Skip to content

خدا آزادی دینے والا خدا ہے

Posted in خُدا کی تلاش

غلامی وہ ناسُور ہے جس کا زہر صدیوں سے ایک مجبور و لاچار اِنسان کو وحشتوں اور ہلاکتوں کے اندھیروں میں ہمیشہ کے لئے گُم کر چُکا ہے۔ آج بھی دُنیا میں کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی شکل میں یہ ناسُور ظلم و بربریت بن کر پھوٹ نکلتا ہے۔ کہیں چھوٹی بچیوں کو گھر کی نوکرانی بنا کر غلامانہ سلوک کِیا جا رہا ہے اور کہیں کوئی چھوٹا سا معصوم بچہ قالین بنانے والی فیکٹری میں صبح سے شام تک محنت مزدوری کے نام پر غلامی کی بھینٹ چڑھ چُکا ہے۔ کہیں اینٹوں کے بھٹے پر کوئی مجبور و غریب خاندان چھوٹے چھوٹے بچوں سمیت نسل در نسل قرض کی غلامی میں جکڑا ہُوا ہے۔ کہیں کم سن مجبور لڑکی کو غلام بنا کر جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور کہیں کسی معصوم کلی کے جسم کو تار تار کر کے پیسہ کمایا جا رہا ہے۔ کہیں شادی کے نام پر معصوم لڑکی کو کسی ظالم کے ہاتھ زبردستی غلام بنا کے بیچ دیا جاتا ہے اور کہیں معاشی بدحالی کا شکار مجبور لوگ غلام بنا کر کسی دوسرے مُلک میں ذلت اُٹھانے کے لئے دھکیل دیئے جاتے ہیں۔ مگر ایک اَور طرح کی غلامی بھی ہے جس کا تعلق ہماری اپنی ذات سے ہے یعنی ہم خود ہی اپنے بُرے رویوں، عادتوں اور عیبوں کے غلام ہوتے ہیں، اور اپنی مرضی سے خود کو غلامی کی یہ زنجیریں پہناتے ہیں۔ ذرا اپنے اِرد گرد نظر دوڑائیے مگر چھوڑیئے اپنے اندر ہی جھانک کر دیکھئے کہیں ہم غصہ، حسد، ضد، لالچ، حرص، بغض، غیبت، جھوٹ، تکبر، نفرت، دُشمنی، تعصب، ہٹ دھرمی، جادُو گری، ناچ رنگ، حرامکاری، شہوت پرستی، بُت پرستی، شراب نوشی، جُواٴ بازی، رشوت خوری، اقربا پروری اور تفرقہ بازی کے غلام تو نہیں۔ معزز سامعین! غلامی خواہ کسی بھی حال میں کیوں نہ ہو اِنسان کو ذہنی، جسمانی اور رُوحانی طور پر ناکارہ بنا دیتی ہے۔ اِسی لئے کسی نے کیا خوب کہا ہے، آزادی کے چند پل غلامی کے ہزار پل سے اچھے ہیں۔

