرد باپ سے اور ماں سے جُدا ہو کر اپنی بیوی کے ساتھ رہے گا اور وہ دونوں ایک جسم (یعنی ایک تن) ہوں گ؟۔ پس وہ دو نہیں بلکہ ایک جسم ہیں۔ اِس لئے جِسے خدا نے جوڑا ہے اُسے آدمی جُدا نہ کرے۔ اُنہوں نے اُس سے کہا، پھر موسیٰ نے کیوں حکم دیا ہے کہ طلاقنامہ دے کر چھوڑ دی جائے؟ اُس نے اُن سے کہا کہ موسیٰ نے تمہاری سخت دِلی کے سبب سے تم کو اپنی بیویوں کو چھوڑ دینے کی اِجازت دی مگر اِبتدا سے ایسا نہ تھا۔ اور مَیں تم سے کہتا ہوں کہ جو کوئی اپنی بیوی کو حرامکاری کے سِوا کسی اَور سبب سے چھوڑ دے اور دوسری سے بیاہ کرے وہ زنا کرتا ہے اور جو کوئی چھوڑی ہوئی سے بیاہ کر لے وہ بھی زنا کرتا ہے۔‘‘ (متی ۱۹:۳-۹) کیا اَب بھی غلط فہمی کی کوئی گنجائش باقی ہے؟ اگر مسیح یسوع کے اِس حکم کو دَرگزر کر کے کوئی مسیحی اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہے تو وہ صریحاً نافرمانی کرتا ہے کیونکہ ایک مسیحی خاندان کا مرکز و محور خدا ہے جو اپنے بنائے ہوئے رشتے کو جِسے اُس نے باغِ عدن میں ایک تن کہہ کر جوڑا اور برکت دی کبھی ٹوٹنے نہیں دیتا۔

اور اَب آئیے چھوٹے چھوٹے بچوں کو جنسی ہَوس کا نشانہ بنانے کی طرف، یہ وہ مکروہ شیطانی حرکت ہے جس نے ہمارے اخلاقی ضابطوں کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دی ہیں۔ جنسی درندوں کی درندگی سے ایک سال کی ہو یا دَس بارہ سال کی غرض کوئی معصوم بچی اور بچہ محفوظ نہیں مگر مسیحی اِیمان و تعلیم کے مطابق بچے برکت کا باعث اور خدا کے منصوبہ میں شامل ہیں۔ آئیے سُنیئے کہ مسیح خداوند نے بچوں کے بارے میں کیا فرمایا، ’’خبردار! اِن چھوٹوں میں سے کسی کو ناچیز نہ جاننا کیونکہ مَیں تم سے کہتا ہوں کہ آسمان پر اُن کے فرشتے میرے آسمانی باپ (یعنی خدا) کا مُنہ ہر وقت دیکھتے ہیں۔‘‘ (متی ۱۸:۱۰) ایک اَور مقام پر مسیح یسوع نے بچوں کی معصُومیت اور پاکیزگی کو یوں بیان کِیا، ’’اُس وقت لوگ بچوں کو اُس کے پاس لائے تاکہ وہ اُن پر ہاتھ رکھے اور دُعا دے مگر شاگردوں نے اُنہیں جِھڑکا۔ لیکن یسوع نے کہا، بچوں کو میرے پاس آنے دو اور اُنہیں منع نہ کرو کیونکہ آسمان کی بادشاہی اَیسوں ہی کی ہے۔‘‘ (متی ۱۹:۱۳-۱۴)

ہمارے ہاں ظلم و تشدد صرف بچوں تک ہی محدُود نہیں بلکہ ماں باپ کی بھی بے حُرمتی اور بے عزتی کی جاتی ہے۔ بائبل مُقدس میں ماں باپ کے ساتھ سلوک کے بارے میں خدا کا پہلا حکم ہی یہی ہے۔’’تُو اپنے باپ اور اپنی ماں کی عزت کرنا تاکہ تیری عُمر اُس مُلک میں جو خداوند تیرا خدا تجھے دیتا ہے دراز ہو۔‘‘ (خروج ۲۰:۱۲) ایک اَور مقام پر یوں لکھا ہے، ’’اَے فرزندو! خداوند میں اپنے ماں باپ کے فرمانبردار رہو کیونکہ یہ واجب ہے۔ اپنے باپ کی اور ماں کی عزت کر (یہ پہلا حکم ہے جس کے ساتھ وعدہ بھی ہے) تاکہ تیرا بھلا ہو اور تیری عُمر زمین پر دراز ہو۔‘‘ (افسیوں ۶:۱-۳) اور ماں باپ کو نصیحت

کرتے ہوئے خداوند خدا کہتا ہے، ’’…اَے اولاد والو! تم اپنے فرزندوں کو غصہ نہ دِلائو بلکہ خداوند کی طرف سے تربیت اور نصیحت دے دے کر اُن کی پرورش کرو۔‘‘ (افسیوں ۶:۴) یہ ہے رشتوں کی عزت و حرمت اور پاسبانی بارے مسیحی تعلیم کا اخلاقی معیار۔ پھر بھی کوئی اِن حکموں کی نافرمانی کرتا ہے تو وہ خدا کی نظر میں گناہگار ہے۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کا سلوک اپنی بیوی کے ساتھ یا بیوی کا اپنے شوہر کے ساتھ، یا بچوں کا اپنے ماں باپ کے ساتھ یا ماں باپ کا اپنے بچوں کے ساتھ خدا کے حکم و ہدایت کے مطابق نہیں تو آج ہی نہ صرف خدا سے بلکہ اپنے رشتوں سے بھی معافی مانگ کر صُلح کا ہاتھ بڑھائیے، خدا آپ کی توبہ، معافی اور صُلح قبول کر کے اپنے ساتھ رشتہ بحال کرے گا کیونکہ خدا صُلح پسند خدا ہے۔

جی ہاں، خدا صُلح پسند خدا ہے، اور خدا کی یہی وہ خصُوصیت ہے جس کا ہم اپنے اگلے پروگرام میں ذِکر کریں گے، ضرور سُنئیے گا۔