چلیئے آئیے اَب ہم اُس آزادی کی بات کرتے ہیں جو خدا نے ہمیں دی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے خدا کی دی ہوئی آزادی کا غلط اِستعمال تو نہیں کِیا؟ اگر خدا چاہتا تو اِنسان کی جگہ روبوٹ اور مشین بنا کر اپنا کام چلا لیتا، مگر مشینوں میں نہ تو سیرت و کردار، نہ رُوح و احساس، نہ ضمیر و خود آگاہی، نہ رشتے ناطوں کی پہچان و اہمیت اور نہ ماضی، حال، مستقبل کی کوئی منصوبہ بندی ہوتی ہے، کیوں؟ اِس لئے کہ روبوٹ اور مشین میں اپنی مرضی سے کچھ کرنے کی آزادی نہیں ہوتی۔ کیا یہ ہمارے لئے خوشی کی بات نہیں کہ ہم روبوٹ اور مشین نہیں ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ اُس نے ہمیں آزادی سے اچھا بُرا چُننے کا حق دیا، اُس نے ہمیں اپنے احکامات، قوانین اور ضابطے دیئے کہ اُن کے مطابق زندگی بسر کریں مگر اُس نے ہمیں یہ آزادی بھی دی کہ ہم اپنی مرضی سے اُن کی پابندی اور تابعداری کریں یا نہیں۔ خدا نے جب آدم اور حوا کو پیدا کر کے باغِ عدن میں رکھا تو اُنہیں آزادی دی کہ اپنی مرضی سے تابعداری یا نافرمانبرداری چُنیں۔ پیدایش کی اِلہامی کتاب میں لکھا ہے، ’’اور خداوند خدا نے آدم کو حکم دیا اور کہا کہ تُو باغ کے ہر درخت کا پھل بے رُوک ٹوک کھا سکتا ہے لیکن نیک و بد کی پہچان کے درخت کا پھل کبھی نہ کھانا کیونکہ جس روز تُو نے اُس میں سے کھایا، تُو مرا۔‘‘ (پیدایش۲:۱۶-۱۷) مگر شیطان سانپ کے رُوپ میں اُن کو بہکانے کے لئے آیا تو اُس نے حوا کے دِل میں شک و تجسس کا بِیج بُویا اور کہا، ’’…کیا واقعی خدا نے کہا ہے کہ باغ کے کسی درخت کا پھل نہ کھانا؟ عورت نے سانپ سے کہا کہ باغ کے درختوں کا پھل تو ہم کھاتے ہیں، پر جو درخت باغ کے بِیچ میں ہے اُس کے پھل کی بابت خدا نے کہا ہے کہ تم نہ تو اُسے کھانا اور نہ چُھونا ورنہ مَر جائو گے۔ تب سانپ نے عورت سے کہا کہ تم ہرگز نہ مَرو گے، بلکہ خدا جانتا ہے کہ جس دِن تم اُسے کھائو گے تمہاری آنکھیں کھل جائیں گی اور تم خدا کی مانند نیک و بد کے جاننے والے بن جائو گے۔ عورت نے جو دیکھا کہ وہ درخت کھانے کے لئے اچھا اور آنکھوں کو خوشنما معلوم ہوتا ہے اور عقل بخشنے کے لئے خوب ہے تو اُس کے پھل میں سے لیا اور کھایا اور اپنے شوہر کو بھی دیا اور اُس نے کھایا۔‘‘ (پیدایش ۳:۱-۶) اور یوں آدم و حوا نے اپنی مرضی سے خدا کی دی ہوئی آزادی کو پامال کِیا اور خود کو اور ساتھ ہمیں بھی گناہ کی غلامی میں دھکیل دیا۔ یاد رہے کہ جب ہم اپنے لئے اچھا چُنتے ہیں تو اُس کے نتائج بھی اچھے ہوتے ہیں اور جب بُرا چُنتے ہیں تو اُس کے نتائج بھی بُرے ہوتے ہیں۔ اِسی لئے پولس رسول اِلہامی کلام میں کہتا ہے، ’’فریب نہ کھائو۔ خدا ٹھٹھوں میں نہیں اُڑایا جاتا کیونکہ آدمی جو کچھ بوتا ہے وہی کاٹے گا۔ جو کوئی اپنے جسم کے لئے بوتا ہے وہ جسم سے ہلاکت کی فصل کاٹے گا اور جو رُوح کے لئے بوتا ہے وہ رُوح سے ہمیشہ کی زندگی کی فصل کاٹے گا۔‘‘ (گلتیوں ۶:۷-۸)

مگر اِنسان جو خطا کا پتلا ہے خود سے اپنی بُری روِش بدل ہی نہیں سکتا کیونکہ گناہ اُس میں رچا بسا ہُوا ہے، خواہ وہ کِتنا ہی نیکی کا اِرادہ کرے مگر پھر بھی بدی اُسے آ گھیرتی ہے۔ اِسی لئے پولس رسول رُومیوں کے نام اپنے الہامی خط میں کہتا ہے، ’’غرض مَیں ایسی شریعت پاتا ہوں کہ جب نیکی کا اِرادہ کرتا ہوں تو بدی میرے پاس آ موجود ہوتی ہے کیونکہ باطنی اِنسانیت کے رُو سے تو مَیں خدا کی شریعت کو بہت پسند کرتا ہوں، مگر مجھے اپنے اعضا میں ایک اَور طرح کی شریعت نظر آتی ہے جو میری عقل کی شریعت سے لڑ کر مجھے اُس گناہ کی شریعت کی قید میں لے آتی ہے جو میرے اعضا میں موجود ہے۔ ہائے مَیں کیسا کمبخت آدمی ہوں! اِس موت کے بدن سے مجھے کون چھڑائے گا؟‘‘ (رُومیوں ۷:۲۱-۲۴)

ہم خود سے گناہ کی غلامی سے چھٹکارا نہیں پا سکتے جب تک کہ خدا ہمیں نہ چھڑائے۔ اور خدا نے نبی نوع اِنسان کو گناہ کی غلامی سے چھڑانے کی ہر ممکن کوشش کی مگر جب اِنسان باز نہ آیا تو خدا اپنے بیٹے مسیح یسوع کی شکل میں خود دُنیا میں آیا تاکہ ہمیں گناہ کی غلامی و ہلاکت سے ہمیشہ کے لئے نجات دے کر آزادی و زندگی میں لائے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ مسیح یسوع نے اِس بارے میں کیا فرمایا، ’’پس یسوع نے اُن یہودیوں سے کہا جنہوں نے اُس کا یقین کِیا تھا کہ اگر تم میرے کلام پر قائم رہو گے تو حقیقت میں میرے شاگرد ٹھہرو گے، اور سچائی سے واقف ہو گے اور سچائی تم کو آزاد کرے گی۔ اُنہوں نے اُسے جواب دیا، ہم تو ابرہام کی نسل سے ہیں اور کبھی کسی کی غلامی میں نہیں رہے، تُو کیونکر کہتا ہے کہ تم آزاد کِئے جائو گے؟ یسوع نے اُنہیں جواب دیا، مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو کوئی گناہ کرتا ہے، گناہ کا غلام ہے۔ اور غلام ابد تک گھر میں نہیں رہتا، بیٹا ابد تک رہتا ہے۔ پس اگر بیٹا تمہیں آزاد کرے گا تو تم واقعی آزاد ہو گے۔‘‘ (یوحنا ۸:۳۱-۳۵)

معزز سامعین! ہم اپنے اچھے اعمال پر فخر کر کے گناہ کی غلامی سے کبھی چھٹکارا نہیں پا سکتے۔ ویسے بھی کون ہے جو ہر وقت اچھے اور نیک کام ہی کرتا رہے گا اور کبھی بھولے سے بھی خطا و قصور نہ کر ے؟ مسیح یسوع کے سِوا ایسی کوئی ہستی نہ تھی، نہ ہے اور نہ ہو گی جو گناہ سے بالکل پاک ہو۔ اِسی لئے مسیح یسوع نے یہودیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دعوے سے کہا، ’’تم میں کون مجھ پر گناہ ثابت کرتا ہے؟ اگر مَیں سچ بولتا ہوں تو میرا یقین کیوں نہیں کرتے؟ جو خدا سے ہوتا ہے وہ خدا کی باتیں سُنتا ہے۔ تم اِس لئے نہیں سُنتے کہ خدا سے نہیں ہو۔‘‘ (یوحنا ۸:۴۶-۴۷) آپ نے دیکھا کہ یہودی جو مسیح کے دُشمن تھے وہ بھی اُس میں کوئی گناہ ثابت نہ کر سکے۔ وہ آخری وقت تک اُس میں کوئی قصور یا گناہ تلاش کرتے رہے مگر اُسے ہر لحاظ سے بے گناہ پایا، اور اِسی لئے وہ ہمارا نجات دہندہ ٹھہرا۔ لہذا ہم دعوے سے کہہ سکتے ہیں کہ مسیح یسوع کے سِوا کوئی نام نہیں جو ہمیں گناہ کی غلامی سے نجات دے سکے۔ بائبل مُقدس میں لکھا ہے، ’’اور کسی دوسرے کے وسیلہ سے نجات نہیں کیونکہ آسمان کے تلے آدمیوں کو کوئی دوسرا نام نہیں بخشا گیا جس کے وسیلہ سے ہم نجات پا سکیں۔‘‘ (اعمال ۴:۱۲) گناہ کی غلامی سے آزادی و نجات ہمیں صرف اُسی صورت میں مِل سکتی ہے جب ہم سچے دِل سے مسیح یسوع کو اپنا نجات دہندہ قبول کر کے اُس میں شامل ہونے کا بپتسمہ لیتے ہیں۔ اور پھر ذات پات، رنگ و نسل، امیری غریبی اور اسیری و غلامی کی ساری زنجیریں ٹوٹ جاتی ہیں اور مسیح میں سب ایک ہو جاتے ہیں۔ اِسی لئے پولس رسول کہتا ہے، ’’اور تم سب جتنوں نے مسیح میں شامل ہونے کا بپتسمہ لیا مسیح کو پہن لیا۔ نہ کوئی یہودی رہا نہ یونانی، نہ کوئی غلام نہ آزاد، نہ کوئی مَرد نہ عورت کیونکہ تم سب مسیح یسوع میں ایک ہو۔ اور اگر تم مسیح کے ہو تو ابرہام کی نسل اور وعدہ کے مطابق وارث ہو۔‘‘ (گلتیوں۳:۲۷-۲۹)

پولس رسول ایک اَور مقام پر کہتا ہے، ’’مسیح نے ہمیں آزاد رہنے کے لئے آزاد کِیا ہے۔ پس قائم رہو اور دوبارہ غلامی کے جُوئے میں نہ جُتو۔‘‘ (گلتیوں ۵:۱)

ہمیں چاہیے کہ جتنی جلدی ممکن ہو مسیح یسوع کے وسیلہ سے گناہ کی غلامی سے نجات پا کر ہمیشہ کی زندگی میں آئیں۔ صرف غیر مسیحی نہیں بلکہ مسیحی بھی جو مسیحیت میں تو ہیں مگر افسوس کہ مسیح میں نہیں۔ عبادتخانوں میں پلتے بڑھتے اور کلیسائی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ لمبی لمبی متاثر کن دُعائیں بھی کرتے ہیں مگر کبھی خدا کے پاک رُوح کو اپنے اندر کام کرنے کا موقع نہیں دیتے بلکہ نفرتوں، جھگڑوں اور تفرقوں میں ہی پھنسے رہتے ہیں، اور نہیں جانتے کہ ’’…گناہ کی مزدُوری موت ہے مگر خدا کی بخشش ہمارے خداوند مسیح یسوع میں ہمیشہ کی زندگی ہے۔‘‘ (رُومیوں ۶:۲۳)

آپ مسیحی ہیں یا غیر مسیحی آج آپ کے لئے گناہ کی غلامی یعنی موت کے بدن سے نکل کر ہمیشہ کی زندگی میں آنے کا ایک بیش قیمت موقع ہے۔ گھٹنوں کے بَل گر جائیے، سچے دِل سے اِقرار کیجئے اور پکارئیے، ’’ہائے، مَیں کیسا کمبخت آدمی ہوں! اِس موت کے بدن سے مجھے کون چھڑائے گا؟‘‘ (رُومیوں ۷:۲۴) خدا کا شکر ہو کہ وہی ہمارا چھڑانے والا، ہمارا نجات دہندہ، ہمارا مضبوط قلعہ اور ہمارا محافظ و نگہبان ہے۔

جی ہاں، خدا ہمارا محافظ و نگہبان ہے، خدا کی یہی وہ خصُوصیت ہے جس کا ہم اپنے اگلے پروگرام میں ذِکر کریں گے، ضرور سُنئیے گا۔